🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر بائیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ☷☲☰
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آدھی رات کے وقت وہ کدال اٹھائے قبرستان میں پہنچ گیا۔
چاندنی اتنی تھی جس میں دن میں دیکھی ہوئی قبر تک پہنچنا مشکل نہ تھا۔
وہ جب گھر سے چلا تھا تو میمونہ نے اسے روک لیا تھا ۔
معلوم نہیں میرے دل پر بوجھ سا کیوں آ پڑا ہے۔۔۔ میمونہ نے کہا تھا ۔۔۔کیا میں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
نہیں میمونہ!،،،،،، حافظ نے کہا۔۔۔ تمہارے سامنے امام نے کہا تھا کہ میں قبرستان میں اکیلے جاؤ ،یہ شرط ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی تو ہماری جانیں خطرے میں آ سکتی ہے۔
میری ایک بات مانیں۔۔۔ میمونہ نے کہا تھا۔۔۔ مجھے بچہ نہیں چاہئے آپ ہیں تو سب کچھ ہے، اس وقت قبرستان میں نہ جائیں۔
تم تو بڑے مضبوط دل والی تھی میمونہ !،،،،،،حافظ نے بڑے پیارے انداز میں کہا تھا۔۔۔میں میدان جنگ میں نہیں جا رہا ،میں طوفانی سمندر میں نہیں جا رہا ،مجھے اللہ حافظ کہوں میمونہ میرے جانے کا وقت ہو رہا ہے۔
اللہ حافظ !،،،،،،میمونہ نے کہا۔
حافظ اصفہانی جب میمونہ کو اللہ حافظ کہہ کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میمونہ کو ہچکی سی آئی اور اس کا دل ڈوب گیا تھا ،جیسے اسے غیب سے اشارہ ملا ہو کہ کوئی انہونی ہونے والی ہے۔
وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ کھلا رکھا ،اسے نیند آ جانی چاہیے تھی لیکن اسکے جسم کا رواں رواں، ریشہ ریشہ، بے کلی بڑھتی جا رہی تھی، رات گزرتی جارہی تھی۔
رات کا آخری پہر شروع ہوگیا میمونہ کو ذرا سی آہٹ سنائی دیتی تو دوڑ کر دروازے تک جاتی اور مایوس لوٹ آتی۔
اسے مؤذن کی آواز سنائی دی تو میمونہ کے دل سے ہُوک اٹھی ،موذن نے اذان کے الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ رات گزر گئی ہے۔
اتنا وقت نہیں لگنا چاہیے تھا ،،،،اس کے دل نے کہا ۔
دل کانپ رہا تھا اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔
اس نے وضو کیا اور مصلّے پر کھڑے ہو گئی، فجر کی پوری نماز پڑھ کر اس نے نفل پڑھنے شروع کر دیئے، ہر چار نفلوں کے بعد ہاتھ پھیلا کر اپنے خاوند کی سلامتی کی دعا مانگتی تھی۔
آنسو اس کا حسن دھوتے رہے، اس کا دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا کہ وہ اس کی آواز سن سکتی تھی۔
جب صبح کا اجالا سفید ہو گیا تو وہ حسن بن صباح کے ساتھیوں کے کمرے کی طرف اٹھ دوڑی، دونوں ہاتھ زور زور سے دروازے پر مارے اور کواڑ دھماکے سے کھلے دونوں آدمی ناشتہ کر رہے تھے انہوں نے بدک کر دیکھا۔
حافظ آدھی رات کے وقت قبرستان میں گئے تھے۔۔۔ میمونہ نے کہا ۔۔۔ابھی تک نہیں آئے، انہیں دیکھو ۔
ہم دیکھنے جائیں گے۔۔۔ ایک نے کہا۔۔۔ ذرا دل مضبوط کریں، وہ آ جائیں گے۔
اس شخص نے دراصل یہ کہنا تھا کہ حافظ اصفہانی کبھی واپس نہیں آئے گا
گزشتہ رات یہ دونوں حافظ اصفہانی سے پہلے قبرستان میں پہنچ گئے اور اس قبر سے کچھ دور ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے تھے، چاندنی میں انہوں نے حافظ کو آتا دیکھ لیا، وہ قبر میں اترا اور جھک کر کھوپڑی پر حسن بن صباح کا دیا ہوا تعویذ رکھنے لگا، دونوں اٹھے اور حافظ کے عقب میں جا پہنچے، حافظ نے تعویذ کھوپڑی پر رکھ دیا وہ جونہی سیدھا ہوا پیچھے سے دو ہاتھوں نے اس کی گردن شکنجے میں جکڑ لیا ،دوسرے آدمی نے اس کے پیٹ میں پوری طاقت سے گھونسے مارنے شروع کر دئیے۔
تھوڑی سی دیر میں حافظ کا جسم ساکت و جامد ہو گیا ،دونوں نے اچھی طرح یقین کر لیا کہ وہ مر گیا ہے، اسے دھنسی ہوئی قبر میں لٹا دیا اور واپس آگئے ۔
صبح میمونہ ان کے کمرے میں گئی اور بتایا کہ اس کا خاوند واپس نہیں آیا، دونوں نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور قبرستان کی طرف چل دیے، میمونہ نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی، انہوں نے اسے ساتھ لے لیا۔
قبرستان میں پہنچے تو دور سے انہیں اس قبر کے ارد گرد چند ایک آدمی کھڑے نظر آئے، وہ میمونہ کے ساتھ پہنچے تو میمونہ کو دھنسی ہوئی قبر میں اپنے خاوند کی لاش پڑی دکھائی دی ،میمونہ کی چیخ نکل گئی، لوگوں کی مدد سے لاش اٹھا کر سرائے میں لے آئے، حسن بن صباح کو اطلاع ملی تو دوڑتا باہر آیا ،اسے تو اس کے ساتھیوں نے رات کو آ کر بتا دیا تھا کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل کر آئے ہیں ،حسن بن صباح نے انہیں خاص شراب پلائی تھی۔
یاد رکھو دوستوں !،،،،،حسن بن صباح نے انہیں کہا تھا ۔۔۔جس پر ذرا سا بھی شک ہو اسے ختم کر دو، یہ شخص ہمارے لئے خطرناک ہو سکتا تھا، اس کی بیوی اب ہمارے ساتھ رہے گی، اس کے پاس مال و دولت بھی ہے، یہ بھی اب ہمارا ہے،،،،، جاؤ اور صبح کا انتظار کرو۔
صبح اسے اطلاع ملی کہ قبرستان سے حافظ اصفہانی کی لاش آئی ہے تو وہ کمرے سے دوڑتا نکلا اور لاش تک پہنچا ،اس نے لاش کو ہر طرف سے دیکھا دونوں ہتھیلیاں دیکھیں اور گھبراہٹ کی ایسی اداکاری کی کے دیکھنے والوں پر خوف و ہراس طاری ہوگیا، اس نے میمونہ کو دیکھا جس کی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں۔
میمونہ !،،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میرے ساتھ آؤ جلدی، ایک لمحہ دیر نہ لگانا، اس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا ،،،،تم بھی میرے ساتھ آؤ،،، وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔
وہ میمونہ اور اپنے ساتھی کو اپنے کمرے میں لے گیا اور دروازہ بند کر لیا ۔
رونا بند کرو میمونہ!،،،، اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ فرش پر بیٹھ جاؤ، تمہارا خاوند کوئی غلطی کر بیٹھا ہے، ایک بڑی ہی خبیث بدروح نے اس کی جان لی ہے، یہ بدروح ابھی تک غصے میں ہے، میں نے اس کی سرگوشی سنی ہے ،تمہاری جان بھی خطرے میں ہے، چونکہ یہ عمل اس لیے کیا گیا تھا کہ تمہاری کوکھ سے بچہ پیدا ہو، اس لیے یہ بد روح تمہیں بھی اسی طرح مارنا چاہتی ہے، میں ابھی تمہاری حفاظت کا انتظام کر دیتا ہوں۔
اس نے میمونہ کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی اور کچھ بڑبڑانا شروع کردیا ،وقفے وقفے سے وہ میمونہ کی آنکھوں میں پھونک مارتا تھا ،میمونہ جو بلک بلک کر رو رہی تھی اور ایسی بے چین کے ہاتھ نہیں آتی تھی پرسکون ہونے لگی، زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے سکون اور اطمینان کی لمبی آہ بھری جیسے اس کا خاوند زندہ ہو گیا ہو، حسن بن صباح نے اسے فرش سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
میں نے حافظ کو خبردار کر دیا تھا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ لیکن اسے ایک بچے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے میری پوری بات توجہ سے نہ سنی ،میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے تمہیں دیکھ لیا اور اس بے رحم بد روح کو بھی دیکھ لیا ،وہ ابھی تک حافظ پر منڈلا رہی تھی، اور بار بار تمہاری طرف دیکھتی تھی، میں نے تمہیں محفوظ کرلیا ہے لیکن تمہیں دو چاند میرے ساتھ رہنا پڑے گا، اگر تم اس سے پہلے میرے سائے سے دور ہو گئیں تو تمہارا انجام اپنے خاوند سے زیادہ برا ہوگا۔
یہ آپ کا کرم ہے یا امام!،،،،، میمونہ نے کہا۔۔۔۔ میں آپ کے سائے میں نہیں رہوں گی تو جاؤں گی کہاں، میری منزل اصفہان ہے۔
وہاں تک میں تمہیں بخیر و خوبی پہنچاؤں گا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میرے محافظ تمہاری منزل تک تمہارے ساتھ جائیں گے، لیکن تمہارا خاوند کہہ رہا تھا کہ وہ سلجوقی سلطنت کے حکمران سلطان ملک شاہ سے ملنے مرو جائے گا۔
اس نے آپ کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ مرو کیوں جائے گا ۔۔۔میمونہ نے کہا ۔۔۔ہم نے خلجان، شاہ در، اور اس علاقے میں جو دیکھا ہے وہ سلطان ملک شاہ کو بتانا تھا، خصوصاً خلجان میں کوئی ایسا فرقہ تیار ہوگیا ہے جس کے عقیدے لوگوں کے دلوں میں اتر گئے ہیں، یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ان کے اعمال نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ فرقہ اسلام کو بالکل ہی مسخ کر دے گا ،سنا ہے اس فرقے نے جانبازوں کا ایک گروہ تیارکرلیا ہے، جو اپنی جانوں کی بازی لگا کر اپنے مخالفوں کی جانیں لیتا ہے۔
تمہارے خاوند نے مجھے یہ ساری باتیں بتائی تھیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ تم یہ بتاؤ کہ تم اس سلسلے میں کیا کرنا چاہتی ہو؟
کچھ بھی نہیں۔۔۔ میمونہ نے کہا ۔۔۔وہ خاوند ہی نہیں رہا جو اسلام کا شیدائی تھا ،میں تو چاہتی ہوں اصفہان پہنچ جاؤ اور سوچوں کہ مجھے اب اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
کیا تمہارے گھر میں سونا یا درہم و دینار ہے؟
حافظ اصفہانی ایک جاگیر کا مالک تھا ۔۔۔میمونہ نے جواب دیا ۔۔۔سونا بھی ہے، درہم و دینار بھی ہے جو گھر کے ایک دیوار میں چھپا کر رکھے ہوئے ہیں، یہ تو ایک مدفون خزانہ ہے لیکن زندگی کا ساتھی ہی نہ رہا تو میں اس خزانے کو کیا کروں گی، کوشش کروں گی کہ اپنی بیٹی شمونہ کی تلاش میں مرو اور رے جاؤں۔ آپ ہی نے بتایا ہے کہ وہ امیر شہر ابومسلم رازی کے پاس ہوگی۔
حسن بن صباح کو دھچکا سا لگا وہ ایک رات پہلے اس عورت کو بتا چکا تھا کہ اس کی بیٹی کہاں ہے، اب اسے خیال آیا کہ اس عورت کو سلطان ملک شاہ اور ابو مسلم رازی کے پاس نہیں جانا چاہیے ورنہ وہ خلجان پر حملہ کرا دے گی، اور اسے گرفتار کرا دے گی۔
پہلے اپنی منزل پر پہنچو !،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔مجھ سے پوچھے بغیر کہیں نہ جانا، تمہاری بیٹی زندہ ہے اور تمہیں مل جائے گی، لیکن اپنے آپ اس کی تلاش میں نہ چل پڑنا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میمونہ جذبات کی ماری ہوئی تنِ تنہا عورت تھی ،خاوند کی موت کے صدمے نے اس پر ڈوبنے کی کیفیت طاری کر دی تھی، وہ تنکوں کے سہارے ڈھونڈ رہی تھی، حسن بن صباح سے بہتر سہارا اور کیا ہو سکتا تھا ،اسے وہ امام مانتی تھی جو غیب کے پردوں کے پیچھے جا کر بتا سکتا تھا کہ کیا ہو چکا ہے، اور کیا ہونے والا ہے۔
میمونہ نے مان لیا تھا کہ حسن بن صباح نے اس کے خاوند کو ٹھیک عمل بتایا تھا لیکن ایک بدروح نے اس کی جان لے لی ،اس مجبور عورت کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جسے وہ غیب دان امام مانتی ہے اس نے اسے ہپنا ٹائز کرلیا ہے، اوراب وہ اس کے اشاروں پر چلے گی۔
وہ اس عورت کو ہپنا ٹائز نہ کرتا تو بھی وہ اس کے جال میں سے نکل نہیں سکتی تھی۔ تمام مورخوں نے خصوصاً یورپی تاریخ نویسوں اور شخصیت نگاروں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے آپ میں ایسے اوصاف پیدا کر لیے تھے کہ اس کے سامنے اس کا کوئی خونی دشمن اسے قتل کرنے کی نیت سے آ جاتا تو وہ بھی اس کا مرید ہو جاتا تھا،،،،، یہ ابلیسیت کا طلسم تھا۔
میمونہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کے ساتھ رہے گی۔
اس کے خاوند کی لاش اس کے کمرے میں پڑی ہوئی تھی، حسن بن صباح نے سرائے کے مالک کو بلا کر کہا کہ وہ میت کے غسل اور کفن دفن کا انتظام کرے، اس کے اخراجات میمونہ ادا کریے گی۔
دوپہر کے وقت حافظ اصفہانی کا جنازہ سرائے سے اٹھا، قبرستان میں جاکر حسن بن صباح نے نماز جنازہ پڑھائی، وہ جس قبرستان میں بچہ لینے گیا تھا اسی قبرستان میں دفن ہو گیا ،اور اپنے پیچھے یہ کہانی چھوڑ گیا کہ اسے ایک بدروح نے مارا ہے۔
میمونہ اپنے کمرے میں تنہا ڈرتی تھی اس نے حسن بن صباح سے پوچھا کہ وہ اس کے کمرے میں رہ سکتی ہے، حسن بن صباح نے اسے اجازت دے دی، میمونہ اپنا سامان اٹھا کر اس کے کمرے میں چلی گئی ۔
اس سرائے میں مسافر اس مجبوری کے تحت رکے ہوئے تھے کہ کوئی قافلہ تیار نہیں ہورہا تھا، لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کیا کرتے تھے اکیلے دکیلے مسافروں کو رہزن لوٹ لیتے تھے۔
انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا چودہ پندرہ دنوں بعد ایک قافلہ تیار ہوگیا ،یہ بہت بڑا قافلہ تھا کچھ تاجر تھے، کچھ پورے پورے کنبے تھے، زندگی کے ہر شعبے کے لوگ اس قافلے میں شامل تھے ،عورتیں بھی تھیں بچے بھی تھے،
سرائے میں اطلاع آئی تو سرائے خالی ہو گئی ،حسن بن صباح اس کے دو ساتھیوں اور میمونہ نے سامان باندھا اور قافلے سے جا ملے ،انہوں نے ایک گھوڑا اور دو اونٹ کرائے پر لے لیے، ایک اونٹ پر بڑی خوبصورت پالکی بندھوائی یہ میمونہ کے لیے تھے، قافلے کی روانگی سے پہلے میمونہ کو پالکی میں بٹھا دیا گیا اور حسن بن صباح اپنے ساتھیوں کے ساتھ ذرا پرے جا کھڑا ہوا۔
اس عورت پر نظر رکھنا ۔۔۔حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔۔۔یہ اپنے خاوند سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے ،میں نے اس کا راستہ بند تو کر دیا ہے پھر بھی یہ دوسرے مسافروں سے نہ ہی ملے تو اچھا ہے، اس کا گھر اصفہان میں ہے اپنے مکان کی ایک دیوار میں اس کے خاوند نے اچھا خاصا خزانہ چھپا کر رکھا ہوا ہے ،اس سے یہ خزانہ نکلوانا ہے اور اس کے گھر میں ہی اس عورت کو دفن کر دینا ، اگر اسے زندہ رہنے دیا گیا تو یہ کسی بھی دن اپنی بیٹی سے ملنے ابومسلم رازی کے شہر کو روانہ ہو جائے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قافلہ چل پڑا ۔
بہت دنوں کی مسافت کے بعد قافلہ بغداد پہنچا ،لوگ دو چار دن آرام کرنا چاہتے تھے، بہت مسافروں کی منزل بغداد ہی تھی، اتنے ہی مسافر بغداد سے قافلے سے آملے۔
حسن بن صباح اپنے ساتھیوں کو ایک سرائے میں لے گیا جس میں انہیں کمرے مل گئے ،وہاں چند ایک عورتیں بھی ٹھہری ہوئی تھیں ،ان کے ساتھ ان کے آدمی بھی تھے۔
دوسری صبح تھی میمونہ اپنے کمرے سے باہر نکلی ،اسے اپنا خاوند بہت یاد آ رہا تھا اور وہ بہت ہی اداس ہو گئی تھی، حسن بن صباح نے خود ہی اسے کہا تھا کہ وہ باہر گھومے پھرے، سرائے کے باہر نہ جائے اور عورتوں میں جا بیٹھے ۔
وہ باہر نکلی تو اسی کی عمر کی ایک عورت سامنے آگئی ،وہ بھی حلب کی سرائے سے اپنے کنبے کے ساتھ قافلے میں شامل ہوئی تھی، اور وہ اسی سرائے میں ٹھہری تھی، اسے معلوم تھا کہ میمونہ کا خاوند قبرستان میں ایک بد روح کے ہاتھوں مارا گیا تھا لیکن یہ عورت میمونہ سے پوچھ نہیں سکتی تھی کہ اس کا خاوند کس طرح مارا گیا تھا ،بغداد میں میمونہ اس کے سامنے آگئی۔
ہمسفر ہو کے ہم ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں۔۔۔ اس عورت نے میمونہ سے کہا۔۔۔ عورت کا درد عورت ہی سمجھ سکتی ہے ،کچھ دیر کے لئے میرے پاس نہیں آؤ گی ،میرے ساتھ میرا خاوند اور اس کا ایک بھائی ہے دو بچے ہیں ۔
میمونہ اداس مسکراہٹ سے اس کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی گئی ،مرد ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔
یہ تو بتاؤ بہن !،،،،،،اس عورت کے خاوند نے میمونہ سے پوچھا۔۔۔ تمہارا خاوند رات کے وقت قبرستان میں کیا کرنے گیا تھا ۔
امام نے اسے بھیجا تھا ۔۔۔میمونہ نے کہا ۔۔۔کہنا تو یہ چاہیے کہ اسے موت لے گئی تھی وہ ایک بچے کا خواہشمند تھا ۔
میمونہ نے ساری بات لفظ با لفظ سنا دی۔
کیا تمہارے خاوند نے کوئی اور باتیں بھی کی تھیں۔۔۔ اس شخص نے پوچھا ۔۔۔میں دراصل یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہارا خاوند اس شخص کو جانتا تھا جسے تم امام کہتی ہو۔
باتیں تو بہت ہوئی تھیں۔۔۔ میمونہ نے جواب دیا۔۔۔ میرا خاوند امام کو پہلے نہیں جانتا تھا، ہم مصر سے جہاز میں آ رہے تھے بڑا ہی تیز و تند طوفان آگیا، جہاز کا ڈوب جانا یا یقینی تھا، لیکن اس امام نے کہا کہ جہاز نہیں ڈوبے گا طوفان سے نکل جائے گا،،،،، جہاز نکل آیا۔
یہاں سے بات چلی تو بہت سی باتیں ہوئیں۔اس عورت کا خاوند کرید کرید کر باتیں پوچھ رہا تھا میمونہ کو شک ہوا کہ یہ آدمی کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتا ہے۔
میرے بھائی !،،،،،میمونہ نے پوچھا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے آپ کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے ہیں۔
ہاں بہن !،،،،اس نے کہا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ میں نے خاص بات معلوم کر لی ہے، میں تمہیں اس آدمی سے خبردار کرنا چاہتا ہوں اس شخص کا نام حسن بن صباح ہے اور یہ ایک شیطانی فرقہ کا بانی ہے، اسے تم امام کہتی ہو، یہ اگر امام ہے تو اس شیطانی فرقے کا امام ہے، اس کا استاد احمد بن عطاش ہے ،اور ان لوگوں نے خلجان کو اپنے فرقے کا مرکز بنایا ہے، یہ دونوں شیطان کا نام لیے بغیر لوگوں کو شیطان کا پجاری بنا رہے ہیں ،اور نام اسلام کا لیتے ہیں۔
میرے خاوند نے اس کے ساتھ یہ بات کی تھیں۔۔۔ میمونہ نے کہا ۔۔۔اور کہا تھا کہ وہ سلطان ملک شاہ اور حاکم رے ابومسلم رازی کے پاس جا رہا ہے، اور انہیں کہے گا کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے خلاف جنگی کارروائی کریں اور اسلام کی اصل روح کو بچائیں، میرے خاوند نے جب اسے یہ کہا کہ وہ آپ کا ہم نام ہے تو حسن بن صباح نے کہا کہ اس کانام احسن بن سبا ہے، حسن بن صباح نہیں ،میرے خاوند نے حسن بن صباح اوراسکے فرقے کے خلاف بہت باتیں کی تھیں، اور یہ اس نے دو تین بار کہا تھا کہ میں اس فرقے کو نیست و نابود کرا دوں گا۔
میری عزیز بہن !،،،،اس آدمی نے جو خاصا دانشمند لگتا تھا کہا ۔۔۔تمہارا خاوند قتل ہوا ہے، اتنی اچھی حیثیت اور عقل و ہوش والا آدمی یہ نہ سمجھ سکا کے مردے کسی زندہ انسان کو بچہ نہیں دے سکتے، اور حسن بن صباح جیسے شیطان فطرت انسان کی لکھی ہوئی پرچی پر اللہ تبارک و تعالی کسی کی مراد پوری نہیں کیا کرتا، حسن بن صباح نے تمہارے خاوند کی دلی مراد سنی تو اس نے فورا سوچ لیا کہ اپنے اس خطرناک مخالف کو وہ کس طرح قتل کر سکتا ہے، اس نے تمہارے خاوند کو آدھی رات کو قبرستان میں بھیجا اور پیچھے اپنے آدمی بھیج کر اسے قتل کروا دیا۔
میں بھی اس کے ساتھ یہی باتیں کر چکی ہوں۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔ اور مجھے اب خیال آتا ہے کہ اس نے مجھ سے یہ بھی اگلوا لیا ہے کہ میرے خاوند نے اصفہان میں اپنے رہائشی مکان کی ایک دیوار میں بہت سا سونا اور اچھی خاصی رقم چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔
اس نے کیا کہا تھا؟
اس نے کہا کہ میں تمہیں اصفہان تک اپنے آدمیوں کی حفاظت میں پہنچاوں گا ۔۔۔میمونہ نے کہا۔
وہ تمہارے ساتھ اپنے آدمی ضرور بھیجے گا۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔ پھر جانتی ہو کیا ہو گا ،تمہارے خاوند کا خزانہ دیوار سے باہر آ جائے گا اور تم دیوار کے اندر ہو گی ،کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ تم کہاں غائب ہو گئی ،اس حسن بن صباح کے حکم سے یہ فرقہ کئی سالوں سے قافلوں کو لوٹ رہا ہے، قافلوں سے یہ زر و جواہرات اور رقم لوٹتے ہیں اور خوبصورت کمسن اور نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں۔
میں ایک قافلے میں لُٹ چکی ہوں ۔۔۔میمونہ نے کہا۔۔۔ میرا پہلا خاوند ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا تھا اور وہ میری اکلوتی بیٹی کو اٹھا لے گئے ہیں ۔
تمھاری بیٹی انہی کے پاس ہوگی ۔۔۔اس آدمی نے کہا۔
سب باتیں ہو چکیں۔۔۔ میمونہ نے کہا ۔۔۔میں نے سب باتیں سمجھ لی ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ یہ شخص حسن بن صباح جب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو اس کا ایک ایک لفظ دل میں یوں اترتا جاتا ھے جیسے یہ لفظ آسمان سے اتر رہے ہو ،میں حیران ہوں کہ سلجوقی سلطان اور اس کے امراء جو اپنے آپ کو صحیح العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں اور اسلام کی پاسبانی کا بھی دعوی کرتے ہیں وہ بے خبر ہیں کہ ان کی سرحد کے ساتھ ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
ان کے بے خبر ہونے کی ایک وجہ ہے ۔۔۔اس شخص نے کہا۔۔۔ ان کے جاسوس ان باطل پرستوں کے علاقے میں جاتے ہیں لیکن وہاں ان پر ایسا نشہ طاری ہو جاتا ہے کہ وہ وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں ،ان میں سے بعض ان باطنیوں کے گرویدہ ہو کر ان کے جاسوس بن کے واپس آ جاتے ہیں ،وہاں کی باتیں غلط بتاتے ہیں اور سلجوقی حکمرانوں کی صحیح خبریں باطنیوں کو دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں ،ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو غداری نہیں کرتے دیانتداری سے جاسوسی کرتے ہیں، وہ وہاں پر اسرار طریقوں سے قتل ہوجاتے ہیں ،حسن بن صباح نے جاسوسوں اور مشکوک لوگوں کو پکڑنے کا جو نظام بنا رکھا ہے اس میں اتنی گہری نظر رکھتے ہیں کہ باہر کے جاسوس کو فوراً پہچان لیتے ہیں، انہیں حکم ملا ہوا ہے کہ ایسا کوئی بھی آدمی نظر آئے اسے قتل کر دو۔
آپ یہ ساری باتیں جانتے ہیں ۔۔۔میمونہ نے پوچھا۔۔۔ پھرآپ یہ سلطان ملک شاہ تک کیوں نہیں پہنچاتے ۔
ان بچوں کے خاطر۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔میں مارا گیا تو ان کا کیا بنے گا۔
میں مرو یا رے تک کیسے پہنچ سکتی ہوں؟،،،،، میمونہ نے پوچھا۔۔۔ پتہ چلا ہے میری بیٹی وہاں ہے، معلوم نہیں یہ کہاں تک سچ ہے، لیکن مجھے اس بیٹی سے اتنی محبت ہے کہ میں اس کی تلاش میں جاؤنگی ضرور، مشکل یہ ہے کہ میں اس شخص حسن بن صباح کی قیدی ہوں ،ہماری منزل کا راستہ دور سے گزرتا ہے اگر میں وہاں تک پہنچ جاؤں تو سلطان تک بھی پہنچ جاؤں گی ۔
تمہیں ویسے بھی یہاں سے نکل جانا چاہیے۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ اس شخص نے آخر تمہیں قتل کرنا ہے۔
میں اس عورت کے لئے ایک قربانی دے سکتا ہوں۔۔۔ اس آدمی کے بھائی نے جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا کہا۔۔۔ اگر یہ یہاں سے بھاگنے کے لیے تیار ہو تو آج ہی رات بھاگ چلے، میں اس کا ساتھ دوں گا، میرے پاس گھوڑا ہے اس کے لیے کسی کا گھوڑا چوری کر لیں گے ۔
ہمارے پاس کرائے کا گھوڑا ہے۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔۔ اور میں پکی سوار ہوں، گھوڑا کیسا ہی منہ زور کیوں نہ ہو ،زمیں کیسی ہی ناہموار کیوں نہ ہو، میں سنبھل کر ہر چال اور ہر رفتار پر سواری کر سکتی ہوں۔
کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں بھائی جان!،،،،،، اس جوان سال آدمی نے اپنے بھائی سے پوچھا۔
یہ ایک جہاد ہے ۔۔۔بڑے بھائی نے کہا۔۔۔ میں تجھے کیسے روک سکتا ہوں ،،،مزمل!
انہوں نے میمونہ کو فرار کرا کے رے پہنچانے کا بڑا ہی دلیرانہ منصوبہ تیار کرلیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میمونہ اپنے کمرے میں حسن بن صباح کے پاس چلی گئی۔
یہ کیسے لوگ ہیں جن کے یہاں تم اتنا وقت گزار آئی ہو۔۔۔ حسن بن صباح نے پوچھا ۔
کوئی عام سے لوگ ہیں ۔۔۔میمونہ نے کہا۔۔۔ اصفہان جا رہے ہیں ،حافظ اصفہانی کو جانتے تھے اسی کی باتیں کرتے رہے۔
اب میں باہر جا رہا ہوں ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ تم آرام کر لو ۔
حسن بن صباح کے جانے کے بعد میمونہ نے اپنی قیمتی چیزیں اور کپڑے چھوٹی سی ایک گٹھڑی میں باندھ کر پلنگ کے نیچے رکھ دیے، رات کو حسن بن صباح گہری نیند سو گیا تو میمونہ نے نہایت آہستہ نیچے سے گٹھڑی نکالی اور دبے پاؤں باہر نکل گئی، سب کے گھوڑے باہر بندھے ہوئے تھے ان کی زین وغیرہ ان کے پاس ہی تھیں، میمونہ کا ہمسفر مزمل آفندی بہت پہلے باہر نکل گیا تھا ،دن کے وقت اس نے میمونہ کا گھوڑا دیکھ لیا تھا ،مزمل نے دونوں گھوڑوں پر زین کس دی تھیں۔
میمونہ پہنچ گئی گٹھڑی اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھی اور گھوڑے پر سوار ہوگئی، مزمل آفندی بھی گھوڑے پر سوار ہوا اور دونوں گھوڑے چل پڑے، پہلے وہ آہستہ آہستہ چلے پھر تیز ہو گئے اور جو شہر کے دروازے سے نکلے تو اور تیز ہو گئے، کچھ دور جا کر انھوں نے ایڑ لگائی اور گھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے۔
صبح حسن بن صباح کی آنکھ کھلی تو اس نے میمونہ کو غائب پایا، اپنے ساتھیوں کے کمرے میں جا کر انہیں کہا کہ اسے ڈھونڈے۔
اس وقت تک میمونہ بغداد سے ساٹھ میل دور پہنچ چکی تھی۔
وہ سلجوقیوں کے پاس چلی گئی ہے۔۔۔حسن بن صباح نے اسوقت کہا جب اسے پتہ چلا کہ گھوڑا غائب ہے۔۔۔ ہم قافلے کا انتظار نہیں کریں گے ہمیں فوراً اصفہان پہنچنا چاہئے، وہاں سے خلجان کی صورت حال معلوم کرکے وہاں جائیں، احمد بن عطاش کو خبردار کرنا ضروری ہے۔
ان کے پاس دو اونٹ تھے، انہوں نے ایک اچھی نسل کا گھوڑا کرائے پر لے لیا اور اسی وقت روانہ ہوگئے، دونوں اونٹوں کا مالک اور گھوڑے کا مالک بھی ان کے ساتھ تھے۔
مزمل آفندی اور میمونہ اتنی تیز گئے تھے اور انہوں نے اتنے کم پڑاؤ کیے تھے کہ تین دنوں بعد رے پہنچ گئے، اور سیدھے امیر شہر ابومسلم رازی کے یہاں چلے گئے، دربان سے کہا کہ وہ امیر شہر سے ملنا چاہتے ہیں۔
کیا کام ہے ؟،،،،،دربار نے پوچھا۔۔۔ کہاں سے آئے ہو۔۔۔۔ تم ہو کون؟
کیا ہمارے گھوڑوں کا پسینہ نہیں بتا رہا کہ ہم بہت دور سے آئے ہیں۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔۔ ہمارے چہرے دیکھو ،ہمارے کپڑوں پر گرد دیکھو، امیر سے کہو ایک ماں اپنی بیٹی کی تلاش میں آئی ہے، کچھ ہی دیر بعد وہ اور مزمل ابومسلم رازی کے کمرے میں اس کے سامنے کھڑے تھے۔
بہت دور سے آئے لگتے ہو ۔۔۔ابومسلم رازی نے کہا۔
بغداد سے ۔۔۔مزمل نے جواب دیا۔
دربان نے بتایا ہے کہ تم اپنی بیٹی کی تلاش میں آئی ہو۔۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔کون ہے تمہاری بیٹی؟،،، یہاں اس کا کیا نام ہے۔ اس کا نام شمونہ ہے۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔۔۔کسی نے بتایا تھا وہ یہاں ہے۔
ہاں!،،،،، ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ وہ یہیں ہے ۔
اس نے دروازے کے باہر کھڑے خدمتگار کو بلا کر کہا شمونہ کو لے آؤ ۔
جب ماں بیٹی کا آمنا سامنا ہوا تو کچھ دیر دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔
اپنی ماں کو پہچانتی ہو شمونہ؟،،،، ابومسلم رازی نے کہا ۔
ماں بیٹی یوں ملیں جیسے ایک دوسرے کے وجود میں سما جانے کی کوشش کر رہی ہوں۔
ماں اپنی بیٹی کے بازو سے نکل آئی اور ابو مسلم رازی کی طرف دیکھا۔
میں صرف اس بیٹی کی تلاش میں نہیں آئی تھی امیر شہر!،،،،، میمونہ نے کہا ۔۔۔میرا اصل مقصد کچھ اور ہے، کیا آپ حسن بن صباح کو جانتے ہیں ؟
حسن بن صباح !،،،،،ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ کیوں ؟،،،،،،اسے جانتا ہوں،،،، سلطان معظم نے اسے زندہ پکڑ لانے کے لئے ایک سالار امیر ارسلان کو حکم دے دیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>