ஜ۩۞۩ஜ-د҉ر҉س҉ِ҉-҉ح҉د҉ی҉ث҉-ஜ۩۞۩ஜ
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ فَأَكَلَهُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً ثُمَّ قَالَ أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَاكَ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمْ الدَّاعِي وَيَنْفُذُهُمْ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ فَبَلَغَ النَّاسُ مِنْ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ وَلَا يَحْتَمِلُونَ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَلَيْكُمْ بِآدَمَ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنْ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ نُوحٌ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُونَ يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى الْبَشَرِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ عِيسَى إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ قَالَ فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَخِرُّ سَاجِدًا لِرَبِّي ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي ثُمَّ يُقَالَ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنْ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ الْأَبْوَابِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ وَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَأَنَسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ هَرِمٌ
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا ، اس میں سے آپ کو دست کاگوشت دیاگیا جوکہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کرکھایا، پھر فرمایا:' قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیاتم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہرنگاہ والادیکھ سکے گا ، سورج ان سے بالکل قریب ہوگا جس سے لوگوں کا غم وکرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کرسکیں گے، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں، لہذا لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ،آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے؟ آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایساغضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، یقینا اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا ، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پا س جاؤ، چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آکرعرض کریں گے، اے نوح! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے ،پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے ، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح علیہ السلام ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرارب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کرلیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے،نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے: اے ابراہیم ! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل (یعنی گہرے دوست) ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکاہوں( ابو حیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے) آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیاآپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ توایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مارڈا لا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیاگیا تھا ، آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اورکے پاس جاؤ، عیسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے :اے عیسیٰ !آپ اللہ کے رسول ، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گودہی میں کلام کیا، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: آج کے دن میرارب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہاکہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ ، محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، ابوہریرہ کہتے ہیں: چنانچہ وہ لوگ محمدﷺ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں، ( آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:) پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گرجاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتناکسی پر نہیں کھولا ہوگا، پھر مجھ سے کہاجائے گا کہ اے محمد! اپنے سرکو اٹھاؤ اور سوال کرو، اسے پورا کیاجائے گا، اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات وفلاح مانگتاہوں ، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں ، اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد ! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کرلیں، جن پر کوئی حساب وکتاب نہیں ہے ،اور یہ سب (امت محمد) دیگر دروازوں میں بھی (داخل ہونے میں) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے، پھر آپﷺ نے فرمایا:' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے پٹوں میں سے دوپٹ کے درمیان کافاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اورہجر یا مکہ اور بصری کے درمیان فاصلہ ہے ' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابوبکر صدیق ، انس، عقبہ بن عامر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
جامع ترمذی حدیث نمبر: 2434
کتاب: احوال قیامت ،رقت قلب اورورع کے بیان میں
قیامت کے دن کی شفاعت کابیان
حکم: صحيح