🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
طارق کے پاس موسی کا قاصد پہنچ گیا تھا اور اس نے امیر کے حکم سے بہادر اور شیر دل سپہ سالار کو مطلع کر دیا تھا ۔
طارق مجبور ہو کر رک گئے تھے اور اب ان کا ارادہ اگے بڑھنے کا نہ تھا ۔
انہوں نے راحیل کے والد کو اطلاع کرا دی تھی کہ ان کی بیٹی بحفاظت مسلمانوں کے پاس ہے ۔
ابھی وہ وطن واپس نہیں آنا چاہتی ۔
اگر وہ اس سے ملنا چاہتے ہیں تو فورا چلے آئیں ۔
طاتو کو پتہ چل گیا تھا کہ مغیث الرومی قرطبہ اور اس کے گردونواح کو فتح کرتے ہوئے طلیطلہ کی طرف بڑھے چلے آ رہے ہیں ۔
انہوں نے یہ بھی سن لیا تھا کہ موسی نے اشبیلیا کے تمام علاقے فتح کر لئے ہیں ۔
ان کے دل میں پھر جوش جہاد پیدا ہو گیا اور انہوں نے اگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا لیکن امیر موسی کا پاس لحاظ کر کے اپنے دل پر جبر کیا اور فتوحات کی امنگوں کو سینے میں دبا کر خاموش رہ گئے ۔
کچھ عرصہ بعد مغیث الرومی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مشورہ دیا کہ اس وقت عیسائی مرعوب ہو رہے ہیں جس طرف بڑھتے چلے جائیں فتح ہوتی جا ئے گی اور اس طرح سارے اندلس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا ۔
چنانچہ انہوں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور آگے بڑھ کر مدینتہ السالم القلعہ اور قسطہ وغیرہ کو فتح کر کے دریائے غار الغارہ تک پہنچ گئے ۔
مسلمانوں کی ہیبت عیسائیوں پر کچھ بیٹھ گئئ کہ جس طرف بھی انہوں نے رخ کیا عیسائی حلقہ بگوش اطاعت ہوتے گئے ۔
طارق دریائے الغارہ کو عبور کرکے کوہستان میں پہنچ گئے ۔یہ سلسلہ کوہ فرانس کے جنوب اور اندلس کے شمال میں دور تک پھیلا ہوا تھا ۔
اس نے تمام کوہستان کو کھوند ڈالا اور اسلامی پرچم لہراتے نعرہ تکبیر لگاتے اللہ کی واحدانیت کا شور مچاتے تسخیر بلاد کرتے ہوئے مدینتہ المبداء تک جا پہنچے چونکہ آگے راستہ دشوار گزار تھا نیز موسی کے طلیطلہ آنے کا خیال تھا اس لئے وہ اگے نہ بڑھے اور وہیں سے واپس لوٹ کر طلیطلہ دارالسلطنت آ گئے ۔
ابھی یہاں آئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ موسی کے آنے کی خبر گرم ہوئی اور وہ چند سرداروں کا لشکر لے کر ان کے استقبال کے لیے روانہ ہو گئے ۔
جب وہ ایک مشہور شہر طلاورہ میں پہنچے تو وہاں موسی سے ملاقات ہوئی ۔
طارق نے موسی کا بشرہ دیکھ کر معلوم کر لیا کہ وہ ان سے ناخوش ہیں ۔
ناخوشی کی وجہ وہ بخوبی جانتے تھے مگر انہوں نے اس کے متعلق کچھ گفتگو نہ کی بلکہ دونوں نے اپنی اپنی فتوحات کا حال ایک دوسرے کو سنایا موسی نے طارق کی اور طارق نے موسی کی تعریف کی ۔
اب یہ سب یہاں سے چلے اور طلیطلہ چلے گئے ۔طارق نے یہاں پہنچ کر کوہستان کی تمام روداد سنائی اور جو نودرات وہاں سے ملے تھے موسی کے سامنے پیش کیے ۔
منجملہ ان کے ایک تخت تھا جو بیش بہا جواہرات سے مرصع تھا ۔
کچھ عجیب قسم کے بڑے بڑے لعل و یاقوت اس میں جڑے ہوئے تھے ۔
موسی نے ان تمام چیزوں کو دیکھ کر پھر طارق کی تعریف کی اور اس کی بہادری کو سراہا مگر ساتھ ہی ان سے کہا ۔
طارق میں تم سے اس لئے خوش ہوں کہ تم نے اپنی بہادری کی دھاک عیسائیوں پر بیٹھا دی اور خفا اس لئے ہوں کہ تم نے میرے حکم کے خلاف ورزی کی ہے اور کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے ۔
طارق نے عاجزی کے لہجہ میں کہا ۔
مجھ سے یہ غلطی ضرور ہوئی ہے میں آپ کا غلام ہوں موسی نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا ۔
آب تم غلام نہیں ہو بلکہ ایک صوبے کے گورنر ہو ۔
طارق :میں خوب جانتا ہوں کہ میں اپنے وطن سے جس وقت آیا تھا غلام تھا آپ کی مہربانیوں نے مجھے اس اعلی رتبے پر پہنچایا ۔
موسی :نہیں بلکہ اللہ کی مہربانیوں اور تمہاری ذاتی قابلیتوں نے تمہیں یہ رتبہ دیا ۔
طارق :مگر میں ممنون ہوں آپ کا آپ ہی نے مجھے نوازا ہے اور آپ ہی نے مجھے غلامی سے آزاد کیا آپ ہی کی بدولت اس رتبے کو پہنچا ہوں ۔
موسی :اس میں شک نہیں کہ تم غلام تھے مگر مسلمان ہو کر تم میرے اور تمام مسلمانوں کے بھائی بن گئے ہو میں نے جو بھی تمہارے ساتھ کیا محض مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا ۔
طارق :بے شک میں اسی لئے مشکور ہوں ۔
موسی :میں نے اپنا فرض ادا کیا اس کے لیے شکریہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
طارق :یہ آپ کی زرہ نوازی ہے ۔
موسی :میں نے جب تمہیں اس مہم پر بھیجا تھا تو ہزاروں مسلمانوں کی قسمتیں تمہارے ہاتھ میں دے دی تھیں ۔
طارق :جی ہاں!!
موسی :تمہاری ذرا سی لغرزش مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتی تھی ۔
طارق :بے شک مگر میں نے احتیاط رکھی اور بفضلہ تعالی مسلمانوں کو بالکل بھی نقصان نہیں پہنچا ۔
موسی :یہ سچ ہے لیکن نقصان پہنچنے کا خطرہ تو تھا ۔
طارق :اگر ایسا ہوتا تو میں کبھی پیش قدمی نہ کرتا ۔
موسی :نہیں میرے نوجوان سپہ سالار تم نے جوش جہاد اور فتح کی خوشی میں احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا ۔
طارق :یہ بات نہیں ہے ۔
موسی :تو پھر؟ "
طارق :چونکہ عیسائیوں کو متواتر شکستیں ہو رہی تھیں جس سے تمام ملک میں مسلمانوں کی شہرت ہو گئی اور عیسائیوں پر ان کا رعب چھا گیا آس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اگے بڑھ کر جتنا ہو سکے علاقہ فتح کر لوں ۔
موسی :مگر میں نے تمہیں پیش قدمی کی ممانت کی تھی ۔
مغیث الرومی :لیکن یا امیر وہ موقع ایسا تھا کہ اگر اس وقت پیش قدمی روک دی جاتی تو عیسائیوں کے دلوں پر چھایا رعب ختم ہو جاتا اور وہ سنبھل کر نئے جوش کے ساتھ متفقہ متحدہ ہو کر مقابلہ پر آ جاتے اور اس طرح سے ہماری سرفروشی کا نتیجہ برعکس ہو جاتا ۔
موسی :خدانخواستہ کہیں مسلمانوں کو شکست ہو جاتی تو ۔۔۔۔۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مغیث الرومی :تب ہم سب اس کے ذمہ دار ہوتے ۔
موسی :مگر سپہ سالار تو طارق تھے ۔
مغیث الرومی :بے شک سپہ سالار وہی تھے مگر انہوں نے اپنی رائے سے کچھ بھی نہیں کیا ۔
موسی :تو پھر؟
مغیث الرومی :انہوں نے جو بھی کیا سب کے مشورے سے کیا ۔
موسی :اور سب کا مشورہ کیا تھا؟
مغیث الرومی :یہی کہ پیش قدمی کو جاری رکھا جائے ۔
موسی :کیا یہ مشورہ صحیح تھا؟
مغیث الرومی :جو نتائج برآمد ہوئے ہیں اس سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ نہایت موزوں تھا ۔
موسی :میں پھر بھی یہیں کہتا ہوں کہ اگر شکست ہوتی تو مسلمانوں کا کیا حشر ہوتا؟
مغیث الرومی :نہایت برا ۔
موسی :اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی؟
مغیث الرومی :ان تمام لوگوں پر جو اس مشورے میں شامل تھے ۔
موسی :نہیں بلکہ صرف طارق پر کیونکہ وہ سپہ سالار تھے اور دنیا عقبی میں وہی جوابدہ تھے ۔
مغیث الرومی :یہ سچ ہے مگر انہوں نے جو بھی کیا خالص اللہ کے لیے کیا نہ کہ نمود و نمائش کی غرض سے ۔
موسی :میں اسے مانتا ہوں ۔مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ پر جوش اور بہادر نوجوان ہے مگر اس بہادری اور جوش کے زعم میں بارہ ہزار مسلمانوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا ۔
مغیث الرومی :مگر اللہ نے ہماری مدد کی ہم اس خطرے سے نکل آئے ہیں ۔
موسی :بے شک اللہ نے اسے بے پایاں مہربانی مہربانی سے نوازا مگر انہوں نے نے نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس عہدے کے قابل نہیں ہیں ۔
اس وقت تمام سردار وہاں موجود تھے۔ انہوں نے ان گی گفتگو سے یہ اندازہ لگایا کہ وہ طارق کو ان کے عہدے سے معزول کرنا چاہتے ہیں ۔
علی :نے کہا مجھے تو نہیں لگتا کہ طارق نے کوئی نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
حیات: میں بھی یہی سمجھتا ہوں اس لئے کہ اگر وہ پیش قدمی کو روک دیتے تو عیسائی دوبارہ حملہ آور ہوتے ۔
موسی :یہ تسلیم کر چکا ہوں یہ میں مگر تم سب یہ بات تو مانو گے کہ طارق نے حکم عدولی کی ہے؟
مغیث الرومی :یہ سچ ہے ۔
موسیٰ :میں طارق کو معزول کرتا ہوں ۔
طارق :مجھے اس بات کا کوئی دکھ نہیں ہو گا بلکہ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرح ایک سپاہی بن کر جہاد کروں گا ۔
موسی :مگر میں تمہیں قید کا حکم دیتا ہوں اور تم قید میں رہو گے ۔
طارق :مجھے اس سے بھی کوئی رنج نہیں اس لئے کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا ہر کام اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ممکن ہے مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو اللہ کی نافرمانی ہوئی ہو اور وہ اس کی پاداش میں قید و بند کی سختیاں جھیلنی پڑیں یا اللہ کو میرا امتحان مقصود ہو ۔
مغیث الرومی :مگر ایسے جانباز کو قید کر کے اس کا دل تو نہ توڑیں ۔
طارق نے مسکرا کر کہا ۔نہیں اس سے میرا دل نہیں ٹوٹے گا میں سمجھتا ہوں کہ امیر کو چونکہ مسلمانوں کا زیادہ خیال ہے اس لئے ان کی شفقت ان سے ایسا کرا رہی ہے ۔
موسی :بالکل یہی بات ہے ۔
طارق :میں اسے خوب سمجھتا ہوں ۔
موسی :میں مسلمانوں کے خلیفہ کو سارا واقعہ لکھ کر سفارش کر دوں گا پھر جو وہاں سے جواب آئے گا تو اس پر عمل کروں گا ۔
طارق :بہتر ہے ۔
اس وقت طارق کو سپاہی کی حراست میں دے کر ایک کمرہ میں قید کر دیا گیا اور موسی نے تمام واقعات لکھ کر خلیفہ کو بھیج دیئے ۔
اس واقعہ کو عیسائیوں نے موسی کے بے جا رشک و حسد اور تنگ دلی پر محمول کیا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ موسی طارق کی فتوحات سے جل گئے اور انہوں نے فاتح اعظم کو معزول کر کے قید کر دیا ۔
حالاں کہ یہ بات نہیں تھی اگر وہ اس مزاج کے ہوتے تو کبھی ان کو سپہ سالار بنا کر نہ بھیجتے ۔
بات یہی ہے کہ کہ انہیں اندیشہ ہوا تھا کہ اگر مسلمانوں کو شکست ہو جاتی تو نتیجہ بہت برا ہوتا ۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ ان کی عدول حکمی سے اوروں کو بھی اس کی جرات ہو جاتی اس لئے جو کچھ بھی انہوں نے کیا وہی مناسب تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔