ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا , ملکوال اور منڈی بہاوالدین کی عدالتوں میں لوگوں کی پہلی ترجیح وہ ہی ہوتا تھا .
فیس لاکھوں میں لیتا اور قتلِ عَمد کے ملزموں ہی کو نہیں بلکہ مجرموں کو بھی بری کروا لیا کرتا تھا .
پھر وقت بدلتا ہے اس کی عمر ڈھل جاتی ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے .
آنکھوں کی بینائی اس حد تک کم پڑ جاتی ہے کہ سامنے کھڑی اپنی سگی بیٹی تک کو نہیں پہچان سکتا، سارا روپیہ پیسہ اولاد بانٹ لیتی ہے .
بیٹے اپنی بیویوں اور بچوں کو لے کر یورپ سیٹ ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹی کی شادی کسی جاگیردار گھرانے میں ہو جاتی ہے .
ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ صاحب گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں .
اولاد چونکہ مظلوموں کی دھوکے سے ہتھیائی گئی دولت پر پلی بڑھی یا ظالموں کے ظلم چھپانے کے لئے دی گئی دولت پر جوان ہوئی ہوتی ہے .
لہذا اس میں مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی , باپ کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا .
پھر متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ والد صاحب کے لئے چوبیس گھنٹے کا ملازم اور ایک سیکورٹی گارڈ کا انتظام کیا جائے .
ظالموں کے لیے ڈھال بن کر مظلوموں کو انصاف کی دہلیز سے خالی ہاتھ واپس موڑ دینے والا ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ یوں ملازمین کے سہارے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے .
پچھلے دنوں ان کا بڑا بیٹا بیوی بچوں کے ہمراہ اپنی سالی کی شادی پر پاکستان آیا ہوا تھا , رشتہ داروں نے اس کو شرمندہ کر کے اپنے والد صاحب کو ملنے پر مجبور کر دیا .
وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اپنے باپ کو ملنے اس کے گھر چلا آیا ، ان کے باپ کے کمرے سے شدید بدبو آ رہی تھی کیونکہ کئی بار رات کو اٹھ کر ٹائلٹ نہیں جا پاتے تھے .
ملازمین کو آواز دیتے تو وہ سنی ان سنی کر دیتے اور یوں پیشاب بستر پر ہی نکل جاتا تھا .
بستر دھونا تو دور کی بات ملازمین بستر بدلنا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے .
یوں چیمہ صاحب اسی بدبودار گیلے بستر پر پڑے زندگی گزارنے پر مجبور تھے .
جب ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا تو ناک پر رومال رکھ کر بنا باپ کو ملے ہی واپس مڑ گیا،
چونکہ سرفراز چیمہ صاحب کو نظر نہیں آتا تھا لہذا ان کا بیٹا باہر گیا اور سیکورٹی گارڈ کو سمجھا بجھا کر کمرے کے اندر داخل کیا .
خود ناک پر رومال رکھے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر باپ کو سلام کیا اور اپنی جگہ پر ملازم کو آگے بڑھا دیا .
ملازم نے جا کر بوڑھے وکیل کو گلے لگا لیا اور بوڑھا بیچارا نوکر کو ہی اپنا بیٹا سمجھ کر چومتا رہا .
بعد ازاں بیوی بچوں کی باری آئی تو ایسے ہی بیوی بچے دہلیز میں کھڑے رہے اور ملازمہ اور اس کے بچے وکیل صاحب کی بہو اور پوتے پوتیاں بن کر ان کو ملتے رہے وکیل صاحب انہیں اپنا خون سمجھ کر دعائیں دیتے رہے .
زیادہ سے زیادہ دس منٹ وکیل کا بیٹا بہو بچے گھر میں رکے اور پھر نکل گئے , نہ انہوں نے جاتے ہوئے باپ کو الوداعی نظر دیکھا اور نہ ہی کوئ بات کی باپ کو کوئی چیز بھی نہیں دی .
جن لوگوں کو وہ بہو بیٹا اور پوتے پوتیاں سمجھ کر مل رہے تھے وہ در حقیقت ان کے گھر کے ملازمین تھے ان کے بیٹے نے تو باپ کے قریب جانا بھی مناسب نہیں سمجھا .
بیٹے کے اس طرح کا رویہ اپنانے میں کسی اور کا نہیں بلاشبہ وکیل صاحب کا اپنا ہی ہاتھ تھا .
* سب سے پہلی چیز یہ سمجھ آئی کہ مال اور اولاد آزمائش اور فتنہ کیسے بنتے ہیں ؟؟؟
دوسری چیز یہ سمجھ آئی کہ پیشہ کوئی بھی اپناؤ مگر کبھی ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہوں اور
تیسری اور سب سے اہم بات یہ سمجھ آئی کہ اپنی اولاد کو رشتوں سے محبت اور دوسروں کا احترام کرنا ضرور سکھاؤ اور ان کے دل میں کبھی دولت اور عہدے کا لالچ پیدا نہ کرو .
یقینا یہ تینوں کام وکیل صاحب نہیں کر سکے مگر میری خواہش ہے کہ اس سچے واقعہ کو پڑھنے والے لوگ ضرور ان حقائق کا خیال کر لیں قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے .
وکیل صاحب کا وقت تو گزر گیا مگر ہمارا اور آپ کا وقت ابھی موجود ہے ...
زمرے
معاشرت و طرزِ زندگی