🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چونتیس⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چونتیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل آفندی !،،،،،ایک روز نظام الملک نے اسے کہا۔۔۔ جو ہو گیا سو ہو گیا اب مجھے یہ بتاؤ کہ وہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا، یہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ باطنی کس طرح تم جیسے جذبے والے آدمی پر بھی غالب آجاتے ہیں اور اسے اپنا آلہ کار بنا لیتے ہیں۔
میں بتا سکتا ہوں ۔۔۔مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ مجھے وہاں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ یاد آگیا ہے، میں خود چاہتا ہوں کے آپ کو وہ ساری روداد سناؤں، آپ کسی اور خیال سے مجھ سے وہ باتیں سننا چاہتے ہیں، لیکن میں اس خیال سے آپ کو سنانا چاہتا ہوں کہ آپ کو پتہ چلے کہ میں کتنا مجبور ہوگیا تھا ،میرا دماغ میرے قابو سے نکل گیا تھا ۔
وہ بھول جاؤ ۔۔۔نظام الملک نے کہا۔۔۔ تم نے کوئی گناہ نہیں کیا، مجھے بتاؤ کہ تمہارے ذہن پر قبضہ کس طرح کیا گیا تھا۔
 انہوں نے مجھے کال کوٹھری میں بند کر دیا۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔اس کوٹھری میں ایسی بدبو تھی جیسے وہاں مردار یا انسانی لاشیں گل سڑ رہی ہوں ،مجھے تین دن نہ کچھ کھانے کے لیے دیا گیا اور نہ پینے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ دیا گیا، ایک طرف میرا خون کھولتا تھا ابلتا تھا کہ میں دھوکے میں آگیا ہوں، اگر میں حسن بن صباح کو قتل کر چکا ہوتا تو پھر وہ مجھے کیسی ہی اذیتیں کیوں نہ دیتے میں برداشت کر لیتا اور اس موت کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیتا جو آہستہ آہستہ اور مجھے اذیتیں دے دے کر مارتی، دوسری طرف جسم جواب دے رہا تھا، میں سات آٹھ دن بھوکا رہ سکتا تھا لیکن پانی کے بغیر ایک دن بھی گزرنا محال تھا،،،،،، 
اس کمرے میں جو بدبو تھی وہ میں بیان ہی نہیں کر سکتا کہ یہ کیسی تھی، اس بدبو نے میرا دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا ،پھر میں خود اپنا خون پی رہا تھا کیونکہ میں جس مقصد کے لئے آیا تھا وہ پورا نہیں ہوا تھا ،ایک طرف بھوک اور پیاس اور دوسری طرف یہ جلنا اور کڑھنا، تیسرے چوتھے دن مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میں بہت جلدی پاگل ہو جاؤں گا، بلکہ پاگل پن شروع ہو چکا تھا، پھر ایک روز مجھے آدھی روٹی اس طرح دی گئی کہ دروازہ کھلا اور وہیں سے ایک آدمی نے میری طرف آدھی روٹی اس طرح پھینکی جیسے کتے کی طرف کوئی چیز پھینکی جاتی ہے، اس نے مٹی کا ایک غلیظ پیالہ دروازے کے قریب رکھ دیا اور چلا گیا ،میں اپنی خودداری اور اپنے وقار کو بھول گیا تھا ،میں کتوں کی طرح ہی روٹی کے ٹکڑے پر جھپٹ پڑا اور گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل اس چھوٹے سے پیالے تک گیا جو وہ آدمی دروازے کے اندر رکھ گیا تھا ،وہ تھوڑا سا سالن تھا میں نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ یہ کس چیز کا شوربہ تھا یا گدلا نمکین پانی تھا، میں لقمے اس میں ڈبو ڈبو کر حلق میں اتارتا گیا ،یہ روٹی ذرا سی دیر میں ختم ہوگئی اور اس سے میری بھوک اور تیز ہو گئی میں اٹھا اور دروازے کی سلاخیں پکڑ کر چلانے لگا کے مجھے اور روٹی دو، خدا کے لئے مجھے اور روٹی دو،،،،،،،،،، 
ایک سنتری آیا میں دروازے کی سلاخیں پکڑے کھڑا تھا، اس نے سلاخوں کے درمیان سے میرے منہ پر اتنی زور سے گھونسا مارا کے میں پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگا ،سر کا پچھلا حصہ دیوار سے بڑی زور سے ٹکرایا تھا جس سے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، معلوم نہیں میں کتنی دیر غشی میں پڑا رہا،،،،،،،، 
جب میں ہوش میں آیا تو میں کوٹھری میں نہیں تھا ،وہ ذرا بہتر اور صاف ستھرا کمرہ تھا، میں فرش پر لیٹا ہوا تھا، ایک آدمی ہاتھ میں برچھی لئے میرے پاس کھڑا تھا، اس نے جب دیکھا کہ میری آنکھیں کھل گئیں ہیں تو اس آدمی نے میرے پہلو میں پاؤں سے ٹھوکر لگا کر کہا ہوش آ گیا ہے، میں تو بول بھی نہیں سکتا تھا میں اٹھ کر بیٹھ گیا، وہ آدمی باہر نکل گیا پھر وہ فوراً ہی واپس آگیا ،اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جس کی چال ڈھال ڈیل ڈول اور لباس ایسا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ یہ شخص کوئی بڑا عہدہ دار ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل آفندی نے آگے اپنی جو داستان سنائی وہ کچھ اس طرح تھی۔
 یہ معزز آدمی اس کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
مزمل آفندی!،،،، اس آدمی نے کہا۔۔۔تم یہاں کیوں آئے تھے ؟
پانی!،،،،، مزمل کے منہ سے جیسے سسکی نکلی ہو،،، پانی ،،،پانی،،،!
 تم یہاں کیوں آئے تھے ؟،،،،،اس عہدے دار نے کہا۔۔۔ میرے سوال کا جواب دو گے تو پانی مل جائے گا،،،،، تم یہاں کیوں آئے تھے؟ 
 قتل ہونے کے لئے ۔۔۔مزمل نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ اپنے منہ سے باہر دھکیلے۔
یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔۔۔ عہدے دار نے کہا۔
مزمل آفندی کا منہ پیاس کی شدت سے کھل گیا تھا، وہ تو اب سرگوشی بھی نہیں کر سکتا تھا، اس نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بولنے کے قابل نہیں، اس کے ہونٹ ہلے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے دو مرتبہ پانی پانی کہا ہے ۔
نہیں !،،،،،،عہدے دار نے کہا۔۔۔پانی نہیں ملے گا ۔
مزمل کی آنکھیں بند ہونے لگی اور وہ ایک طرف لڑھک گیا، پیاس کی شدت نے اس پر غشی طاری کر دی تھی۔
مزمل آفندی ہوش میں آیا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اب وہ فرش پر نہیں، ایک نرم سے بستر پر پڑا ہے، اس کے پاس ایک نوخیز دوشیزہ بیٹھی ہوئی تھی، مزمل نے آنکھیں کھولیں تو اسے سب سے پہلے جو چیز نظر آئی وہ اس لڑکی کی دلفریب مسکراہٹ تھی۔ مزمل نے نظام الملک کو سنایا کہ وہ اسے خواب سمجھا ۔
اٹھو مزمل !،،،،،لڑکی نے بڑے پیار سے کہا۔۔۔ کھانا کھا لو۔
پانی!،،،، مزمل کے ہونٹوں سے سرگوشی پھسلی،،،، پانی،،،، مزمل کا منہ کھلا رہا اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے، اور اس کی زبان بگڑ گئی تھی ۔
خالی پیٹ پانی نہیں دونگی۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ پہلے کھانا کھا لو، تھوڑا سا کھا لو،،،،،پھر پانی پینا۔
مزمل اتنا کمزور ہوچکا تھا کہ اس لڑکی نے اسے سہارا دے کر اٹھایا ،مزمل نے دیکھا کہ یہ نہایت اچھا سجا سجایا کمرہ تھا ،کمرے کے وسط میں ایک گول میز رکھی ہوئی تھی اور اس میز پر کھانا پڑا ہوا تھا ،تب مزمل کو پکے ہوئے گوشت اور روٹیوں کی بو محسوس ہوئی، وہ فوراً اٹھا اور میز کے قریب پڑے ہوئے اسٹول پر بیٹھ گیا۔
وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سالن ایک قسم کا نہیں بلکہ تین چار قسم کے سالن تھے، یہ کسی شہزادے یا بہت بڑے حاکم کا کھانا تھا، مزمل آفندی ذرا جھینپ گیا، اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کھانا اس کے لیے رکھا گیا ہے، لیکن وہ اس قدر بھوکا تھا کہ اس نے نتائج سےبےپرواہ کھانا شروع کر دیا ،وہ شائستہ اور معزز خاندان کا تہذیب یافتہ بیٹا تھا، لیکن بھوک اور پیاس نے اس کا دماغ ایسا ناکارہ کر دیا تھا کہ وہ جانوروں کی طرح کھانا کھا رہا تھا ،اسے یہ بھی خیال نہیں رہا تھا کہ سالن میز پر گر رہا ہے، وہ دسترخوان کے آداب بھول چکا تھا ۔
بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے پیچھے چند ایک نوالہ حلق سے اتار کر وہ صراحی پر لپکا جو میز پر پڑی ہوئی تھی، لڑکی بڑی تیزی سے آئی اور اس نے مزمل کے ہاتھ سے صراحی لے لی۔
پانی میں پلاؤں گی۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ بہت تھوڑا تھوڑا ایک ایک گھونٹ پلاؤں گی،،،،، ایک ہی بار پانی نہیں پینا۔
لڑکی نے ایک خوشنما پیالے میں تھوڑا سا پانی ڈال کر مزمل کو دیا ،مزمل ایک ہی بار یہ پانی پی گیا، اور پھر کھانے پر ٹوٹ پڑا ،تھوڑا سا کھانا کھا کر وہ پھر صراحی پر جھپٹا لیکن لڑکی نے پہلے کی طرح اس کے ہاتھ سے صراحی لے لی اور اب ذرا زیادہ پانی پیالے میں ڈال دیا، مزمل نے وہ پانی بھی ایک ہی سانس میں پی ڈالا۔
دیکھتے ہی دیکھتے مزمل تمام روٹیاں اور اتنے زیادہ سالن صاف کر گیا ،یوں پتہ چلتا تھا جیسے سالن والے برتن دھلے ہوئے ہیں مزمل نے صاف کر دیا تھا، اب کے اس نے لڑکی سے پانی مانگا ۔
اب پانی نہیں۔۔۔ لڑکی نے بڑی دلفریب مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ اب شربت پلاؤں گی۔
لڑکی نے ایک اور صراحی اٹھائی اور اس میں سے شربت گلاس میں انڈیل دیا ،جو مزمل نے اٹھا کر ایک ہی بار خالی کردیا۔
مزمل آفندی لڑکی سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اسے اتنی غلیظ کوٹھری سے نکال کر یہاں کیوں لایا گیا ہے اور ایسا امیرانہ کھانا اسے کیوں دیا گیا ہے لیکن وہ کچھ بھی نہ پوچھ سکا کیوں کہ اس پر غنودگی طاری ہو گئی تھی اور وہ بستر کی طرف دیکھنے لگا تھا، لڑکی نے اسے کہا کہ وہ سو جائے، وہ اٹھ کر بستر پر بیٹھا تو حیرت زدہ نظروں سے لڑکی کو دیکھنے لگا ،اس کی آنکھوں میں ایک سوال تھا لیکن یہ سوال زبان پر آنے سے پہلے اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اور لڑکی نے اسے سہارا دے کر پلنگ پر لٹا دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح جب مزمل اس کمرے سے نکلا تو اس نے یوں محسوس کیا جیسے یہ دنیا بالکل ہی بدل گئی ہو، اس کے سامنے ایک وسیع باغ تھا جس میں ایسے ایسے پھول تھے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، گھاس بہت ہی سر سبز تھی، اور یہ گھاس اوپر سے اس طرح تراشی ہوئی تھیں جیسے زمین پر سبز رنگ کا قالین بچھا ہوا ہو، مزمل آگے بڑھا تو کمرے سے لڑکی نکل آئی، وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑی۔
کیا تم مجھے کچھ بتا سکتی ہو ؟،،،،مزمل نے لڑکی سے پوچھا۔۔۔ مجھے اس غلیظ کوٹھری میں سے نکال کر اس امیرانہ کمرے میں کیوں لایا گیا ہے، اور ایسا مرغن اور پرلطف اور لذیذ کھانا کیوں دیا گیا ہے؟ 
تمہیں امام کے حکم سے قید خانے سے نکالا گیا۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔۔۔اور یہ کھانا اسی کے حکم سے تمہیں کھلایا گیا ہے ،اور مجھے امام نے ہی تمہاری خدمت کے لیے بھیجا ہے ۔
کون امام؟،،،،، مزمل نے حیرت سا ہو کے پوچھا۔
امام حسن بن صباح!،،،، لڑکی نے جواب دیا۔ مزمل چلتے چلتے رک گیا اور اس نے حیرت زدگی کے عالم میں لڑکی کو دیکھا، لڑکی مسکرا رہی تھی ۔
کیا میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ؟،،،،،مزمل نے کہا۔۔۔ جیسے اپنے آپ سے بات کر رہا ہوں۔
میں سمجھتی ہوں تم کیا سوچ رہے ہو۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ امام کو کل بتایا گیا ہے کہ تم اسے قتل کرنے کے لیے آئے تھے، اسے یہ بھی بتایا گیا کہ تمہیں قید خانے کی انتہائی غلیظ کوٹھری میں بند کر دیا گیا ہے، امام نے تمہیں قید خانے میں ڈالنے والوں کو بلایا اور حکم دیا کہ انہیں بیس بیس کوڑے لگائے جائیں، کیونکہ انہوں نے اس کے حکم کے بغیر ایک مہمان کو قید خانے میں ڈال دیا تھا، اس طرح تمہاری رہائی کا حکم دیا گیا اور تم یہاں پہنچ گئے،،،،، کیا تم واقعی حسن بن صباح کو قتل کرنے آئے تھے۔
ہاں !،،،،،مزمل نے یوں کہا جیسے اسے شرمندگی تھی کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے آیا ہے۔
 امام کسی وقت یہاں آئے گا۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ یا وہ تمہیں اپنے پاس بلائے گا۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ یہاں نہ آئے؟۔۔۔ مزمل نے پوچھا ۔۔۔اور کیا یہ ممکن ہے کہ وہ مجھے اپنے پاس نہ بلائے؟ 
تم یہ کیوں سوچ رہے ہو؟ 
میں نے اگر اسے کہہ دیا کہ میں اسے قتل کرنے آیا تھا تو وہ پھر مجھے اپنے قید خانے میں پھینک دے گا ۔۔۔مزمل نے کہا۔۔۔ میں اس کے آگے جھوٹ نہیں بول سکوں گا۔
تم نہیں جانتے مزمل!،،،،، لڑکی نے کہا۔۔۔ امام حسن بن صباح اللہ کا ایک برگزیدہ بندہ اور بڑی پیاری شخصیت ہیں، وہ صرف سچ سنتا ہے اور سچ بولتا ہے،،،،،،، تم صاف کہہ دینا کہ میں آپ کے دشمنوں سے متاثر ہوکر آپ کو قتل کرنے چلا آیا تھا۔
لڑکی مزمل کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے حسن بن صباح کی ایسی تصویر پیش کرتی رہی جو کسی فرشتے کی یا کسی پیغمبر کی ہی ہو سکتی تھی ،باتیں کرتے کرتے وہ مزمل کو واپس کمرے میں لے آئی، مزمل نے کمرے میں پہنچتے ہی اس سے شربت کی فرمائش کی جو لڑکی نے گزشتہ رات اسے پلایا تھا، صراحی کمرے میں ہی رکھی تھی لڑکی نے اسے پیالہ بھر دیا ،جو مزمل نے پی لیا۔
 مزمل کا جی چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے ساتھ باتیں کرتی رہے اور وہ خود بھی بولے اور بولتا ہی چلا جائے، اس غلیظ اور بدبودار کوٹھری کی قید نے بھوک اور پیاس نے اس کے دماغ پر ایسا اثر کیا تھا جیسے اس کی سوچنے کی صلاحیت سو گئی ہو یا آدھی سے زیادہ صلاحیت مر ہی گئی ہو، پھر اس کے دماغ پر یہ لڑکی اور اس کی باتیں غالب آ گئیں بات وہی ہوئی کہ ایک تو یہ لڑکی نشہ بن کر اس پر طاری ہوئی، اور دوسری یہ بات کہ اس لڑکی نے اسے حشیش پلانی شروع کر دی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل کے ذہن پر اور ضمیر پر بھی اب کوئی بوجھ نہیں تھا، وہ ایسے احساس سے سرشار اور مخمور ہوا جا رہا تھا جیسے وہ باطنیوں میں سے ہی ہو، اور یہ احساس بھی کہ وہ مکمل طور پر ہوش میں ہے ۔
دروازے پر دستک ہوئی، مزمل نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا ،لڑکی نے جا کر دروازہ کھولا۔
 امام تشریف لا رہے ہیں۔۔۔ مزمل کو باہر سے آواز سنائی دی ۔
لڑکی نے دروازے کے دونوں کواڑ کھول دیے۔
حسن بن صباح کمرے میں داخل ہوا ۔
مزمل اسے دیکھ کر اٹھا اور حیرت سے اسے دیکھتا ہی رہا۔
لڑکی دروازہ بند کرکے باہر ہی کھڑی ہو گئی۔
 کمرے میں حسن بن صباح اور مزمل رہ گئے۔ حسن بن صباح کے چہرے پر سنجیدگی سی تھی ،مزمل اسے خاموشی سے دیکھتا رہا اور حسن بن صباح آہستہ آہستہ کمرے میں ٹہلنے لگا ،کمرے میں سناٹا طاری تھا، یہی وہ حسن بن صباح تھا جسے قتل کرنے کو مزمل اس قدر بے تاب تھا کہ منع کرنے کے باوجود وہ اسے قتل کرنے یہاں پہنچ گیا تھا، لیکن اب اس کی حالت یہ تھی کہ اس کے دماغ میں یہ بھی سوچ نہیں آرہی تھی کہ وہ حسن بن صباح کا سامنا کس طرح کرے اور کیا کہے، اس کا دل اس جذبے سے خالی ہوچکا تھا جو جذبہ اسے یہاں لایا تھا ۔
دہکتے ہوئے انگارے برف کے ٹکڑے بن گئے تھے۔
مزمل آفندی !،،،،حسن بن صباح نے مزمل کے سامنے کھڑے ہو کر کہا۔۔۔ مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ تم میرے قلعے میں مہمان بن کر آئے اور تمہیں ان بدبختوں نے قید خانے میں بند کر دیا،،،،،، تم مجھے قتل کرنے آئے ہو؟
 حسن بن صباح مزمل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا تھا، اور مزمل یوں محسوس کر رہا تھا جیسے یہ شخص اس کی روح میں اتر گیا ہو، اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا ،اس نے اتنا ہی محسوس کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن نہ دماغ اس کا ساتھ دے رہا ہے نہ زبان میں حرکت ہو رہی ہے۔
 حسن بن صباح نے چغّہ پہن رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک لمبا تھا ،اس نے چغّے کے اندر ہاتھ ڈالا اور جب ہاتھ باہر نکالا تو اس ہاتھ میں تلوار تھی ،مزمل نے جب حسن بن صباح کے ہاتھ میں تلوار دیکھی تو اسے موت نظر آنے لگی ،وہ خالی ہاتھ تھا۔
یہ لو !،،،،،،حسن بن صباح نے تلوار اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مزمل کو پیش کی اور بولا۔۔۔ تلوار لو،،، اور مجھے قتل کرو۔
 مزمل تلوار کی طرف تو دیکھ ہی نہیں رہا تھا اس کی نظریں حسن بن صباح کے چہرے پر جمی ہوئی تھی، حسن بن صباح نے تلوار کا دستہ اس کے ہاتھ میں دے دیا، مزمل نے تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی، حسن بن صباح نے اس کی طرف پیٹھ کر لی۔
مزمل خاص طور پر محسوس کر رہا تھا کہ اس میں اتنی ہمت ہے ہی نہیں کہ وہ تلوار سے حسن بن صباح کی گردن اڑا دے، اسے تو جیسے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ حسن بن صباح کو وہ اپنا نہیں بلکہ اسلام کا بدترین دشمن سمجھتا تھا۔
حسن بن صباح کچھ دیر مزمل کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا رہا ،پھر وہ آہستہ آہستہ مڑا اور اس نے مزمل کا سامنا کیا۔
 اگر میں جھوٹا ہوتا تو اب تک میرا سر تمہارے ہاتھوں میں میرے جسم سے الگ ہو چکا ہوتا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ تم ایسے لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کر یہاں آ گئے ہو جو میری صداقت سے واقف نہیں، سلطنت سلجوقی سلطان نہیں چاہتے کہ کوئی ایسی طاقت ابھرے جو بنی نوع انسان کو ان سلطانوں اور بادشاہوں سے آزاد کرا دے، بادشاہی صرف اللہ کی ہے اور میں جو کچھ کررہا ہوں وہ اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں،،،،،،، تم تلوار چلاؤ،،،، تلوار میرے جسم کے قریب آکر رک جائے گی،،،، کیونکہ اللہ نے ابھی میرے خلاف فیصلہ نہیں دیا۔
 مزمل کی برین واشنگ پہلے ہی ہوچکی تھی، اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو وہ حسن بن صباح نے پوری کردی ،مزمل نے تلوار اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھائی اور حسن بن صباح کے آگے دو زانو ہو کر اس نے ہاتھ آگے کیے اور تلوار حسن بن صباح کو پیش کی ،حسن بن صباح نے تلوار لے لی اور چغّے کے اندر نیام میں ڈال لی۔
مزمل آفندی!،،،،، حسن بن صباح نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے کہا۔۔۔۔ تم میرے مہمان ہو،،،،،، میرے ساتھ آؤ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل آفندی حسن بن صباح کے ساتھ چلا گیا حسن بن صباح نے غالباً دیکھ لیا تھا کہ مزمل دلیر اور خطرہ مول لینے والا جوان ہے اور یہ بڑا ہی آسان شکار ہے ،اس لیے حسن بن صباح نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔
محترم وزیراعظم!،،،،، مزمل نے نظام الملک کو اپنی یہ پراسرار داستان سناتے ہوئے کہا۔۔۔ حسن بن صباح مجھے جب اپنے ساتھ لے گیا تو میں ایک ایسی دنیا میں داخل ہوگیا جسے میں آج ایک بڑا ھی حسین اور طلسماتی خواب سمجھتا ہوں، اگر جنت کا وجود ہے تو میں نے وہ حسن بن صباح کی دنیا میں دیکھی ہے، آج جب میں اپنے ہوش و حواس میں آگیا ہوں اس جنت کو خواب ہی سمجھتا ہوں، حسن بن صباح میرے ساتھ خاص طور پر شفقت کرتا تھا میں اسے یوں مقدس اور متبرک شخصیت سمجھنے لگا تھا کہ آسمان پر خدا ہے تو زمین پر حسن بن صباح ہے، اس نے چند دنوں میں ہی مجھے اپنے راز دینے شروع کر دیے تھے ،اس نے نہایت پرکشش طریقے سے مجھے آپ کے خلاف کیا اور میرے دل میں آپ کی دشمنی بھر دی ،میں تو بہت جلدی آپ کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا، حسن بن صباح کو مجھ پر ایسا اعتبار آیا کہ اس نے اپنے کچھ راز بھی مجھے دے دیے ۔
اب دوسری باتوں کو چھوڑو۔۔۔ نظام الملک نے کہا۔۔۔ میں راز کی باتیں سننا چاہتا ہوں۔
مزمل آفندی نے راز کی جو باتیں سنائیں وہ ابوالقاسم رفیق دلاوری نے متعدد مورخوں کے حوالوں سے "آئمہ تلبیس" میں تفصیل سے بیان کی ہیں، وہ یوں ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے خاص مریدوں کو تین گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا ،ایک گروہ دوسرے ملکوں میں تبلیغ کا کام کرتا تھا لیکن اس گروہ کے آدمی عام لوگوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ حاکموں اور سرداروں کی سطح کے لوگوں سے ملتے اور انہیں اپنے نظریات بتاتے اور ایسے طریقے اختیار کرتے تھے کہ یہ سرکردہ لوگ ان کے ہمنوا ہو جاتے تھے۔ دوسرے گروہ کے آدمیوں کو رفیق کہا جاتا تھا، یہ حسن بن صباح کا ذاتی حلقہ تھا، اور تمام رفیق اس کے اس حلقے میں شامل تھے۔
تیسرا گروہ فدائیوں کا تھا ،یہ جاں باز لوگ تھے ،جن میں سے وہ کسی کو حکم دیتا کہ اپنے آپ کو قتل کر دو تو وہ شخص تلوار اپنے دل میں اتار لیتا تھا ،مزمل نے بتایا کہ اس تیسرے گروہ میں جو لوگ شامل تھے اور جنہیں شامل کیا جا رہا تھا وہ تھے تو انسان ہی لیکن ان کی فطرت میں خونخواری اور مردم کُشی بھر دی گئی تھی، انہیں بلّی کا گوشت کھلایا جاتا تھا ،وہ اس لئے کہ بلّی جب حملہ کرتی ہے تو بڑی غضب ناک ہو کر حملہ کرتی ہے اور اپنے شکار کو مار کر ہی دم لیتی ہے۔
فدائیوں کو تو بلّی کا گوشت کھلایا جاتا تھا لیکن رفیقوں کو یعنی دوسرے گروہ کے آدمیوں کو بادام شہد اور کلونجی کھلائی جاتی تھی ،یہ خوراک ان کے جسموں میں گرمی پیدا کرتی تھی اور جب یہ گرمی دماغ کو چڑھتی تھی تو انہیں جو بھی حکم دیا جاتا ہے اسی وقت پورا کرتے تھے، رفیق آمنے سامنے کی لڑائی لڑتے تھے، لیکن فدائی اپنے شکار کو دھوکے میں لاکر زمین دوز طریقوں سے ختم کرتے تھے ،حسن بن صباح نے جتنی تاریخی شخصیتوں کو قتل کروایا ہے وہ انہی فدائیوں کے ہاتھوں کروایا ہے۔
(ان شاء اللہ آگے کے سلسلے میں آپ کو حسن بن صباح کی جنت اور اس کی دنیا کے خفیہ گوشے، تفصیل سے  ملیں گے
 یہاں بات صرف مزمل آفندی اور نظام الملک کی ہوگی، نظام الملک نے قلعہ الموت پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا ،اور اس کی فوج کو ٹریننگ دی جا رہی تھی ۔)
اب بتاؤ مزمل !،،،،،نظام الملک نے پوچھا ۔۔۔کیا اب بھی تم چاہتے ہو کہ اکیلے جاکر حسن بن صباح کو قتل کر دو گے؟ 
نہیں وزیراعظم !،،،،مزمل نے جواب دیا۔۔۔ مجھے الموت جانے سے روکنے والے سچ کہتے تھے کہ انسان حسن بن صباح کے ہاتھوں قتل ہو سکتا ہے اسے دھوکے میں لاکر قتل نہیں کیا جاسکتا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حسن بن صباح کو زندہ رہنے کا حق دے رکھیں، اگر آپ میرے مشورے کو قبول کریں تو میں یہی کہوں گا کہ فوج کشی کے بغیر آپ باطنیوں کے پھیلتے ہوئے طوفان کو نہیں روک سکتے، میں کچھ دن اس دنیا میں گزار آیا ہوں ،میں نے وہاں دیکھا ہے اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ نے حسن بن صباح کا راستہ نہ روکا تو وہ دن جلدی آجائے گا جب سلطنت سلجوق پر بھی حسن بن صباح کی بادشاہی ہو گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نظام الملک نے اپنی فوج کو قلعہ الموت پر حملے کے لیے تیار کر لیا تھا، اس نے بہتر یہ سمجھا کہ خونریزی نہ ہی ہو تو اچھا ہے، اس نے سلطان ملک شاہ سے کہا کہ وہ حسن بن صباح کی طرف اپنا ایک ایلچی بھیجنا چاہتا ہے۔ سلطان نے اسے اجازت دے دی اور اسی روز ایک ایلچی اس پیغام کے ساتھ الموت بھیج دیا گیا کہ حسن بن صباح اپنی یہ سرگرمیاں جو اسلام کے سراسر خلاف ہیں ختم کر دے اور سلطان ملک شاہ کی اطاعت قبول کرلے۔
ایلچی چلا گیا اور الموت پہنچ کر وہ حسن بن صباح سے ملا اور اسے سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کا پیغام دیا۔
اپنے سلطان کو اور نظام الملک کو میرا پیغام دینا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں نے کبھی کسی کی اطاعت قبول نہیں کی، اے نظام الملک !،،،،ہم دونوں اکٹھے پڑھے ہیں اور ایک ہی استاد سے پڑھے ہیں، مجھے تم اس زمانے سے جانتے ہو، میں تمہیں ایک مخلص دوست کی حیثیت سے مشورہ دیتا ہوں کہ الموت کا کبھی رخ نہ کرنا، اور اے سلطنت سلجوق کے سلطان ملک شاہ اپنی سلطنت کی حدود میں رہو یہی تمہارے لیے بہتر ہے، اور تمہارے لیے یہ بھی بہتر ہے کہ مجھے میری دنیا میں آزاد رہنے دو، اگر تمہیں میرا یہ مشورہ اچھا نہ لگے تو میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ تمہارا اور تمہاری فوج کا انجام بہت برا ہوگا ۔
ایلچی وہاں سے رخصت ہونے لگا ،تو حسن بن صباح نے اسے روک لیا 
ٹھہر جاؤ !،،،،،حسن بن صباح نے اسے کہا۔۔۔ تم شاید سمجھے نہیں کہ میں نے کیا کہا ہے، یا شاید تم یہ سمجھے ہو گے کہ میں نے ویسے ہی بڑ ماری ہے، میں تمہیں اپنے الفاظ کو عملی شکل میں دکھاتا ہوں۔
حسن بن صباح کے حکم سے سو ڈیڑھ سو آدمی جو دراصل اس کے فدائین تھے وہاں ایک صف میں آکر کھڑے ہوگئے۔
میرے دوستو !،،،،،حسن بن صباح ان سے مخاطب ہوا ،میں تم سے کسی ایک کو اللہ کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں، جو اللہ کے پاس جانا چاہتا ہے وہ آگے آ جائے ،تمام آدمی ایک ہی بار آگے آ گئے، اور ہر ایک نے بلند آواز سے کہا کہ میں اللہ کے پاس جانا چاہتا ہوں، حسن بن صباح نے ایک آدمی کو اشارے سے اپنے پاس بلایا وہ آدمی دوڑتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا۔
اپنے آپ کو قتل کردو۔۔۔ حسن بن صباح نے اسے کہا۔ 
جواں سال آدمی نے اپنے کمربند میں اڑسا ہوا خنجر نکالا، خنجر کی نیام الگ کر کے پرے پھینکی اور خنجر پوری طاقت سے اپنے دل میں اتار دیا ،وہ کچھ دیر کھڑا رہا پھر اس کے منہ سے بڑی زور کا نعرہ نکلا،،،،،، امام حسن بن صباح زندہ باد،،،،، اور اس کے بعد وہ آدمی گر پڑا اور مر گیا۔
حسن بن صباح نے ایک اور ویسے ہی جواں سال آدمی کو بلایا ،وہ سب آدمی جوان تھے یا نوجوان تھے، وہ آدمی دوڑتا ہوا حسن بن صباح کے سامنے جا رکا ۔
دوڑ کر قلعے کی دیوار پر چڑھ جاؤ۔۔۔ حسن بن صباح نے اسے کہا۔۔۔ اور اپنے آپ کو سر کے بل نیچے گرا دو ،وہ نوجوان فوراً دوڑ پڑا اور تھوڑی دیر بعد وہ قلعے کی اتنی اونچی دیوار پر کھڑا نظر آیا اس نے اپنے آپ کو اس طرح سر کے بل دیوار سے گرایا جس طرح تیراک بلندی سے پانی میں ڈائیو کیا کرتے ہیں۔
زیادہ تر مؤرخوں نے ان دو آدمیوں کا ہی ذکر کیا ہے ،بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے ایک اور فدائی کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ ڈوب کر مر جائے، وہ فدائی اسی وقت چلا گیا اور ڈوب کر مر گیا، اس تیسرے فدائی کی موت کے ساتھ یہ نہیں لکھا گیا کہ وہ دریا میں کودا تھا ،یا کوئی جھیل تھی یا کوئی گہرا حوض تھا، بہرحال یہ لکھا گیا ہے کہ وہ ڈوب کر مر گیا۔
اپنے سلطان ملک شاہ کو یہ سب کچھ سنانا جو تم نے دیکھا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے ایلچی سے کہا ۔۔۔میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میرے پاس اس قسم کے بیس ہزار فدائین ہیں، سلطان سے پوچھنا کے تمہارے اتنے بڑے لشکر میں کوئی ایک بھی سپاہی ہے جو اس طرح تمہاری اشارے پر اپنی جان دے دے؟،،،،، اور میرے دوست نظام الملک سے کہنا کہ میں آج بھی تمہارا احترام کرتا ہوں، لڑکپن کی دوستی کو قائم رکھو اور مجھ پر فوج کشی کا خیال دل سے نکال دو، اگر تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی تو بے شک آ جاؤ اور جتنا بڑا لشکر اکٹھا کر سکتے ہو لے آؤ۔
ایلچی کے چہرے پر حیرت زدگی بلکہ کسی حد تک خوف زدگی کے تاثرات صاف نظر آ رہے تھے، وہ چپ چاپ وہاں سے چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایلچی واپس مرو پہنچا تو سلطان ملک شاہ اور نظام الملک نے بے تابی سے اس سے پوچھا کہ حسن بن صباح نے کیا جواب دیا ہے، ایلچی نے جو سرفروشی اور جانثاری کے مظاہرے وہاں دیکھے تھے وہ انہیں سنا دیئے، اور حسن بن صباح نے جو جواب دیا تھا وہ بھی سنا دیا۔
سلطان ملک شاہ پر خاموشی طاری ہوگئی لیکن نظام الملک کو جیسے غصہ آگیا ہو وہ اٹھ کر کمرے میں تیز تیز چلنے لگا اور بار بار وہ اپنے ایک ہاتھ کا مکا اپنے دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا۔
کیا سوچ رہے ہو خواجہ ؟،،،،،سلطان ملک شاہ نے پوچھا اس کا لب و لہجہ کچھ ٹھنڈا سا تھا۔
 میں اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں سوچ سکتا کہ فوراً کوچ کیا جائے۔۔۔ نظام الملک نے کہا۔۔۔ کیا یہ ابلیس یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کے گیدڑ بھبکیوں سے ڈر جائیں گے، سلطان محترم میں کل صبح فجر کی نماز کے بعد کوچ کر جاؤں گا ،امید ہے آپ مجھے روکیں گے نہیں۔
ہاں خواجہ !،،،،،سلطان ملک شاہ نے کہا۔۔۔تم کل صبح لشکر لے کر نکل جاؤ ،میری دعائیں تمہارے ساتھ جائیں گی۔
اگلی صبح فجر کی نماز سے فارغ ہوکر خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے اپنے لشکر سے خطاب کیا، اس نے گزشتہ روز تمام لشکر کو تیاری کا حکم دے دیا تھا، صبح لشکر کوچ کے لئے تیار تھا، نظام الملک نے مختصر الفاظ میں اپنے لشکر سے کہا کہ وہ کسی کا ملک فتح کرنے نہیں جا رہے ،اس نے حسن بن صباح اور باطنیوں کے متعلق کچھ باتیں کی اور کہا کہ ہم سلطنت سلجوق کی توسیع کے لیے نہیں جا رہے ،بلکہ ایک ابلیسی قوت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے جا رہے ہیں، اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم نے وقت ضائع کیا یا وہاں جا کر ہم نے جانیں قربان کرنے سے منہ پھیر لیا تو سمجھ لو کہ تمہارا دین اسلام چند دنوں کا مہمان ہے ،پھر یہاں نہ کوئی اللہ کا اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نام لینے والا زندہ رہے گا۔
لشکر روانہ ہوگیا ،عورتوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر لشکر کو اپنی دعاؤں کے ساتھ  رخصت کیا ،کچھ لوگ لشکر کے ساتھ دور تک گئے اور لشکر کو خدا حافظ کہہ کر واپس آگئے۔
 لشکر ابھی راستے میں ہی تھا کہ حسن بن صباح کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ سلجوقیوں کا لشکر آ رہا ہے، انہوں نے لشکر کی صحیح تعداد بھی بتا دی، حسن بن صباح کے جاسوس ہر جگہ موجود تھے، مورخ لکھتے ہیں کہ کوئی بات ابھی سلطان تک نہیں پہنچتی تھی لیکن حسن بن صباح تک پہلے پہنچ جاتی تھی۔
مسلمان مورخوں کے علاوہ دو یوروپی مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ جب حسن بن صباح کو اطلاع ملی کے نظام الملک لشکر لا رہا ہے تو حسن بن صباح کا رد عمل صرف اتنا سا تھا کہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، اس نے ایسا نہیں کیا کہ اٹھ کر دوڑ پڑتا اور اپنے لشکر کو تیاری کا حکم دیتا یا لشکر کو اکٹھا کرکے کوئی اشتعال انگیز تقریر کرتا، وہ اطمینان اور آرام سے بیٹھا رہا اس کے پاس تین چار خاص معتمد اور مشیر بیٹھے ہوئے تھے ۔
تم نے سن لیا ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے انہیں کہا۔۔۔ نظام الملک کو راستے میں ہی قتل کر دو ۔
بس اتنی سی بات تھی جو حسن بن صباح کے منہ سے نکلی، اس کے پاس بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے ایک اٹھا اور باہر نکل گیا۔
یہاں تاریخ نویسوں میں تھوڑا سا اختلاف پایا جاتا ہے جو کوئی اتنا اہم نہیں، لیکن اس کا ذکر ضروری ہے کچھ نے لکھا ہے کہ نظام الملک کو سلطان ملک شاہ نے مرد سے ہی رخصت کر دیا تھا ،لیکن زیادہ تعداد تاریخ نویسوں کی ایسی ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ بغداد جا رہا تھا وہ لشکر کے ساتھ چل پڑا، اس کا ارادہ یہ تھا کہ راستے سے بغدادکی طرف چلا جائے گا، چونکہ مورخوں کی زیادہ تعداد نے یہی لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ لشکر کے ساتھ گیا تھا اور اس سے آگے کے جو حالات تاریخ میں نظر آتے ہیں وہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ سلطان ملک شاہ لشکر کے ساتھ گیا تھا، اس لئے داستان گو یہی صحیح سمجھتا ہے۔
راستے میں جاکر سلطان ملک شاہ نے خواہش ظاہر کی کہ نہاوند کے مقام پر پڑاؤ کیا جائے۔ نہاوند بڑا مشہور قصبہ تھا جس کی جغرافیائی اور تاریخی اہمیت تھی، بیسویں ہجری میں یہ مقام حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں فتح ہوا تھا، اس لڑائی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی اچھی خاصی تعداد شہید ہوئی تھی۔
وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا ان لوگوں نے نہاوند پہنچ کر روزہ افطار کیا رات تراویح کی نماز سب نے پڑھی، نماز تراویح کے بعد نظام الملک اپنی قیام گاہ کی طرف چل پڑا، تاریخ کے مطابق لشکر نے تو اپنے لیے خیمے گاڑ لیے تھے لیکن سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کی رہائش کا انتظام قصبے میں ایک بڑے اچھے مکان میں کیا گیا تھا، اس وقت سلطان ملک شاہ نظام الملک کے ساتھ نہیں تھا۔
 نظام الملک جب اپنی قیام گاہ کے قریب پہنچا تو وہاں بہت سے لوگ اکٹھے دیکھے جو نظام الملک کو دیکھنے یا اسے ملنے آئے تھے، نظام الملک ان کے درمیان جا پہنچا اور جو کوئی بھی آگے آیا اس کے ساتھ اس نے ہاتھ ملایا ۔
کیا سلجوقیوں کا وزیراعظم ایک مظلوم کی فریاد سنے گا؟،،،،،،،ایک آواز سنائی دی ۔۔۔میں درخواست لے کر آیا ہوں۔
نظام الملک عدل و انصاف کا پابند تھا، اور ہر کسی سے انصاف کرنا وہ اپنا دینی فریضہ سمجھتا تھا ،اس نے جب یہ فریاد سنی تو بلند آواز سے کہا کہ یہ شخص آگے آکر اپنی عرضی مجھے دے دے۔
ایک جواں سال آدمی آگے آیا اور اس نے احتجاج یا غصے کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ اس کے ہاتھ میں جو کاغذ تھا وہ نظام الملک کے ہاتھ میں دینے کی بجائے اس کے قدموں میں پھینک دیا اور غصے سے بولا یہ لو میری فریاد اور مجھے انصاف دو۔
نظام الملک کاغذ اٹھانے کے لیے جھکا ،کاغذ پھینکنے والے شخص نے بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور جھکے ہوئے نظام الملک کی پیٹھ میں اس قدر زور سے مارا کہ خنجر دل کو چیرتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔
لوگوں نے قاتل کو وہیں پکڑ لیا، نظام الملک پیٹھ میں خنجر لئے ہوئے سیدھا ہوا، اس کے آخری الفاظ یہ تھے،،،،، اسے میرے قصاص میں قتل نہ کرنا ،لیکن لوگوں نے اس کی نہ سنی ،کچھ نے نظام الملک کو اٹھایا اور زیادہ تر نے قاتل کے جسم کو قیمہ بنا ڈالا۔
 اس قاتل کا نام ابو طاہر تھا وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا۔
 نظام الملک کو 1092 عیسوی میں قتل کیا گیا تھا۔
*انا للہ و انا الیہ راجعون*
 سلطان ملک شاہ کو اطلاع ملی تو وہ دوڑا آیا نظام الملک فوت ہو چکا تھا، اور قاتل کی لاش اس حالت میں باہر پڑی تھی کہ لوگوں نے اس کے اعضاء بھی کاٹ کر اِدھر اُدھر پھینک دیے تھے، سلطان نے الموت پر فوج کشی کا ارادہ ترک کر دیا ،اور وہیں سے واپس آ گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی