اگست 1099 ع ، رمضان کا مہینہ، جمعہ کا وقت.
بغداد کی مرکزی جامع مسجد میں مسلمانوں کے خلیفہ وقت ، المستظہر باللہ جمعہ کے خطبہ کےلئے منبر پر آکر کھڑے ہوئے۔۔۔
عین اس وقت اچانک سامنے کی صف میں بیٹھے ایک شخص نے اپنے تھیلے سے ایک روٹی نکال کر کھانا شروع کردی ۔۔۔
رمضان کے پہلے جمعہ کا خطبہ، اسلامی دارالحکومت کی مرکزی مسجد اور عباسی خلیفہ کے سامنے ایک شخص کا یوں روٹی کھانا شروع ۔۔
لوگ غصہ میں مارنے کو دوڑے ، پوری مسجد کے لوگ بشمول خلیفہ بھی اس عجیب منظر کو دیکھنے لگے کہ آخر ہو کیارہا ہے؟
کوئی پاگل ہے یا بد تمیز ؟
آخر ہے کون ؟
لوگوں نے غصے سے پوچھا کہ یہ کیا حرکت کی تم نے ؟؟
اس پر اس شخص نے گرج دار آواز میں اب بولنا شروع کیا !
“ تم لوگ میرے رمضان میں یوں کھانا کھانے پر غصہ ہورہے ہو ، تم سب کی غیرت اچانک جاگ گئی کہ کیسے ایک شخص نے مسجد میں کھانا کھا کر توہین کردی ۔۔
لیکن دو ہفتے پہلے بیت المقدس ، مسجد اقصیٰ پر صلیبوں نے قبضہ کرلیا ، مسجد میں قرآن مجید کی توہین کی گئی ، مگر تم میں سے کسی کی غیرت نہ جاگی ۔۔۔
یہاں بغداد میں کسی کے روزمرہ کے کام تک نہ رکے ۔۔۔
حتی کہ میں ایک ہفتے سے خلیفہ سے ملنے کی کوشش کرتا رہا لیکن انکے محافظوں اور آس پاس گھومتے چمچوں نے ملنے تک نہ دیا ۔۔۔
تمہیں لگا کہ میں نے یہاں کوئی حرام کام کیا ہے جبکہ میں تو دمشق سے آیا ہوا ایک مسافر ہوں ، جس پر روزہ رکھنا فرض ہی نہیں ۔
لیکن اے خلیفتہ المسلمین !!! تم پر تو بیت المقدس کی حفاظت فرض تھی ، تم نے کیوں اسے صلیبیوں کے ہاتھ میں جانے دیا ؟
تم یہاں خطبہ دے رہے ہو وہاں ہمارے بھائی در بدر پھر رہے ہیں ہماری بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں ۔
میں دمشق کا قاضی اور امام الھراوی ہوں ۔ میں تمہیں جھنجھوڑنے آیا ہوں کہ آنکھیں کھولو ! اقصیٰ کو صلیبیوں سے آزاد کرواؤ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر عورتوں کی طرح گھر بیٹھ جاؤ ۔
شیخ الھراوی دیر تک بولتے رہے ، لوگ زار و قطار رو نے لگے ۔ خود خلیفہ نے روتے ہوئے معافی مانگی اور سلجوق حکمران سے مل کر اقصیٰ کی آزادی کے لئیے جدوجہد کا وعدہ کیا ۔
یہ شیخ زین الاسلام الھراوی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو افغانستان کے صوبے ھرات میں پیدا ہوئے اور پھر دمشق جاکر دینی علوم میں وہ مہارت حاصل کی کہ قاضی یعنی چیف جسٹس مقرر ہوئے ، آپ بڑے عالم اور بہترین خطیب بھی تھے ۔
اقصی پر دشمن نے قبضہ کیا تو آپ نے مدرسہ میں بیٹھ کر پڑھنے پڑھانے کے عمل کو موقوف کر کے امت اور امت کے حکمرانوں کے ضمیر کو جگانے کی مہم کا آغاز کیا۔
انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا جو بالآخر کئی سال بعد صلاح الدین ايوبي کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح کی صورت میں نکلا۔
لیکن آج کے علماء، مکتب و مدرسے میں درس و تدریس کے فرائض ادا کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم پرجہاد باللسان، جہاد بالقلم جہاد بالمال اور جہاد فی سبیل اللہ کی فرضیت ساقط ہوگئی