🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبدالعزیز اور اس کے لشکر نے رات نہایت اطمینان سے گزاری-
چونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں عیسائی رات کو قلعہ سے باہر نکل کر شب خون نہ ماریں، اس لیے ایک بڑا دستہ پہرے پر مقرر کر دیا گیا اور وہ ساری رات گشت کرتا رہا-
صبح ہونے ہی سب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑهی اور نماز پڑھتے ہی مسلح ہو کر قلعہ کی طرف چلے-
ابهی وہ فصیل کے قریب بھی نہ پہنچے تھے کہ عیسائیوں کا ٹڈی دل لشکر چاروں طرف فصیل کے اوپر پھیل گیا-
عبدالعزیز اور تمام مسلمان حیران تھے کہ قلعہ کے اندر اس قدر لشکر ہوتے ہوئے تدمیر اتنا تھوڑا لشکر لے کر ان کے مقابلے کے لئے کیوں آیا تھا؟ "
عیسائیوں کے سپاہی چاروں طرف فصیل پر کھڑے تھے اور اس قدر تهے کہ ان کا شمار نہ ہو سکتا تھا -
کم سے کم دس پندرہ ہزار ہوں گے-
مسلمانوں کو یہ بھی حیرت تھی کہ تدمیر اتنا عظیم لشکر رکھتے ہوئے محصور ہو کر کیوں لڑ رہا تھا، جو شخص صرف چار ہزار سپاہیوں سے مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے وہ دس پندرہ ہزار لشکر کے ہوتے ہوئے کیوں نہیں لڑ رہا.
کچھ دیر مسلمانوں نے کھڑے ہو کر اس بات کا انتظار کیا کہ عیسائیوں کی طرف سے جنگ کا آغاز ہو تو وہ بھی لڑائی شروع کریں.
لیکن عیسائی سپاہی تھے کہ خاموش کھڑے تھے کمانیں ان کے ہاتھوں میں تهیں اور ان میں تیر جڑے ہوئے تھے غالباً وہ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ جونہی مسلمان آگے بڑھیں وہ تیروں کی بارش کر دیں-
تهوڑی انتظار کے بعد عبدالعزیز نے اللہ اکبر کے تین نعرے لگائے تیسرے نعرے کی تکرار تمام لشکر نے کی-
اب مسلمانوں نے ہر طرف سے بڑھنا شروع کر دیا عبدالعزیز باب جبل پر تهے جو شمالی جانب تھا -
جنوب کی طرف عثمان اور مغرب کی سمت حبیب بن عبیدہ اور مشرق کی طرف ادریس بن میسرا تهے -
یہ تینوں سردار نہایت پر جوش اور تجربہ کار تھے -
متعدد لڑائیوں میں شریک ہو کر فتح یاب ہو چکے تھے -
مگر بڑے استقلال اور نہایت ضبط سے انہوں نے ڈھالوں کا سایہ کر کے اپنے آپ کو اور گھوڑوں کو محفوظ کر لیا تھا-
عبدالعزیز گھوڑے پر سوار ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے میں تلوار بلند کیے سب سے آگے جا رہے تھے -
ان کی نگاہیں دروازے پر تهیں -
غالباً وہ دروازے پر پہنچ کر اسے توڑ ڈالنے کی فکر میں تهے -
دروازہ کهلا اور ایک بوڑها آدمی جس کی لمبی اور سفید ڈاڑھی تهی پادریوں کا سا جنہوں پہنے اور سفید علم ہاتھ میں لئے ہوئے پھاٹک سے نکلا-
مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ وہ قلعے والوں کا قاصد ہے، عبد العزیز اسے دیکھتے ہی رک گئے اور ان کے رکتے ہی تمام لشکر بھی رک گیا-
بوڑها قاصد گهوڑا دوڑاتے ہوئے ان کی طرف آ رہا تھا اس کے علم کا سفید پھریرا ہوا میں لہرا رہا تھا -
وہ عبدالعزیز کے پاس آ کر رکا اور عربی زبان میں کہا-
میں قاصد ہوں اور آپ کے سردار عبد العزیز سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں - "
عبدالعزیز نے کہا میرا نام ہی عبدالعزیز ہے کہو کیا کہنا ہے میں تمہارے سامنے موجود ہوں.
قاصد: میں صلح کا پیغام لے کر آیا ہوں -
عبد العزیز: میں تم کو خوش آمدید کہتا ہوں.
قاصد کیا آپ مہربانی کر کے اپنے تمام لشکر کو یورش کرنے سے روک لیں گے جب تک کہ میں اور آپ گفتگو مصالحت میں مصروف رہیں؟
عبد العزیز: ہاں میں روک دوں گا -
قاصد: تو مہربانی کر کے روک دیجئے-
عبد العزیز نے فوراً تین سواروں کو دوڑایا اور انہیں ہدایت دے دی کہ وہ ہر سہ اطراف کے افسروں کو یہ پیغام دیں کہ جب تک ان کے پاس دوسرا حکم نہ پہنچے وہ جس جگہ پہنچ گئے ہیں اسی جگہ پر رک جائیں-
سواروں کو روانہ کرتے ہی عبد العزیز نے قاصد سے کہا:کہو اب تم کیا کہنا چاہتے ہو؟
قاصد: پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ میں اہل قلعہ کی طرف سے مختار کل بن کر آیا ہوں گویا جن شرائط کو مناسب سمجھوں گا ان پر صلح نامہ لکھ دوں-
عبدالعزیز: جب تو تدمیر نے عقلمندی کی ہے.
قاصد: تدمیر زی فہم اور خدا ترس آدمی ہے وہ نہیں چاہتا کہ خون ریزی کا بازار گرم ہو-
عبدالعزیز خون ریزی تو ہم مسلمانوں کو بھی پسند نہیں ہے ہماری تلواریں بہ امر مجبوری میانوں سے باہر نکلتی ہیں -
قاصد: یہ درست ہے اور اب میں عرض کروں گا کہ صلح کی شرائط ایسی ہونی چاہیے کہ جو فیاض اور شجاع مسلمانوں کی فیاضی اور دریا دلی نیز صلح جو جنرل تدمیر کی توقیر و منزلت کے شایان شان ہوں.
عبدالعزیز: اطمینان رکھو ہم غیر مناسب شرائط پیش نہیں کریں گے -
قاصد: اچھا تو فرمائیے کہ کن شرائط پر صلح ہو سکتی ہے ۔
عبد العزیز :سب سے پہلی بات تو یہ کہ تدمیر اور تمام قلعہ والے مسلمان ہو جائیں اسلام قبول کرنے سے وہ عالم اسلام کے بهائی بن جائیں گے نیز اسلامی حکومت میں بھی انہیں وہی حقوق حاصل ہو جائیں گے جو ہمیں حاصل ہیں.
قاصد: معاف کیجئے یہ تو نا ممکن ہے.
عبدالعزیز: تو اسلامی حکومت کے تابع دار بن جاؤ اور حفاظت کے صلہ میں حکومت اسلام کو جزیہ دو-
قاصد: اگر یہ بات منظور کر لی جائے تو ہم پر کوئی اور سختی تو نہ ہو گی؟
عبدالعزیز: بالکل نہیں!
قاصد ہماری مذہبی آزادی.
عبدالعزیز ہاں تمہارے مزہب میں کوئی دست اندازی نہ کی جائے گی -
قاصد: گرجے محفوظ رہیں گے؟
عبدالعزیز قطعی محفوظ رہیں گے!
قاصد :اور جزیہ کس قدر ہو گا؟
عبدالعزیز :بہت معمولی تدمیر اور اس کے افسران کو ایک ایک دینار سالانہ چار پیمانے جو گیہوں چار پیمانے شربت اور شہد اور ہر قسم کا روغن چار چار پیمانے دینا ہو گا اور عوام کو اس کا نصف ادا ہو گا -
قاصد :ہمیں منظور ہے.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبدالعزیز :ان باتوں کا حلف دینا ہو گا کہ ہم مسلمانوں سے وفاداری کریں گے ہمارے کسی دشمن کو پناہ نہیں دیں گے ہمارے دشمنوں کی جو بات تمہیں معلوم ہو جائے تم ہمیں فوراً آگاہ کرو گے اور. تم میں سے جو لوگ اپنی خوشی سے مسلمان ہو جائیں گے، ان پر سختی نہ کرو گے اور نہ انہیں ستاؤگے -
قاصد : ہم ان باتوں کا حلف اٹھائیں گے اور ان پر قائم رہیں گے -
عبدالعزیز :ہمارا ایک افسر معہ دو سو سواروں کے تمہارے قلعے میں رہے گا جن کے اخراجات تمہارے ذمہ ہوں گے اور ان کی حفاظت کے تم ہی ذمہ دار ہو گے-
قاصد : ہمیں یہ بھی منظور ہے-
عبدالعزیز :اچھا نامہ لکھ لو-
قاصد : بہتر ہے -
عبدالعزیز اتنے میں کہ صلح نامہ لکھا جائے تم تدمیر کو بلا لاو کیونکہ صلح نامے پر اس کے ہی دستخط ہوں گے-
قاصد : آپ صلح نامہ تیار کیجئے میں اس کو بلا لوں گا!
اب عبدالعزیز نے اپنے خیمے کے سامنے جا کر صلح نامہ تیار کروانا شروع کیا-
یہ صلح نامہ تمام تاریخوں میں مرقوم ہے ہم اس کا اقتباس ذیل میں درج کئے دیتے ہیں-
شرائط صلی میں عبدالعزیز بن موسیٰ بن نصیر و تدمیر بن گو یدوز بادشاہ ارض تدمیر خدائے ذوالجلال و جبار اور کریم کے نام سے عبدالعزیز اور تدمیر یہ صلح نامہ لکھتے ہیں وہی اس کا پورا کرنے والا اور نگہبانی کرنے والا ہے-
تدمیر کی حکومت بدستور قائم رہے گی.
عرب اس کی رعایا سے کی تمام رعایا کو مذہبی آزادی ہو گی اور کبھی ان کے مذہبی رسوم میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی نہ ان کے گرجے جلائے جائیں یا منہدم کئے جائیں گے اور نہ ان سے کوئی بیگار لی جائے گی نیز تدمیر اور اس کی رعایا کو درج زیل شرائط کا پابند رہنا پڑے گا -
1.ہمارے دشمنوں کی کوئی بات نہیں چھپائیں گے.
2.ہمارے دشمنوں کو پناہ نہیں دیں گے نہ ان کی مدد کریں گے -
3 . ہمیشہ مسلمانوں اور اسلامی حکومت کے وفادار رہیں گے -
4 . جزیہ سال بہ سال ادا کریں گے -
5.مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے -
6.جو لوگ مسلمان ہو جائیں گے ان پر سختی نہیں کی جائے گی -
7.مسجدوں کے لیے جگہ دیں گے اور ان کی تعمیر میں مداخلت نہیں کریں گے نہ ان کی بے حرمتی کریں گے -
8.جو مسلمان قلعہ میں رہیں گے ان کے ساتھ دشمنی کریں گے نہ فریب کریں گے ۔
جب یہ صلح نامہ تیار ہو گیا تو عبدالعزیز نے کہا.
اب تم تدمیر کو بلا لاو تا کہ وہ بھی صلح نامہ کی شرائط پڑھ کر دستخط کر دے-"
قاصد : بہتر پہلے آپ دستخط کر دیں پھر میں ان کو بلا لوں گا!
عبد العزیز دستخط اسی وقت ہوں گے جب وہ آ کر یہ پڑھ لیں گے-
قاصد نے فوراً اپنی ڈاڑھی کھینچ کر الگ کر دی اور جبہ بھی اتار ڈالا اب عبدالعزیز اور دوسرے مسلمانوں نے اسے دیکھا-
وہ تدمیر ہی تھا تمام مسلمان اور عبدالعزیز اسے دیکھ کر نقش بدیوار اور آئینہ دار حیران رہ گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔