فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 43═(ایک اور فتح)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت صبح صادق ہو گئ تھی -
آج بادلوں کے غول آسمان پر تیر رہے تھے اور ہوا بھی زرا تیز چل رہی تھی -
کالی گھٹا کی وجہ سے اندھیرا زیادہ پھیلا ہوا تھا -
مسلمانوں نے فوراً سوار ہونا شروع کر دیا، جس وقت مسلمان گھوڑوں پر سوار ہوئے انہوں نے گھوڑوں کے سموں کی آواز سنی جو مسلمان پہرے پر تهے وہ عبدالعزیز کے پاس آئے اور کہا کہ عیسائی آ گئے ہیں، اور یہ معلوم نہیں کہ کتنے ہیں-"
عبدالعزیز نے کہا اللہ پر نظر رکھو وہی مدد کرے گا! "
گھوڑوں کے سموں کی آوازیں قریب تر آتی جا رہی تھیں 
ہوا لہک رہی تھی اور تیز جھونکوں کی وجہ سے مسلمان عباؤں کے چوڑے چوڑے دامن اور عماموں کے پلے لہرا رہے تھے -
بادلوں کے دل کے دل امڈے چلے آ رہے تھے -
کبھی کبھی بجلی بھی چمک جاتی تھی - اب مسلمانوں نے بھی آواز کی طرف بڑھنا شروع کر دیا تھا -
ابهی تهوڑی ہی دور بڑھے تھے کہ عیسائیوں کا لشکر سامنے آ گیا-"
سب سے آگے تدمیر تھا اس نے لشکر کو حملہ کرنے کا اشارہ کیا-
عیسائیوں نے تلواریں نکال لیں.
مسلمانوں نے بھی شمشیریں کھینچ لیں اور دونوں لشکر جوش و غضب سے بهر کر بڑھے اور ایک دوسرے سے ٹکرا گئے.
نہایت زور کی ٹکر شروع ہوئی، تلواریں تڑپ کر اٹھیں اور انسانی زندگیوں کا خاتمہ کرنے لگیں.
جنگ شروع ہو گئی-
خاموش فضا گونج اٹھی-
شور و غل بلند ہونے لگا مار ڈهاڑ ہونے لگی-
سر کٹ کٹ کر تن سے جدا ہونے لگے.
چونکہ اب آفتاب نکلنے کے قریب تها اس لئے کچھ اجالا پھیل گیا تھا اور لڑنے والے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے -
عیسائیوں کا لشکر بہت زیادہ تھا اور مسلمان صرف پونے دو ہزار کے قریب اور عیسائی چار ہزار سے بھی زیادہ تهے -
وہ مسلمانوں کو کم سمجھ کر انہیں ختم کرنے کی طمع کرنے لگے تھے -
اور اسی وجہ سے وہ نہایت جوش میں آ آ کر حملے کر رہے تھے -
مسلمان بھی غیظ و غضب سے ہوئے جھپٹ جھپٹ کر حملے کر رہے تھے ان کے حملوں کی شان یہ بتا رہی تھی کہ وہ عیسائیوں کی کوئی ہستی ہی نہیں سمجھتے تھے اور اس فکر میں تهے کہ جلد از جلد ان کا خاتمہ کر کے میدان کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیں.
چونکہ فریقین جوش و خروش میں بھرے ہوئے تھے اس لیے نہایت خون ریز جنگ کر رہے تھے -
تلواریں اپنا کام کر رہی تھیں متخاصمین کٹ کٹ کر گر رہے تھے موت روحیں قبض کرتی پهر رہی تھی -
سر گیندوں کی طرح اچھل اچھل کر گر رہے تھے اور جو عضو کٹ کر گرتا تھا گھوڑے اسے روند کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے تھے -
لڑائی کی آگ برابر پھیل رہی تھی تمام صفیں درہم برہم ہو گئیں مسلمان عیسائیوں میں اور عیسائیوں مسلمانوں میں گھس گئے اور جو جہاں پہنچ گیا وہیں پر لڑنے لگا.
جہاں تک نظر جاتی تلواروں کا کھیت نظر آ رہا تھا خون میں ڈوبی ہوئی تلواریں جلد جلد اٹهہ رہیں تھی -
عیسائی مسلمانوں کو اور مسلمان عیسائیوں کو ختم کرنا چاہتے تھے -
ہر عیسائی بڑے جوش و خروش سے لڑ رہا تھا ایسی بہادری سے کہ اب تک کہ اندلس کے کسی عیسائی نے ایسی بہادری نہیں دکھائی تھی -
انہوں نے سر ہتھیلیوں پر رکھ لئے اور جان دینے اور لینے کی کوشش کرنے لگے -
نہایت خون ریز جنگ ہو رہی تھی خون کے فوارے ابل رہے تھے اگرچہ عیسائی شور مچانے کے عادی تھے مگر خاموشی سے لڑ رہے تھے البتہ کبھی کبھی قومی نعرے بھی لگاتے.
زخمی چلا رہے تھے اور مرنے والے درد ناک آہیں بھر بهر کے مر رہے تھے -
ان کی فضا گونج رہی تھی -
اس وقت ہوا اور بھی تیز ہو گئی تھی اور سیاہ بادل امڈے چلے آ رہے تھے -
تدمیر پہاڑ علاقے سے عیسائیوں کو لے کر آیا تھا.
یہ لوگ میدانی علاقوں کے عیسائیوں کی طرح آرام طلب اور تن پرور نہ تهے بلکہ بڑی نہایت جفاکش اور مستعد تهے -
یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کا مقابلہ ہی کر رہے تھے بلکہ بڑی دلیری اور جواں مردی سے لڑ رہے تھے -
اگرچہ وہ قتل ہو رہے تھے مگر مسلمانوں کو بھی شہید کر رہے تھے.
مسلمانوں کا خیال تھا کہ عام عیسائیوں کی طرح وہ ان کا خاتمہ بھی جلد ہی کر دیں گے پر ان کو لڑتے دیکھ کر انہیں اندازہ ہوا کہ یہ اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ رہے تھے -
عبدالعزیز ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں ڈھال لیے علم کو بازو کے نیچے دبائے نہایت پهرتی بڑی دلیری اور کمال جوش سے لڑ رہے تھے -
ان کی تلوار غضب کی کاٹ کر رہی تھی جس ڈھال پر پڑتی تھی اسے پھاڑ ڈالتی تهی جس کے زرہ بکتر پر گرتی اسے کاٹ دیتی تھی -
عبدالعزیز کا خیال تھا کہ تمام مسلمان اسی کے جیسے جوش و خروش سے لڑ رہے ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو کچھ زیادہ جوش و خروش سے لڑتے نہ پایا تو بلند آواز میں کہا -
مسلمانو! !یہ کیا دون ہمتی ہے؟
کیوں جوش و غضب سے بهر کر حملہ نہیں کر رہے؟ ؟
کیوں جنگ کو طول دے رہے ہو؟
بڑهو غضب ناک ہو کر اور انہیں ختم کر دو.
یہ مختصر سی تقریر کر کے انہوں نے اللہ اکبر کا فلک شگاف نعرہ لگایا اور پورے جوش سے حملہ کر دیا -
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہر مسلمان غضب ناک شیر کی طرح عیسائیوں پر جا گرا-
چونکہ مسلمانوں کا یہ حملہ نہایت ہی سخت ہوا اور عیسائیوں کی کثیر تعداد لقمہ اجل بن گئی.
اب عیسائیوں پر مسلمانوں کا رعب طاری ہو گیا اور وہ اپنی جان بچانے کی فکر میں لگ گئے.
عبدالعزیز نے پهر کہا! !!!!
مسلمانو!
صرف ایک اور حملہ آور دشمن کا خاتمہ ہو جائے گا.
دلیرو آگے بڑهو اور صرف ایک ہی حملہ میں ان کا کام تمام کر دو-"
مسلمانوں نے پهر سنبھل کر پورے جوش سے حملہ کر دیا پھر ان کی تلواریں بلند ہوئیں اور پھر سروں کو تن سے جدا کرنے کے لیے عیسائیوں کے سروں پر جھکیں. .
عیسائی بھی ڈٹ گئے اور انہوں نے حملہ اپنی ڈھالوں پر روکا مگر بہت ساری ڈھالیں کٹ گئیں اور ان کے سر اڑ گئے اور بہت سے شدید طور پر مجروح ہو کر گر پڑے اور ایسے گرے کہ اٹھنا نصیب نہ ہوا-
بہت سارے عیسائی بچنے کے لیے گھوڑوں سے نیچے کود گئے اور گھوڑوں کے سموں نے انہیں کچل ڈالا-
عیسائی گھبرا گئے تھے -
اس قدر کہ اب ان میں لڑنے کی سکت باقی نہ رہی انہیں ان ہر طرف موت نظر آنے لگی مگر اب بھی ان کا سردار لڑ رہا تھا اس لیے وہ بھی جوں توں کھڑے حملے روک رہے تھے -
مسلمانوں نے تقریباً تین ہزار عیسائیوں کو مار ڈالا تھا اور ان کی لاشیں جہاں تہاں پڑی دنیا کی بے ثباتی کا فسانہ زبان حال سے بیان کر رہی تهیں، چونکہ زمین سخت تهی اس لیے خون اس کے اندر جذب نہیں ہوتا تھااور زمین خون سے لا لہ زار بن گئی تھی -
مسلمانوں نے جوش میں آ کر ایک حملہ آور کیا یہ حملہ پہلے دونوں حملوں سے زیادہ سخت تها -
ایسا سخت کہ عیسائی ککڑی کی طرح کٹ کٹ کر گر نے لگے.
ان کی لاشوں کے انبار لگ گئے اور خون کے پرنالے بہنے لگے-
مسلمانوں نے گویا تہیہ کر لیا تھا کہ ایک ایک عیسائی کو چن چن کر مار ڈالیں گے.
آخر نوبت یہاں تک آ گئی کہ صرف دو سو عیسائی باقی رہ گئے اور وہ بھی سر پر پاوں رکهہ کر بے تحاشا بھاگے اور تدمیر بهی بھاگا-
مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور دو سو میں سے سو کو مار ڈالا.
اب بچے کهیچے عیسائی پہاڑ پر چڑھ گئے اور چٹانوں پر چڑھ کر دروں میں گھس کر غائب ہو گئے -
مسلمان واپس آ گئے کچھ مردہ عیسائیوں کے گھوڑوں کو پکڑنے لگے اور کچھ ہتھیار جمع کرنے لگے -
یہ میدان جہاں یہ جنگ ہوئی" لوکترا" کے نام سے مشہور تھا -
یہ میدان انتہائی خون ریز جنگ ہو نے کی وجہ سے تاریخی میدان ہو گیا اور آج تک تاریخوں میں اس کا تذکرہ موجود ہے-
مسلمانوں نے بہت جلد تمام گھوڑے پکڑ لئے وہی عیسائی جس نے انہیں دھوکہ دے کر تنگ درے میں لے جانے کی کوشش کی تھی رہبر ثابت ہوا-
وہ چند پیچیدہ چٹانوں کے درمیان سے نکال کر انہیں قلعہ اوڑھ بولا کہ سامنے لے گیا.
عبدالعزیز کو معلوم ہو چکا تھا کہ تدمیر قلعہ کے اندر داخل ہو گیا ہے اور اس نے مقابلہ کی تیاری شروع کر دی ہے سو انہوں نے جاتے ہی قلعہ کا محاصرہ کر لیا مگر صرف اس خیال سے کہ شاید مسلمان صبح کی لڑائی سے تهک گئے ہوں گے اس روز جنگ ملتوی کر دی اور مسلمان قلعہ کے چاروں طرف خیمے نصب کر کے آرام کرنے لگے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی