فرقہ معتزلہ کی تاریخ اور ان کا شرعی حکم


 معتزلہ ایک عقلیت پسند فرقہ جس کا بانی ایک ایرانی نژاد واصل بن عطا الغزال شاگرد خواجہ حسن بصری تھا، اس کے نزدیک قرآن مخلوق ہے، توحید عقلاً معلوم ہو سکتی ہے، گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے وغیرہ وغیرہ، مامون الرشید کے عہد میں یہ سرکاری مذہب بن گیا تھا۔ امت مسلمہ میں پانچ بڑے فرقے ہوئے ہیں ان میں سے ایک معتزلہ بھی ہے، سنی، خوارج، شیعہ، معتزلہ اور باطنیہ۔


دوسری صدی ہجری کے اوائل میں یہ فرقہ وجود میں آیا اور اس کا سب سے پہلا پیروکار عمرو بن عبید تھا جو حسن بصری کا شاگرد تھا، ان لوگوں کو اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے الگ ہوجانے کی بنا پر معتزلہ کہا جاتا ہے۔ معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے، عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں، بندوں کے افعال کے اچھے اور برے ہونے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے افعال پر اچھے اور برے کا حکم لگاتے ہیں، خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں کرپاتے،

فرقہ معتزلہ کی ابتداء کے بارے میں متفرق آراء تاریخ سے ہمیں حاصل ہوتی ہیں۔ جن میں سے کچھ نمائندہ آراء درج ذیل ہیں۔ 

۔ 1۔ اس رائے کے مطابق جب حضرت حسن رض نے جب خلافت سے دستبرداری قبول کرلی تو لوگوں میں سے ایک جماعت نے خود کو حضرت حسن اور حضرت امیر معاویہ دونوں سے الگ کرکے عبادت و حصول علم میں مشغول کرلیا۔ یہی سیاسی اعتزال یعنی چھوڑ دینا ان کیلئے معتزلہ کے لقب میں ڈھل گیا۔ اس کا ظہور حسن بصری کے مدرسے میں ہوا تھا اور انہوں نے اس دور میں ہونے والی جنگوں سے خود کو الگ تھلگ رکھا۔
 ۔ 2۔ اس رائے کے مطابق اعتزال کی ابتداء حضرت علی رض کے غیر فاطمی بیٹے محمد بن حنفیہ کی اولاد ابو ہاشم عبداللہ اور حسن سے ہوئی۔ حسن کی خوارج سے ایمان کے مسئلے پر مباحث ہوئے۔ ان کی جماعت مرجئہ بھی کہلائی۔
 ۔ 3۔ اس رائے کے مطابق حضرت حسن بصری رح کے علمی حلقے میں شامل واصل بن عطاء دراصل فرقہ معتزلہ کا بانی ہے۔ دراصل کسی نے حضرت حسن بصری رح سے سوال پوچھا کہ ایک گروہ کہتا ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ آپ کے نزدیک ان میں سے کون درست ہے؟ حضرت حسن بصری رح کے جواب دینے سے قبل ہی واصل بن عطاء بول پڑے کہ میری رائے میں نہ ایسا شخص کافر ہے اور نہ ہی مومن بلکہ اسکے بین بین ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ واصل بن عطاء نے اس کی پرزور تلقین بھی دیگر حاضرین میں شروع کردی۔ اس پر حسن بصری رح نے کہا کہ ھذا الرجل اعتزال عنا یعنی یہ شخص اعتزال کر گیا (ہم سے الگ ہوگیا)۔ یہی لفظ اعتزال پھر واصل کے فکری گروہ کی شناخت بن گیا۔
 ۔ 4۔ اس رائے کے نزدیک معتزلہ کا یہ نام بابینا جلیل القدر تابعی قتادہ بن دعامہ سروسی نے دیا۔ عمرو بن عبید اور ان کے ساتھی حضرت حسن بصری رح سے اختلاف کے بعد اپنا الگ حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ جہاں یہ نابینا تابعی اسے حسن بصری رح کا حلقہ سمجھ کر بیٹھ گئے۔ جلد ہی ان پر حقیقت واضح ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا یہ تو معتزلہ ہیں۔ بس یہاں سے اس گروہ کو معتزلہ پکارا جانے لگا۔ 
۔ 5۔ اس رائے کے مطابق ان لوگوں کو معتزلہ پکارنے کا سبب ان کا خود کو اجماع امت سے الگ کرنا ہے۔ گو معتزلہ اس الزام کو سختی سے رد کرتے ہیں۔
 ۔ 6۔ اس رائے کے مطابق یہ اسلئے معتزلہ کہلائے کیونکہ ان کے ابتدائی اکابر جیسے واصل بن عطاء، عمرو بن عبید، جعفر بن مبشر یا جعفر بن حرب وغیرہ دنیا سے الگ تھلگ زہد و قناعت کی زندگی گزارتے تھے۔
۔ 7۔ اس رائے کے مطابق یہودیوں میں ایک گروہ فروشیم تھا جس کے معنی معتزلہ کے ہیں۔ ان کے عقائد اسلامی فرقہ معتزلہ سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہود میں سے جو لوگ ایمان لائے، انہوں نے عقائد میں مماثلت کے سبب معتزلہ کو یہ نام دیا۔
 ۔ 8۔ اس رائے کے مطابق معتزلہ کا نام مخالفین کا دیا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ اس لقب کو انہوں نے خود اختیار کیا۔ یہ کہہ کر کہ ہم نے خود کو بدعات سے الگ کیا ہے۔ گویا بدعات سے اعتزال ہی معتزلہ کی وجہ تسمیہ ہے۔ 73 فرقوں میں اعتزال کرنے والا جو ایک گروہ جنتی ہوگا ، معتزلہ اس لقب کے ذریعے اپنی نسبت اس کی جانب کرتے ہیں۔ گو کہ تاریخی طور پر یہ بھی ثابت ہے کہ معتزلہ اپنے لئے "اہل العدل والتوحید" کا نام پسند کرتے تھے۔ اہل سنت کے کئی مورخین نے ان کا زکر اسی نام سے کیا ہے۔ معتزلہ نے اپنی تصانیف میں خود کو معتزلہ بھی کہا، اہل حق بھی، فرقہ ناجیہ بھی اور اہل العدل التوحید بھی۔ 
۔ 9۔ اس رائے کے مطابق معتزلہ کا آغاز واصل بن عطاء سے بہت پہلے ہوچکا تھا اور خود حسن بصری رح بھی اسی کا حصہ تھے۔ کچھ کے مطابق یہ شیعان علی رض ہی تھے، کچھ کے مطابق یہ فرقہ قدریہ کی ہی ایک بگڑی صورت تھے۔ کچھ خوارج کچھ جہمیہ کچھ ثنویہ سے ان کا تعلق جوڑتے ہیں۔ 
گو ان میں سے ہر ایک کی پیش کردہ دلیل ناقص معلوم ہوتی ہے۔ ۔ جو بات مجھے قرین قیاس لگی وہ پہلی اور تیسری رائے کو بیک وقت اپنانے سے حاصل ہوتی ہے۔ گویا ایک سیاسی اعتزال تھا جو آگے بڑھ کر فکری اعتزال میں ڈھلتا چلا گیا۔ ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ --

==================
معتزلہ کا جہنمی ہونا اور مخلد فی النار ہونے کا حکم
==================


سوال:کیا معتزلہ کا جہنمی ہونا اور مخلد فی النار ہونا ثابت ہے ؟ وضاحت فرمادیں۔

جواب:  معتزلہ ایک گمراہ فرقہ ہے اس کا وجود حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے زمانے میں ہوا، ”معتزلہ“ ؛ اعتزال سے اسم فاعل ہے، اعتزال کے معنی ہیں الگ ہونا ، اہل سنت والجماعت کے عقائد سے الگ ہو جانے کی بنا پر یہ فرقہ ”معتزلہ“ کہلایا،اس کا بانی واصل بن عطاء ہے، معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے وہ خود کو اصحاب العدل والتوحید کہتے ہیں اور نقل پر عقل کو ترجیح دیتے ہیں ، عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کرتے ہیں۔

معتزلہ کے بارے میں اکابر میں سے کسی نے تکفیر کا قول  نقل نہیں کیا ہے، لہذا ان کا  مخلد فی النار  ہونا  ثابت نہیں  ،کیوں کہ مخلد فی النار وہی ہوں گے جو دنیا سے کفر کے حالت میں گئے ہوں ، البتہ معتزلہ میں جو عالم کے قدیم ہونے کا یا اس کے علاوہ کوئی ایسا عقیدہ رکھتا ہو جس سے کفر لازم آتا ہو تو پھر وہ کافر ہوکر مخلد فی النار ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما المعتزلة فمقتضى الوجه حل مناكحتهم؛ لأن الحق عدم تكفير أهل القبلة، وإن وقع إلزاما في المباحث، بخلاف من خالف القواطع المعلومة بالضرورة من الدين مثل القائل بقدم العالم ونفي العلم بالجزئيات على ما صرح به المحققون وأقول: وكذا القول بالإيجاب بالذات ونفي الاختيار. اهـ. وقوله: وإن وقع إلزاما في المباحث معناه، وإن وقع التصريح بكفر المعتزلة ونحوهم عند البحث معهم في رد مذهبهم بأنه كفر أي يلزم من قولهم بكذا الكفر، ولا يقتضي ذلك كفرهم؛ لأن لازم المذهب ليس بمذهبهم وأيضا فإنهم ما قالوا ذلك إلا لشبهة دليل شرعي على زعمهم، وإن أخطئوا فيه."

(‌‌‌‌كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:1، ص: 45، ط: سعید)

احكام الاحكام شرح عمدة الاحكام میں ہے:

"وقد اختلف الناس في التكفير وسببه، حتى صنف فيه مفردا، والذي يرجع إليه النظر في هذا: أن مآل المذهب: هل هو مذهب أو لا؟ فمن أكفر المبتدعة قال: إن مآل المذهب مذهب فيقول: المجسمة كفار؛ لأنهم عبدوا جسما، وهو غير الله تعالى، فهم عابدون لغير الله، ومن عبد غير الله كفر، ‌ويقول: ‌المعتزلة ‌كفار؛ لأنهم - وإن اعترفوا بأحكام الصفات - فقد أنكروا الصفات ويلزم من إنكار الصفات إنكار أحكامها، ومن أنكر أحكامها فهو كافر. وكذلك المعتزلة تنسب الكفر إلى غيرها بطريق المآل."

(كتاب اللعان، من وصف غيره بالكفر، ج:2، ص:210، ط: مطبعة السنة المحمدية)

شرح العقائد النسفیہ میں ہے:

"ومعظم خلافیاتہ مع الفرق الإسلامیة خصوصاً المعتزلة لأنہم أول فرقة أسّسوا قواعد الخلاف لما ورد بہ ظاہر السنة وجری علیہ جماعة الصحابة رضوان اللہ علیہم أجمعین في باب العقائد وذلک لأن رئیسہم واصل بن عطاء اعتزل عن مجلس الحسن البصری رحمہ اللہ ویقرر ان من ارتکب الکبیرة لیس بموٴمن ولا کافر ویثبت المنزلة بین المنزلتین فقال الحسن قد اعتزل عنّا فسُمّوا المعتزلة وہم سمّوا أنفسہم أصحاب العدل والتوحید......الخ."

(ص:19،20، ط: بشری)

فقط وللہ اعلم

فتوی نمبر : 144411102364
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی