اُمتِ مسلمہ کے بحیثیتِ مجموعی دوبارہ احیاء یعنی دوبارہ عالمی طاقت بننے کیلئے اور مغرب کے استحصال و ظلم کا مقابلہ کرنے کیلئے جو لائحہء عمل زیرِ بحث لائے جاتے ہیں اگر اُنہیں بغور پرکھا جائے تو عموماً دو قسم کی طرزِ فکر کے لائحہء عمل سامنے آتے ہیں؛
1. پہلا لائحہء عمل وہ ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ مسلمان بحث مجموعی اِس وقت تعلیم، ٹیکنالوجی، معاشی طاقت اور سیاسی یکجہتی سے بہت دُور ہیں اور انتہائی کمزور ہیں. اِس لئیے مغرب کے استحصال و ظلم کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے ہمیں جدید علوم، جدید ٹیکنالوجی پہ مہارت حاصل کرنا ہوگی، جدید دنیا کو ناقابلِ قبول باتیں مذہب سے نکالنا ہونگی اور معیشت مضبوط کرکے سیاسی یکجہتی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا. اور یہ منزل حاصل ہونے تک ہمیں سر نیچا کرکے ظلم اور استحصال برداشت کرنا چاہئیے. جیسا کہ یہود نے حکمتِ عملی اپنائی اور آج وہ دنیا کا طاقتور ترین طبقہ ہیں. اِس حوالے سے چین کی مثال بھی دی جاتی ہے.
2. دوسرا لائحہء عمل وہ ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ مسلمان انفرادی طور پہ اور مسلم ممالک کی حکومتیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں جس بھی قابل ہیں، انہیں انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ عالمی جبر، ظلم اور استحصال کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے. اس لائحہء عمل کے حامی کہتے ہیں کہ ہمیں دستیاب وسائل کی بنیاد پہ مسلح جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور مغرب کی ٹیکنالوجی میں برتری سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے. وافر وسائل،سیاسی معاشی اور عسکری برتری کا انتظار کرتے کرتے امت کا بہت سا نقصان ہوچکا ہوگا لہذا اچھے وقت کے انتظار کے بجائے دستیاب مادی وسائل اور دستیاب ٹیکنالوجی کے ساتھ مزاحمت جاری رکھنی چاہیئے. یہ گروہ مسلم ممالک کی حکمران اشرافیہ سے مایوس ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ حکومتوں پہ مظلومین کی مدد اور مغرب کے خلاف سخت موقف اور سخت اقدامات کیلئے دباؤ بھی برقرار رکھنے کا حامی ہے.
میرے نزدیک دونوں لائحہء عمل درست ہیں اور کسی ایک کو یکسر رَد کرکے کسی دوسرے کو حق قرار دینے پہ بضد رہنا درست نہیں. دونوں ہی لائحہ ھائے عمل میں حکمت پوشیدہ ہے. میں اِن دونوں افکار میں تطبیق کرنے کی کوشش کرتا ہوں.
دیکھیں! کسی بھی گروہ، معاشرے یا امت میں شامل افراد ایک جیسی جسمانی، ذہنی اور معاشی صلاحیت کے حامل نہیں ہوتے. ہر ایک کا پسِ منظر مختلف ہوتا ہے. پھر مخلتف علاقوں کے باشندوں کی بھی اپنی اپنی مخصوص صلاحیتیں ہوتی ہیں. لہذا سب کو ایک ہی کام پہ لگانا بذاتِ خود ظلم اور جبر ہوگا. چنانچہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ امت کا جو طبقہ سائنس و ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتا ہے، یا جسے سائنس و ٹیکنالوجی میں Train کِیا جاسکتا ہے، اسے سائنس و ٹیکنالوجی میں excellence حاصل کرنے میں بھرپور مدد و سہولت دی جائے. معاشی طور پہ مضبوط مسلم ممالک کمزور ممالک میں زراعت، صنعت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیمی اداروں میں سرمایہ کاری کریں اور طلباء کو سکالرشپ پہ مغرب میں تعلیم کیلئے بھیجیں تاکہ وہ جدید سائنسی و ٹیکنالوجیکل علوم سیکھ کر امت کی مدد کر سکیں. انفرادی اور اجتماعی معیشت کو بتدریج سائنسی بنیادوں پہ استوار کرکے یورپین یونین طرز کا ایک بلاک بنایا جائے اور پھر نیٹو طرز کا فوجی اتحاد قائم کیا جائے جس کے تحت ایک ملک پہ حملہ تمام ممالک پہ حملہ تصور کِیا جائے. ایسے ہی انفرادی سطح پہ جو نوجوان اِس لائحہء عمل کے حامی ہیں وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کیلئے محنت کریں اور اپنے اپنے شعبوں میں excellence حاصل کریں اور پھر اپنے علم کو امت اور انسانیت کیلئے استعمال کریں.
دوسری جانب جو لوگ مزاحمت جاری رکھنے کے حامی ہیں اُن کی فلسطین اور کشمیر میں بھرپور مالی و مسلح مدد کی جائے اور سفارتی سطح پہ اُن کیلئے آواز اٹھائی جائے. دنیا دو چار ممالک پہ تو پابندیاں لگا سکتی ہے لیکن 57 ممالک پہ بیک وقت پابندیاں لگانا تقریباً ناممکن ہوگا. یہ مدد خفیہ اور غیر اعلانیہ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے ہو سکتی ہے. اس کی مثال روس کی پرائیویٹ ملٹری فورس ویگنار گروپ ہے. جسے روسی حکومت خفیہ طور پہ فنڈ کرتی ہے. اِس کے ذریعے امریکی مفادات کے خلاف ٹارگٹس پہ حملہ کرواتی ہے اور ظاہراً یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ یہ ایک باغی گروپ ہے جس پہ ہمارا کوئی کنٹرول نہیں. یوں سانپ بھی مر جاتا ہے تو لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی. دوسری مثال امریکی پرائیویٹ ملٹری گروپ بلیک واٹر کی ہے جس نے اب اپنا نام بدل کر Academi رکھ لیا ہے. بلیک واٹر دراصل constellis Group کا ایک حصہ جس میں مذہبی نظریات کی بنیاد پہ بھی لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے تاکہ مسلم ممالک میں جاکر وہ لوگ اپنی نفرت کا غبار نکال سکیں. آپ انہیں مغربی یا کرسچن مجاہدین کہہ سکتے ہیں. امریکی حکومت بھی بلیک واٹر کو عراق، پاکستان، شام، لیبیا میں استعمال کرتی رہی ہے لیکن وقت آنے پہ اسے "پرائیویٹ کمپنی" کہہ کر جان چھڑا لیتی رہی ہے. یہی معاملہ برطانوی کمپنی international intelligence limited کا ہے جس نے کارپوریٹ سیکٹر سے مِل کر افریقہ میں قدرتی وسائل کے مقامات پہ قبضے کیلئے قتل و غارت کی گھمبیر داستان رقم کی ہے. لیکن برطانوی حکومت پہ ایک حرف نہیں آیا. چنانچہ ہمارے پاس موجودہ وقت کی عملی مثالیں موجود ہیں.
لہذا میری یہ رائے ہے کہ ہمیں کسی ایک لائحہء عمل کو اپنا کے بجائے بیک وقت دونوں Strategies کو بروئے کار لانا چاہیے. ایک طرف جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید علوم میں مہارت حاصل کی جائے، معیشت اور سیاسی یکجہتی کو مضبوط کرنے پہ کام کِیا جائے. دوسری جانب خفیہ اور اعلانیہ طور پہ مزاحمت جاری رکھی جائے اور مزاحمت کاروں کی بھرپور مدد بھی کی جائے.