مجھے چھوڑ دو میں مرنا نہیں چاہتی


 *مجھے چھوڑ دو میں مرنا نہیں چاہتی* 💔🥺


دریائے نیل خشک ہو چکا تھا،
 وہ دریائے نیل جس کا پانی ٹھاٹھیں مارتا تھا
 اور مصر کے کھیتوں کو سیراب کرتا تھا،
 وہ دریا خشک ہو چکا تھا،    
  مصر کے لوگ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے،
 ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ہر سال دریائے نیل خشک ہو جاتا تھا مصر کے لوگوں کا کہنا تھا:
”دریائے نیل ہر سال انسانی قربانی مانگتا ہے“۔

جب وہ یہ قربانی دے دیتے تو دریائے نیل پھر سے ٹھاٹھیں مارنے لگتا،
 لوگ خوش ہو جاتے ان کی کھیتیاں پھر سے لہلہانے لگتیں۔

اب ایک بار پھر دریائے نیل خشک ہو چکا تھا، لوگوں کے چہرے پریشانی سے مرجھا گئے تھے۔ دریا اس بار پھر ان سے ایک انسان کی قربانی مانگ رہا تھا وہ سب مجبور تھے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا تھا، مصر میں فوجیں موجود تھیں، امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے مصر میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کیا تھا۔ اور اس کے چند دن بعد ہی دریائے نیل خشک ہو گیا تھا۔ لوگوں کی پریشانی دیکھنے کے قابل تھی۔
لوگ دریانے نیل میں انسانی قربانی کی تیاریاں کرنے لگے اب لوگ خوش تھے کہ دریا انسان کی قربانی کے بعد پھر سے بہنا شروع کر دے گا۔ اور خوشحالی ہی خوشحالی ہو گی۔
آخر وہ دن بھی آ گیا جس دن ایک انسان دریائے نیل کی بھینٹ چڑھ جانا تھا۔ لوگ صبح ہی صبح یوں تیار ہو کر باہر نکل آئے جیسے عید کا سماں ہو، ہر شخص کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دریائے نیل کے خشک ہونے کی وجہ سے سخت پریشان تھے، جب انہوں نے یہ سنا کہ لوگ دریائے نیل کی بھینٹ چڑھانے کے لئے ایک انسان کو قربان کرنے لگے ہیں، تو وہ تڑپ اٹھے کہ یہ تو سراسر ظلم ہے، دریا کے لئے ایک انسان کو قتل کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ !!!
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے چند آدمیوں کے ساتھ دریائے نیل کی طرف چل پڑے، وہ اس قربانی کو ہرحال میں رکوانا چاہتے تھے، جب وہ دریائے نیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے وہاں عجیب سماں دیکھا، لوگ زرق برق کپڑے پہنے وہاں موجود تھے، ہر شخص کے چہرے پر خوشی تھی۔
جب ان لوگوں نے گورنر کو دیکھا تو حیران رہ گئے اور سوچنے لگے:
”شاہد گورنر بھی اس قربانی کو دیکھنے کے لئے آئے ہیں“۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ ایک پندرہ سالہ لڑکی کو لے کر وہاں آئے ہیں، اُس لڑکی نے زرق برق لباس پہنا ہوا تھا، وہ زیورات سے لدی پھندی تھی، لڑکی خوف سے کانپ رہی تھی، اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ لڑکی لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھ رہی تھی، وہ لرزتی کانپتی ہوئی لوگوں کے ہمراہ دریا کے کنارے پر پہنچ کر رک گئی، اس نے مڑ کر اپنے بوڑھے باپ کی طرف دیکھا، باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ مجبور تھا، لوگ اس کی بیٹی کو گھسیٹ کر موت کے منہ میں دھکیل رہے تھے، وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا، اپنی بوڑھی آنکھوں سے بیٹی کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی کی ماں تو غم سے نڈھال ہوئی جا رہی تھی۔
لڑکی ہاتھ چھڑا کر اپنے باپ کی طرف دوڑی، لوگ اس کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے اور لڑکی کو پکڑا اور پھر سے دریا کے کنارے پر لے آئے، لڑکی رو کر لوگوں سے التجا کرنے لگی۔
”مجھے چھوڑ دو میں مرنا نہیں چاہتی“۔
لوگوں نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا، اب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، وہ جلدی سے آگے بڑھے اور لڑکی کو ان لوگوں کی قید سے چھڑاتے ہوئے بولے:
”یہ سب کیا ہے؟ تم اس لڑکی کو کیوں ہلاک کرنا چاہتے ہو؟“
لوگ گورنر کی بات سن کر پریشان ہو گئے، لڑکی بھاگ کر اپنے باپ کے پاس چلی گئی، لڑکی کی ماں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ لڑکی سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی اور ماں اسے چپ کرانے کی کوشش کرتے ہوئے خود بھی رو رہی تھی۔
لوگوں نے کہا:
”اے امیر ! دریائے نیل خشک ہو چکا ہے، وہ ہر سال ایک انسان کی قربانی مانگتا ہے۔“
یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ناگواری سے لوگوں کی طرف دیکھا پھر پوچھا:
”کیا ہر سال یہ دریا اس طرح خشک ہو جاتا ہے؟“
لوگوں نے جواب دیا:
”ہاں، ہر سال دریائے نیل اس طرح خشک ہو جاتا ہے۔ اور جب یہ خشک ہوتا ہے تو ہم ایک انسانی جان کی قربانی دیتے ہیں، اس کے ساتھ ہی دریا کا پانی بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دریا میں طغیانی آ جاتی ہے“۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا:
”یہ تو ظلم ہے“۔
لوگوں نے کہا:
”اے امیر ! ہم ہر سال چاند کی گیارہ تاریخ کو ایک نوجوان لڑکی کا انتخاب کر کے اس کے والدین کو رضامندی سے اس لڑکی کو زیورات اور خوبصورت لباس پہنا کر دریائے نیل کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں پھر دریا کا پانی بڑھنے لگتا ہے“۔
یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا:
”اسلام ان باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ تم ہر سال ایک انسان کو قتل کر کے دریا کی بھینٹ چڑھا دیتے ہو، یہ تو سراسر ظلم ہے، اسلام ان فضول باتوں کو مٹانے کے لئے آیا ہے، آئندہ تم ایسا نہیں کرو گے۔“
یہ سن کر لوگ بولے:
”پھر تو دریا خشک رہے گا، ہماری کھیتیاں برباد ہو جائیں گی، ہم بھوک سے مر جائیں گے، ہمارے جانور ہلاک ہو جائیں گے۔“
حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا:
”تم پریشان نہ ہو ایسا کچھ نہیں ہو گا“۔
حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ رسم ادا کرنے کی اجازت نہ دی، اب لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہر طرف خشک سالی ہو جائے گی اور ہم سب بھوک سے مر جائیں گے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں، ان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ گورنر کے حکم کی عدولی کر سکیں۔ وہ سب خاموشی سے سر جھکائے کھڑے ہو گئے ۔۔۔

حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے لڑکی کو اس کے ماں باپ کے ساتھ گھر بھجوایا اور لوگ بھی آہستہ آہستہ وہاں سے جانے لگے۔
چند دنوں تک دریانے نیل بالکل خشک ہو گیا، اس میں ایک بوند بھی پانی نہ آیا، لوگ بوکھلا گئے، انکی کھیتی باڑی دریائے نیل کے پانی سے قائم تھی۔ زمینیں بنجر ہو گئیں، لوگ فاقوں سے مرنے لگے، جانور چارہ نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہے تھے، یہ دیکھ کر لوگوں نے مصر سے نکل کر دوسرے علاقوں کا رُخ کیا ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔
حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا تو وہ بھی پریشان ہو گئے، آخر انہوں نے امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا اور اس میں ساری صورت حال واضح کر دی۔
امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے جب یہ خط پڑھا تو آپ نے حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کو جواب میں لکھا:
”تم نے مصریوں کو بہت اچھا جواب دیا، اسلام ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ ایسی فضول باتوں کو مٹانے کے لئے آیا ہے، میں اس خط کے ساتھ ایک رقعہ بھیج رہا ہوں تم یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال دینا“۔
جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا خط پہنچا تو انہوں نے خط کے بعد وہ رقعہ بھی پڑھا جو دریائے نیل میں ڈالنے کے لئے تھا اس میں لکھا تھا:
”یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے دریائے نیل کے نام ہے۔
اے دریا ! اگر تو اللہ کے حکم سے بہتا تھا تو ہم بھی اللہ ہی سے تیرا جاری ہونا مانگتے ہیں اور تو اللہ کے حکم سے جاری ہو جا اور اگر تو خود اپنی مرضی سے بہتا ہے اور اپنی ہی مرضی سے رک جاتا ہے تو پھر تیری کوئی پرواہ اور ضرورت نہیں ہے“۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال دیا اور واپس چلے آئے جب صبح مصر کے لوگ بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اللہ نے دریائے نیل کو اس طرح جاری کر دیا ہے بلکہ اب تو دریا میں پانی بہت چڑھ گیا تھا اور دریا میں طغیانی آئی ہوئی تھی، لوگ یہ دیکھ کر خوشی سے چلا اٹھے:
دریا جاری ہو گیا۔“
اس دن سے اب تک دریائے نیل اسی طرح جاری وساری ہے ایک لمحے کے لئے بھی اس کا پانی خشک نہیں ہوا ۔۔

زینت کے خزانے کو الماس کہتے ہیں
لگے تڑپ پانی کی تو اسے پیاس کہتے  ہیں

یوں تو سب کی پیاس بجھاتا ہے دریا
جو دریا کی پیاس بجھائے اسے عمر بن خطابؓ کہتے ہیں۔

(بحوالہ : " ازالتہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء")

*[صدقہ جاریہ کے لیے یہ تحریر شئیر ضرور کریں]*      

*▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی