🌻 *نذر کے روزوں کی نیت کب تک کی جاسکتی ہے؟*
📿 *نذر کے روزوں کی نیت کب تک کی جاسکتی ہے؟*
اگر کسی معین دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ہے تو اس دن روزہ رکھنے کی صورت میں ’’نصف النہار شرعی‘‘ سے پہلے پہلے روزہ رکھنے کی نیت کی جاسکتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو اور نہ ہی روزہ توڑنے والا کوئی کام صادر ہوا ہو، لیکن اگر کسی خاص دن روزہ رکھنے کی نذر نہ ہو بلکہ مطلقًا کسی دن روزہ رکھنے کی نذر ہو تو ایسی صورت میں صبح صادق سے پہلے پہلے نیت کرنا ضروری ہے۔
📿 *نِصْفُ النَّہار کی حقیقت:*
’’نصف النہار‘‘ کے معنی ہیں: آدھا دن۔ ’’نصف النہار‘‘ کی دو اقسام ہیں:
1️⃣ *نصف النہار عرفی:*
سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک پورے دن کا جتنا بھی وقت ہے اس کے آدھے وقت کو ’’نصف النہار عرفی‘‘ کہتے ہیں، یعنی عرف میں آدھا دن یہیں تک ہوتا ہے۔ اس کو زوال بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں نقشوں میں جو زوال کا وقت لکھا ہوتا ہے تو اس سے یہی نصف النہار عرفی ہی مراد ہوتا ہے، جس کے بعد ظہر کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
2️⃣ *نصف النہار شرعی:*
صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک پورے دن کا جتنا بھی وقت ہے اس کے آدھے وقت کو ’’نصف النہار شرعی‘‘ کہتے ہیں، یعنی شریعت کی نگاہ میں آدھا دن یہیں تک ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نصف النہار شرعی کا وقت نصف النہار عرفی سے کچھ پہلے ہوتا ہے۔
📿 *مسئلہ کی تفصیل:*
کسی معین دن روزہ رکھنے کی نذر کی صورت میں اس کی نیت رات سے بھی درست ہے اور سحری کے وقت یعنی صبح صادق سے پہلے بھی درست ہے، البتہ جس شخص نے سحری کے وقت بھی نیت نہیں کی یہاں تک کہ صبح صادق کا وقت داخل ہوگیا تو وہ ’’نصف النہارشرعی‘‘ سے پہلے پہلے اس روزے کی نیت کرسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ صبح صادق طلوع ہونے کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو اور نہ ہی روزہ توڑنے والا کوئی کام کیا ہو۔ اسی طرح وہ حضرات جو سحری سے رہ جاتے ہوں اور صبح صادق کے بعد ہی بیدار ہوجاتے ہوں تو ان کے لیے بھی اتنی سہولت ہے کہ وہ نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے نیت کرکے یہ روزہ رکھ لیا کریں اس شرط کے ساتھ کہ صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو اور نہ ہی روزہ توڑنے والا کوئی کام کیا ہو۔ اور جس شخص نے’’نصف النہارشرعی‘‘ تک بھی نیت نہیں کی تو اس کے بعد اس کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں۔
☀️ الدر المختار:
(فَيَصِحُّ) أَدَاءُ (صَوْمِ رَمَضَانَ وَالنَّذْرِ الْمُعَيَّنِ وَالنَّفَلِ بِنِيَّةٍ مِنَ اللَّيْلِ) فَلَا تَصِحُّ قَبْلَ الْغُرُوبِ وَلَا عِنْدَهُ (إلَى الضَّحْوَةِ الْكُبْرَى لَا) بَعْدَهَا وَلَا (عِنْدَهَا) اعْتِبَارًا لِأَكْثَرِ الْيَوْمِ.
☀️ رد المحتار على الدر المختار:
(قَوْلُهُ: فَيَصِحُّ أَدَاءُ صَوْمِ رَمَضَانَ إلَخْ) قَيَّدَ بِالْأَدَاءِ؛ لِأَنَّ قَضَاءَ رَمَضَانَ وَقَضَاءَ النَّذْرِ الْمُعَيَّنِ أَوِ النَّفْلِ الَّذِي أَفْسَدَهُ يُشْتَرَطُ فِيهِ التَّبْيِيتُ وَالتَّعَيُّنُ كَمَا يَأْتِي فِي قَوْلِ الْمُصَنِّفِ: «وَالشَّرْطِ لِلْبَاقِي إلَخْ».
(كِتَابُ الصَّوْمِ)
☀️ الموسوعة الفقهية الكويتية:
وَاشْتَرَطَ الْحَنَفِيَّةُ تَبْيِيتَ النِّيَّةِ فِي صَوْمِ الْكَفَّارَاتِ وَالنُّذُورِ الْمُطْلَقَةِ وَقَضَاءِ رَمَضَانَ.
(صوم: النية: التبييت)
✍🏼۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی