طریقۂ تدریس کے چند اہم اصول


 کسی بھی چیز کو مؤثر بنانے کے لیے کچھ اہم اصول اور بنیادی ضوابط  ہوتے ہیں، خامیوں کے تواجد سے نتائج کو ممکنہ کامیابی سے ہم کنار کرنا چنے چبانے کے مترادف ہے۔


قرآن مجید اور احادیث کے متعدد نصوص میں  علّم، یعلّمھم، معلّم کا مادہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تدریس سے زیادہ جذاب عمل تعلیم ہے، تدریس پڑھانے کو جب کہ تعلیم سمجھانے کو کہتےہیں، پڑھائی  ہرکوئی کرسکتا ہے البتہ سمجھانے کا گُر ہر کسی کی صلاحیت کا حصہ نہیں ہوتا ہے۔

محدث بنوری رح مدرسین حضرات کے طریقۂ تدریس کے حوالے سے فرماتے ہیں:

1: فصاحت و بلاغت بھاری بھرکم اصطلاحات استعمال کرنے کا نام نہیں بلکہ کتاب کے مشکلات کو سادے الفاظ میں اختصار کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کا نام ہے۔
2: تعبیر (اظہار مافی الضمیر) کے لیے دل نشین اور واضح اسلوب اختیار کرنا چاہیے۔
3:کتاب کے حل کرنے میں غفلت سے کام لینے کی صورت میں اپنی اور طالب علم کی زندگی پیش آمدہ تحدیات کو سونپنا ہے۔
4:حلِ کتاب کے بعد مہماتِ فن پر طلبہ کرام کو متوجہ کئے جائیں اور اپنے لیے مقارن مطالعہ کی گنجائش رہنے دیں، زیادہ کتابوں کی تدریس میں سطحیت نمایاں ہوتی ہے اجتناب کرنا چاہیے۔
5:جس مشکل کی شرح کس نے عمدہ کی ہو تو اس کا حوالہ دیا جائے تاکہ مستعد اور ذہین طلبہ اپنی معلومات کو آگے بڑھا سکیں۔ مآخذ میں بخل کرنا مذموم عمل ہے۔
6: کتاب کے اول سے آخر تک تعلیم میں تطابق (یکسانیت) ہونی چاہیے۔
7: فن کو صاحب فن کے حوالہ کرنا انسب ہے۔
8: ابتدائی دو سال کی تعلیم کے نتائج امتحانات میں نہایت سختی کی جائے ناکام کسی بھی صورت میں مراعات کا  مستحق نہیں ہوسکتا۔
9: ابتدائی تعلیم اچھے اور تجربہ کار کے حوالہ کرنا چاہیے، ورنہ خفتہ را خفتہ کے کند بیدار کا مصداق بن جائے گا۔
10: کلاس میں بنا تعین پوچھ گچھ  صفِ اخیر تک کرنا چاہیے ورنہ تدریس سے تقریر کی طرف غیر شعوری سفر جاری رہے گا، سوال کرنے کی صورت میں تکرار اور مطالعہ کا بوجھ مسوؤلین پرنہ ہونے کے برابر ہوگا۔
11:طالب علم کا علمی مستوی ٹٹولنے میں ہرگز غفلت نہ برتی جائے، بلکہ درس گاہ سے لیکر امتحانات تک وقتاً فوقتاً تفقد ہر چھوٹے بڑے کی زمہ داری بنتی ہے۔
12: اساتذہ کو فن کی اعلیٰ کتابوں کی طرف مراجعت کرنی چاہیے تاکہ طلبہ کو عمدہ اور مستند معلومات فراہم کرسکیں۔
13: اسباق کی تدریب ترک کرنے سے علم کی پختگی مانند پڑ جاتی ہے مشق کرنی چاہیے۔
14: اسباق کے دوران قصہ گوئیاں اور افسانہ نما گفتگو  مقاصد میں خلل واقع کرتی ہے ، ان سے گریز کرنا چاہیے۔
15:علمی دعوؤں سے مکابرہ کی بد بو آتی ہے، عاجزی و انکساری مطلوب ہے۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی