سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام نے مل کر بیت اللہ شریف کی تعمیر کی۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی قربانیوں سے عبارت ہے۔ بچپن سے‘لڑکپن سے لے کر حین حیات‘ اللہ جل شانہٗ کی اطاعت میں قربانیوں کا ایک تسلسل ہے۔جب حضرت اسمعٰیل علیہ السلام اس قابل ہوئے کہ آپ علیہ السلام کی مدد کرسکتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا۔بیت اللہ شریف کی جگہ وہی ہے جو روز اوّل سے مقرر تھی اورجہاں حضرت آدم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کی۔ طوفان نوح علیہ السلام میں عمارت ختم ہوگئی اور ایک چھوٹی سی ٹیکری رہ گئی تھی جس کے گرداگرد پانی طواف کرتاتھا۔ مکہ مکرمہ ایک ایسا شہر ہے جس میں پانچ پہاڑیاں اور ان کے درمیان نالے ہیں۔ اکثر وبیشتر سارے نالے بیت اللہ کی جگہ پہ اکٹھے ہو کر ایک سمت کو بہتے ہیں۔اس طرح ہر طرف سے پانی آتا تھا جو وہاں سے ایک سمت کو نکلتا۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی پہاڑی نما جگہ تھی۔ انہی بنیادوں پر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے نشان دہی فرمائی اور حجر اسود جو جنت سے آدم علیہ السلام کے ہمراہ آیا تھا اس میں نصب فرمایا گیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کر رہے تھے۔ اے ہمارے پروردگار ہماری محنت‘مجاہدہ‘ یہ کام قبول فرماکہ بے شک تو ہماری گذارشات بھی سن رہا ہے اور جاننے والا بھی ہے جوہمارے دل میں ہے وہ تُو جانتا بھی ہے۔ اے اللہ ہم دونوں کو اپنا اطاعت گزار بنائے رکھ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت پیدا فرما جو ہمیشہ آپ کی اطاعت گزار رہے اور ہمیں طواف‘حج‘ عمرے‘ عبادات اور اپنی اطاعت کے طریقے بھی بتا اور ہماری توبہ قبول فرما‘ہم پر رحمت فرما۔ یقینا تُو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔
دونوں اولوالعزم رسول ہیں‘ وہ خلیل اللہ علیہ السلام ہیں‘ یہ ذبیح اللہ علیہ السلام ہیں۔ دونوں کی زندگی بے مثال قربانیوں سے عبارت ہے۔ بیت اللہ شریف کی تعمیر کر رہے ہیں اور عرض یہ کر رہے ہیں‘ یا اللہ ہماری یہ کاوش قبول فرمایا۔ ساری زندگی کی قربانیوں‘ نیکی اور تقویٰ اور اپنی رسالت و نبوت پہ کوئی غرور اور گھمنڈ نہیں ہے۔نبوت وہبی چیز ہوتی ہے جو اللہ کریم اپنی طرف سے عطا کرتاہے اور نبی معصوم عن الخطا ہوتا ہے اس سے کبھی گناہ کا صدور نہیں ہوتا۔ ہمیشہ قربِ الٰہی کے منازل میں ترقی کرتا رہتا ہے۔جس طرح اللہ کی ذات لا محدود ہے اس کی کوئی حد نہیں اسی طرح قربِ الٰہی کی بھی کوئی انتہا اورکوئی حد نہیں ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے منازلِ قرب میں ترقی ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ زندگی میں بھی‘دنیوی زندگی کے بعد بھی‘میدان حشر میں بھی اور جنت الفردوس میں بھی‘ ہر آن قربِ الٰہی میں نبی کو ترقی نصیب ہوتی رہتی ہے۔قرب الٰہی کی انتہا نہیں ہے کہ کہیں بس ہو جائے اور یہی بات یہاں ہے کہ بیت اللہ بنارہے تھے ساری زندگی اللہ کی اطاعت‘ زہد‘ ورع تقویٰ اور قربانیاں عبارت ہیں اور پھر درخواست کر رہے تھے کہ اے اللہ ہماری اس کاوش کو قبول فرما۔اے اللہ! ہمیں ہمیشہ اپنا فرماں بردار بنائے رکھ‘ کہیں ہم سے کوئی سستی نہ ہو حالانکہ نبی سے گناہ محال ہے۔ نبی معصوم ہوتاہے لیکن انبیاء علیہم السلام کا کردار مخلوق اور تعلیم اُمت کے لئے ہوتا ہے۔آپ علیہ السلام رہنمائی فرما رہے تھے کہ کسی جگہ‘کسی نیکی کے معیار پر آکر بندے کو نازاں نہیں ہونا چاہیے بلکہ مز ید نیکی کی توفیق اور جوکمی رہ گئی ہے اس کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔
اے اللہ! ہم دونوں کواپنا اطاعت گزار بنائے رکھ اے اللہ! ایک کرم اور فرما‘ ہماری نسل میں بھی اپنے اطاعت گزار بندے پیدا کر اور یہ انہی کی دعا کا اثر ہے کہ ان کے بعد کبھی دنیاسے دین ختم نہیں ہوا۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت ایک شخص ایسا تھا جس نے حضر ت سلمان فارسی رضی اللہ تعالےٗ عنہٗ کو بتا یا کہ میں جانتا ہو ں حق کیا ہے اور بولتا اس لئے نہیں کہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے لیکن جب میر آنکھ بند ہوگی تو محمد رسول اللہ ﷺ مبعوث ہو جائیں گے۔ جس نبی کی تجھے تلاش ہے وہ نبی مبعوث ہو جائے گا‘اس لئے کہ زمین پر سے حق مٹے گا نہیں‘ایک بندے کی صورت میں بھی حق موجود ہے۔ یہی دعا ہے کہ یااللہ ہمیں بھی اپنا اطاعت شعار بنا اور ہماری اولاد میں سے ایک جماعت ایسی رکھ جو ہمیشہ تیر ی اطاعت گزار ہو۔ایسی ایک جماعت قائم رکھ جو ہمیشہ تیری اطاعت گزار رہے۔ اب آدمی کے سامنے آئینہ ہے‘ اللہ کاقرآن اور اللہ کی کتاب‘ اللہ کے دو الوالعزم رسولوں کایہ فرمان اور گذارش کو سامنے رکھ کر وہ اپنے آپ کو‘اپنے کردار کو دیکھ سکتاہے‘ اپنی نیت کو جانچ سکتا ہے‘ اپنے اعمال کو پرکھ سکتاہے۔ تو ساری ولایت‘ ساری نیکی‘بزرگی‘ ذکر واذکار‘ تزکیہ اور پاکیزگی یہ ہے کہ آدمی کا کردار اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے حکم کے مطابق ڈھلتا جائے۔ اگر یہ بات نصیب ہے اور اس کا سفر نیکی کی طرف جاری ہے تواللہ کا مقبول بندہ ہے اور اگر یہ نہیں ہے تو ہزاروں شعبدے اسے حاصل ہو جائیں‘ اپنے آپ کو صاحب کرامت سمجھتا رہے‘ اسے کشف مشاہدے ہوتے رہیں‘ خواب آتے رہیں‘ وہ پرندوں کی طرح ہوا میں اڑتا بھی رہے تو کیا کمال ہے! ایک مکھی بھی اڑلیتی ہے‘ گدھ بھی اڑلیتا ہے‘ ایک بندے نے اڑ لیا تو کیا کمال ہوگیا!پانی پر چلتا رہے تو پانی پر تو مینڈک بھی چل رہے ہوتے ہیں‘ کوئی کمال نہیں ہے۔ نسل انسانی کے لئے سب سے بڑا کمال ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی اوراللہ کی اطاعت اور بڑی سے بڑی ولایت اور مجاہدے اور ذکر اذکار کا حاصل یہ ہے کہ اسے اطاعت الٰہی نصیب ہوتی جائے اور یہی دعا یہاں دونوں اولوالعزم رسول کررہے ہیں۔
ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک جماعت ایسی رکھ جو تیر ی اطاعت گزار رہے۔اے اللہ! ہمیں طریقہ عبادت بھی بتا‘ یہ بڑا نازک مقام ہے۔ محبت ایک جذبہ ہے جوکسی سے تعلقات کا بہت اونچا اور باکمال مقام ہے جس کسی سے محبت ہوتی ہے خواہ ہمارا دوست ہو یا بھائی یا کوئی عزیز‘رشتہ دار اس کی خاطر مدارت اپنی پسند سے کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر اچھا کھانا اس کو کھلائیں‘ ہرطرح سے اسے خوش کرنے کی کوشش کریں لیکن یہ محبت جب اللہ اور اس کے رسولﷺ سے ہوتی ہے تو پھر محبت کی کیفیت بد ل جاتی ہے۔ وہاں ہماری مرضی نہیں چلتی‘ وہاں دیکھنا پڑتا ہے کہ اللہ اور اس کا حبیبﷺ کس انداز سے خوش ہوتے ہیں‘وہاں محبت کا ڈھنگ بدل جاتاہے۔ آپ اگر اپنے ماحول میں دیکھیں تو آپ کو بے شمار قباحتیں نظر آئیں گی جو ہم نے محبت کے نام پر ایجاد کر لی ہیں جن کا شریعت میں کوئی وجود نہیں‘ نہ ہی جن کا حکم اللہ کی طرف سے ہے‘نہ اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے ہے۔بے شمار رسومات ہم نے ایجاد کرلی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے اوراس پہ ہمیں دعویٰ یہ ہے کہ ہم محبت میں کررہے ہیں۔ محبت میں نافرمانی کا کیا کام ہے‘ یہ کونسی محبت ہے جو آپﷺ کے احکام سے برگشتہ کر رہی ہے!
باوجود یہ کہ دونوں اولوا العزم رسول ہیں لیکن تعلیم اُمت کے لئے فرمارہے ہیں کہ اے اللہ! ہمارا کوئی کام بھی ہماری مرضی سے نہ ہو بلکہ تو ہمیں بتا کہ ہمیں کیا کرناہے اور ہم وہ کرتے ہیں۔ نیکی کیا ہے‘ وہ کام جس کے کرنے کا اللہ حکم دے‘ وہ کام جس کے کرنے کا اللہ کا حبیبﷺ حکم دے اور اس طریقے سے کیا جائے جس طریقے سے محمد رسول اللہ ﷺ کرنے کا حکم دیں۔ دونوں چیزیں نیکی میں ضروری ہیں۔ہمیں اپنی عبادت کے طریقے اور راستے دکھاتا رہم نیکی کریں‘ اطاعت کریں‘ پھر بھی ہم مخلوق ہیں تو مالک الملک ہے‘ تیری شان کجا! مخلوق سے اس پائے کی نیکی اور اطاعت نہ ہوسکے گی جو تیر ی بارگاہ کے لائق ہو‘ تُو ہماری توبہ قبول فرما۔اس لئے کہ تُو توبہ قبو ل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ نیکی پر فخر کرنے کی بجائے نیکی کر کے بھی اس بات سے ڈرنا کہ جو تحفہ میں نے اس کی بارگاہ میں سجدوں کا بھیجا ہے‘ میرے سجدے اس لائق نہیں کہ جو عظمت اس کی بارگاہ کی ہے اور یہ عرض کرتے رہنا چاہیے کہ اے اللہ یہ ٹوٹے پھوٹے سجدے قبول فرما‘ تیری شان کے لائق نہیں ہیں لیکن مجھ میں وہ استعداد نہیں ہے‘ میں عاجز مخلوق ہوں‘ ناکارہ بندہ ہوں‘میرے حال پہ رحم فرما‘ میری توبہ قبول فرما۔ پھر وہ دعافرمائی سبحان اللہ‘ اللہ کے بندوں کا بھی عجب حال ہوتاہے!ہم نیکی کریں‘ عبادت کریں‘ ہماری سوچ ہماری ذات تک محدود ہوتی ہے اور ہم اپنے لیے مانگتے نہیں تھکتے اور اللہ کے بندے کیا عجیب لوگ ہوتے ہیں کہ مجاہدے میں‘ اطاعت میں‘ فرمانبرداری میں اپنی عمر لگادی اور جب مانگنے کی باری آئی تو دوسروں کے لئے مانگتے ہیں۔کتنا فرق ہے عام آدمی میں اور ایک اللہ کے بندے میں! کتنا فاصلہ ہے کہ ہم کوئی نیکی‘ صدقہ‘ عبادت کریں اور پتہ نہیں کہ صحیح بھی ہوتی ہے یا نہیں لیکن پھر بھی اس پہ ہمیں بڑا ناز ہوتاہے اور ہم اپنے لئے دنیا کی حکومت مانگ لیتے ہیں۔دنیا کی حکومت مانگنے کا مطلب ہے کہ ہر کام ویسے ہی ہو جائے جیسے میں چاہتا ہوں لیکن مانگنا بھی عبادت ہے۔ ہم اپنے لئے مانگتے نہیں تھکتے جبکہ اللہ کے بندوں کا عالم یہ ہے کہ زندگی نچھاور کردی اطاعت الٰہی میں اور جب مانگنے کی باری آئی تو آنے والی نسلوں کے لئے‘نوع انسانی کے لئے مانگ رہے ہیں۔
دعا کرتے ہیں: اے اللہ ہماری نسلوں میں سے ایک جماعت دین داروں کی ضرور رکھنا‘ سب کو شیطان کے سپرد نہ کردینا اور پھر ان پر یہ کرم فرماان میں سے ایک ہستی کو ایسا رسولﷺ مبعوث فرما جو تیری آیات ان پر تلاوت فرمائے‘انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے انہیں پاک کردے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ میں اپنے دادا ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں‘ عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں‘ اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں۔ آپ علیہ السلام نے یہ دعا مانگی تھی‘ یااللہ! ان میں ایسا رسول مبعوث فرما جو بندوں کواللہ سے ہم کلام کردے۔تیر ی باتیں ان پر تلاوت کرے اور اللہ کا کلام بندوں تک پہنچائے اور بندوں کو اللہ کے روبرو کھڑا کردے اور انہیں اللہ سے ہم کلام کردے۔ دیکھو! محمدرسول اللہ ﷺ کا کمال کہ ماوشما بھی اللہ سے بات کرتے ہیں۔اب یہ ہمارے نصیب کہ ہم وہ دل سے کر رہے ہیں یا نماز میں کھڑے ہوئے بھی کہیں باہر گھوم رہے ہیں لیکن یہ دروازہ تو محمد رسول اللہ ﷺ نے ہر کلمہ گو کے لئے کھول دیاہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ نمازی کے آگے سے نہ گزرو وہ اپنے پروردگار سے سرگوشیاں کررہا ہوتاہے‘ اپنے دل کی بات کر رہا ہے‘ اپنا دکھ درد کہہ رہا ہے‘ اپنے رب کی تعریف کررہا ہے‘اس کے آگے سے نہ گزرو۔ یہی دعا تھی حضر ت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی‘ اے اللہ! ان میں ایسا عالی شان رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری ذات سے ہم کلام کر دے‘ تیری آیات ان پر تلاوت کرے اور کتاب اور حکمت کی تعلیم سے انہیں آشنا کر دے۔ نہ صرف تیری کتاب تلاوت کرے بلکہ کتاب کے مفاہیم حکمت کی تعلیم بھی فرمائے۔ بعض لوگوں کا اعتراض ہے کہ قرآن حکیم ایک عربی کتاب ہے‘ نبی کریمﷺ پر نازل ہوئی‘ آپﷺ نے عطا کردی اوراب اس کے معنی ہم گرائمر کی رو یا صرف و نحو کی رو یا علم کلام کی رو سے سمجھ سکتے ہیں۔قرآن کریم وحی الٰہی ہے۔ جب اس کا نزول ہوتا‘ اس وقت بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالےٗ علیہم اجمعین خدمت عالی میں حاضر ہوتے لیکن سوائے نبی کریم ﷺ کی ذات کے کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ وحی کے نزول کے بعد جب حضورﷺ نے یہ سوال فرماتے کہ جانتے ہو اس آیت کا معنی اور مفہوم کیا ہے تو خلفا ئے راشدین اور جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی عرض کرتے اللہ اور اس کا رسول ﷺبہتر جانتے ہیں۔جس نے بات ارشاد فرمائی وہ جانتا ہے اورجس نے سنی وہ جانتاہے‘ ہمیں آپ ﷺ بتا رہے ہیں کہ اس کا مفہوم کیاہے‘ یہ منصب بھی آپ ﷺ ہی کا ہے۔ آج بھی اگر مسلمانوں کا ہر فرقہ اس بات پہ آجائے کہ ہر آیت کا وہ مفہوم لیا جائے جو حضور ﷺ نے سمجھایا اور حضور ﷺ کے مخاطبین نے سمجھا تو مسلمانوں میں کوئی فرقہ نہیں رہتا۔ فرقہ بندی کی جڑ یہ ہے کہ ہم قرآن تواللہ کا پڑھتے ہیں لیکن معنی اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ محمدرسول اللہ ﷺ نے جومعنی عطافرمائے انہیں چھوڑ دیتے ہیں‘ یہاں سے فرقہ بندی شروع ہو جاتی ہے۔یہ حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہم السلام کی دعا تھی: اللہ! ایسا عظیم الشان رسول ﷺ مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات تلاوت فرمائے اور ان آیات کے مفاہیم بھی انہیں سمجھائے اور انہیں وہ دانائی عطا فرمائے جو اس کی وضاحت کردے۔ حضوراکرمﷺ نے کتا ب اللہ کی وضاحت فرمائی‘ جسے سمجھنے کے لئے آپ ﷺ کی حدیث بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا قرآن کریم۔ حدیث کا منکر بھی ویسا ہی کافر ہے جیسا قرآن کا منکر کافر ہے۔ اس لئے کہ حدیث کے بغیر قرآن حکیم کے مفہوم کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ حدیث کیاہے؟ سیدنا عائشہ صدیقہ حبیبہ حبیب کبریا رضی اللہ تعالیٰ عنہا اُم المومنین سے کسی نے سوال کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور ﷺ کے اخلاق کریما نہ کے بارے کچھ ارشاد فرمائیے تاکہ میرا دل روشن ہو۔انہوں نے مختصر ساجواب دیا‘ فرمایا: نبی کریم ﷺ کے اخلاق کریمانہ کی حقیقت یہ ہے کہ آپ حضورِ اکرمﷺ کی عظمت سے آشنا ہوناچاہتے ہیں تو پھر قرآن ہی پڑھیں۔ قرآن آپ ﷺ کے سارے اخلاق کریمانہ کو بیان کرتا چلا جاتاہے۔