روزوں کے دوران کچن کی گرمی میں افطاری تیار کرنے والی اور گھریلو مشقت برداشت کرنے والی خواتین کو سلام بھیجنے والوں پر فرض ہے کہ شدید گرمی میں باہر نکل کر کام کرنے والے مَردوں کو بھی یاد رکھیں۔۔۔
جو اپنے بیوی بچوں کو اے سی نہ سہی تو کم از کم پنکھے کا آرام دینے کی خاطر خود چلچلاتی دھوپ میں مزدوری کر رہے ہیں ۔۔۔
مائیں اپنے بچوں کو صرف یہ یاد نہ دلاتی رہیں کہ آپ نے اُن کو پالنے پوسنے میں کتنی راتیں جاگ کر گزاری اور کیا کیا تکالیف سہیں، بلکہ ساتھ ہی اُنہیں یہ سب بھی باور کروانا لازم ہے کہ پیارے بچو ، جب میں اور آپ اے سی کی ٹھنڈک میں آرام کر رہے تھے تب آپکے پاپا گرمی اور لو کے تھپیڑے کھاتے ہوئے ہم سب کیلئیے محنت مشقت میں مصروف تھے ۔۔۔
جب میں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر آپکے فیڈر بنایا اور ڈائپر چینج کیا کرتی تھی تب آپکے پاپا اسی دودھ اور ڈائپر کے پیسے پورے کرنے کی فکر میں آنکھیں بند کئے رات بھر جاگتے رہتے تھے۔۔۔
جب میں آپ کی خاطر گھر میں کسی کا سخت سست کہنا برداشت کرتی تھی تب آپکے پاپا آپ ہی کی خاطر بنا غلطی کے بھی باس کی جھِڑکیاں کھا کر چپ رہا کرتے تھے۔۔۔
اگر آج آپ معاشرے میں بہترین مقام پر ہو تو صرف اس لئے نہیں کہ میں نے کبھی آپکے اسکول کی ذمہ داریوں اور ہوم ورک وغیرہ میں کوتاہی نہیں کی تھی بلکہ اس لئے بھی کہ آپکو بہترین معیارِ تعلیم دینے کیلئیے آپکے پاپا نے اپنے آرام و سکون کو نظر انداز کر کے ہمیشہ بھاری فیسیں پوری کی تھیں ۔۔۔
اور جب آپ میرا بنایا ہوا صاف ستھرا تازہ کھانا کھا رہے ہو تب آپکے پاپا گھر سے لائے ہوئے لنچ باکس میں صبح کا ٹھنڈا یا باہر کا ہزار جراثیموں والا ملاوٹ شدہ کھانا کھا کر اپنی صحت کو رسک پر ڈال رہے ہوتے ہیں ۔۔۔
یعنی اُنہیں بتائیں اور بار بار یاد دلائیں کہ گھر میں موجود ایک ایک نعمت اُنہیں الّلہ کے بعد صرف اور صرف اُنکے والد کی وجہ سے دستیاب ہے تاکہ وہ اپنے والد کی اس حد تک عزت اور خدمت کریں کہ جنت کے اُس درمیانی دروازے سے خوشی خوشی گزر سکیں جس کے متعلق میرے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو“
تو چونکہ روزگار کی وجہ سے والد کا اپنی اولاد کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزرتا ایسے میں یہ ذمہ داری ماؤں کی ہے کہ وہ بچوں کے دل میں اُنکے والد کی محبت پیدا کرنے کی شعوری کوشش کریں ۔۔۔
کیونکہ جن گھروں میں خواتین بچوں کے سامنے ہر وقت جذباتی ہو کر صرف اپنی ہی قربانیاں گنواتی رہیں وہاں بچوں کے دل میں کبھی باپ کی وہ محبت یا عزت پیدا نہیں ہوتی جو اس رشتے کا حق ہے اور اسکی چھوٹی سی مثال ہے کہ گاڑی خرید کر دینے والے بیشک والد ہوں لیکن اُس پر لکھوایا یہی جاتا ہے کہ *یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا اثر ہے * ۔۔۔
حالانکہ سوچا جائے تو صرف ماں کی دعاؤں کا نہیں بلکہ گاڑی خریدنے کے قابل بنانے میں باپ کی تنخواہوں کا بھی بہت اثر ہوتا ہے ۔۔۔