ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الانفال آیت نمبر 1
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ۪ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر) لوگ تم سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ مال غنیمت (کے بارے میں فیصلے) کا اختیار اللہ اور رسول کو حاصل ہے۔ لہذا تم اللہ سے ڈرو، اور آپس کے تعلقات درست کرلو، (١) اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم واقعی مومن ہو۔
تفسیر: 1: جنگ بدر کے موقع پر جب دشمن کو شکست ہوگئی تو صحابہ کرام تین حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے، ایک حصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کے لئے آپ کے ساتھ رہا، دوسرا حصہ دشمن کے تعاقب میں روانہ ہوگیا، اور تیسرا حصہ دشمن کے چھوڑے ہوئے مال غنیمت کو جمع کرنے میں مشغول ہوگیا، یہ چونکہ پہلی جنگ تھی اور مال غنیمت کے بارے میں مفصل ہدایات نہیں آئی تھیں، اس لئے اس تیسرے حصے نے یہ سمجھا کہ جو مال انہوں نے اکھٹا کیا ہے وہ انہی کا ہے (اور شاید زمانہ جاہلیت میں معمول ایسا ہی رہا ہوگا) لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد پہلے دوگروہوں کو یہ خیال ہوا کہ وہ بھی جنگ میں برابر کے شریک تھے ؛ بلکہ مال غنیمت اکھٹا ہونے کے وقت زیادہ اہم خدمات انجام دے رہے تھے، اس لئے ان کو بھی اس مال میں حصہ دار ہونا چاہیے، یہ ایک فطری تقاضا تھا جس کی بنا پر ان حضرات کے درمیان بحث کی بھی نوبت آئی، جب معاملہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا تو یہ آیات نازل ہوئیں جن میں بتادیا گیا کہ مال غنیمت کے بارے میں فیصلے کا مکمل اختیار اللہ اور اس کے رسول کو ہے، چنانچہ بعد میں اسی سورت کی آیت نمبر : ٤١ میں مال غنیمت کے بارے میں مفصل احکام آگئے، زیر نظر آیت نے ہدایت دی کہ اگر مسلمانوں کے درمیان کوئی رنجش ہوئی ہے تو اس وضاحت کے بعد اسے دور کرکے باہمی تعلقات درست کرلینے چاہئیں۔