ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الاعراف آیت نمبر 94
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَضَّرَّعُوۡنَ ﴿۹۴﴾
ترجمہ: اور ہم نے جس کسی بستی میں کوئی پیغمبر بھیجا، اس میں رہنے والوں کو بدحالی اور تکلیفوں میں گرفتار ضرور کیا، تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں۔ (٤٩)
تفسیر: 49:: بتایا یہ جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اپنے عذاب سے ہلاک کیا انہیں (معاذاللہ) جلدی سے غصے میں آکر ہلاک نہیں کردیا، بلکہ انہیں سالہا سال تک راہ راست پر آنے کے بہت سے مواقع فراہم کئے، اول تو پیغمبر بھیجے جو انہیں برسوں تک ہوشیار کرتے رہے، پھر شروع میں انہیں کچھ معاشی بدحالی یا بیماریوں وغیرہ کی مصیبتوں سے دوچار کیا تاکہ ان کے دل کچھ نرم پڑیں کیونکہ بہت سے لوگ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور تنگی ترشی میں بعض اوقات حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ پیدا ہوجاتی ہے، جب ایسے حالات میں پیغمبر ان کو متنبہ کرتے ہیں کہ ذرا سنبھل جاؤ ابھی اللہ تعالیٰ نے ایک اشارہ دیا ہے، جو کسی وقت باقاعدہ عذاب میں تبدیل ہوسکتا ہے تو بعض لوگوں کے دل پسیج جاتے ہیں، دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان پر خوش حالی آتی ہے تو ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اس وقت حق بات کو قبول کرنے کے لئے نسبتاً زیادہ آمادہ ہوجاتے ہیں، چنانچہ ان لوگوں کو بدحالی کے بعد خوش حالی کی نعمت بھی عطا کی جاتی ہے ؛ تاکہ وہ شکر گزار بن سکیں، حالات کی اس تبدیلی سے بعض لوگ بیشک سبق لے لیتے ہیں اور راہ راست پر آجاتے ہیں، لیکن کچھ ضدی طبیعت کے لوگ ان باتوں سے کوئی سبق نہیں سیکھتے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ دکھ سکھ اور سرد گرم حالات تو ہمارے باپ داداؤں کو بھی پیش آچکے ہیں، انہیں خوامخواہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اشارہ قرار دینے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس طرح جب ان لوگوں پر ہر طرح کی حجت تمام ہوچکی ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آتا ہے اور اس طرح پکڑلیتا ہے کہ ان کو پہلے سے اندازہ بھی نہیں ہوتا۔