🌻 *کیا راستے کی دائیں جانب چلنا سنت ہے؟*
📿 *کیا راستے کی دائیں جانب چلنا سنت یا ادب ہے؟*
بہت سے لوگ راستے میں چلنے کی سنتوں اور آداب میں سے یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ راستے کی دائیں جانب چلنا سنت اور ادب ہے۔ حالاں کہ یہ بات درج ذیل وجوہات کی رو سے درست معلوم نہیں ہوتی:
1️⃣ احادیث میں اس بات کی کوئی صراحت نہیں ملتی کہ راستے کی دائیں جانب چلنا سنت، مستحب یا ادب ہے، اور نہ ہی حضور اقدس ﷺ سے ایسا کوئی ارشاد، عمل یا معمول ثابت ہے۔
2️⃣ راستے میں چلنا کثرت سے واقع ہونے والا ایک معمول کا کام ہے، لیکن اس کے باوجود کسی بھی حدیث سے حضور اقدس ﷺ کا ایسا کوئی معمول یا عمل ثابت نہیں۔ یہ صورتحال بذاتِ خود بھی اس بات کی دلیل بن جاتی ہے کہ راستے کی دائیں جانب چلنا سنت یا مستحب نہیں۔
3️⃣ راستے کی دائیں جانب چلنے کا سنت یا ادب ہونا صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین کرام، ائمہ مجتہدین، محدثین کرام، فقہائے امت سے بھی ثابت نہیں۔ تو اگر یہ سنت یا ادب ہوتا تو اس کاکوئی نہ کوئی ثبوت تو ہونا چاہیے تھا۔
4️⃣ راستے کی دائیں جانب چلنے کو سنت یا ادب قرار دینا اُن روایات کے بھی خلاف معلوم ہوتا ہے جن میں خواتین کو راستے کے درمیان میں چلنے سے منع کرتے ہوئے راستے کی ایک جانب ہوکر چلنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ’’شُعَبُ الاِیمان‘‘ اور ’’صحیح ابن حبان‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’عورتوں کے لیے راستے کے درمیان میں چلنے کا حق نہیں۔‘‘
☀️ شعب الإيمان:
7436- أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَكْرٍ الْقَاضِي قَالَا: نا أَبُو الْعَبَّاسِ بْنُ يَعْقُوبَ: نا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ: نا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ: نا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، ح: وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ: أنا أَبُو بَكْرٍ الْقَطَّانُ: نا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْحَرْثِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي عَمْرِو بْنِ حِمَاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَيْسَ لِلنِّسَاءِ سَرَاةُ الطَّرِيقِ» يَعْنِي وَسَطَ الطَّرِيقِ ..... وَزَادَ وَقَالَ أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ: فَصَحِبْتُ أَبَا عُبَيْدٍ فِي طَرِيقِ الْجَامِعِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا عُبَيْدٍ، لَيْسَ لِلنِّسَاءِ سَرَاةُ الطَّرِيقِ؟ قَالَ: يَمْشِيَنَ فِي الْجَنَبَاتِ.
7438- أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ: أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ: نا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ: نا الصَّلْتُ بْنُ مَسْعُودٍ: نا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ: نا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَيْسَ لِلنِّسَاءِ وَسَطُ الطَّرِيقِ». قَالَ أَبُو أَحْمَدَ: لَا أَعْلَمُ يَرْوِيهِ عَنْ شَرِيكٍ غَيْرَ مُسْلِمِ بْنِ خَالِدٍ. وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
☀️ صحيح ابن حبان:
ذِكْرُ الزَّجْرِ عَنْ أَنْ تَمْشِيَ الْمَرْأَةُ فِي حَاجَتِهَا فِي وَسَطِ الطَّرِيقِ:
5601- عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَيْسَ لِلنِّسَاءِ وَسَطُ الطَّرِيقِ».
اسی طرح ’’شعب الایمان‘‘ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ مسجد کے باہر موجود تھے، تو دیکھا کہ راستے میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوگیا ہے تو حضور اقدس ﷺ نے عورتوں سے فرمایا کہ: ’’پیچھے ہٹو، تمھیں راستے کے درمیان میں چلنے کا حق نہیں، بلکہ تم پر لازم ہے کہ راستے کے ایک طرف ہوکر چلو۔‘‘ چنانچہ اس ارشاد کے نتیجے میں عورت راستے کے ایک طرف ہوکر دیوار سے اس قدر لگ کر چلتی کہ دیوار میں اس کا کپڑا، چادر وغیرہ اٹک جاتا۔
☀️ شعب الإيمان:
7437- عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَاخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاءِ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِلنِّسَاءِ: «اسْتَأْخِرْنَ، لَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَخْفَقْنَ الطَّرِيقَ، عَلَيْكُنَّ حَافَّاتِ الطَّرِيقِ»، فكَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْصَقُ بِالْجِدَارِ، حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بِالشَّيْءِ يَكُونُ فِي الْجِدَارِ مِنْ لُزُومِهَا بِهِ.
اس مضمون کی احادیث الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ متعدد کتب میں موجود ہیں اور مجموعی طور پر معتبر ہیں۔ مذکورہ احادیث کی رو سے متعدد فوائد اور نتائج سامنے آتے ہیں:
▪️ *اول:* مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے راستے کی کسی ایک جانب چلنے کا حکم ہے، اس میں دائیں یا بائیں کی کوئی تخصیص نہیں، بلکہ عموم ہے، کیوں کہ مقصود راستے کے اطراف کو خواتین کے لیے جبکہ راستے کے درمیان والا حصہ مردوں کے لیے خاص کرنا ہے کہ اس میں باہمی اختلاط سے حفاظت بھی ہے اور یہ عورتوں کے لیے ستر کا باعث بھی ہے۔
▪️ *دوم:* مذکورہ روایات کی رو سے خصوصًا خواتین کی موجودگی کی صورت میں جب راستے کا درمیانی حصہ مردوں کے لیے مخصوص ہوجاتا ہے تو پھر مردوں کے لیے راستے کی دائیں جانب چلنے کو سنت یا ادب کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیوں کہ راستے کی دائیں یا بائیں جانب تو خواتین کے لیے چلنے کا حکم ہے۔
▪️ *سوم:* مذکورہ روایات پر عمل کرنے کے نتیجے میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط بھی نہیں ہوتا، آمنا سامنا بھی نہیں ہوتا، اور راہ چلنے والے مردوں اور عورتوں کو پریشانی بھی نہیں ہوتی بلکہ ان کوباآسانی راستہ مل جاتا ہے اور انھیں ایک دوسرے کے کسی ایک طرف ہونے کا بھی انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
‼️ *مذکورہ مسئلے میں احادیثِ تیامُن کے عموم سے استدلال کا جواب:*
بعض حضرات نے راستے کی دائیں جانب چلنے کے سنت یا ادب ہونے کے لیے اُن روایات سے استدلال فرمایا ہے جن میں ہر شرف و احترام والے اور ہر اچھے کام میں دائیں جانب کی رعایت کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے کہ سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کو جوتا پہننے، کنگھی کرنے، پاکی حاصل کرنے حتی کہ ہر (شرف اور زینت والے) کام میں دائیں جانب پسندیدہ تھا۔
168- عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ فِي تَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَطُهُورِهِ وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ.
اسی طرح ’’سنن النسائی‘‘ میں ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کو دائیں جانب کی رعایت محبوب تھی، جب کوئی چیز لیتے تو دائیں ہاتھ سے لیتے اور جب کوئی چیز دیتے تو دائیں ہاتھ سے دیتے، حتی کہ تمام (شرف اور زینت والے) کاموں میں ان کو دائیں جانب پسندیدہ تھا۔
5074- عَن الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُحِبُّ التَّيَامُنَ يَأْخُذُ بِيَمِينِهِ وَيُعْطِي بِيَمِينِهِ، وَيُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي جَمِيعِ أُمُورِهِ.
واضح رہے کہ ان تیامن والی روایات کی رو سے راستے کی دائیں جانب چلنے کو سنت یا ادب قرار دینا درج ذیل وجوہات کی رو سے درست معلوم نہیں ہوتا:
1️⃣ راستے کی دائیں جانب چلنے کا سنت یا ادب ہونا حضور اقدسﷺ، صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین عظام، ائمہ مجتہدین، محدثین کرام اور فقہائے امت سے ثابت نہیں۔ تو اگر راستے کی دائیں جانب چلنا تیامن کی احادیث کے عموم میں داخل ہوتا تو اس کا کسی درجے میں ثبوت تو ملتا، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اور بظاہر یہ بہت مشکل ہے کہ راستے میں چلنے جیسے ایک کثیر الوقوع کام میں دائیں جانب چلنے کو سنت یا ادب قرار دیا جائے اور اس کے لیے کوئی صراحت اور ثبوت تک نہ ملے؟!
2️⃣ حضرات محدثین کرام اور فقہاء عظام نے بھی ان تیامن والی روایات کے عموم میں راستے کی دائیں جانب چلنے کا ذکر نہیں فرمایا، حالاں کہ راستے میں چلنا ایک کثیر الوقوع عمل ہے اور اس کے باوجود بھی تیامن والی احادیث کے عموم میں اس کا ذکر نہ کرنا اس بات کی دلیل بن سکتی ہے کہ ان حضرات کے نزدیک راستے کی دائیں جانب چلنا تیامن کی احادیث میں داخل نہیں۔
3️⃣ تیامن کی احادیث سے ہر کام میں دائیں جانب کی رعایت کا سنت اور مستحب ہونا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ محدثین کرام اور فقہائے امت رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ہر وہ کام جو شرف، عزت واحترام یا زینت والا ہو تو اس میں دائیں جانب کی رعایت کرنا پسندیدہ اور مسنون ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر کاموں میں بائیں جانب کی رعایت کرنا پسندیدہ اور مسنون ہے۔ چنانچہ حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ ’’جمع الوسائل فی شرح الشمائل‘‘ میں یہی فرماتے ہیں:
الْمُرَادُ أَنَّهُ كَانَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي هَذِهِ الْأَشْيَاءِ وَأَمْثَالِهَا مِمَّا هُوَ مِنْ بَابِ التَّكْرِيمِ: كَالْأَخْذِ، وَالْعَطَاءِ، وَدُخُولِ الْمَسْجِدِ وَالْبَيْتِ، وَحَلْقِ الرَّأْسِ، وَقَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الظُّفْرِ، وَنَتْفِ الْإِبْطِ، وَالِاكْتِحَالِ، وَالِاضْطِجَاعِ، وَالْأَكْلِ وَالشُّرْبِ، وَالِاسْتِيَاكِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْفَمِ وَالْيَدِ جَمِيعًا، بِخِلَافِ مَا لَا شَرَفَ فِيهِ كَخُرُوجِ الْمَسْجِدِ، وَدُخُولِ الْخَلَاءِ، وَأَخْذِ النَّعْلِ، وَنَحْوِ ذَلِكَ فَإِنَّهُ بِالْيَسَارِ كَرَامَةٌ لِلْيَمِينِ أَيْضًا. قَالَ النَّوَوِيُّ: قَاعِدَةُ الشَّرْعِ الْمُسْتَمِرَّةُ اسْتِحْبَابُ الْبَدَاءَةِ بِالْيَمِينِ فِي كُلِّ مَا كَانَ مِنْ بَابِ التَّكْرِيمِ وَالتَّزَيُّنِ وَمَا كَانَ بِضِدِّهِ فَاسْتُحِبَّ فِيهِ التَّيَاسُرُ، وَيَدُلُّ عَلَى الْعُمُومِ مَا رَوَاهُ الشَّيْخَانِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ فِي تَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَفِي طَهُورِهِ وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ. وَمَا فِي رِوَايَةِ النَّسَائِيِّ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ يَأْخُذُ بِيَمِينِهِ، وَيُعْطِي بِيَمِينِهِ، وَيُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي جَمِيعِ أَمْرِهِ. وَيَدُلُّ عَلَى اسْتِثْنَاءِ مَا لَيْسَ مِنْ بَابِ التَّكْرِيمِ مَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللهِ ﷺ الْيُمْنَى لِطَهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى. قال النَّوَوِيُّ فِي «شَرْحِ مُسْلِمٍ»: أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ تَقْدِيمَ الْيُمْنَى فِي الْوُضُوءِ سُنَّةٌ، مَنْ خَالَفَهَا فَقَدْ فَاتَهُ الْفَضْلُ وَتَمَّ وُضُوءُهُ.
▫️ جبکہ راستے میں دائیں جانب چلنا بذاتِ خود کوئی شرف، عزت، تکریم اور زینت والا کام نہیں ہے، اس لیے تیامن والی احادیث کی رو سے راستے کی دائیں جانب چلنے کے لیے سنت یا استحباب ثابت کرنا مشکل ہے۔
4️⃣ تیامن والی روایات میں راستے کی دائیں جانب چلنے کو شامل کرنا اُن روایات کے بھی خلاف ہے جن میں خواتین کو راستے کی کسی ایک جانب چلنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مردوں کے لیے راستے کے درمیان والا حصہ مخصوص ہوکر رہ جاتا ہے۔ جس کی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی۔
5️⃣ اگر تیامن والی احادیث کے عموم سے راستے کی دائیں جانب چلنے کو سنت یا بہتر قرار دیا جائے تو یہ حکم مردوں اور عورتوں سب کے لیے ہونا چاہیے کیوں کہ صرف مردوں کی تخصیص کی بھی کوئی دلیل نہیں! حالانکہ عورتوں کے لیے بلا تخصیص راستے کی کسی ایک جانب چلنے کا حکم ہے جس کی ماقبل میں تفصیل بیان ہوچکی۔
⬅️ *خلاصہ:*
ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوچکی کہ مردوں کے لیے راستے کی دائیں جانب چلنے کو سنت یا ادب قرار دینا مشکل ہے کیونکہ اس کی کوئی معتبر دلیل نہیں اور اپنی طرف سے کسی عمل کو تیامن والی احادیث کے عموم میں داخل کرنا درست نہیں، بلکہ اس کے لیے کسی معتبر دلیل کا ہونا ضروری ہے۔
✍🏼۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی