جنت ایسے ہی نہیں مل جاتی
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─
میں نے جب حضرت مریم علیہ السلام کا قصہ پڑھا اور مجھے اُنکی برداشت پر رشک آیا، پھر اُسے اپنے اوپر سوچا کہ اگر یہ سب میرے ساتھ ہوتا؟ تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ جو لوگ انکو باتیں کرتے تھے اگر میرے اوپر ہوتیں تو؟ ناقابل برداشت!
میں نے حضرت آسیہ علیہ السلام کا قصہ پڑھا جو کہ فرعون کی زوجیت میں تھیں، تو اُن کے صبر پر رشک آیا، اگر آج ہماری کسی بہن کا شوہر انہیں کچھ کہہ دے تو آسمان بول بول کر سر پر اٹھا لیتی ہیں۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام کی پیدائش ہی بت تراش کے گھر ہوئی، گھر سے نکالے گئے، اپنا باپ ہی بیٹے کو جلانے کے لیے لکڑیاں اٹھا اٹھا کر لاتا تھا، لیکن امتحان میں کامیاب ہوئے تو ویران بیابان میں اکلوتی اولاد کو چھوڑا، پھر قربانی دینے کا حکم، آج کسی مرد میں ہے اتنا حوصلہ؟ کبھی نہیں۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری، سب کچھ چلا گیا اولاد، مال، بیویاں، سب کچھ، لیکن آزمائش پر صبر کیا، آج ہے کسی میں اتنا صبر؟ بالکل نہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو بچپن میں ان کے والد سے بھائیوں نے دور کر کے کنویں میں پھینکا، پھر غلام کے طور پر قیمت لگائی گئی، قید کاٹی لیکن صبر کیا اور آج اگر ایسا کسی کے ساتھ ہو، تو شکوہ شروع، کہ اللّٰہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں؟
رسول اللّٰہ ﷺ نے یتیمی میں آنکھ کھولی، پھر ماں بھی چھوڑ گئیں اور مختلف آزمائشوں سے گزرتے نبوت کے مقام تک پہنچے، غزوات، بھوک، دشمنوں سے مسلسل آزمائش کی زندگی، کیا آج کوئی کر سکتا ہے یہ سب برداشت؟ بالکل نہیں۔
تو کیا یہ مثالیں ہمارے لیے کافی نہیں کہ مسلمان کی زندگی آزمائش ہوتی ہے، اور ہمیں بھی زندگی کا ایسے ہی امتحان دینا ہے اور اسی طرح صبر کرنا ہے۔
یہ زندگی گرم صحرا کی تپتی دھوپ کی مانند ہے اور ہمیں گرم ریت پر لیٹ کر سینے پر بھاری بھرکم پتھر کا بوجھ اٹھا کر؛ کبھی کچھ اس سے بڑی آزمائش ہو، سلگھتے کوئلوں پر لیٹ کر چمڑی جلا کر امتحان دیتے ہوئے بس احد، احد، احد پکارنا ہے۔ جنت ایسے ہی نہیں مل جانی، مومنوں کی سنت پر چلنا ہو گا، صبر کے ساتھ آزمائش پر پورا اترنا ہو گا۔
اللّٰہ مُشکلات، تکالیف، پریشانیوں اور آفات میں آپکا، میرا اور سب کا حامی و ناصر ہو، آمین ثم آمین یا ربّ العالمین..