فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 45═(تدمیر کی دانشمندی)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تدمیر کی ہوشیاری کا تذکرہ تمام تاریخوں میں مذکور ہے-
عیسائی اور عربی مورخین نے بالتفصیل اسے لکھا ہے اور اس کی ہوشیاری پر اسے داد دی ہے -
اس میں شک نہیں کہ اس نے نہایت جرات اور ہمت سے کام لیا-
دشمنوں کے بیچ میں اس طرح چلے آنا نہایت شجاعت و بسالت کا کام. عبدالعزیز اور ان کے پاس بیٹھ والے مسلمان بھی اس کی ہوشیاری اور ہمت کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے-
عبدالعزیز نے اس سے کہا-"تدمیر اس میں شک نہیں کہ تم نہایت دانائی اور بڑی جرات سے کام لیا ہے مگر اس کے باوجود کچھ بیوقوفی بھی کی ہے-"
تدمیر : وہ کیا؟ "
عبدالعزیز: تم خوب جانتے ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ تم نے آ کر مقابلہ کیا تھا-
تدمیر : ہاں میں جانتا ہوں!
عبد العزیز: اور تم نے اسمٰعیل کو گرفتار کیا تھا-
تدمیر : جی ہاں!
عبد العزیز پهر تم نے شاہ رازرق کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کی.
تدمیر : بے شک یہی درست ہے-
عبدالعزیز پهر تم نے میرے لشکر کے ساتھ مقابلہ کیا.
تدمیر : یہ تو کل کی بات ہے -
عبدالعزیز کیا تمہاری ان باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم سب تمہارے خون کے پیاسے نہیں؟
تدمیر : بے شک ہیں -
عبدالعزیز تو کیا دشمنوں کے نرغے میں اس طرح چلے آنا اور اپنے آپ کو ظاہر کر دینا عقل مندی ہے؟
تدمیر : مگر آپ جانتے ہیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا!
عبد العزیز :نہیں.
تدمیر : تو مجھ سے سنئے مجھے بالکل یقین ہو چکا ہے کہ مسلمان صادق القول اور عہد پورا کرنے والے ہیں چنانچہ صلح کی دستاویزات مکمل ہو گئی تو میں نے ایسا کر دیا -
عبدالعزیز :اچھا اب دستاویزات لے کر اس پر دستخط کر کر دو.
تدمیر :نے دستخط کر دیئے اور کہا کہ مہربانی کر کے اس کی ایک نقل مجھے بھی دے دیجئے-'
عبدالعزیز :اچھا، انہوں نے اس کی ایک نقل کرا کے اس کے حوالے کی اس نے کہا اب ہم آپ کی دعوت کرنا چاہتے ہیں.
عبدالعزیز: ہمیں منظور ہے لیکن اگر تم نے کوئی فریب دیا تو؟
تدمیر : اطمینان رکھئے میں فریب کر ہی نہیں سکتا!
عبد العزیز :کس وجہ سے؟
تدمیر :آپ وجہ کل قلعہ میں آ کر معلوم ہو جائے گی!
عبد العزیز :مگر ہم شرط پر قلعہ کے اندر جا سکیں گے.
تدمیر : کس شرط پر؟
عبدالعزیز :تم قلعہ کے تمام دروازے کھلے رکھو گے -
تدمیر : مجھے منظور ہے دروازے صبح ہی کهلوا دوں گا -
عبدالعزیز : بہت اچھا اب ہم کو دعوت منظور ہے.
تدمیر نے اٹھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ غلام نے آ کر کہا حضور کهانا تیار ہے لہٰذا کها کر جائیے گا -
تدمیر : بہت بہتر-
تهوڑی دیر میں غلام کهانا لا کر چن دیا کهانا نہایت سادہ تها -
دونوں نے دوستوں کی طرح بیٹھ کر کهانا کهایا کهانا کها کر تدمیر اٹها سلام کر کے چلا گیا-
اس کے جاتے ہی عبدالعزیز نے عثمان حبیب اور ادریس کے پاس قاصد روانہ کر دیا کہ تدمیر کے ساتھ صلح ہو گئی ہے تینوں سردار اپنا اپنا لشکر لے کر خیموں میں واپس آ گئے.
چونکہ اب صلح ہو گئی تھی اس لیے مسلمانوں نے کمریں کهول دیں ہتھیار اتار لئے اور کهانا کها کر میدان میں پھیل گئے-
وہ دس بیس آدمیوں کے گروہوں میں تقسیم ہو کر جگہ جگہ سبزہ زار پر بیٹھ گئے اور مختلف کاموں میں مصروف ہو گئے.
وہ دن انہوں نے قلعہ کے باہر کھلے میدان میں گزارا.
دوسرے دن آفتاب نکلتے ہی قلعہ کے تمام دروازے کهل گئے اور کچھ ہی دیر میں تدمیر چند سواروں کے ساتھ پھاٹک سے نکل کر اسلامی لشکر کی طرف چلا -
مسلمانوں نے پھاٹک کھلتے اور اسے آتے ہوئے دیکھ لیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبدالعزیز نے مسلمانوں کو اس کی دلیری اور ہوشیاری کا واقعہ سنایا.
چونکہ مسلمان بہادر تھے اس لیے وہ بہادروں کی قدر و منزلت کرتے تھے -
چنانچہ وہ اس کے استقبال کے لئے تیار ہو گئے اور انہوں نے خیمہ سے باہر نکل کر اس کا پر تپاک خیر مقدم کیا-
تدمیر مسلمانوں کے اس طرح استقبال کرنے سے نہایت خوش ہوا اور اس نے خلوص دل سے ان کا شکریہ ادا کیا. عبدالعزیز بهی اسے لینے کے لیے چند قدم آئے تھے وہ انہیں دیکھتے ہی گھوڑے سے اتر پڑا.
اس کے ساتھ ہی اس کے ساتهی بھی اتر آئے اور سب نے عبدالعزیز کو سلام کیا اور خیمہ پر پہنچے اور خیمے کے باہر ہی فرش پر بیٹھ گئے-
تدمیر نے کہا شریف فاتح آپ نے اس وقت میرا استقبال کر کے میرے دل میں اپنی عزت و وقار کا جب ہی پیدا کر دیا ہے ۔
عبدالعزیز نے کہا مسلمان اخلاق کا پتلا ہے-
ہمیں ہمارے محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش اخلاقی کی تلقین کی ہے-
اس لیے ہر مسلمان ہر انسان کے ساتھ خلق و مروت سے پیش آتا ہے-
جو مسلمان خلیق نہیں اس کا ایمان مکمل نہیں.
کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ہم پیرو کار ہیں دنیا ان کے اخلاق حسنہ کی مداح ہے، ہم دنیائے جہاں کو تلوار کے زور سے مطیع نہیں کرنا چاہتے بلکہ حسن خلق سے حلقہ بگوش اسلام کرنا چاہتے ہیں.
تدمیر :یہی وجہ ہے کہ عیاش آپ کو دشمن سمجھتے ہوئے بھی آپ کی طرف جهکے ہیں -
عبدالعزیز :یاد رکھئے تلوار کے زور سے فتح کیا ملک اسی وقت تک قبضہ میں رہتا ہے جب تک کہ اس کے باشندوں کے سروں پر تلوار لٹکتی رہتی ہے اور خلق و مروت سے فتح کیا ہوا ملک ہمیشہ مطیع رہتا ہے
تدمیر :یہی بات ہے - اچھا کیا اب آپ میرے ساتھ قلعہ میں تشریف لے چلیں گے؟
عبدالعزیز :میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے ضرور چلوں گا -
تدمیر :چلئے!
عبد العزیز نے حبیب، ادریس دوسرے چند سرداروں اور سو سواروں کے ہمراہ تدمیر کے ہمراہ قلعہ کی طرف چلے -
انہوں نے قلعہ کے قریب پہنچ کر یہ دیکھ لیا کہ آج تمام فصیلیں خالی تهیں -
ایک سپاہی بھی نظر نہیں بهی نہیں تھا نظر آ رہا.
عبدالعزیز کو اندیشہ ہوا کہ کہیں تدمیر نے کوئی فریب دینے کا قصد نہ کیا ہو لیکن انہوں نے اس کی دعوت منظور کر لی تھی اس لیے اب وہ رد نہ کر سکتے تھے -
چنانچہ باوجود یہ اندیشہ لاحق ہونے کے وہ اس کے ساتھ نہایت اطمینان سے چلے جا رہے تھے -
جب وہ پھاٹک کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ نہایت عالی شان اور مضبوط پھاٹک تها قلعہ کا.
وہ دروازہ عبور کر کے اندر داخل ہوئے.
ان کے قلعہ میں داخل ہوتے ہی نہایت سریلے ساز بجنے لگے انہوں نے دیکھا کہ باجا کم سن لڑکیاں بجا رہی تهیں -
تمام لڑکیاں نہایت حسین اور اچھی پوشاکیں پہنے ہوئے تهیں.
باجے کی سریلی آواز کانوں کے ذریعے سے دلوں پر اترتی جا رہی تھی -
عبدالعزیز اور مسلمانوں نے صرف ایک نظر انہیں دیکھا اور اپنی نظریں فورا جھکا لیں-
تدمیر ان کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا خیال تھا کہ وہ ان مہوشوں کو دیکھ کر ان کے گرویدہ ہو جائیں گے مگر جب اس نے انہیں نظر جھکاتے ہوئے دیکھا تو ان کے زہد و تقویٰ کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکا-
عبدالعزیز نے اس سے کہا ہمارے مزہب میں گانا سننا جائز نہیں اس لئے مہربانی کر کے اسے بند کروا دیں.
تدمیر نے کہا بہت اچھا ۔ تدمیر باجا بند کرا دیا تمام مسلمان تدمیر کے ہمراہ چلتے رہے لیکن انہیں وہاں ایک بهی سپاہی نظر نہ آتا تھا تدمیر کچھ سمجھ گیا اس نے دریافت کیا ۔
کیا دیکھ رہے ہو؟
عبدالعزیز :میں اس لشکر کو دیکھ رہا ہوں جو کل فصیل پر کهڑا تھا -
تدمیر نے مسکرا کر کہا : میں نے اسے رخصت کر دیا ہے صلح کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی.
عبدالعزیز :لیکن میں نے تو ایک سپاہی کو قلعہ کو بھی قلعہ سے نکل کر باہر جاتے ہوئے نہیں دیکھا!
تدمیر :ان میں سے کوئی بھی باہر نہیں گیا.
عبدالعزیز :تو سب کہاں چلے گئے ہیں؟
تدمیر :قلعہ کے اندر ہی ہیں لیکن وہ سپاہی نہیں تهے.
عبدالعزیز :اور کون تھے؟
تدمیر: یہ بات بھی آپ کو معلوم ہو جائے گی!
وہ چلتے رہے بازاروں سڑکوں پر عیسائی عورتوں کا اژدہام تھا -
مرد بھی تهے مگر بہت کم البتہ عورتیں بہت زیادہ تهیں وہ ان بہادر فاتحین کا خوش ہو ہو کر استقبال کر رہیں تھیں
کچھ دور چل کر انہوں نے سپاہیوں کا ایک دستہ دیکھا تقریباً پانچ سو سپاہی تھے لیکن سب کے قد زرا چھوٹے تھے -
جب مسلمان ان سپاہیوں کے پاس پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ سب نازک اندام عورتیں تھیں 
انہوں نے مردانہ لباس پہن رکهے تهے اور ہتھیار لگائے مردوں کی طرح تنے ہوئے کھڑی تھیں 
عبدالعزیز نے پوچھا-
کیا یہی لشکر ہے جو فصیل پر متعین تھا؟
تدمیر جی ہاں !
جب میں قلعہ کے اندر آیا تو میں نے دیکھا کہ مرد بہت کم ہیں اور سپاہی تو دو سو سے بھی زیادہ نہیں تهے.
چنانچہ میں نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہی کیا کہ عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر ان کے بالوں کے چہرے کے گرد اس طرح لپیٹ دیا کہ وہ ڈاڑھی معلوم ہو یہی میرا لشکر تها جسے میں نے رخصت کر دیا ہے.
اور خود بهیس بدل کر قاصد کا روپ لے کر آپ لوگوں کے پاس پہنچ گیا.
تمام مسلمان تدمیر کی دانش مندی دیکھ کر نہایت مسرور ہوئے عبدالعزیز نے کہا" حقیقت یہ ہے کہ تم نہایت ہوشیار اور دور اندیش ہو-
تم نے عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر اور خود بهیس بدل کر قاصد بنا کر خود کو ہمیں مغالطہ دیا تمہاری یہ دانش مندی تمہارے ملک کو بچا لے گئی-
تدمیر صرف میری دور اندیشی ہی نہیں بلکہ آپ کی انصاف پسندی نے بچایا ہے اگر آپ کل میرے ظاہر ہونے پر مجھے پکڑ کر قتل کر ڈالتے تو ملک پر آپ کا قبضہ ہو جاتا-
عبدالعزیز: مگر میں مسلمان ہوں اور مسلمان عہد کر کے توڑتے نہیں.
تدمیر : مجھے معلوم تھا اسی لیے میں نے جرات کی تهی آنے کی.
اب یہ قصر شاہی کے سامنے جا رکے اور گھوڑوں سے اتر کر محل میں داخل ہو گئے -
کچھ دیر بیٹھے پهر کهانا کهایا کهانا کها کر واپس لوٹ آئے-
دوسرے روز تدمیر نے زر جزیہ مع گیہوں اور جو کے پیمانوں کے پیش کیا-
مسلمانوں نے تمام چیزیں سنبھالیں اور اگلے ہی روز وہاں سے کوچ کر کے طلیطلہ کی طرف روانہ ہوئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی