ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الانفال آیت نمبر 41
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا یَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۴۱﴾
ترجمہ: اور (مسلمانو) یہ بات اپنے علم میں لے آؤ کہ تم جو کچھ مال غنیمت حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول اور ان کے قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے (٢٦) (جس کی ادائیگی تم پر واجب ہے) اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن نازل کی تھی (٢٧) جس دن دو جماعتیں باہم ٹکرائی تھیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
تفسیر: 26:: دشمن کا جو مال جہاد کے دوران مجاہدین کے ہاتھ آیا ہو وہ مال غنیمت کہلاتا ہے، اس آیت میں اس کی تقسیم کا اصول بیان فرمایا گیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جتنا مال اس طرح حاصل ہو اس کے پانچ حصے کئے جائیں گے، ان میں سے چار حصے تو مجاہدین کے درمیان تقسیم ہوں گے اور پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کیا جائے گا، پھر بیت المال کے اس پانچویں حصہ (خمس) کو کس طرح خرچ کیا جائے گا ؟ اس کی تفصیل کرتے ہوئے اس آیت نے اول تو یہ بتلایا ہے کہ یہ مال اصل میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اسی کے حکم کے تحت تقسیم ہوگا، اس کے بعد اس کے پانچ مصارف بیان فرمائے گئے ہیں، ایک حصہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے دوسرا حصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریبی رشتہ داروں کا ہے کیونکہ انہوں نے آپ کی اور اسلام کی نصرت میں بڑی قربانیاں دی تھیں اور ان کے لئے زکوٰۃ کا مال بھی حرام قرار دیا گیا تھا، اور باقی تین حصے یتیموں مسکینوں اور مسافروں میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو حصہ تھا وہ جمہور فقہاء کے نزدیک آپ کی وفات کے بعد ختم ہوگیا، آپ کے رشتہ داروں کے حصے کے بارے میں فقہاء کے نزدیک کچھ اختلاف ہے، امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ حصہ اب بھی باقی ہے، اور بنو ہاشم اور بنو المطلب کو بطور استحقاق دینا ضروری ہے، چاہے وہ حاجت مند ہوں یا مال دار ؛ لیکن دوسرے تمام فقہاء اہل سنت یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ حاجت مند ہوں تب تو انہیں دوسرے حاجت مندوں پر ترجیح دے کر اس خمس میں سے دیا جائے اور اگر وہ حاجت مند نہ ہوں تو ان کا کوئی مستقل حصہ نہیں ہوگا، حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ حضرت علی (رض) کو خمس میں سے حصہ دیا تو حضرت علی (رض) نے یہ فرما کرلینے سے انکار کردیا کہ اس سال ہمارے خاندان کو ضرورت نہیں ہے۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر : ٢٩٨٤) چنانچہ حضرت علی (رض) سمیت چاروں خلفاء راشدین کا عمل یہی رہا کہ بنو ہاشم اور بنو المطلب کے حضرات اگر حاجت مند ہوتے تو ان کو خمس میں سے حصہ دینے میں دوسروں پر مقدم رکھتے تھے اور اگر حاجت مند نہ ہوتے تو نہیں دیتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر فقہاء اور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں جو پانچ مصارف بیان کئے گئے ہیں، ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سب کو ضرور دیا جائے اور سب کو برابر دیا جائے ؛ بلکہ مصرف زکوٰۃ کے آٹھ مصارف کی طرح ہے ( جن کا ذکر سورة توبہ : ٩۔ ٦٠ میں آنے والا ہے) کہ امام یعنی سربراہ حکومت کو اختیار ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق ان مصارف میں سے جس مصرف میں جتنا مناسب سمجھے تقسیم کرے، اس مسئلے کی مکمل تحقیق بندہ نے اپنی صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم (ج : ٣ ص ٢٥٤ تا ٢٥٨) میں بیان کی ہے۔ 27: اس سے مراد جنگ بدر کا دن ہے اس کو آیت میں یوم الفرقان فرمایا گیا ہے یعنی وہ دن جس میں حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہوگیا کہ تین سوتیرہ بےسروسامان لوگ ایک ہزار مسلح فوج پر معجزانہ طور سے غالب آگئے۔ اور جو چیز اس دن نازل کی تھی اس سے مراد فرشتوں کی مدد اور قرآن کریم کی وہ آیات ہیں جو اس دن مسلمانوں کی تسلی کے لئے نازل کی گئیں۔