خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوچکا تھا، ترکی کے جنوبی علاقے قہرمان مرعش کے ایک بازار میں فرانسیسی جنرل فتح کے نشے میں مست جا رہا تھا کہ اسکی نظریں با پردہ ترک خواتین پر پڑی جنرل رکا اور ان سے مخاطب ہوا کہ خلافت عثمانیہ ختم ہوچکی ہے اب تم ہمارے ماتحت ہو اپنے حجاب اتار دو خواتین نے جنرل کو منع کر دیا۔۔۔
جنرل کو یہ انکار پسند نہیں آیا اس نے اپنا ہاتھ ایک خاتون کے حجاب کی طرف بڑھایا کہ حجاب نوچ لے۔۔۔
بازار میں قریب ہی ایک دودھ فروش یہ منظر دیکھ رہا تھا اس کا نام "امام سوتجو " تھا،اس دودھ فروش کی غیرت ایمانی نے جوش مارا وہ چیتے کی طرح لپکا اورفرانسیسی جنرل کا پستول چھین کر اسے زمین پر ڈھیر کر دیا ۔۔۔
دودھ فروش کی دکان کے پاس لوگ جمع ہوئے یہی سے ایک زبردست تحریک نے جنم لیا، دودھ فروش نے اس تحریک کی قیادت کرلی وہ راتوں رات دودھ فروش سے آزادی کا ایک لیڈر بن کر ابھرے اور تھوڑے ہی عرصے میں پورے قہرمان مرعش کو فرانسیسی استعمار سے آزاد کروا لیا۔۔۔
وہ دودھ فروش پوری ترک قوم کا ہیرو بن گیا، شاہراہوں پر اس کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کے مجسمے نصب کئے گئے تھے۔۔۔
دودھ فروش ترک نصابوں میں پڑھایا جانے لگا، آج ترکی میں جامعہ امام سوتجو کے نام سے باقاعدہ ایک یونیورسٹی قائم ہے، جب کہ کئی فلاحی ادارے ، تنظیمیں ، مدارس اور این جی اوز امام ساتجو کے نام سے قائم ہیں۔۔۔
تاریخ بہادروں کو یاد رکھتی ہے۔۔۔
بزدلوں کو نہیں ۔۔