مرید خاص مریل سا چہرہ لیے حاضر ہوا، وہ چارپائی پر بیٹھے دنیا و مافیہا سے بے خبر اور پرسکون حقہ پیتے ہوئے کھجل سائیں کو بیچارگی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
"کیا ہوا کاکے؟ بے موسمے آم جیسی شکل کیوں بنا رکھی ہے؟"۔۔۔۔
مرید جو پہلے ہی ستایا ہوا تھا جلے کٹے لہجے میں بولا:"بابا سائیں چہرے پر کچھ نا کہا کریں یہ اللہ کا بنایا ہوا ہے" ۔۔۔
کھجل سائیں نے ہلکی مسکراہٹ کیساتھ حقے کا کش بھرا اور بولا "تو پیارے، آم بھی تو اللہ نے ہی بنایا ہے" ۔۔۔۔
مرید ورطہ حیرت میں گم ہوکر بولا"تو کیا مطلب ہے آپ کا؟" ۔۔۔۔
اس بار کھجل سائیں نے دھواں نتھنوں سے خارج کرتے ہوئے جواب دیا "مطلب یہ کہ جب آم کو اپنی شکل تیرے جیسی ہونے پر اعتراض نہیں تو تجھے پریشانی کس بات کی ہے؟" ۔۔۔۔
"اففف! بابا سائیں اس وقت میں آپ کی گہری باتیں سمجھنے قاصر ہوں فی الوقت مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ اپنے حصے دار دوست کے ساتھ قطع تعلقی کیسے اختیار کروں؟" ۔۔۔۔
"بیٹا یہ قطع تعلقی جیسے نفیس چونچلے تیرے بس کا روگ نہیں تو اس کے ساتھ کتا تعلقی اختیار کرلے یہ تیرے حق میں زیادہ بہتر ہے"۔۔۔۔
"ہائیں! بابا جی یہ کُتا تعلقی کیا چیز ہے اور کیسے اختیار کی جائے؟"۔۔۔۔
"بالک یہ وہی تعلق ہے جو ہم لوگ زیادہ تر اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے ساتھ قائم رکھتے ہیں، ہمیں ان کی ضروریات کا خیال تو کجا ان کے مرنے جینے کی بھی دلی طور پر کوئی فکر نہیں ہوتی بس ایک تعلق زمانے کی نظروں میں اپنی شان و شوکت قائم رکھنے کے لیے برقرار رکھتے ہیں یا یہ سوچ کر کہ شاید وہ میرے مشکل وقت میں کام آتا رہے یا اس سے کسی قسم کا مالی فائدہ حاصل ہوتا رہے، گو قطع تعلقی برا فعل ہے مگر میرے خیال سے کتا تعلقی سے بہتر ہے اور تو چونکہ اپنے دوست کو خوار کرنا چاہتا ہے تو اس لیے تیرے حق میں کتا تعلقی زیادہ بہتر ہے"۔۔۔۔
مریدِ خاص نے ہوں ہاں کرتے ہوئے نفی میں سرہلادیا، گویا سمجھنے کی کوشش کرنا چاہ رہو مگر ۔۔ ۔۔
از-اے ایم