🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
طلیطلہ میں خوب چہل پہل ہو رہی تھی -
قریب قریب تمام اسلامی لشکر وہاں آ گیا تھا -
عبدالعزیز بهی بمعہ اپنے لشکر کے آ گئے تھے -
چونکہ مسلمان بہت زیادہ خلیق تهے، اس لیے نہ صرف عیسائی بلکہ یہودی بھی بے دھڑک ان کے پاس آتے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے -
اندلس کے یہودی مال دار تھے -
ان کی دولت کی وجہ سے اس ملک کے عیاش اور بد راہ عیسائی حکمران بھی ان کے دشمن تھے اور وہ انہیں طرح طرح سے لوٹتے رہتے تھے -
عیسائیوں کی حکومت میں یہودیوں کی کوئی وقعت نہیں تهی -
ہر عیسائی ہر یہودی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا -
جو کیفیت ہندوستان میں اچھوتوں کی ہے وہی اندلس میں یہودیوں کی تھی-
نہ کوئی ان کی عزت تھی اور نہ ہی کوئی عیسائی انہیں اپنے پاس بیٹھنے دیتا تھا مگر جب سے اندلس پر مسلمان قابض ہوئے تھے اس وقت سے یہودیوں نے اطمینان کا سانس لیا تھا اور انہیں تمام انسانی حقوق حاصل ہو گئے تھے -
ان کی کھوئی ہوئی عزت واپس مل گئی تھی اور وہ بهی احترام کی نظر سے دیکھے جانے لگے تھے -
مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھ دیکھ کر بہت سے عیسائیوں اور یہودیوں نے اسلام قبول کر لیاتها -
اور مسلمان ہونے سے ان کی عزت و وقار مسلمانوں جیسی ہو گئی ہے چونکہ تمام مسلمان ان کا احترام کرنے تهے اس لیے عیسائی اور یہودی بھی نو مسلموں کا احترام کرنے پر مجبور تھے -
طلیطلہ کی کثیر آبادی مسلمان ہو گئی تھی اور جو یہود یا عیسائی باقی رہ گئے تھے وہ رفتہ رفتہ مسلمان ہوتے چلے گئے.
راحیل اپنے باپ کے ساتھ ملاگا سے آ گئی تھی اسے خود طارق نے بلایا تھا وہ مسلمانوں کا بے حد شکر گزار تها امامن اور وہ دونوں ایک ہی جگہ پر رہتے تھے اور ان کی پری زادیاں بهی ان کے ساتھ تهیں -
عبدالعزیز کے طلیطلہ میں آنے سے پہلے ہی وہ دونوں مع اپنی سیم تن لڑکیوں کے مسلمان ہو گئے تھے طارق اور موسیٰ کے ساتھ محل میں رہتے تھے -
شاہ رازرق کا یہ محل نہایت وسیع تھا -
اس میں سینکڑوں کمرے تھے -
کچھ کمروں میں موسیٰ کچھ میں طارق اور کچھ میں دوسرے افسران تهے -
چند کمرے نائلہ کے تحت میں تهے، عبد العزیز بھی وہیں آ کر مقیم ہو گئے -
اب مسلمانوں کا اندلس پر اچھی طرح سے تسلط ہو گیا تھا -
مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک فرزندان توحید کا قبضہ ہو گیا تھا -
ایک روز کونٹ جولین اور اشبیلیا کا راہب دونوں موسیٰ کے پاس آئے اور موسیٰ نے ان کا ان کے شایان شان استقبال کیا-
کونٹ جولین بولا میں آپ کو اندلس کی فتح پر مبارکباد دینے حاضر ہوا ہوں-"
موسیٰ :ہم بھی تمہارے مشکور ہیں -
جولین: اندلس کے مظلوم باشندے آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے انہیں ایک بدکار عیاش اور ظالم بادشاہ سے نجات دلا کر ان پر احسان کیا ہے.
موسیٰ :کہیے اب تو آپ کے انتقام کی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے؟
جولین : جی ہاں جیسا میں چاہتا تھا ویسا ہی لیا گیا-
آج نہ رازرق ہے نہ اس کے مغرور دسیسہ کار مشیر ہیں جو رو جبر کا دور ختم ہو گیا ہے اور امن کا زمانہ آ گیا ہے-
تمام یہودی اور عیسائی آپ کے عدل و انصاف اور خلق و مروت کے مداح ہیں -
موسیٰ :یقین ہے کہ آپ کے عدل و انصاف اور خلق و مروت کے مداح ہیں -
موسیٰ :یقین ہے کہ اب آپ کی بیٹی فلورنڈا کا ملال بھی ختم ہو گیا ہو گا -
جولین : جی ہاں اب وہ مسرور ہے اور آپ کو دعائیں دیتی ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ میری اعانت نہ کرتے تو شاید وہ بد معاش و عیاش بادشاہ رازرق سے انتقام نہ لے سکتا اور شاید اس انتقام کی دہکتی ہوئی آگ میں خود بھی جھلس کر رہ جاتا-
موسیٰ :میں تم کو سیوطا کی گورنری پر بدستور مقرر رکهنے کی سند دیتا ہوں.
جولین : آپ کی اس مہربانی کا شکریہ.
موسیٰ نے اسے سند گورنری لکھ کر حوالے کر دی اور وہ خوش ہو کر چلا گیا-
جس روز کونٹ جولین واپس آ گیا اس کے دوسرے دن نائلہ اپنے کمرے کے سامنے بیٹھی تھی کہ عبدالعزیز آ گئے انہیں دیکھتے ہی اس کا چہرہ چمکنے لگا وہ ان کے استقبال کے لئے اٹهہ کھڑی ہوئی-
عبدالعزیز بیٹھ گئے مہوش نائلہ ان کے سامنے بیٹھ گئی-
عبدالعزیز نے کہا-"اللہ کا شکر ہے کہ میں نے پهر تم کو دیکھا-"
نائلہ نے مسکرا کر کہا :گویا آپ مجھے ہر وقت یاد کرتے رہتے تھے -
عبدالعزیز :یہ سچ ہے.
نائلہ :بس رہنے دیجئے.
عبدالعزیز :کیا تم مجھ سے ناخوش ہو؟
نائلہ:نہیں بلکہ مجھے ایسی باتیں بنانا پسند نہیں!
عبد العزیز :گویا میں باتیں بنا رہا ہوں؟
نائلہ :نہیں بلکہ صحیح کہہ رہے ہیں آپ!
عبد العزیز :اللہ کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوں ہر وقت تمہاری پیاری صورت میری آنکھوں کے سامنے رہتی تھی -ہر دم تمہاری یاد میرے دل میں چٹکیاں لیتی رہتی تھی -
نائلہ :اسی لیے آپ آتے ہی مجھے ملنے چلے آئے ہیں؟
عبدالعزیز :طلیطلہ میں آنے کے دو روز بعد ملنے آئے تھے اسی وجہ سے اس نے طعنہ دیا تھا -
عبدالعزیز :میں تو اسی روز آ رہا تھا مگر_______!!
نائلہ :مگر کیا؟
عبدالعزیز :ہمت نہیں ہوئی.
نائلہ :تو آج کیسے آ گئی ہمت.
عبدالعزیز :آج دل کو مضبوط کر کے آیا ہوں -
نائلہ :اس روز بھی دل مضبوط کر سکتے تھے -
عبدالعزیز :بہت کیا مگر نہ ہو سکا-
نائلہ :آپ ایسے کچ دلے کیوں ہیں؟
عبدالعزیز :حیرت تو یہی ہے کہ میں کچدلا بهی نہیں ہوں مگر تمہارے سامنے آتے ہوئے______!!
نائلہ :یہی بات مجھے پسند نہیں ہے -
عبدالعزیز :مگر یہ باتیں نہیں حقیقت ہے.
نائلہ :مجھے بنائیں نہیں.
عبدالعزیز :اگر میرے امکان میں ہوتا تو میں تم کو ضرور بنا دیتا!
نائلہ نے جادو نگار آنکهیں اٹها کر قدرے مسکرا کر کہا - کیا بنا دیتے آپ مجھے؟ ؟
عبدالعزیز :میں تمہیں مسلمان بنا دیتا !
نائلہ :مجھے مسلمان بنا دیتے تم یہودی کیوں نہیں بن جاتے؟
عبدالعزیز :اس لئے کہ عیسائیوں نے انجیل مقدس کو بدل ڈالا ہے اب عیسائیوں کا وہ مذہب نہیں رہا جو حضرت عیسٰی علیہ السلام لے کر آئے تھے -
نائلہ :آپ نے کیسے جانا؟
عبدالعزیز :کیا تم نے کبھی اللہ کو دیکھا ہے؟
نائلہ :نہیں.
عبدالعزیز :پهر اللہ کسی انسان کا باپ کیسے ہو سکتا ہے؟
نائلہ :آپ جانتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے باپ نہیں تهے -
عبدالعزیز :میں جانتا ہوں مگر تم یہ بھی جانتی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ؟
نائلہ :جی ہاں!
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبد العزیز :تو سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کر کے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا تھا -
اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا باپ نہیں بلکہ کسی اور کا بھی نہیں وہ اکیلا ہے اور کوئی اس کی وحدانیت میں اس کا شریک نہیں ہے -
اللہ نے خود ہمارے محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
ترجمہ :
کہو وہ اللہ ایک ہے○ اللہ بےنیاز ہے○نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا○اور اس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
نائلہ :مگر اس گفتگو کا منشاء کیا ہے؟
عبدالعزیز :یہی کہ تم مسلمان ہو جاو-
نائلہ :مگر آپ عیسائی نہیں ہو سکتے؟
عبدالعزیز :نہیں ایک مسلمان کسی قیمت پر اپنا دین نہیں چهوڑتا.
نائلہ :مگر آپ کو تو محبت کا دعویٰ ہے؟
عبدالعزیز :وہ بالکل صحیح ہے مجھے تم سے بے تحاشا محبت ہے.
نائلہ :مگر محبت تو مذہب سے بالاتر ہے اس لیے مذہب کو چهوڑتا پڑتا ہے.
عبدالعزیز :نہیں بلکہ مذہب محبت سے کہیں بڑھ کر ہے اس لیے محبت کے لئے مذہب کو نہیں چھوڑا جا سکتا.
نائلہ :کیوں؟
عبدالعزیز :اس لئے کہ محبت زندگی کے ساتھ ساتھ ہے اور زندگی فانی ہے محبت بهی فانی ہے مگر مذہب غیر فانی ہے مرنے کے بعد مذہب ہی کام آئے گا اور مذہب ہی جنت میں لے جائے گا -
نائلہ :اچھا آپ اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے میں چهوڑ دوں گی -
میں محبت کے لئے قربانی دوں گی عیسائی سے مسلمان بن جاؤں گی -
عبدالعزیز :تب تو مسلمان ہونا فضول ہے،
نائلہ :کس لئے.
عبدالعزیز :اس لئے کہ جبر یا کسی لالچ سے مسلمان ہونا درست نہیں-
نائلہ :اور؟
عبدالعزیز :اسلام کو سچا مذہب سمجھ کر مسلمان ہونے کا فائدہ ہے-
نائلہ :مگر میں اسلام کو سچا مذہب مانتی ہوں اگر یہ مذہب سچا نہ ہوتا تو کبھی مسلمان اندلس کو فتح نہیں کر سکتے تھے اور آپ میری خاطر عیسائی ہو سکتے تھے -
عبدالعزیز :جب تو تم مسلمان ہو جاو -
نائلہ :آپ مجھے مسلمان کر لیں.
عبدالعزیز :نے اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیا اور اسی روز سے اس کے مسلمان ہونے کی اطلاع اپنے باپ موسیٰ کو دے دی ۔ موسیٰ کو معلوم ہو گیا تھا کہ عبدالعزیز نائلہ سے اسمٰعیل بلقیس سے اور طارق راحیل سے محبت کرتے ہیں-
انہوں نے اپنی طرف سے ان تینوں کی شادی کے پیغام بهیجوائے جو کہ منظور کر لئے گئے اور ان تینوں کی شادیاں عین اسلامی اصول کے مطابق نہایت سادہ طریقہ پر کی گئیں.
عبدالعزیز نے نائلہ کو امالسم کا خطاب دیا-
امالسم کے معنی ہیں خوش نما طوق والی حسینہ.
طارق نے راحیل کو اندلس کی نازنین کا خطاب دیا اور اسمٰعیل نے بلقیس کو اسپین کا ماہتاب بنا دیا-
حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں تهیں بهی نہایت حسین و جمیل-
ان میں سے دو یہودی مہ جبین تهیں اور ایک عیسائی نازنین-
شادی ہونے کے بعد یہ تینوں جوڑے نہایت آرام سے زندگی بسر کرنے لگے -
تو
قارئین
یہ تهی اندلس کی خون ریز جنگ جس نے مسلمانوں کو سارے اسپین کا مالک بنا دیا تھا -
مسلمان جس ملک میں گئے وہیں قائم مقام رہے اور اس ملک کو اپنا وطن سمجھ کر اس میں عدل و انصاف اور علم و ہنر کے دریا بہا دئیے.
اندلس میں مسلمانوں نے ایسی ایسی ایجادات اور اختراعات کیں کہ دنیا حیران رہ گئی اور آج تک ان کا تذکرہ تاریخ میں محفوظ ہے
اور
اس
طرح
اندلس میں اسلامی تاریخ کا دور شروع ہوا.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ختم شُد۔۔۔