ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الاعراف آیت نمبر 127
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اَتَذَرُ مُوۡسٰی وَ قَوۡمَہٗ لِیُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾
ترجمہ: اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے (فرعون سے) کہا : کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو کھلا چھوڑ رہے ہیں، تاکہ وہ زمین میں فساد مچائیں، اور آپ اور آپ کے خداؤں کو پس پشت ڈال دیں ؟ (٥٦) وہ بولا : ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے اور ہمیں ان پر پورا پورا قابو حاصل ہے۔
تفسیر: 56: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے ایمان لانے والے جادوگروں کو دھمکیاں تو دی تھیں ؛ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے اور جادوگروں کے ایمان اور استقامت کو دیکھ کر حاضرین اور خاص طور پر بنی اسرائیل کی اتنی بڑی تعداد ایمان لے آئی کہ اس کو فوری طور سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں پر ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ نہ ہوا، اور جب مجمع درہم برہم ہوگیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے اپنے گھروں کو چلے گئے، اس موقع پر فرعون کے سرداروں نے یہ بات کہی جو یہاں مذکور ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے، رفتہ رفتہ یہ اپنی طاقت جمع کرکے آپ کے لئے ایک خطرہ بن جائیں گے، فرعون نے اپنی خفت مٹانے کے لئے ان کا جواب دیا کہ فوری طور پر چاہے میں نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی، مگر اب بنی اسرائیل کو ایک ایک کرکے ختم کروں گا، البتہ عورتوں کو اس لئے زندہ رکھوں گا کہ وہ ہماری خدمت کے کام آسکیں، اس نے اپنے آدمیوں کو یہ بھی یقین دلایا کہ حالات ہمارے قابو میں ہیں اور ہماری حکمت عملی ایسی ہے کہ ہمارے لئے کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں ہوگا، اس طرح بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مومنوں کو تسلی دی کہ صبر سے کام لیتے رہو۔ آخری انجام انشاء اللہ تمہارے ہی حق میں ہوگا۔