لاسلکی صاحب تھے تو ڈیڑھ پسلی کے ، دھان پان انسان کہ پھونک مارو تو ہوا میں کٹی ہوئی پتنگ کی طرح لہرائیں لیکن اکڑ باز اتنے کہ رستم زماں گاماں پہلوان سے بھی کشتی لڑنے کو تیار، شیخ چلی فوجی اور اسپین کے ڈان کیو ہوٹے کی تو کہانیاں ہی پڑھی تھیں لیکن لاسلکی صاحب کا سا شیخی باز جیتا جاگتا انسان الکمونیا والوں نے آج تک نہیں دیکھاتھا اور نہ شاید کبھی دیکھنا نصیب ہو۔
اب یہ تو خدا ہی کو پتا ہو گا کہ لاسلکی صاحب کس نسل اور کس ذات کے تھے لیکن وہ خود اپنے آپ کو مغل بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ دنیا میں صرف دو ہی آدمی ایسے رہ گئے ہیں جن کی رگوں میں مغلوں کا خالص خون دوڑ رہا ہے ، ایک تو قصبہ فتح پور کے جاگیردار نواز مرزا جہاں دار اور دوسرے خود لاسلکی صاحب، نواب صاحب خاندان مغلیہ کا آخر چراغ کہلاتے تھے اس لیے لوگوں نے لاسلکی صاحب کا لقب خاندان مغلیہ کی آخری موم بتی رکھ دیا تھا۔
لاسلکی کا اصل نام تو صبیح طارق تھا لیکن وہ سارے الکمونیا میں لاسلکی صاحب کے نام سے مشہور تھے شاید اس لیے کہ ان کی شکل ریشم سے ملتی جلتی تھی ، یا پھر یہ ان کی چڑ تھی، وہ الکمونیا سیکرٹ سروس میں منشی تھے اور انسپکٹر ابودجانہ کے ماتحت، لیکن لاسلکی صاحب سے ابودجانہ کے بہت پرانے تعلقات تھے ، اس لیے ان دونوں میں افسری اور ماتحتی کی کوئی تمیز نہ تھی، لاسلکی صاحب اتوار کے اتوار انسپکٹر ابودجانہ کے گھر آتے ، بیٹھک میں محفل جمتی، چائے پانی چلتا اور ساتھ ہی لاسلکی صاحب کی زبان ایسے فراٹے بھرتی کہ رکنے کا نام نہ لیتی، وہ اپنے خاندان کی جرات اور دلیری کے وہ وہ کارنامے سناتے کہ سننے والوں کی عقل چکرا کر رہ جاتی۔
ایک ایسی ہی محفل میں، ایک دن، لاسکی صاحب مغلوں کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں سنا رہے تھے کہ ایک دم جلال میں آ گئے اور بولے ، ارے میاں، بابر کے ساتھ میرے دادا کے دادا کے دادا نہ ہوتے تو پانی پت کے میدان میں اسے ابراہیم لودھی کے مقابلے میں ہرگز فتح نہ ہوتی۔
وہ کیسے لاسکی صاحب؟ابودجانہ نے پوچھا۔
وہ ایسے لاسلکی صاحب بولے ، کہ جوں ہی ابراہیم لودھی کی فوج نے مغل فوج پر حملہ کیا، میرے دادا کے دادا کے دادا نے ایک دم مشین گن کا فائر کھول دیا اور پلک جھپکتے میں لودھی کی فوج کے دس ہزار جوانوں کو بھون کر رکھ دیا۔
اے ایم اس وقت وہیں موجودتھا۔ اُسے معلوم تھا کہ بابر کے زمانے میں توپ تو ایجاد ہو چکی تھی اور انہی توپوں کی مدد سے بابرنے صرف بارہ ہزار فوج سے ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی تھی، لیکن مشین گن ایجاد نہیں ہوئی تھی، ابودجانہ اور ان کے دوست تو خاموش رہے مگر اے ایم بول پڑا۔"لیکن لاسلکی صاحب ، اس وقت مشین گن تھی کہاں، مشین گن تو امریکا کے ایک شخص گیٹلنگ نے 1861ء میں ایجاد کی تھی اور بابر اس سے تین سو سال پہلے ہی مرگیا تھا"۔
لاسلکی صاحب نے اے ایم کو گھور کر دیکھا، اپنی ٹھوڑی سہلائی اور پھر آنکھیں نکال کر بولے ، لاحول والا قوۃ، تو تمہیں یہ پڑھایا جاتا ہے اسکول کالج میں! ارے میاں، اسی لیے تو ہماری قوم نے ترقی نہیں کی لو جی، یہ" چھوکرے" سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جتنی ایجادیں ہوئی ہیں وہ سب امریکا، یورپ والوں نے کی ہیں، ہم نے کچھ کیا ہی نہیں۔ ارے برخوردار، امریکا اور یورپ نے جو چیزیں آج ایجاد کی ہیں وہ ہمارے باپ دادا نے سیکڑوں برس پہلے بنا لی تھیں۔ لو بھلا، یہ صاحب زادے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں مشین گن نہیں تھی، ارے میاں، اس زمانے میں تو ہوائی جہاز بھی تھے اور بھاپ سے چلنے والے بحری جہاز بھی جو سمندروں کی چھاتی پر مونگ دلتے پھرتے تھے ، تم نے الف لیلہ کی کہانیوں میں اڑن قالینوں اور اڑن کھٹولوں کے متعلق نہیں پڑھا ہے ، یہ اڑن کھٹولے کیا تھے ، یہ ہوائی جہاز تھے اور ان میں جٹ انجن لگے تھے ، لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں جادو کی چیزیں سمجھتے ہیں اور سنو، علامہ اقبال نے کہا ہے۔
؎
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اب بتاؤ کہیں بحر یعنی سمندر میں گھوڑے دوڑ سکتے ہیں؟ اقبال جیسا لائق شاعر ایسی بات ہرگز نہیں کر سکتا ، اصل میں اس سے مراد بھاپ سے چلنے والے جہاز ہیں، جہاز۔ کیا سمجھے۔
ابودجانہ نے ہنسی روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ان کے ہونٹوں کا بند توڑ کر نکل ہی گئی، دوسرے لوگ بھی ہنسنے لگے ، اے ایم نے مسکرا کر گردن جھکا لی۔
٭٭٭
تو یہ تھے لاسلکی صاحب اور یہ تھیں ان کے مزے دار باتیں اب سنیے ، انہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے الکمونیا کے آس پاس کی کچھ بستیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، الکمونیاسے چار پانچ میل پرے جنگل شروع ہو جاتا تھا اور اس کے اردگرد دو چار چھوٹے موٹے گاؤں آباد تھے ، اس جنگل میں خدا جانے کہاں سے ایک بھوکا ننگا شیر آ گیا اور لگا گاؤں والوں کے ڈھور ڈنگروں پر ہاتھ صاف کرنے۔ لوگ ڈر کے مارے ، سر شام ہی ڈنگروں کو لے کر گھر لوٹ آتے تھے اور بڑے سے بڑا جی دار جوان بھی رات کو باہر نکلنے کی جرات نہ کرتا تھا۔
جب شیر لوگوں کی بہت سی بھیڑ بکریاں اور گائیں ہڑپ کر گیا تو انہوں نے دہائی مچا دی اور ہوتے ہوتے یہ خبر الکمونیا کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر بھائی تک پہنچی، انہوں نے ابودجانہ کو حکم دیا کہ ہفتے کے اندر اندر اس خبیث شیر کو زندہ یا مردہ ہماری خدمت میں پیش کیا جائے۔
یہ سن کر ابودجانہ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی، انہوں نے کبھی خواب میں شیر کا شکار نہ کیا تھا، عمر بھر تیتر بٹیر یا زیادہ سے زیادہ خرگوش مارے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس وہ بندوق تھی ہی نہیں جس سے شیر کا شکار کیا جاتا ہے ، وہ بہت گھبرائے اور فوراً اپنے دوستوں کی میٹنگ بلائی، اس میٹنگ میں لاسلکی صاحب بھی تھے۔
لاسلکی صاحب نے ابودجانہ کی باتیں بڑے غور سے سنیں اور پھر کہا کہ جنگل میں جگہ جگہ پھندے یا جال لگا دیے جائیں اور جب شیر کسی پھندے میں پھنس جائے تو اسے بوری میں بند کر کے ڈاکٹر بھائی کو بھیج دیا جائے ، لاسلکی صاحب نے بڑی سنجیدگی سے بتایا کہ ملکہ نور جہاں کے پہلے شوہر، شیر فگن نے اسی ترکیب سے شیر مارا تھا اور یہ ترکیب اسے لاسلکی صاحب کے کسی دادا نے بتائی تھی، ترکیب تھی تو ٹھیک لیکن اس کے لیے بہت سے جالوں اور پھندوں کی ضرورت پڑتی اور پھر سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ شیر کو بوری میں کون بند کرتا؟اس لیے ابودجانہ اور ان کے دوستوں نے لاسلکی صاحب کی یہ ترکیب رد کر دی۔
جب لاسلکی صاحب چلے گئے تو ابودجانہ نے دوستوں سے صلاح کی اور آخر طے یہ ہوا کہ ہم جنگل میں ضرور جائیں گے ، درختوں پر مچان بھی بنائیں گے لیکن شیر ہرگز نہیں ماریں گے کیوں کہ وہ ہم سے نہیں مرے گا، بس دو تین دن یوں ہی مچانوں پر بیٹھ کر واپس آ جائیں گے اور ڈاکٹر بھائی سے کہہ دیں گے کہ جناب، یہ موذی شیر ہمارے بس کی بات نہیں، اسے مارنے کے لیے تو لائق شاہ اور ایڈیٹر صاحب جیسے تجربہ کار شکاریوں کی ضرورت ہے ، لہٰذا انہیں وادیٔ خوفن سے بلوا لیا جائے۔
یہ فیصلہ کر کے سب نے اطمینان کی سانس لی اور دوسرے دن صبح کو، بوریا بستر باندھ کر جنگل کی طرف روانہ ہو گئے ، اے ایم نے ابودجانہ کی خوشامد کی کہ اُسے بھی لیے چلیے ، پہلے تو انہوں نے انکار کیا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ ہمیں کون سا سچ مچ کا شکار کرنا ہے ، مان گئے ، برسات کا موسم تھا اس لیے لاسلکی صاحب نے اپنی چھتری، جس پر بھیانک رنگ کا کالا سیاہ کپڑا چڑھا ہوا تھا، ساتھ لے لی۔
٭٭٭
ایک گھنٹے بعد سب لوگ جنگل کے قریب ایک گاؤں میں پہنچے ، ابودجانہ نے دیہاتیوں کو بتایا کہ اب ہم آ گئے ہیں اور انشاء اللہ شیر کو مار کر ہی واپس جائیں گے ، لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں، بس تم اتنا کرو کہ ہمیں تین چار ہٹے کٹے جوان دے دو جو جنگل میں جا کر ہمارے لیے مچان بنا دیں اور ایک موٹا تازہ بکرا بھی لادو تاکہ شیر اس کی بو سنگھ کر مچانوں تک آ جائے اور ہم اسے ڈز سے گولی مار دیں، ایک دیہاتی نے بتایا کہ اس نے شیر کو کل رات جنگل میں برساتی نالے کے پاس ٹہلتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ وہیں کہیں چھپا بیٹھا ہو گا لہٰذا اسی جگہ مچان بنائے جائیں۔
دیہاتی شکاری پارٹی کو جنگل میں اس جگہ لے گئے جہاں برساتی نالا تھا۔ اس نالے کے کنارے دو اونچے اونچے درخت تھے ، انہی درختوں پر انہوں نے ہمارے لیے مچان بنا دیے۔
لاسلکی صاحب کی رائے تھی کہ بکرے کو باندھا نہ جائے کھلا چھوڑ دیا جائے ، وہ جنگل میں گھومتا پھرے اور شیر اس کی طرف لپکے تو وہ دوڑ کر مچان تک آ جائے اور ہم شیر کو گولی مار دیں لیکن افسوس ابودجانہ نے لاسلکی صاحب کی یہ تجویز بھی نہیں مانی، کیوں کہ اس کے لیے بکرے کو ٹریننگ دینے کی ضرورت تھی اور اس ٹریننگ میں سال چھ مہینے لگ جاتے۔
خیر صاحب، بکرے کو ایک جھاڑی سے باندھ دیا گیا اور سب لوگ کھانا کھا کر مچانوں پر چڑھ کر بیٹھ گئے ، چاندنی رات تھی، ہر چیز صاف نظر آ رہی تھی، شمال کی طرف مچان پر ابو دجانہ، ان کا ایک دوست اور اے ایم بیٹھا تھا اور جنوب کی طرف والے مچان پر لاسلکی صاحب اور ایک صاحب براجمان تھے ، اسی مچان کے پاس بکرا بندھا ممیا رہا تھا۔
غالباً رات کے دس گیارہ کا وقت ہو گا کہ بکرا زور سے ممیایا، ساتھ ہی قریب کی ایک جھاڑی میں سرسراہٹ ہوئی۔ پھر جھاڑی میں سے کسی جانور کا سر نکلا، اس کے بعد دھڑ اور پھر دم، یہ شیر تھا، اے ایم کی روح فنا ہو گئی، ڈرتے ڈرتے ابودجانہ اور ان کے دوست کی طرف دیکھا ان دونوں کی حالت بھی غیر تھی۔
شیر آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا بکرے کی جانب بڑھا، بے چارے بکرے کا خوف سے خون خشک ہو گیا تھا اور وہ بت بنا شیر کو دیکھ رہا تھا، شیر چند سیکنڈ بکرے کو دیکھتا رہا، پھر بڑے مزے سے جمائیاں لیتا ہوا اس درخت کی طرف بڑھا جس پر لاسلکی صاحب بیٹھے تھے ، ابھی وہ درخت سے چند گز کے فاصلے پر تھا کہ دھم کی آواز آئی، لاسلکی صاحب درخت سے لڑھک کر زمین پر گر پڑے تھے ۔
اس وقت کا منظر بیان نہیں کیاجا سکتا، شیر غصے سے دم ہلا رہا تھا اور اس سے دس بارہ گز کے فاصلے پر لاسلکی صاحب چھتری ہاتھ میں لیے مٹک مٹک کر اسے دھمکا رہے تھے ، دھت دھت، ابے دھت، انہوں نے چھتری شیر کی طرف اس طرح تان رکھی تھی جیسے وہ کوئی بندوق ہو۔
لاسلکی صاحب کبھی دایاں پیر زمین پر مارتے اور کبھی بایاں، اس دوران میں ان کی چھتری کا رخ شیر کی طرف رہا اور وہ منہ سے دھت دھت کی آوازیں بھی نکالتے رہے۔
شیر پندرہ بیس سیکنڈ خاموش کھڑا دم ہلاتا رہا۔ لاسلکی صاحب اسی طرح دھت دھت کرتے اور پینترے بدلتے بکرے کے پاس پہنچ گئے ، بکرے کی جان پر بنی ہوئی تھی اس نے گردن جھکا کر ٹکر جو ماری تو لاسلکی صاحب پانچ فٹ اوپر اچھل پڑے اور اس کے ساتھ ہی ان کا کمر بند ٹوٹ گیا، اب وہ ایک ہاتھ سے پاجامہ پکڑے ہوئے تھے اور دوسرے ہاتھ سے چھتری، ساتھ ہی دھت دھت، ابے دھت، کہے جا رہے تھے ، اگر ابودجانہ اے ایم کی کوکھ میں کہنی نہ مارتا تو اے ایم کی ہنسی نکل گئی ہوتی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیر اب لاسلکی صاحب کے ناچ سے اکتا گیا تھا، وہ تھوڑی دیر تو کھڑا دم ہلاتا رہا۔ ایک دو مرتبہ اس کے منہ سے غوں غاں کی آواز بھی نکلی، پھر اس نے اگلے پنجوں سے مٹی کریدی، پچھلی ٹانگیں سمیٹیں اور ایک خوف ناک چیخ مار کر لاسلکی صاحب پر چھلانگ لگا دی۔ لاسلکی صاحب بھی غافل نہیں تھے ، شیر ابھی آدھے ہی راستے میں تھا کہ انہوں نے کھٹاک سے چھتری کھولی اور اس کا رخ شیر کی طرف کر دیا۔
شیر نے ایسا خوفناک ہتھیار پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، چھتری کے اچانک کھلنے اور اس کے کالے کپڑے سے وہ ایسا بوکھلایا کہ راستے ہی میں الٹی قلابازی لگائی اور دل ہلا دینی والی چیخیں مارتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا، اس کی پہلی دہاڑ ایک فرلانگ کے فاصلے پر سنائی دی، پھر دو فرلانگ پر اور اسی طرح دور ہوتے ہوئے بالکل غائب ہو گئی۔
سب اپنی اپنی جگہ سہمے بیٹھے تھی، لیکن لاسلکی صاحب برابر ہنکارے جا رہے تھے ، ابے ، ایک ہی جھونک میں بھاگ گیا، مرد ہے تو میدان میں آ، قسم ہے دادا جان کی، وہ خبر لوں گا کہ عمر بھر یاد رکھے ، مغل بچہ ہوں مغل بچہ، مذاق نہیں۔
پہلے ابودجانہ مچان سے اترے اور پھر دوسرے لوگ، انہوں نے لاسلکی صاحب کو کاندھوں پر اٹھا لیا اور زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گاؤں میں آئے۔
٭٭٭
اس دن سے شیر ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، سب دو تین روز گاؤں میں رہے اور پھر واپس آ گئے جب ایک ہفتے تک کسی کا ڈھور ڈنگر غائب ہونے کی خبر نہ آئی تو ابودجانہ نے ڈاکٹر بھائی کو کہلا بھیجا کہ شیر زخمی ہو کر جنگل سے بھاگ گیا ہے ، لہٰذا اب تشویش کی کوئی بات نہیں۔
اس واقعے کے بعد لاسلکی صاحب کی اکڑ اور بڑھ گئی، وہ سارے الکمونیا میں اینڈے اینڈے پھرتے اور سینہ پھلا کر بڑے فخر سے کہتے ، یوں ہی تو نہیں کہتا تھا کہ مغل بچہ ہوں، میرے ایک ہی گھونسے نے شیر کا کچومر نکال دیا، اب وہ کبھی ادھر نہیں آئے گا، اگر آ گیا تو میرا نام بدل دینا۔
اور سچ مچ شیر اس جنگل میں پھر کبھی نہیں آیا اور نہ لوگوں کو لاسلکی صاحب کا نام بدلنے کی ضرورت پڑی وہ ابھی تک لاسلکی ہی کہلاتےہیں۔
٭٭٭
تحریر: خالد احمد صدیقی
٭٭٭
اے ایم