🌻 *نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کرنے کی شرعی حیثیت* 🌻


 🌻 *نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کرنے کی شرعی حیثیت* 🌻


📿 *نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کرنے کی رسم:*
آجکل یہ صورتحال بڑی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہے کہ والد اپنی نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کردیتا ہے حتی کہ اخبارات میں بھی یہ عاق نامہ شائع کردیتا ہے کہ: ’’میں اپنے فلاں نافرمان بیٹے یا بیٹی کو نافرمانی کی وجہ سے اپنے مال وجائیداد سے عاق کررہا ہوں، اس لیے میرے مال وجائیداد اور میراث میں اس کا کوئی حق نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کو کوئی حصہ ملے گا۔‘‘ پھر اس عاق کردہ اولاد کو میراث میں سے حصہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اس کو میراث کے مطالبے کا حق دیا جاتا ہے۔ 
ذیل میں اس عاق نامہ کی شرعی حیثیت ذکر کی جاتی ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ شریعت کی نگاہوں میں یہ عاق کرنا معتبر  اور درست ہے بھی یا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

📿 *نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کرنے کی شرعی حیثیت:*
واضح رہے کہ والد کا اپنی نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق اور محروم کرنے کی دو صورتیں ہیں:

⬅️ *والد کا اپنی نافرمان اولاد کو اپنی موت کے بعد میراث سے محروم کرنا:*
والد کا اپنی نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق اور محروم کرنے کی ایک عام اور رائج صورت یہ ہے کہ والد اپنی اولاد کو اپنے مال وجائیداد سے اس طور پر عاق کردیتا ہے کہ میری موت کے بعد میری فلاں اولاد کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا، تو واضح رہے کہ والد کا اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنی موت کے بعد میراث سے محروم کرنا شرعی اعتبار سے ہرگز معتبر اور درست نہیں،  جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1⃣ شریعت نے میراث میں وارثوں کے حصے متعین کردیے ہیں، جو کہ ان کو ضرور ملیں گے، چاہے کوئی وارث نیک ہو یا بد، فرمان بردار ہو یا نا فرمان، اور چاہے مورِث اس پر راضی ہو یا نہ ہو؛ بہر صورت یہ وارثوں کا حق ہے۔ گویا کہ یہ معاملہ مورِث یعنی فوت ہونے والے شخص کے اختیار اور رضا کے بغیر جاری اور لاگو ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی مورِث کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی وارث کو اپنی طرف سے میراث سے محروم کردے یا اس  کے مقررہ حصے میں کمی بیشی کردے۔ اِلّا یہ کہ شریعت خود  ہی کسی وارث کی محرومی کا فیصلہ کردے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
2️⃣ قرآن وسنت اور شرعی دلائل کی روشنی میں حضرات فقہائے امت نے موانعِ اِرث یعنی وارث کو میراث سے محروم کردینے والے اسباب ووجوہات ذکر فرما دی ہیں، ان اسباب میں سے والدین کی نافرمانی کو کسی بھی فقیہ اور مجتہد نے میراث سے محروم کردینے والے اسباب میں سے ذکر نہیں فرمایا، اس لیے اولاد کے لیے والدین کی نافرمانی یقینًا بڑا گناہ ہے، لیکن اس بنا پر ایسی نافرمان اولاد میراث سے محروم نہیں ہوسکتی۔ 
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ والد اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو میراث میں سے عاق کرتے ہوئے یہ وصیت کردے کہ اس کو میری موت کے بعد حصہ نہیں ملے گا تو یہ ہرگز معتبر نہیں، نہ تو یہ وصیت جائز ہے اور نہ ہی اس بنیاد پر کوئی وارث محروم ہوسکتا ہے، بلکہ اس بیٹے یا بیٹی کو بہر صورت میراث میں سے اس کا مقررہ حصہ ضرور ملے گا، اس لیے اس محروم کردہ بیٹے یا بیٹی کو اپنے حصے کے مطالبے کا حق حاصل ہے۔ اور دیگر وارثوں کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اس نافرمان بیٹے یا بیٹی کو اس کے حصے سے محروم کردے، کیوں کہ جب والد کی وصیّت شریعت کی نظر میں معتبر نہیں تو اولاد اور وارثوں کے لیے بھی اس ناجائز وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں۔

⬅️ *والد کا اپنی زندگی میں اپنی نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے محروم کرنا:*
والد کا اپنی نافرمان اولاد کو اپنے مال وجائیداد سے عاق اور محروم کرنے کی دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ والد اپنی زندگی اور صحت میں اپنی جائیداد وارثوں میں تقسیم کرکے یا کسی کارِ خیر میں صَرف کرکے اس میں سے اپنے نافرمان بیٹے یا بیٹی کو حصہ نہ دیتے ہوئے بالکل محروم کردیتا ہے۔ واضح رہے کہ شریعت میں اس طرح کرنے کی گنجائش ہے، کیوں کہ والد کو اپنی زندگی میں اپنے مال وجائیداد میں جائز تصرُّف کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے، اس لیے اگر والد اپنی نافرمان اولاد کوان کی نافرمانی کی وجہ سے محروم کرتے ہوئے سارا مال کسی کارِ خیر میں صَرف کردیتا ہے یا دیگر وارثوں میں تقسیم کردیتا ہے تو یہ جائز ہے، یہ ایک جائز طریقہ ہے نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے محروم کرنے کا، خصوصًا جب یہ غالب گمان ہو کہ ایسی نافرمان اولاد اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کاموں میں صَرف کرے گی تو ایسی صورت میں تو یہی بہتر ہے کہ ایسی اولاد کو کچھ بھی حصہ نہ دیا جائے، تاکہ گناہ کے کاموں میں ان کے ساتھ تعاون کی صورت نہ بنے۔ 

❄️ *مسئلہ:*
ایسی صورت میں جب والد  اپنی زندگی میں اپنا سارا مال اپنی اولاد میں تقسیم کردے اور اپنی نافرمان اولاد کو محروم کردے اور موت کے وقت والد کی ملکیت میں کچھ بھی مال نہ ہو تو ظاہر ہے کہ جب میراث کا مال موجود ہی نہیں تو  اس محروم کی گئی اولاد کو بھی کچھ نہیں ملے گا، اسی طرح ان کو دیگر وارثوں کے مال میں سے اپنے حصے کے مطالبے کا حق بھی حاصل نہیں کیوں کہ دیگر وارثوں کے پاس جو مال ہے وہ تو والد نے اپنی زندگی اور صحت ہی میں ان کی ملکیت اور قبضے میں دے دیا تھا، اس لیے اب وہ والد کی میراث نہیں بلکہ وارثوں کا اپنا مال ہے۔

📿 *اولاد کو مال وجائیداد سے  محروم کرنے سے متعلق ایک توجہ طلب پہلو:*
والدین اپنے نافرمان بیٹے یا بیٹی کو نافرمانی کے نتیجے میں مال وجائیداد سے محروم کردیتے ہیں، یہ محروم کردینا بسا اوقات اس نافرمان اولاد کو مزید باغی بنادیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اولاد مزید ضدی ہوجاتی ہے جس کے بعد ان کی اصلاح کی امید ختم ہوتی چلی جاتی ہے، یا وہ غربت کے مارے در بدر پھر کر ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی حرکات والدین کے لیے مزید بدنامی کا باعث بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اہلِ علم کی رائے کے مطابق بہتر یہ ہے کہ نافرمان اولاد کو بالکلیہ محروم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کے بنیادی اخراجات اور ضروریات کے بقدر کچھ حصہ دے دینا چاہیے، جس کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائے اور اس کی اصلاح کی امید پیدا ہوسکے۔ اس لیے والدین کو یہ غور کرنا چاہیے کہ نافرمان اولاد کو عاق کرکے مال وجائیداد سے بالکلیہ محروم کردینا مفید ہے یا نقصان دہ؟؟
یہاں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بسا اوقات اولاد کی نافرمانی کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین نے ان کی درست تربیت نہیں کی ہوتی یا والدین کسی ظلم ونا انصافی کے مرتکب ہوتے ہیں، ایسے میں سارا قصور وار اولاد ہی کو کیوں ٹھہرایا جاسکتا ہے؟؟ یہ بہت ہی اہم پہلو ہے جس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہو۔ 

▪ زیرِ بحث مسئلہ کی تفصیل کے لیے امداد الفتاویٰ، فتاویٰ محمودیہ اور احسن الفتاویٰ سمیت درج ذیل فتاویٰ وفقہی عبارات دیکھیے۔

📚 *فتاویٰ جات وفقہی عبارات*
1⃣ *دار الافتاء دار العلوم دیوبند:*
’’بیٹے کو عاق کرنے سے وہ عاق نہیں ہوتا۔ آپ کی وفات کے بعد وہ اپنے شرعی حصہ کا حق دار ہوگا۔ آج آپ کا بیٹا نافرمان ہے کل کو وہ سُدھر بھی سکتا ہے اور نیک بھی بن سکتا ہے۔ آپ محروم کردیں گے تو وہ آپ کے مرنے کے بعد ویران ٹھوکریں کھاتا پھرے گا، اس میں آپ کی بدنامی ہوگی۔ اس لیے آپ اس کو اس کا حصہ دے کر علیحدہ کردیجیے اور سب بچوں کو ان کے حصے دے کر انھیں مالک بنا دیجیے۔ آپ دنیا میں بھی نیک نام رہیں گے اور آخرت میں بھی، آپ کی روح کو راحت ملے گی۔‘‘ (جواب نمبر: 37249)

2️⃣ *دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن:*
’’واضح رہے کہ عاق  کرنے  کے معنی نافرمان قرار دینا ہے، جس کی میراث سے محرومی کےحوالے سے شرعًا کوئی حیثیت نہیں ہے، یعنی اپنی اولاد میں سے کسی کو  اپنی جائیداد سے عاق کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی شرعًا اس کی کوئی حیثیت ہے، پس والد کا  اپنی اولا د میں سے کسی کو عاق کرنے سے وہ عاق (نافرمان ہونے کی وجہ سے) میراث سے محروم نہیں ہوگا، بلکہ وہ بدستور اس  کی اولاد میں شامل رہے گا اور والد کی موت کے بعد اس کے ترکہ میں اپنے شرعی حصہ کا حق دار ہوگا، البتہ اگر واقعتًا وہ والد  کا نافرمان ہو تو کبیرہ گناہ  کا مرتکب ہے، جس پر عنداللہ  اس کا مواخذہ ہوگا، بشرطیکہ والد کی زندگی میں ہی معافی تلافی نہ کی ہو۔
☀ مشكاة المصابيح میں ہے:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثَ وَارِثِهِ قَطَعَ اللهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»، رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ. (1/266، باب الوصایا، ط: قدیمی)
☀ تکملۃ رد المحتار لمحمد علاء الدین میں ہے: 
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط ... إلخ (کتاب الدعوی باب التحالف فصل في دفع الدعاوی، ج:۷، ص:۵۰۵، ط: سعید)
☀ امداد الفتاوی میں ہے:
الجواب: عاق دو معنی میں مستعمل ہے: ایک معنی شرعی،  دوسرے عرفی، شرعی معنی تو یہ ہیں کہ اولاد والدین کی نافرمانی کرے، سو اس معنی کی تحقیق میں تو کسی کے کرنے نہ کرنے کو دخل نہیں، جو والدین کی بے حکمی کرے وہ عند اللہ عاق ہوگا، اور اس کا اثر فقط یہ ہے کہ خدا کے نزدیک عاصی ومرتکب گناہ کبیرہ کا ہوگا، باقی حرمانِ میراث اس پر مرتب نہیں ہوتا۔ دوسرے معنی عرفی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو بوجہ ناراضی بے حق ومحروم الاِرث کردے، سو یہ امر شرعًا بے اصل ہے، اس سے اس کا حقِ اِرث باطل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وراثت ملکِ اضطراری وحقِ شرعی ہے، بلا قصدِ مورث ووارث اس کا ثبوت ہوتا ہے۔ قال اللہ تعالى: «یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِيْ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ» الآیة. اور لام استحقاق کے لیے ہے، پس جب اللہ تعالیٰ نے حقِ وراثت مقرر فرمادیا اس کو کون باطل کرسکتا ہے؟ اور نیز قصّہ حضرت بریرہؓ کا شاہد اس کا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے اُن کو خرید کر آزاد کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس کے موالی نے شرط کی کہ ولاء ہماری رہے گی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ان کی شرط باطل ہے، اور ولاء معتق کی ہے۔ كما روى النسائي: عن عائشة: أنھا أرادت أن تشتري بریرة للعتق وأنھم اشترطوا ولاءھا، فذكرت ذلك لرسول اللّٰه ﷺ فقال رسول اللّٰهﷺ: «اشتریھا وأعتقیھا؛ فإنّ الولاء لمن أعتق»، الحدیث. جب ولاء کہ حقِ ضعیف ہے، چنانچہ حسبِ فرمودۂ پاک: «الولاء لحمة كلحمة النسب»، الحدیث. ضعف اس کا کافِ تشبیہ سے ظاہر ہے، وہ نفی کرنے سے نفی نہیں ہوتا، پس حقِ نسب کہ اقویٰ ہے کیوں کر نفی کو قبول کر سکتاہے؟ پھر جب واضح ہوا کہ اس معنی کا شرعًا کچھ ثبوت نہیں تو اس سے رجوع کی کچھ حاجت و ضرورت نہیں، بعد مرگِ پدر اس کا وارث ہوگا۔ البتہ محروم الاِرث کرنے کا طریق یہ ممکن ہے کہ اپنی حالتِ حیات وصحت میں اپنا کل اثاثہ کسی کو ہبہ یا مصارفِ خیر میں وقف کرکے اپنی ملک سے خارج کردے، اس وقت اس کا بیٹا کسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا، كما في العالمگیریة: لو كان ولدہ فاسقًا وأراد أن یصرف ماله إلى وجوہ الخیر ویحرمه عن المیراث هذا خیر من تركه، كذا في الخلاصة.ج:۳، ص:۶۵.(امداد الفتاوی، کتاب الفرائض، جلد چہارم، ص: 365، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی) فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (فتویٰ نمبر :144201200464، تاریخِ اجرا: 29-08-2020)

3️⃣ *دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن:*
’’عاق نامے کی شرعی کوئی حیثیت نہیں اس سے کوئی شخص میراث سے محروم نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس سے ڈرانا دھمکانا بھی بے فائدہ ہے۔‘‘ (فتویٰ نمبر :143101200651، تاریخِ اجرا: 01-01-2010)

4⃣ *تبیین الحقائق:*
وَهَذَا الْعِلْمُ مُخْتَصٌّ بِحَالَةِ الْمَمَاتِ وَغَيْرُهُ بِالْحَيَاةِ أو بِاعْتِبَارِ أَسْبَابِ الْمِلْكِ فَإِنَّهَا جَبْرِيَّةٌ أو اخْتِيَارِيَّةٌ فَالْأَوَّلُ الْمِيرَاثُ، وَالثَّانِي غَيْرُهُ من أَسْبَابِ الْمِلْكِ. (كتاب الفرائض)

5️⃣ *رد المحتار:*
الملك: ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص كما في «التلويح». (كتاب البيوع)

6️⃣ *فتاوى ہندیہ:*
وَلَوْ وَهَبَ رَجُلٌ شيئا لِأَوْلَادِهِ في الصِّحَّةِ وَأَرَادَ تَفْضِيلَ الْبَعْضِ على الْبَعْضِ في ذلك لَا رِوَايَةَ لِهَذَا في الْأَصْلِ عن أَصْحَابِنَا، وَرُوِيَ عن أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا كان التَّفْضِيلُ لِزِيَادَةِ فَضْلٍ له في الدِّينِ، وَإِنْ كَانَا سَوَاءً يُكْرَهُ، وَرَوَى الْمُعَلَّى عن أبي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا لم يَقْصِدْ بِهِ الْإِضْرَارَ، وَإِنْ قَصَدَ بِهِ الْإِضْرَارَ سَوَّى بَيْنَهُمْ: يُعْطِي الِابْنَةَ مِثْلَ ما يُعْطِي لِلِابْنِ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، هَكَذَا في «فَتَاوَى قَاضِي خَانْ»، وهو الْمُخْتَارُ كَذَا في «الظَّهِيرِيَّةِ». رَجُلٌ وَهَبَ في صِحَّتِهِ كُلَّ الْمَالِ لِلْوَلَدِ جَازَ في الْقَضَاءِ، وَيَكُونُ آثِمًا فِيمَا صَنَعَ كَذَا في «فَتَاوَى قَاضِي خَانْ»، وَإِنْ كان في وَلَدِهِ فَاسِقٌ لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعْطِيَهُ أَكْثَرَ من قُوتِهِ كَيْ لَا يَصِيرَ مُعِينًا له في الْمَعْصِيَةِ كَذَا في «خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ»، وَلَوْ كان وَلَدُهُ فَاسِقًا وَأَرَادَ أَنْ يَصْرِفَ مَالَهُ إلَى وُجُوهِ الْخَيْرِ وَيُحْرِمَهُ عن الْمِيرَاثِ هذا خَيْرٌ من تَرْكِهِ كَذَا في «الْخُلَاصَةِ»، وَلَوْ كان الْوَلَدُ مُشْتَغِلًا بِالْعِلْمِ لَا بِالْكَسْبِ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُفَضِّلَهُ على غَيْرِهِ كَذَا في «الْمُلْتَقَطِ». 
(كِتَابُ الْهِبَةِ، الْبَابُ السَّادِسُ في الْهِبَةِ لِلصَّغِيرِ)

7️⃣ *البحر الرائق:*
وفي «الْخُلَاصَةِ»: الْمُخْتَارُ التَّسْوِيَةُ بين الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى في الْهِبَةِ، وَلَوْ كان وَلَدُهُ فَاسِقًا فَأَرَادَ أَنْ يَصْرِفَ مَالَهُ إلَى وُجُوهِ الْخَيْرِ وَيَحْرِمَهُ عن الْمِيرَاثِ هذا خَيْرٌ من تَرْكِهِ؛ لِأَنَّ فيه إعَانَةً على الْمَعْصِيَةِ، وَلَوْ كان وَلَدُهُ فَاسِقًا لَا يعطى له أَكْثَرَ من قُوتِهِ. (كتاب الهبة)

❄️ *فائدہ:*
زندگی میں جائیداد کی تقسیم سے متعلق اسی سلسلہ اصلاحِ اَغلاط کا سلسلہ نمبر 16: ’’زندگی میں تقسیمِ جائیداد سے متعلق بنیادی احکام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی