ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الانفال آیت نمبر 24
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ وَ اَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۲۴﴾
ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی دعوت قبول کرو، جب رسول تمہیں اس بات کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ (١٣) اور یہ بات جان رکھو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے (١٤) ۔ اور یہ کہ تم سب کو اسی کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا۔
تفسیر: 13: اس مختصر جملے میں بڑی عظیم حقیقت بیان فرمائی گئی ہے، اول تو اسلام کی دعوت اور اس کے احکام ایسے ہیں کہ اگر ان پر تمام انسان پوری طرح عمل کرنے لگیں تو اسی دنیا میں وہ پر سکون زندگی کی ضمانت دیتے ہیں، عبادات کے علاوہ جو روحانی سکون کا بہترین ذریعہ ہیں، اسلام کے تمام معاشرتی معاشی اور سیاسی احکام دنیا کو نہایت خوشگوار زندگی فراہم کرسکتے ہیں، دوسری طرف زندگی تو اصل میں آخرت کی ابدی زندگی ہے، اور اس کی خوشگواری تمام تر اسلامی احکام کی پیروی پر موقوف ہے، لہذا اگر کسی کو اسلام کا کوئی حکم مشکل بھی محسوس ہو تو اسے یہ سوچنا چاہیے کہ میری خوشگوار زندگی کا دارومدار اس پر ہے، جس طرح انسان زندگی کے خاطر بڑے سے بڑے اور مشکل آپریشن کو منظور کرلیتا ہے اسی طری شریعت کا ہر وہ حکم جس میں محنت یا مشقت معلوم ہوتی ہے یا نفسانی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہو اس کو بھی خندہ پیشانی سے منظور کرنا چاہیے ؛ کیونکہ اس کی حقیقی زندگی کا دارومدار اس پر ہے 14: اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں حق کی طلب ہوتی ہے اگر اس کے دل میں کبھی گناہ کا تقاضا پیدا ہو، اور وہ طالب حق کی طرح اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے مدد مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور گناہ کے درمیان آڑ بن جاتے ہیں اور وہ گناہ کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو اسے توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے، اسی طرح اگر کسی کے دل میں حق کی طلب نہ ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کرتا ہو تو اگر کبھی اس کے دل میں نیک خیال آبھی جائے اور وہ اسے ٹلا تا چلا جائے تو اسے نیکی کی توفیق نہیں ملتی، کچھ نہ کچھ اسباب ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ اس کے دل میں جو خیال آیا تھا وہ کمزور پڑجاتا ہے اس پر عمل کا موقع نہیں ملتا، اسی لئے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جس کسی نیکی کا خیال آئے تو اسے فوراً کر گزرنا چاہیے، ٹلانا خطرناک ہے۔