سکھا دیا ہے زمانے نے بے بصر رہنا
خبر کی آنچ میں جل کر بھی بے خبر رہنا
سحر کی اوس سے کہنا کہ ایک پل تو رکے
کہ ناپسند ہے ہم کو بھی خاک پر رہنا
تمام عمر ہی گزری ہے دستکیں سنتے
ہمیں تو راس نہ آیا خود اپنے گھر رہنا
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
سفر عزیز ہوا کو مگر عزیز ہمیں
مثال نکہت گل اس کا ہم سفر رہنا
شجر پہ پھول تو آتے رہے بہت لیکن
سمجھ میں آ نہ سکا اس کا بے ثمر رہنا
عجیب طرز تکلم ہے اس کی آنکھوں کا
خموش رہ کے بھی لفظوں کی دھار پر رہنا
ورق ورق نہ سہی عمر رائیگاں میری
ہوا کے ساتھ مگر تم نہ عمر بھر رہنا
ذرا سی ٹھیس لگی اور گھر کو اوڑھ لیا
کہاں گیا وہ تمہارا نگر نگر رہنا
شاعر: وزیر آغا