ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الاعراف آیت نمبر 172
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ ﴿۱۷۲﴾ۙ
ترجمہ: اور (اے رسول ! لوگوں کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب تمہارے پروردگار نے آدم کے بیٹوں کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا تھا، اور ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنایا تھا، (اور پوچھا تھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا تھا کہ : کیوں نہیں ؟ ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ (٨٨) (اور یہ اقرار ہم نے اس لیے لیا تھا) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ : ہم تو اس بات سے بیخبر تھے۔
تفسیر: 88: اس آیت کریمہ میں جس عہد لینے کا ذکر ہے، حدیث میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد ان کی پشت سے جتنے انسان پیدا ہونے والے تھے ان سب کو ایک جگہ اس طرح جمع فرمایا کہ وہ سب چیونٹیوں کے برابر جسم رکھتے تھے، پھر ان سے یہ عہد لیا کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں ؟ سب نے اقرار کیا کہ بیشک وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کرتے ہیں (روح المعانی بحوالہ نسائی وحاکم و بیہقی وغیرہ) جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو مان کر ان پر عمل کریں گے، اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی ان سے اپنی اطاعت کا اقرار لے لیا تھا، دنیا میں ایسے حضرات بھی ہوئے ہیں جن کو یہ واقعہ دنیا میں آنے کے بعد بھی یاد رہا ہے مثلاً حضرت ذوالنون مصری (رح) سے ان کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : یہ عہد مجھے ایسا یاد ہے گویا اس وقت سن رہا ہوں۔ (معارف القرآن ج : ٤، ص ١١٥) لیکن یہ درست ہے کہ چند مستثنیات کو چھوڑ کر باقی انسان اس واقعے کو ایک عہد کی شکل میں تو بھول چکے ہیں مگر کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ یاد نہ رہنے کے باوجود اپنا طبعی اثر چھوڑ جاتے ہیں، یہ اثر آج بھی دنیا کے اکثر وبیشتر انسانوں میں موجود ہے کہ وہ اس کائنات کے ایک پیدا کرنے والے پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی عظمت وکبریائی کے گن گاتے ہیں، جو لوگ مادی خواہشات کے گرداب میں پھنس کر اپنی فطرت خراب کرچکے ہوں ان کی بات تو اور ہے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت ہر انسان کی فطرت میں سمائی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کبھی فطرت سے دور کرنے والے بیرونی عوامل دور ہوتے ہیں تو انسان حق کی طرف اس طرح دوڑتا ہے جیسے اس کو اپنی کھوئی ہوئی پونجی اچانک مل گئی ہو۔