تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک بدو کی دلہن ️کو جس گھوڑے پر بٹھا کر لوگ لائے تھے ۔دلہن کے گھوڑے سے اترتے ہی اس بدو نے اس گھوڑے کی تلوار سے گردن الگ کردی۔۔۔۔
لوگوں نے اس سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری بیوی کے اترنے کے فورا بعد ہی کوئی اور اس کی پیٹھ پر بیٹھ جائے اور دلہن کی سواری کی وجہ سے تاحال گھوڑے کی پیٹھ گرم ہو اور کوئی غیر مرد اس حرارت کو محسوس کر لے۔۔۔۔
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا کہ اس کے ذمہ میرے حق مہر کے500 دینار ہیں۔۔۔۔
عدالت نے شوہر کو بلا کر پوچھا تو اس نے انکار کر دیا۔۔۔۔
عدالت نے گواہوں کو طلب کیا اور ان سے گواہی لیتے وقت عورت کا چہرہ پہچاننے کے لئے عورت کو نقاب اتارنے کا کہا۔۔۔۔
اس پر اس کا شوہر جلدی سے کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ قاضی صاحب ۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھ پر میری بیوی کے 500 دینار لازم ہیں ۔ بس آپ اس کا نقاب نہ اتروائیے ۔۔۔۔
یہ سن کر بیوی کہنے لگی کہ قاضی صاحب آپ اور تمام حاضرین گواہ رہیں کہ میں نے اپنا حق مہر معاف کر دیا ان کو ۔۔۔۔
قاضی بے چارہ حیران و پریشان کہ یہ ہو کیا رہا ہے ۔۔۔۔
خیر ان میاں بیوی کے جانے کے بعدقاضی نے محرر سے کہا کہ اس کیس کی الگ فائل بناو اور نام لکھو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"مرد کی غیرت "۔۔۔۔
علامہ ابن قیم فرما تے ہیں کہ " انسان کے دل میں غیرت ہوتی ہے ۔اور اگر غیرت نہ ہو تو اس دل میں محبت ہو ہی نہیں سکتی ۔اور محبت سے خالی دل میں ایمان اور دین کیسے باقی رہ سکتے ہیں۔۔۔۔
المیہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں حوا کی بیٹی اود عصمت مسلم کو بلا روک ٹوک نیم برہنہ کرنے پر امت فخر کر رہی ہے اور اسلام کا وقار چند ٹکوں کی بھینٹ چڑ چکا ہے ۔۔۔۔
سو محبت کیجئے حلال کیجئے ۔۔۔۔
اسلامی غیرت و حمیت کا جنازہ نکالنے سے پرہیز کیجئے۔ ۔۔۔