فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 41═(طارق کی بحالی)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تمام مسلمان اور سارے عیسائی طارق کو کو اندلس کا فاتح سمجھتے اور جانتے تھے اور انہوں نے وہ خواب بھی سن لیا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح اندلس کی بشارت دی تھی-"
ایک تو طارق نیک طینت تهے دوسرے بہادر تھے تیسرے رسول اللہ ﷺ نے انہیں فتح کی بشارت دی تھی چوتھے انہوں نے اندلس کا کثیر حصہ فتح کر لیا تھا-
اس لیے تمام مسلمان ان سے محبت کرتے اور ان کی عزت کرتے تھے -
ان کے قید کر دئیے جانے سے تمام مسلمانوں کو بہت رنج و افسوس تھا لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ موسیٰ کو فضول حسد نہیں بلکہ وہ بھی نیک طبیعت اور شریف النفس تهے -
اس لئے عوام یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے طارق کو اس لئے قید نہیں کیا کہ وہ ان سے جل گئے ہیں بلکہ کسی مصلحت سے ایسا کیا گیا ہے اسی لیے سب ہی خاموش تھے -
یوں تو ہر مسلمان کو اس بات کا رنج تھا مگر سب سے زیادہ صدمہ راحیل کو تها -
وہ بہت زیادہ بے چین تھی اور سوچتی تھی کہ کیا کرے کس طرح انہیں رہائی دلائے.
ایک روز وہ اس کمرے میں گئی جہاں طارق قید تهے -
چونکہ موسیٰ نے اس سے کسی کو ملنے کی ممانعت نہیں کی تھی اس لیے ہر شخص جب چاہے اس سے مل سکتا تھا -
محافظ کوئی روک ٹوک نہیں کرتے تھے چنانچہ جب راحیل نے پوچھا تو انہیں بھی جانے کی اجازت مل گئی.
راحیل نے کمرے میں داخل ہوتے ہی دیکها کہ فاتح اعظم جس کی بہادری نے تمام اندلس کے عیسائیوں کو مرعوب کر رکها ہے جس کی تلوار نے اسپین میں دھوم مچا دی ہے جس کی جرات بہادری کا ہر طرف چرچا ہے دست و پا بستہ ایک چٹائی پر سر جھکائے بیٹھا ہے ۔
اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے طارق کو اور طارق نے اس کی طرف دیکھا -
دونوں کی نگاہوں میں افسوس حسرت اور غم کی جھلک تھی -
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد راحیل بڑهی اور اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا شیر دل فاتح_____"
فرط غم سے اس کی آواز بهرا گئی اور وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہ سکی طارق بولے.
نیک دل دوشیزہ تم کیوں اس غم خانہ میں آئیں؟ "
راحیل : آپ کو دیکھنے اور باتیں کرنے کے لیے طارق: تمہاری ہمدردی کا شکریہ!
راحیل: مجھے رنج و قلق ہے کہ بلا وجہ امیر موسیٰ نے آپ کو قید کر دیا ہے ۔
طارق: اس میں امیر موسیٰ کا قصور نہیں ہے -
راحیل : اور کس کا ہے؟ "
طارق : میرے مقدر کا.
راحیل : میں تو سمجھتی ہوں امیر نے آپ کی شہرت سے جل کر آپ کو قید کیا ہے؟
طارق : نہیں یہ بات نہیں ہے میرے خیال میں مجھ سے کوئی خطا کوئی غلطی کوئی غرور سر زد ہو گیا تھا اور اللہ نے اس کی پاداش میں مجھے سزا دی ہے.
راحیل : گویا آپ کو امیر کی طرف سے کوئی رنج نہیں ہے -
طارق : بالکل بھی نہیں ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے حسد نہیں کر سکتا نہ بے جا رنج رکھ سکتا ہے.
راحیل : آپ جانتے ہیں کہ مسلمان آپ کے خیر خواہ ہیں!
طارق : خوب جانتا ہوں.
راحیل: اگر آپ چاہیں تو وہ آپ کو آزاد کروا سکتے ہیں.
طارق نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے -
راحیل : کیوں؟ "
طارق : اس لیے کہ امیر کے خلاف ورزی ایک مسلمان کبھی نہیں کرتا.
راحیل : تو یہ کہیے کہ ان کو آپ سے ہمدردی نہیں ہے -
طارق : یہ بھی نہیں ہو سکتا.
راحیل : اچھا آپ رہا ہونا چاہتے ہیں؟
طارق : ضرور چاہتا ہوں -
راحیل : تو میں محافظوں کی خوشامد کرتی ہوں یقین ہے کہ وہ آپ کو رہا کر دیں گے اور پھر آپ میرے ساتھ چلنا ہم دونوں پہاڑ کے کسی حصہ پر رہا کریں گے دنیا اور دنیا والوں سے الگ.
طارق : میں تمہارا مشکور ہوں مگر اس طرح رہا ہونا نہیں چاہتا.
راحیل : اور کس طرح چاہتے ہیں؟
طارق : امیر خود مجھے رہا کریں.
راحیل : ایسا کبھی نہیں کریں گے وہ
طارق: میرا خیال ہے وہ عنقریب مجھے رہا کر دیں گے -
راحیل : اچھا تو میں ان سے کچھ عرض کروں؟
طارق : ہاں کوئی مضائقہ نہیں ہے.
راحیل : کسی بات کی تکلیف تو نہیں آپ کو؟
طارق : نہیں.
راحیل اچھا تو میں اب اجازت چاہوں گی اللہ حافظ.
طارق: فی امان اللہ.
راحیل وہاں سے چلی گئی اور دوسرے روز امیر موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئی.
موسیٰ کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ رازرق نے راحیل کو زبردستی پکڑوا یا تها اور وہ تہہ خانے میں چلی گئی تھی -
نیز یہ بھی اس نے طارق کو خاندان گاتھ  کے پچیس بادشاہوں کے تاجوں کا پتہ بھی دیا تھا اور یہ بھی کہ اسے طارق سے ہمدردی ہے.
لہذا جب موسٰی کے پاس پہنچی تو سلام کر کے بیٹھ گئی تو امیر نے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آ کر دریافت کیا کہ وہ کس لیے آئی ہے.
راحیل : میں طارق کے متعلق کچھ عرض کرنے آئی ہوں.
موسیٰ جو بھی کہنا ہے بیٹی بلا تکلف کہو.
راحیل : آپ جانتے ہیں کہ طارق بے لوث انسان ہیں مسلمانوں کے ہمدرد ہیں حکومت اسلام کے خیرخواہ ہیں.
موسیٰ : خوب جانتا ہوں.
راحیل اور آپ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ انہوں نے بے نظیر جرات سے اندلس کو فتح کیا ہے -
موسیٰ: خوب واقف ہوں.
راحیل: کیا ان کی بہادری خیر خواہی کا یہی صلہ ہونا چاہیے کہ انہیں قید کر دیا جائے؟
موسیٰ: میری بھولی بیٹی میں نے اسے اس لئے قید کیا ہے کہ اس نے جوش شجاعت کے زعم میں میرے حکم کی نافرمانی کی.
راحیل : مجھے معلوم ہے لیکن اس نافرمانی میں مصلحت تهی.
موسیٰ یہ درست ہے لیکن اس کے ہاتھ میں بارہ ہزار مسلمانوں کی باگ دوڑ تهی اگر خدانخواستہ کسی مسلمان کو نقصان پہنچ جاتا تو دین و دنیا میں جواب دہ میں تها -
راحیل : لیکن اگر کبھی مسلمانوں کو شکست ہوتی تو وہ کبھی آگے بڑھنے کی ہمت نہ کرتے.
موسیٰ: یہ سچ ہے اچھا تم کیا چاہتی ہو؟
راحیل: میں چاہتی ہوں آپ اسے رہا کر دیں.
موسیٰ:میں نے خود طے کر لیا ہے کہ میں انہیں جلدی رہا کر دوں گا.
راحیل : آپ کی بڑی مہربانی ہوگی.
موسیٰ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا.
اس کی داڑھی اور چہرہ گرد آلود ہو رہے تھے - اس نے آتے ہی موسیٰ کو سلام کیا موسیٰ نے جواب دے کر اور پوچھا کیا تم خلیفہ کے حضور سے آ رہے ہو؟
آنے والا؛: جی ہاں!
موسیٰ کوئی فرمان لائے ہو؟
اجنبی نے کہا اعلی حضرت نے اپنے ہاتھ سے یہ فرمان لکھ کر دیا ہے ۔
یہ کہتے ہی اس نے اپنی عبا میں سے ایک خریطہ نکالا اور موسیٰ کو پیش کیا.
موسیٰ نے اسے چوم کر کھولا اور پڑهنا شروع کر دیا اس میں لکھا تھا -
از جناب بندہ خدا خالد بن ولید عبد المالک خلیفہ مملکت اسلامیہ بجانب موسیٰ بن نصیر والی بلاد اسلامیہ مغرب حمد و ثنا کے بعد معلوم ہو کہ میں نے نیز تمام مسلمانوں نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے فضل سے اندلس میں مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی ہے اور وہاں سے بدکاری اور اصنام پرستی کی بنیاد اکھاڑ کر رکھ دی ہے اور توحید پرستی کی بنیاد ڈالی ہے.
طارق نے جو کیا باہم مشورے اور جوش جہاد سے لبریز ہو کر کیا وہ سزا کا نہیں انعام کا حق دار ہے، وہ مخلص مجاہد اور مسلمانوں کی حکومت اسلامیہ کا خیر خواہ ہے، اسے فوری عزت و احترام کے ساتھ رہا کر کے اس سے معافی مانگو.
میں نے اسے اندلس کا وائسرائے مقرر کر دیا ہے تم اسے ذمہ داری دے دو اور اس کی عزت افزائی کرو.
میں ان تمام مسلمانوں کا مشکور ہوں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ نے انہیں جوش و قوت عطا فرمائی اور اپنے حفظ و امان میں رکها.
تمام مسلمانوں کو میرا سلام کہہ دینا.
موسیٰ اس فرمان کو پڑھ کر مسکرائے وہ اٹھے اور انہوں نے کہا بیٹی راحیل میرے ساتھ آو-"
راحیل بھی اٹھ کھڑی ہوئی دونوں چل کر صحن میں آئے.
موسیٰ نے وہاں فرش کرا کے تمام مسلمانوں اور فوجی افسروں کو بلوا لیا.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب سب آ گئے تو انہوں نے طارق کو طلب کیا جس وقت طارق وہاں آ گئے تو انہوں نے کھڑے ہو کر کہا -
مسلمانو !میں نے طارق کو اس لئے قید کیا تھا کہ میرے خیال میں انہیں فقط فتح کے جوش میں آگے نہیں بڑھنا چاہیے تھا.
کیونکہ ممکن تھا کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچ جاتا.
حاشا اس میں میرے نفس یا حسد کا کوئی دخل نہیں تھا -
آج خلیفہ المسلمین کا فرمان آیا ہے میں سناتا ہوں. انہوں نے فرمان پڑهہ کر سنایا سنانے کے بعد طارق سے معافی مانگی.
اور کہا فاتح اعظم میں تم سے معافی چاہتا ہوں اللہ کے لئے مجھے معاف کر دیں.
اب دونوں اٹهہ کر بغلگیر ہو گئے اور سب نے طارق کو وائسرائے بننے کی مبارک باد دی.
موسیٰ نے انہیں محل میں ایک کمرہ میں قید کیا تھا جب وہ رہا ہوئے تو اسی کمرے میں رہنے لگے.
ان کی تقدیر نے انہیں کچھ نہ کچھ بنا دیا تھا. وہ بربر کے رہنے والے تھے -
موسیٰ نے اس ملک پر لشکر کشی کی وہ اپنے ملک کی حمایت میں مسلمانوں سے نہایت بہادری اور بڑی دلیری سے لڑے لیکن گرفتار ہو گئے اور موسیٰ کے پاس بطور غلام کے رہنے لگے.
کچھ عرصہ کے بعد وہ مسلمان ہو گئے اور موسیٰ نے ان کو آزاد کر کے فوج میں افسر بنا دیا.
چونکہ وہ ہونہار اور ہوشیار تهے اس لیے ترقی کرتے کرتے طانجہ کے گورنر ہو گئے -
جب اندلس کی مہم در پیش ہوئی تو موسیٰ نے انہیں اس مہم پر روانہ کیا اور انہوں نے خداداد ذہانت کی بدولت اندلس کو فتح کر لیا-"
مگر اللہ کو آزمائش منظور تھی لہذا موسیٰ نے انہیں قید کر دیا طارق اگر معمولی ظرف کا مالک ہوتا تو مسلمانوں سے ناراض ہو کر مرتد ہو جاتا مگر وہ سچے مسلمان تھے نہ وہ کسی سے خفا ہوئے اور نہ ہی اللہ سے کوئی شکایت کی بلکہ اس کا شکریہ ادا کیا.
چنانچہ اللہ نے انہیں اندلس کا وائسرائے بنا دیا.
وہ عصر کی نماز پڑھ کر آئے اور کمرے کے باہر فرش پر بیٹھ گئے ابهی ان کو بیٹھے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ راحیل آ گئی وہ اس وقت بیش قیمت پوشاک پہنے ہوئے تھی مسکراتی ہوئی اس کے قریب بیٹھ گئی.
اندلس کے حاکم کو ہمارا سلام-"
طارق نے چونک کر اسے دیکھا اس کا چہرہ خوشی کے احساس سے دمک رہا تھا آنکھوں میں چمک اور لبوں پر تبسم تھا وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی.
آو میری محسنہ بیٹھ جاو.
راحیل :محسنہ ؟؟؟یہ کیا کہہ دیا آپ نے مجھے؟
راحیل ایک تو تهی ہی خوبصورت دوسرا قیمتی لباس اور زیورات پہنے ہوئے اور تیسرا کپڑوں پر خوشبو لگا رکهی تهی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی ہے.
طارق اس حور کو دیکھنے میں اس قدر محو تهے کہ انہوں نے سنا ہی نہیں کہ اس رشک قمر نے کیا کہا ہے؟ "
راحیل نے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد بولی کیا دیکھ رہے ہیں.
طارق چونک گئے اور کہا اللہ کی قدرت کا کرشمہ.
راحیل شوخی سے مسکرا دی اور ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگی مگر یہاں کون سا کرشمہ ہے؟ ".
طارق :شاید میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہے تم جیسی قمر رخسار سامنے ہو تو ہوش کہاں رہتی ہے.
راحیل شرما گئی اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں فرط حیا سے جھک گئیں.
اس کا سر جھک گیا اور وہ فرش کو دیکھنے لگی. شرم و حیا نے اس کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیا.
طارق نے کہا بے مثال حسینہ میں تمہارا مشکور ہوں! "
راحیل کو پهر شوخی سوجھ گئی اٹهلاتے ہوئے بولی کیوں؟ "
اس لئے کہ قید کے وقت تم نے مجھ سے ہمدردی کی راحیل بے ساختہ بولی ہمدردی؟ ہمدردی کیسی"-
طارق نے کہا ہاں کیوں کی تم نے میرے ساتھ ہمدردی.
راحیل :انسانیت کے ناطے.
طارق نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا صرف انسانیت کے ناطے؟ "
راحیل : اور کیا سمجھا آپ نے.
طارق : میں نے سمجھا آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی ہے.
راحیل : چونک کر محبت______؟"
طارق : محبت بهری نظروں سے دیکھتے ہوئے ہاں مگر افسوس میرا خیال غلط تھا .
راحیل : آپ کو مجھ سے محبت ہے؟ "
طارق : ہاں میں اقرار کرتا ہوں-
راحیل : یہ محبت باقی رہے گی؟
طارق :ان شاءالله.
راحیل : آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں؟
طارق :اس قابل؟
تمہاری اولین نگاہ نے میرے رگ رگ میں تمہاری محبت پیدا کر دی ہے.
راحیل :کا چہرہ مسرت سے جگمگا اٹھا. اور اس نے کہا خداوند کریم کا شکر ہے.
طارق : کس چیز کے لیے
راحیل :اس بات پر کہ آپ ایک یہود لڑکی سے محبت کرتے ہیں
طارق :کیا تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہوں؟
راحیل :جی ہاں۔اس کا سر پهر جھک گیا اور وہ شرم سے پسینہ پسینہ ہو گئی.
طارق کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ آواز سی آئی انہوں نے نگاہ اٹها کر دیکھا.
انہیں نائلہ اور بلقیس آتی ہوئی نظر آئیں.
غالباً قارئین کو یاد ہو گا کہ نائلہ موسیٰ کے ساتھ اور بلقیس اسمٰعیل اور مغیث الرومی کے ہمراہ آئی تهیں اور طلیطلہ میں موجود تهیں راحیل انہیں خوب جانتی تھی لیکن طارق نے ان کو پہلے نہیں دیکھا تھا.
نائلہ نے طارق کے سامنے بیٹھ کر کہا میں آپ کو رہائی کی مبارکباد پیش کرتی ہوں.
بلقیس نے قدرے شوخی سے کہا اور میں بھی.
طارق نے دونوں کا شکریہ ادا کیا.
طارق نے خلیفہ سمیت تمام مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس روز سے وہ بھی امید اندلس مشہور ہو گئے تھے -
طارق کی قید اور رہائی پر تفصیلا اس لیے روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ دوسروں کو پتہ چل سکے کہ طارق کی قید میں موسیٰ کی کوئی بری نیت یا حسد نہیں تها.
اب راحیل نے طارق کی ایک ادا سے سر اٹھا کر دیکھا اور کہا میں ان دونوں کا تعارف کرواتی ہوں.
: یہ اندلس کی ملکہ نائلہ شاہ رازرق کی بیوی ہے اور یہ قرطبہ کے مشہور تاجر امامن کی بیٹی بلقیس ہے.
طارق :میں سمجھ گیا یہ خوش نما طوق والی حسینہ.
راحیل :ہاں ساری دنیا میں یہ اسی نام سے مشہور ہے.
طارق :اور یہ وہ ہیں جن کی رہائی کے لیے اسمٰعیل گئے تھے.
جی ہاں یہ وہی ہے اور پھر وہی قید ہو گئے تھے.
طارق :انہوں نے اسمٰعیل کو کہا چھوڑا.
بلقیس :وہ طلیطلہ میں موجود ہیں.
طارق نے کہا آپ طلیطلہ کیسے پہنچ گئیں بلقیس نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ شرما کر سر جھکا لیا. نائلہ نے کہا اسمٰعیل کی محبت انہیں یہاں کھینچ لائی ہے.
طارق :نے قدرے متبسم ہو کر کہا. خوب سنا تھا آپ مریڈا چلی گئی ہیں تو یہاں کیسے؟
اب شرمانے کی باری نائلہ کی تهی بلقیس نے جلدی سے کہا اسے عبدالعزیز کی الفت یہاں لائی ہے.
طارق :تو یہی کہئے کہ. ..
راحیل نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا بس خاموش رہیں ورنہ یہ دونوں ہمیں زچ کر دیں گی.
نائلہ نے ہنستے ہوئے کہا-
خوب تم اندلس کے وائسرائے پر حکومت کرنا شروع کر چکی ہو.
راحیل نے طارق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سن لیا آپ نے؟ "
بلقیس نے ہنس کر کہا کیا یہ اونچا سنتے ہیں!
اب آفتاب غروب ہو گیا تھا اور مغرب کی اذان ہونے لگی تھی طارق نے اٹھتے ہوئے کہا - "
اذان ہو رہی ہے میں نماز پڑھ آؤں.
نائلہ :بہتر ہے -
طارق :مہربانی کر کے راحیل کو پریشان نہ کرنا.
نائلہ اور بلقیس دونوں بے ساختہ ہنس پڑیں.
اللہ اللہ کس قدر خیال ہے آپ کا اس کو.
طارق مسکراتے ہوئے چلے گئے اور یہ تینوں باتیں کرنے میں مشغول ہو گئیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی