مجھے یقین دلا حالت گماں سے نکال
غم حیات کو بڑھتے ہوئے زیاں سے نکال
پھر اس کے بعد جہاں تو کہے گزاروں گا
بس ایک بار ذرا کرب جسم و جاں سے نکال
میں عین اپنے ہدف پر لگوں گا، شرط لگا
ذرا سا کھینچ مجھے اور پھر کماں سے نکال
میں اپنے جسم کے اندر نہ دفن ہو جاؤں
مجھے وجود کے گرتے ہوئے مکاں سے نکال
میں ایک شعلۂ بدمست ہی سہی لیکن
میں جل رہا ہوں مجھے میرے درمیاں سے نکال
اے ڈالیوں پہ نئے پھل اگانے والی دعا
مرے شجر کو بھی اس حالت خزاں سے نکال
بلا رہی ہے تجھے بھی ہوس کی شہزادی
تو اپنے آپ کو اس لمحۂ رواں سے نکال
جسے بہشت میں آدم نے چکھ لیا تھا اطیبؔ
میں کھا رہا ہوں وہی پھل، مجھے یہاں سے نکال
کلام: جیم جاذل