🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چوبیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ☷☲☰
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سواروں کو اصفہان جلدی پہنچنا تھا اس لیے وہ قافلے سے دور آگے نکل گئے اور کچھ دیر بعد بڑی پہاڑیوں کے درمیان سے بھی نکل گئے ،علاقہ تو آگے بھی پہاڑی ہی تھا لیکن پہاڑیاں زیادہ اونچی نہیں تھیں بعض تو ٹیکریوں جیسی تھیں اور بکھری ہوئی تھیں۔
ان ٹیکریوں میں سے ایک گھوڑے کے سر پٹ دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں جو گھوڑے کی رفتار سے دور ہٹتی جا رہی تھیں، اس کے ساتھ ہی ایک گھوڑا قافلے کے طرف سے سوار دستے کی طرف دوڑتا آیا اور سالار امیر ارسلان کے پہلو میں جا رکا۔
محترم سالار!،،،،،، سوار نے کہا ۔۔۔قافلے میں سے ایک سوار نکلا اور اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی مجھے شک ہے کہ وہ حسن بن صباح کے آدمیوں میں سے تھا اور وہ اصفہان جا کر یا جہاں کہیں بھی وہ ہے اطلاع دینے گیا ہے کہ اس کی گرفتاری کے لیے ایک سالار آ رہا ہے۔
اس سوار کو پکڑنا ممکن نہیں تھا، اس کے گھوڑے کے ٹاپ بھی اب سنائی نہیں دیتے تھے، امیر ارسلان اپنے سوار دستے کو سرپٹ تو نہیں دوڑا سکتا تھا کہ وہ اس سوار کے ساتھ ساتھ اصفہان پہنچ جاتا اس نے سوار دستے کو ذرا تیز چلنے کا حکم دیا۔
اصفہان میں ایک بہت بڑا مکان تھا جس کی شکل و صورت ایک قلعے جیسی تھی، حسن بن صباح کچھ دن پہلے وہاں پہنچا تھا اور اس نے احمد بن عطاش کو اپنی آمد کی اطلاع دی تھی، احمد بن عطاش خلجان میں تھا، اطلاع ملتے ہی وہ بڑی لمبی مسافت تھوڑے سے وقت میں طے کرکے اصفہان پہنچ گیا ،حسن بن صباح نے اسے سنایا کہ مصر میں اس کے ساتھ کیا بیتی تھی اور اسے قید میں ڈال دیا گیا تھا اور کس طرح وہ قید سے رہا ہوا، اور جس طرح وہ مصر سے حلب پہنچا تھا وہ ساری روداد سنائی ،پھر پوچھا کہ اب وہ خلجان آئے یا نہیں؟
تمہیں آخر آنا ہی ہے حسن!،،،،، احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔لیکن ہمارے جاسوسوں نے جو اطلاع دی ہیں وہ یہ ہیں کہ سلطان ملک شاہ تمہیں گرفتار کرنے کی کوشش میں ہے، تم ابھی یہیں رہو۔
میرے پیر استاد !،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ مجھے یہ بتائیں کہ لوگ مجھے بھول تو نہیں گئے، کیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی اور کام کیا ہے؟
تم بھول جانے کی بات کرتے ہو حسن!،،،،، احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔لوگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں ،میں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ تم وہاں آکر دیکھو گے، ہم لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ خدا کا ایلچی اب پہلے کی طرح اسی علاقے میں کہیں آسمان سے اترے گا، اور جو بھی اس کا پیروکار بنے گا اسے اس دنیا میں جنت مل جائے گی، لوگ تمہارے نام پر جانیں دینے کے لیے تیار رہتے ہیں، میں نے جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرلیا ہے جو ایک اشارے کا منتظر رہتا ہے، ہم بہت جلدی سلجوقیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے، اس علاقے کی تقریباً تمام مسجدوں میں جو امام یا خطیب ہیں وہ سب ہمارے آدمی ہیں، وہ لوگوں کو قرآن اور احادیث کی جو تفسیر سنا رہے ہیں ان میں ہمارے عقیدے اور خدا کے ایلچی کے نزول کی پیشن گوئیاں ہوتی ہیں، لوگ اسی کو صحیح اسلام سمجھ رہے ہیں۔
لڑکیوں کا گروہ تیار ہوا ہے یا نہیں؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔۔۔ اور کیا جانبازوں کو حشیش دی جا رہی ہے یا نہیں۔
حشیش نے ہی تو ہمارا کام آسان کیا ہے۔۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ لوگوں کو خصوصاً لڑنے والے لشکریوں کو معلوم ہی نہیں کہ ہم انہیں کھانے پینے کی اشیاء میں حشیش دے رہے ہیں، ہماری لڑکیوں نے جو کام کیے ہیں وہ تم وہاں آکر دیکھو گے، بعض قبیلوں کے سردار جو ہماری باتوں کا اثر قبول نہیں کر رہے تھے بلکہ ہمارے خلاف ہو گئے تھے انہیں ہماری لڑکیوں نے رام کیا ہے کہ اب وہی سردار ہماری طاقت بن گئے ہیں۔
تمام مؤرخوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ ان لوگوں نے انسانی فطرت کی کمزوریوں اور فطری مطالبات کے عین مطابق لوگوں کے ذہنوں میں اپنا باطل عقیدہ ڈالا تھا، داستان گو پہلے بیان کرچکا ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے آگ میں ایسی جڑی بوٹی ڈال دی جاتی تھی جس کا دھواں اور جس کی بو انسانی ذہن پر نشہ طاری کردیتی تھی، لیکن لوگ محسوس نہیں کرتے تھے کہ ان کے دماغوں پر کس طرح قبضہ کیا جا رہا ہے ،وہ بظاہر ذہنی طور پر نارمل رہتے تھے لیکن ان جڑی بوٹیوں کی وجہ سے حسن بن صباح کے ٹولے کے قبضے میں چلے جاتے تھے، پھر اس ٹولے کے بڑے لوگ جب باطل کی بھی کوئی بات کرتے تھے تو ان کے دماغ باطل کو بھی قبول کر لیتے تھے۔
دراصل وہ پسماندگی کا دور تھا لوگ جو مسلمان تھے وہ اس لئے مسلمان تھے کہ دین اسلام ان کے ورثے میں چلا آ رہا تھا، جو اگر کسی باتوں میں نہیں آتے تھے تو وہ عیسائی یا یہودی تھے، اسلام کے دائرے میں رہ کر مسلمانوں کو کوئی نئی چیز بتائی جاتی تو وہ غور سے سنتے اور اسے اسلامی سمجھ کر قبول کرلیتے تھے، اگر آج کی زبان میں بات کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی خاص جڑی بوٹی کے دوائی اور قرآن کی نئی تفسیروں کے ذریعے سیدھے سادے لوگوں کو ہپنا ٹائز کر لیا گیا تھا، لوگوں کو کچھ شعبدے بھی دکھائے گئے تھے، لوگ نہ سمجھ سکے کہ ان کے ذہنوں میں شیطانی نظریات ٹھونسے جا رہے ہیں، لوگوں کو انہیں بتائے بغیر جس جڑی بوٹی کا دھواں دیا جاتا تھا وہ مورخوں کے کہنے کے مطابق حشیش کا پودا تھا، سینکڑوں جانبازوں کا جو گروہ تیار کیا گیا انہیں بتائے بغیر حشیش پلائی جاتی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
احمد بن عطاش ابھی وہیں تھا کہ اطلاع دی گئی ایک سوار آیا ہے جس کی حالت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی، اسے فوراً اندر بلا لیا گیا، اس کی حالت بہت ہی بری تھی، اصفہان تک جلدی پہنچنے کے ارادے سے اس نے اتنے لمبے سفر میں پڑاؤ کیا ہی نہیں تھا ،گھوڑے کو چند جگہوں پر روک کر پانی پلایا اور سفر جاری رکھا، اس سے بولا بھی نہیں جاتا تھا۔
سلطان کے پانچ چھ سو سوار آرہے ہیں۔۔۔ اس نے بڑی مشکل سے کہا۔۔۔ آپ کو گرفتار کریں گے، اچھا ہوا آپ پہلے نکل آئے تھے، کسی نے بتا دیا ہے کہ آپ اصفہان چلے گئے ہیں ،وہ ادھر آ رہے ہیں اور وہ بے ہوش ہو گیا۔
مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ لیکن جاؤں کہاں؟،،، خلجان،،، شاہ در۔
نہیں !،،،،،احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ کسی بھی بڑے شہر میں جانا خطرناک ہو گا، قلعہ تبریز گمنام سا قلعہ ہے ،دور بھی نہیں وہاں اپنے آدمی ہیں سب قابل اعتماد ہیں اور ضرورت پڑی تو جانیں قربان کر دیں گے
تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کو رات کے سیاہ پردے میں قلعہ تبریز پہنچا دیا گیا ۔
صرف ایک دن اور گزرا تو سالار امیر ارسلان پانچ سو سواروں کے ساتھ پہنچ گیا ،یہ دستہ طوفان کی طرح اصفہان کی گلیوں میں بکھر گیا ،سوار اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ حسن بن صباح باہر آ جائے ہم ہر گھر کی تلاشی لیں گے جس گھر سے حسن بن صباح برآمد ہوگا اس گھر کے ہر مرد اور عورت کو ساری عمر کے لئے قید میں ڈال دیا جائے گا۔
اس وقت اصفہان سلجوقیوں کے زیر نگیں تھا، کوئی خاندان کسی مشکوک آدمی کو پناہ نہیں دے سکتا تھا ،اس قلعہ نما مکان پر کوئی شک نہیں کر سکتا تھا جہاں حسن بن صباح ٹہرا اور احمد بن عطاش اسے آ کر ملا تھا ،اس مکان میں مذہب پرست لوگ رہتے تھے اور وہ تجارت پیشہ تھے، وہ مسلمان تھے، احمد بن عطاش اب بھی وہاں موجود تھا ،لیکن اس نے اپنا حلیہ بدل لیا تھا ،وہ اس مکان کے اصطبل کا سائس بن گیا تھا ،سر اور داڑھی کے بال بکھیر لیے تھے، کپڑے بوسیدہ سے پہن لئے اور ان پر گھوڑوں کی لید کے داغ دھبے لگا لیے تھے، وہ ذرا کبڑا بن گیا تھا ۔
بہت دیر بعد جب کسی نے بھی نہ کہا کہ حسن بن صباح اُس کے گھر میں ہے، ایک ضعیف بڑھیا امیر ارسلان کے پاس آئی۔
میں گزشتہ رات قلعہ تبریز سے آئی ہوں بڑھیا نے کہا ۔۔۔میرا ایک نوجوان پوتا وہاں رہتا ہے، اس سے مجھے بہت پیار ہے، کبھی کبھی اپنی گھوڑی پر اسے دیکھنے جاتی ہوں، وہاں وہ کوئی کام نہیں کرتا لیکن رہتا بڑی شان سے ہے، میں اسے ملنے گئی تھی رات سے پہلے واپسی کے سفر کو روانہ ہوئی، دروازہ کھلا ہوا تھا میں دروازے سے نکلنے لگی تو چھ گھوڑسوار دروازے میں داخل ہوئے، انہوں نے مجھے روک لیا اور پوچھا کون ہو؟،،،،،،
میں نے کہا خود ہی دیکھ لو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہوں، پوتے سے ملنے آئی تھی واپس اصفہان جا رہی ہوں، ان میں سے ایک نے کہا جانے دو اسے، اسے تو اپنی ہوش نہیں،،،،،،، اندر سے سات آٹھ آدمی دوڑے آئے، میں دروازے سے باہر آ گئی، ان میں سے ایک آدمی نے کہا ،خوش آمدید حسن بن صباح، آج ہماری قسمت جاگ اٹھی ہے،،،،،، ایک اور آدمی کی آواز سنائی دی ،نام مت لو احمق، تمہاری آواز اصفہان تک پہنچ سکتی ہے، معلوم نہیں یہ وہی حسن بن صباح ہے جسے تم ڈھونڈ رہے ہو یا یہ کوئی اور ہے، امیر ارسلان نے اس بڑھیا کے بیٹوں کو بلایا اور پوچھا کہ ان میں سے کس کا بیٹا قلعہ تبریز میں ہے۔
وہ میرا بیٹا ہے۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔
وہ وہاں کیا کر رہا ہے؟
گمراہ ہوگیا ہے۔۔۔ اس نے جواب دیا ۔۔۔باطنیوں کے جال میں آ گیا ہے، اور خدا کے ایلچی کا جاں باز بن گیا ہے ،ہم صحیح العقیدہ مسلمان ہیں معلوم نہیں ہمارے بیٹے کو کیا سبز باغ دکھائے گئے ہیں کہ وہ حسن بن صباح کے نام کا ہی ورد کرتا رہتا ہے۔
اس طرح کڑی سے کڑی ملاتے یہ یقین ہو گیا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں ہے، سالار امیر ارسلان نے اسی وقت کوچ اور قلعہ تبریز کو محاصرے میں لینے کا حکم دے دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہاں ایک دو وضاحت ضروری ہے، یہ قلعہ تبریز ایران کا آج والا شہر تبریز نہیں ،یہ ایک گمنام سی بستی تھی جس کا نام و نشان ہی مٹ گیا ہے۔
دوسری وضاحت یہ کہ بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح قلعہ المُوت میں جا چکا تھا اور امیر ارسلان نے وہاں حملہ کیا تھا ،یہ صحیح نہیں اس وقت حسن بن صباح کے فرقے نے قلعہ المُوت پر قبضہ ہی نہیں کیا تھا، قلعہ الموت پر اس فرقے کا قبضہ سال دو سال بعد ہوا تھا، اور وہاں خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے حملہ کیا تھا۔
بعد کے اکثر تاریخ نویسوں نے قلعوں کے نام لکھنے میں غلطیاں کی ہیں ،وہاں بہت سے چھوٹے بڑے قلعے تھے ان میں سے بیشتر پر حسن بن صباح کے فرقے کا قبضہ ہوگیا تھا۔
تو یہ تھا قلعہ تبریز جسے سالار امیر ارسلان کے پانچ سو سواروں نے محاصرے میں لے لیا، انہوں نے دیواروں پر کمند پھینکنے کے لئے رسّے اور دیوار توڑنے کے لئے سامان، کمانیں اور تیروں کا ذخیرہ اصفہان سے لے لیا تھا۔
"ائمہ تلبیس" کے مطابق حسن بن صباح کے پاس لڑنے والے صرف ستر آدمی تھے، اور یہ سب جانباز تھے، چھوٹے سے اس قلعے کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے جو اس وقت بند ہونے لگے جب امیر ارسلان کا سوار دستہ بالکل قریب پہنچ گیا تھا ،چند ایک سواروں نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی کہ وہ دونوں دروازوں سے اندر چلے جائیں۔
دروازے بند ہو رہے تھے اندر کے جانبازوں نے ایسی بے خوفی اور بے جگری سے مقابلہ کیا کہ سوار دروازوں میں داخل نہ ہوسکے اور دروازے بند ہوگئے، یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا کہ اس کے دروازے لوہے اور شاہ بلوط کی لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے اور ٹوٹ ہی نہ سکتے عام سی لکڑی کے دروازے تھے سواروں نے گھوڑوں سے اتر کر دروازے توڑنے شروع کر دیے۔
ادھر سواروں نے دیوار پر کمندیں پھینکیں کوئی کمند دیوار سے اٹک جاتی تو حسن بن صباح کے جاں باز رسّہ کاٹ دیتے اور اوپر سے تیر بھی برساتے تھے ،تیروں کے جواب میں سواروں نے بھی تیر اندازی شروع کر دی۔ تیروں کے سائے میں چند ایک سپاہی اوپر چلے گئے دیوار اتنی چوڑی نہیں تھی کہ اس پر لڑا جا سکتا، وہ اندر کود گئے جانبازوں نے انہیں نرغے میں لے لیا لیکن ایک آواز نے ان کا نرغہ توڑ دیا ۔
دروازے ٹوٹ گئے ہیں۔۔۔۔ دونوں دروازے سے للکار اٹھ رہی تھی۔۔۔۔ دروازوں پر آجاؤ دشمن اندر نہ آ جائے۔
حسن بن صباح کے جاں باز دروازوں کی طرف اٹھ دوڑے امیر ارسلان کے آدمیوں نے جو اب سوار نہیں پیادے بن گئے تھے ان جانبازوں پر تابڑ توڑ حملے کیے حالانکہ وہ قلعے کے اندر تھے اور ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی
باطنی جانبازوں نے باہر کے سواروں کو اندر تو نہ آنے دیا انہوں نے جانوں کی بازی لگادی تھی، لیکن یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ وہ زیادہ دیر اسی طرح جم کر نہیں لڑ سکیں گے، مورخ لکھتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی لڑائی تھی جو چھوٹی سی ایک بستی میں لڑی گئی تھی لیکن اس کی اہمیت اس وجہ سے ایک بڑی لڑائی جتنی تاریخی ہے کہ یہ حسن بن صباح کے باطنی فرقے اور سلجوقی مسلمانوں کا پہلا مسلح تصادم تھا اور اسی تصادم میں اندازہ ہو گیا تھا کہ حسن بن صباح کے پاس کتنی طاقت ہے، اور یہ طاقت کس قسم کی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح دیکھ رہا تھا کہ اس کے ستر جاں باز اتنے بڑے سوار دستے کو روک نہیں سکیں گے، ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی، حسن بن صباح ایک بلند چبوترے پر چڑھ گیا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی بلند آواز سے کہہ رہا تھا ،،،،،،تیرا ایلچی مشکل میں آگیا ہے اللہ،،،،،، فرشتوں کو بھیج اللہ،،،،، اپنے نام پر جانیں قربان کرنے والوں کو اتنے سخت امتحان میں نہ ڈال اللہ،،،،،،، فرشتے اتار اللہ،،،،،کفار کے طوفان سے بچا اللہ!،،،،
وہ چپ ہو گیا اور آسمان کی طرف دیکھتا رہا، اس کے بہت سے جانبازوں نے اسے دیکھا۔
یاحسن !،،،،،،،اس کے ایک آدمی نے قریب آکر گھبراہٹ سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ اپنے فدائین دل چھوڑ بیٹھے ہیں ،وہ باہر کو بھاگنے کا راستہ دیکھ رہے ہیں، حسن بن صباح نے اس شخص کو دیکھا اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے، حسن بن صباح نے آنکھیں بند کرکے آسمان کی طرف دیکھا۔
وحی نازل ہو گئی ہے۔۔۔ اس نے بلند آواز سے کہا ۔۔۔اللہ کا حکم آیا ہے کوئی شخص باہر نہ نکلے، جو نکلے گا وہ دنیا میں جلے گا اور جو ہمارے ساتھ رہے گا وہ دنیا میں فردوس بریں دیکھے گا ، حوریں اتر رہی ہیں،،،، فرشتے اتر رہے ہیں،،،،، ہمارا ساتھ چھوڑنے والوں کے لئے آگ اتر رہی ہے ,,,,,,,,,مدد آ رہی ہے۔
یہ "وحی" تمام جانبازوں تک پہنچا دی گئی، وہ فوراً ثابت قدم ہوگئے اور جم کر لڑنے لگے،
ہم حسن بن صباح کے ساتھ رہیں گے،،،، باطنیوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے،
لڑائی میں نیا ہی جوش اور قہر پیدا ہوگیا۔ امیر ارسلان کے جو آدمی کمندوں کے ذریعے اندر گئے تھے انہیں باطنیوں نے کاٹ ڈالا ۔
*اور آسمان سے فرشتے بھی اتر آئے*
یہ تین سو سوار اچانک کہیں سے نکلے ان کے سرپٹ ٹاپوں کی آوازیں دور سے سنائی دی تھیں امیر ارسلان کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ یہ ان کے دشمن سوار ہیں، اسے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ اس کے لیے کہیں سے کمک آئے گی اسے کمک کی ضرورت بھی نہیں تھی، پھر یہ بھی تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ امیر ارسلان کہاں ہے؟
بہرحال اس کے ذہن میں یہ خدشہ آیا ہی نہیں کہ یہ سوار جو چلے آرہے ہیں یہ اس کے لئے ایسی مصیبت چلی آرہی ہے جس کا وہ سامنا نہیں کر سکے گا ،ان تین سو سواروں کی رفتار اتنی تیز تھی کہ امیر ارسلان کو کچھ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا ،گھنے جنگل کی ہری بھری جھاڑیوں، درختوں اور اونچی گھاس سے یہ سوار بے ترتیب سے گروہوں کی صورت میں سیلاب کی طرح چلے آرہے تھے، وہ جوں جوں قریب آتے گئے پھیلتے گئے ،بعض کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں اور باقیوں کے پاس تلواریں تھیں، انہوں نے یہ ہتھیار آگے کو کر رکھے تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ حملہ کرنے آرہے ہیں۔
اس وقت بھی امیر ارسلان نے کوئی دفاعی اقدام نہ کیا ،حتیٰ کہ وہ سوار ان کے سر پر آگئے اور انہوں نے نعرہ لگایا،،،،،،،حسن بن صباح زندہ باد،،،،،، اس وقت امیر ارسلان اور اس کے سواروں کے ہوش آئی، لیکن سمجھنے اور سنبھل کر مقابلے میں آنے کا وقت گزر چکا تھا، ان سواروں نے امیر ارسلان کے پانچ سو سواروں کو بے بس کردیا۔ سلجوقیوں نے مقابلے میں جمنے کی بہت کوشش کی لیکن حملہ آوروں کے انداز میں اتنا قہر اور غضب تھا کہ انہوں نے سلجوقی سواروں کو بالکل ہی بے بس کر کے کاٹ ڈالا، انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ان کا سالار امیر ارسلان مارا جا چکا ہے، امیر ارسلان کے سواروں میں سے چند ایک سوار نکل بھاگنے میں کامیاب ہوئے، یہ سب زخمی حالت میں تھے ان میں مزمل آفندی بھی تھا وہ بھی زخمی تھا باقی، زخمی تو ادھر ادھر چھپ گئے ان میں بھاگنے کی بھی ہمت نہیں تھی لیکن مزمل آفندی نے گھوڑے کا رخ مرو کی طرف کر دیا اور ایڑ لگا دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ذہن میں قدرتی طور پر سوال اٹھتا ہے کیا یہ تین سو سوار واقعی فرشتے تھے جو اللہ نے حسن بن صباح کی مدد کے لیے بھیجے تھے؟ اور کیا واقعی اس پر وحی نازل ہوئی تھی؟
نہیں،،،،،، یہ پہلے سے کیا ہوا ایک انتظام تھا اور یہ انتظام احمد بن عطاش نے کیا تھا۔ داستان گو سارا قصہ سنا چکا ہے ،قافلے سے نکلے ہوئے ایک سوار نے اصفہان پہنچ کر حسن بن صباح کو خبردار کر دیا تھا کہ سلجوقی سلطان نے اس کی گرفتاری کے لیے پانچ چھے سو گھوڑ سواروں کا دستہ بھیجا ہے اور یہ دستہ اصفہان کی طرف آ رہا ہے۔
احمد بن عطاش بھی حسن بن صباح کے ساتھ تھا انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں چلا جائے، وہ چلا گیا ،ان لوگوں کو خداوند تعالی نے بڑے ہی تیز اور بہت دور تک سوچنے والے دماغ اور بہت دور تک دیکھنے والی نگاہیں دی تھیں، انہوں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ آگے کیا ہوگا، خطرہ یہی تھا کہ امیر ارسلان اصفہان میں آکر حسن بن صباح کو ڈھونڈے گا اور کسی نہ کسی طرح اسے پتہ چل جائے گا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں چلا گیا ہے۔
یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ احمد بن عطاش نے اسی مکان میں جہاں وہ اور حسن بن صباح ٹھہرے تھے سائس کا بہروپ دھار لیا تھا، یہ ایک قبیلے کے سردار کا مکان تھا اور یہ سردار حسن بن صباح کا پیروکار باطنی تھا۔
احمد بن عطاش نے اس سردار سے کہا تھا کہ حسن بن صباح کو بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ایسے سواروں کی ضرورت ہے جو شہسوار ہوں، تیغ زن اور برچھی بازی کی مہارت رکھتے ہوں، اور لڑائی میں جان کی بازی لگا دینے والے ہوں۔
یہ سردار اسی وقت ایک گھوڑے پر سوار ہوا اس کے پیچھے ایک اور گھوڑا تھا جس کی باگ سائس کے ہاتھ میں تھی، اور سائس پیدل چل رھا تھا ،لوگ جو راستے میں آتے تھے اس سردار کو جھک کر سلام کرتے تھے اور وہ سائس کی طرف دیکھتے ہی نہیں تھے کیونکہ وہ اس سردار کا سائیس تھا ، کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ یہ سائیس ابلیس کا چیلا نہیں بلکہ سر تاپا اور اندر سے بھی وہی ابلیس ہے جسے خداوند تعالیٰ نے آدم کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں دھتکار دیا، اور اس پر لعنت بھیجی تھی، اب وہ ابلیس آدم کی اولاد کے لیے بڑا ہی دلکش اور اسلام کے لئے بہت ہی خطرناک دھوکہ بنا ہوا تھا ،اور اولاد آدم اس کی تخلیق کیے ہوئے ابلیس حسن بن صباح کی ایسی مرید اور معتقد بنتی جا رہی تھی کہ اس پر جان قربان کر رہی تھی۔
شہر سے کچھ دور جا کر یہ سائیس جو دراصل احمد بن عطاش تھا گھوڑے پر چڑھ بیٹھا اور پھر سردار نے اور احمد بن عطاش نے گھوڑے دوڑا دیے، اصفہان سے تھوڑی ہی دور قزوین نامی ایک قصبہ تھا، آج کے نقشوں میں اس نام کا کوئی مقام نہیں ملتا، اس لیے یہ بتانا ناممکن ہے کہ یہ اصفہان سے کتنی دور تھا۔ تاریخ میں اس کا نام موجود ہے، یہ مقام ان دونوں کی منزل تھی۔
قزوین کا رئیس شہر ابوعلی تھا ،جس کا اس سارے علاقے میں اثر اور رسوخ تھا ،کچھ عرصہ پہلے اس شخص نے حسن بن صباح کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی، یہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ ایک لڑکی کا اور حشیش کا کارنامہ تھا ،جو یہ لڑکی اسے دھوکے میں پلاتی رہی تھی، احمد بن عطاش اور اس کا ساتھی سردار ابو علی کے گھر گئے اور اسے اس صورت حال سے آگاہ کیا کہ سلجوقی سلطان نے حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے سینکڑوں سواروں کا ایک دستہ بھیجا ہے، اسے بتایا کہ صورتحال کیا بن سکتی ہے اور اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
ان تینوں نے فوراً فیصلہ لیا۔۔۔ ابو علی نے کہا۔۔۔ کہ وہ جس قدر سوار مل سکے تیار کرلے گا ۔
تاریخ میں نام ابو علی کا ہی آیا ہے کہ اس نے بہت ہی تھوڑے سے وقت میں تین سو سوار تیار کرلیے اور پھر کمال یہ کیا کہ انہیں ایسی جگہ اکٹھا کر لیا جو قلعہ تبریز سے کچھ دور تھی، ان سواروں کو بتایا گیا کہ وہ ہر لمحہ تیاری کی حالت میں رہیں اور اشارہ ملنے پر قلعہ تبریز پہنچ جائیں ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ باطنیوں کی جڑیں کتنی مضبوط ہو کر کتنی دور تک پہنچ گئی تھیں۔
ان کا جاسوسی کا نظام بھی بڑا تیز اور قابل اعتماد تھا، سالار امیر ارسلان کا دستہ اصفہان سے قلعہ تبریز پہنچا، تو کسانوں اور تھکے ماندے مسافروں کے بہروپ میں باطنی جاسوس اسے دور دور سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے لڑائی بھی دیکھی تھی، انہیں میں سے کسی نے دیکھا کہ سلجوقی سوار قلعے میں داخل ہو جائیں گے اور اندر تمام باطنی مارے جائیں گے اور حسن بن صباح گرفتار ہو جائے گا ،اس جاسوس نے ابو علی کو جا اطلاع دی، تین سو سوار تیار تھے انہیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے ،ان کے دلوں میں سلجوقیوں کی اتنی نفرت پیدا کی گئی تھی کہ وہ اس انتظار میں تھے کہ سلجوقی سامنے آئے تو ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیں۔
اب انہیں موقع مل گیا ،اشارہ ملتے ہی وہ قلعہ تبریز پہنچے اور سلجوقیوں کو بے خبری میں جا لیا ،سلجوقی بے خبری اور غلط فہمی میں مارے گئے، ورنہ سلجوقیوں نے تو جنگجوی میں دور دور تک دھاک بٹھائی ہوئی تھی، مگر دھاک حسن بن صباح کی بیٹھ گئی، اس کے جانبازوں اور بستی تبریز کے باشندوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آسمان سے اترنے والے تین سو گھوڑسوار فرشتوں کا انتظام پہلے سے کر لیا گیا تھا، انہیں یقین ہوگیا تھا کہ حسن بن صباح پر وحی نازل ہوئی تھی اور یہ مدد بھی حسن بن صباح کے کہنے پر خدا نے بھیجی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل آفندی گھوڑا دوڑاتا مرو جا رہا تھا، اس نے اپنے زخموں پر کپڑے کس کر باندھ لیے تھے پھر بھی زخموں سے خون رس رہا تھا، وہ اس کوشش میں تھا کہ زندہ سلطان ملک شاہ تک پہنچ جائے اور ہوش میں رہے، تاکہ اسے قلعہ تبریز کی لڑائی کی خبر دے سکے اور اسے کہے کہ وہ فوراً جوابی حملے کے لیے فوج بھیجے۔
یہ ایک دن اور ایک رات کی مسافت تھی جو مزمل آفندی نے کم از کم وقت میں طے کی اور رات کو مرو پہنچا ،سلطان ملک شاہ سو گیا تھا ،سلطان کو جگانے کی جرات کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن مزمل خون میں نہایا ہوا اور نیم جان تھا اور وہ سالار امیر ارسلان اور اس کے سوار دستے کی خبر لایا تھا ،سلطان کو جگا کر بتایا گیا تو وہ بستر سے کود کر اٹھا اور ملاقات والے کمرے میں گیا۔
مزمل دروازے میں داخل ہوا تو اس کا وجود گرنے والے درخت کی طرح ڈول رہا تھا ،اور سر کبھی دائیں کبھی بائیں ڈھلک جاتا تھا، اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے اور زخموں سے تازہ خون رس رہا تھا ،سلطان دوڑ کر اس تک پہنچا اور اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔
اسے دیوان پر لٹاؤ ۔۔۔سلطان ملک شاہ نے دربار سے کہا۔۔۔ اور خود ہی مزمل کو اٹھا لیا۔
دربان نے بھی مدد کی اور مزمل کو دیوان پر لٹا دیا گیا، سلطان کے کپڑے بھی سامنے سے لال ہو گئے۔ اسے وہ شربت پلاؤ ۔۔۔سلطان نے دربان سے کہا ۔۔۔طبیب کو اور جراح کو بھی فوراً ساتھ لے آؤ ۔
سلطان ملک شاہ نے شربت کا گلاس دربان کے ہاتھ سے لیا اور اسے دوڑا دیا ،پھر مزمل کو سہارا دے کر اٹھایا اور اسے اپنے ہاتھ سے شربت پلایا۔
اب لیٹ جاؤ۔۔۔ سلطان نے مزمل آفندی کو لٹا کر پوچھا۔۔۔ تم بہت زخمی ہو۔
میں ان شاءاللہ زندہ رہوں گا۔۔۔ مزمل آفندی نے بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی آواز میں کہا ۔۔۔میں نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا ہے، میرا نام مزمل آفندی ہے، آپ کی فوج کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں،،،، پہلے اپنے سوار دستے اور سالار امیر ارسلان کی خبر سن لیں،،،،،، امیر ارسلان مارا گیا ہے اور اپنے دستے کے شاید سارے ہی سوار بھی مارے گئے ہیں۔
کیا کہا ؟،،،،،،،سلطان نے حیرت زدہ ہو کر کہا ۔۔۔۔ارسلان مارا گیا ہے؟،،،،،، یہ ہوا کیسے ؟،،،،،،یہ لڑائی کہاں لڑی گئی ہے؟
قلعہ تبریز میں ۔۔۔مزمل آفندی نے جواب دیا۔ طبیب اور جراح دوڑے آئے ،سلطان کے کہنے پر انہوں نے مزمل کے زخموں کو دھونا شروع کر دیا ۔ سلطان نے مزمل کے لئے پھل اور میوے منگوائے پھر زخموں کی مرہم پٹی ہوتی رہی ،مزمل پھل اور میوے کھاتا رہا اور سلطان کو سناتا رہا کہ وہ کس طرح میمونہ کو حسن بن صباح کی قید سے فرار کرا کے لایا تھا، اور اسے رے میں ابومسلم رازی کے یہاں میمونہ کو اپنی بیٹی شمونہ مل گئی تھی ،پھر اس نے حسن بن صباح کے تعاقب کا اور قلعہ تبریز کی لڑائی کا مکمل احوال سنایا۔
سلطان ملک شاہ آگ بگولا ہوگیا ،اس نے اسی وقت اپنے ایک سالار قزل ساروق کو بلایا، یہ سالار ترک تھا، ابن اثیر نے لکھا ہے کہ قزل ساروق نامور سالار اور مشہور سلجوق جنگجو تھا ،سلطان نے اسے کہا کہ وہ کم از کم ایک ہزار سواروں کا دستہ لے کر ابھی قلعہ تبریز کو روانہ ہو جائے۔
قزل ساروق سمجھ گیا کہ بہت جلدی تبریز پہنچنا ہے۔
وہ ایک ہزار منتخب سواروں کے ساتھ حیران کن کم وقت میں قلعہ تبریز پہنچ گیا، لیکن وہاں سالار امیر ارسلان اور اس کے سواروں کی لاشوں کے سوا کچھ بھی نہ ملا ،کسی بھی لاش کے ساتھ ہتھیار نہیں تھا، ایک بھی گھوڑا نہیں تھا ،ہتھیار بھی اور گھوڑے بھی باطنی لے گئے تھے، قزل ساروق قلعے کے اندر گیا کوئی ایک بھی انسان نظر نہ آیا ،مکان خالی پڑے تھے۔
آگ لگا دو۔۔۔۔قزل ساروق نے کہا ۔
کچھ ہی دیر بعد مکانوں سے شعلے اٹھنے لگے اور دھواں آسمان تک پہنچنے لگا ۔
قبر کھو دو اور اپنے ساتھیوں کو دفن کردو۔۔۔ قزل ساروق نے اپنے سواروں سے کہا۔۔۔ ہم یہاں شاید اسی لیے آئے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کو دفن کریں اور اس بستی کو آگ لگا دیں اور واپس چلے چلیں،،،،،، ہم یہاں کچھ دن ٹھہریں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>