ہماری سوچ اور ہمارے احساسات کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ اگر ہم اس ذہنی طاقت کو سمجھ لیں تو یہ بہت سی چیزیں آسان کر دے گا۔
ہمارے ذہن میں ہر لحظہ کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے۔ ہم مستقل سوچ رہے ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ہم مستقل سانس لے رہے ہوتے ہیں یا ہمارا دل دھڑک رہا ہوتا ہے۔ ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ ہم سانس لے رہے ہیں یا پلکیں جھپکا رہے ہیں۔ جب ہم تیز چلتے ہیں یا کوئی مشقت کا کام کرتے ہیں تو ہمارا سانس پھول جاتا ہے تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم سانس لے رہے ہیں۔
سوچنا بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔چونکہ ہم ہمیشہ سوچ رہے ہوتے ہیں اس لئے ہمیں بھول جاتا ہے کہ ہم سوچ رہے ہیں۔
اب یہ سوچ ہی ہماری زندگی میں نا خوشی، غصہ، ذہنی دباؤ اور اندرونی خلفشار پیدا،کرتی ہے۔سوچ سے ہی احساس بنتا ہے۔
کیا آپ غصے والی سوچوں کے بغیر غصے میں آ،سکتے ہیں؟
کیا آپ ذہنی دباؤ پیدا،کرنے والی سوچوں کے بغیر ذہنی دباؤ محسوس کر سکتے ہیں؟
دکھی یادوں کے بنا دکھی ہو سکتے ہیں؟
آپ ایسا،نہیں کر سکتے۔ یہ ناممکن ہے۔
کسی بھی احساس کو محسوس کرنے سے پہلے آپ وہ سوچتے ہیں جو یہ احساس پیدا کرتا ہے۔
ناخوشی خودبخود نہیں جنم لیتی۔ پہلے آپ اپنی زندگی کے بارے میں منفی جذبات رکھتے ہیں اور پھر آپ ناخوش ہوتے ہیں۔ سوچ کے بغیر آپ ناخوش، اداس ،سٹریسڈ نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ نے منفی جذبات پر قابو پانا ہے تو آپ آپ ی سوچ سے ہی یہ کر سکتے ہیں۔
اگلی بار جب آپ اچھا محسوس نہ کر رہے ہوں تو اپنی سوچ کو محسوس کریں۔ آپ لازمی اس وقت منفی سوچ رہے ہوں گے۔
اپنے آپ کو یاددہانی کروائیں کہ یہ آپ کی سوچ ہے جو منفی ہے ،آپ کی زندگی نہیں۔
یہ چھوٹی سی یقین دہانی خوشی کی طرف پہلا قدم ہو گی۔
آپ کو مشق کرنی ہو گی لیکن آپ اس مقام تک پہنچ جائیں گے جہاں آپ منفی سوچوں کو اسی طرح اڑا سکیں گے جیسے اپنے کھانے پر سے مکھی کو اڑا دیتے ہیں۔
منفی سوچوں کو بالکل ایسے ہی ہاتھ کے اشارے سے اڑا دیں اور اپنا دن اچھا اور بامعنی گذاریں۔