شکايت ہے مجھے يا رب! خداوندان مکتب سے


 شکايت ہے مجھے يا رب! خداوندان مکتب سے 

سبق شاہيں بچوں کو دے رہے ہيں خاکبازی کا

تشریح:
اے خدا! مجھے درس گاہوں کے منتظموں سے یہ شکایت ہے کہ وہ شہبازوں کے بچوں کو مٹی میں کھیلنے کا سبق دے رہے ہیں۔
یہ موجودہ نظام تعلیم کی بنیادی خرابی کا ذکر ہے، مسلمانوں کے بچوں میں وہ جوہر پیدا کرنے چاہییں جو انھیں سربلندی اور بلند پروازی کے پیکر بنا دیں، لیکن یہاں انہیں ایسی تربیت دی جارہی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے پستی اور کم ہمتی میں ڈوبے رہیں۔
(شرح غلام رسول مہر )

اس شعر میں اقبال نے موجودہ نظام تعلیم پر تنقید کی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ مسلمان نوجوانوں کے اندر خاکبازی کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے اور بلند پروازی کا جذبہ فنا ہو جاتا ہے۔ یعنی مسلمان مادیات کو اپنا مقصودِ حیات سمجھنے لگتا ہے۔ اور یہ بات اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف ہے۔
شاہین ایک مشہور شکاری پرندہ ہے جو بلند پرواز ہوتا ہے۔ اپنا رزق خود اپنی قوتِ بازو سے مہیا کرتا ہے، تیز نظر ہوتا ہے۔ اور علائق دنیوی سے آزاد زندگی بسر کرتا ہے۔ چونکہ یہ سب مومنانہ صفات ہیں اس لیے اقبال نے لفظ شاہین کو اصطلاح بنا لیا ہے اور وہ مسلمانوں کو شاہین سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ اس مصرع میں "شاہین بچوں" سے مسلمان نوجوان ہی مراد ہیں۔
"خاکباز" بھی اقبال کی اصطلاح ہے اور اس سے مراد ہے وہ شخص جو پست ہمت ہو اور مادیات میں گرفتار ہو۔ خاکبازی شاہین یا مسلمان کی فطرت کے خلاف ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ موجودہ نظام تعلیم سے مسلمان کی فطرت مسخ ہو رہی ہے۔ اقبال اس نظام تعلیم کے خلاف ہیں۔
(شرح یوسف سلیم چشتی)

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی