حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


 مُٹھی بھر مجاہدین اُحد پہاڑ کے سایے میں لڑی جانے والی جنگ جیت چُکے ہیں اور کفّارِ مکّہ راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ شیطان اپنا سَر پیٹ رہا ہے۔ جبلِ رماۃ پر پہرے پر مامور جنگ جُو اپنے کمانڈر کے منع کرنے کے باوجود، مورچہ چھوڑ کر میدانِ جنگ کی طرف چلے گئے ہیں کہ اچانک، پسپا ہو کر بھاگنے والے قریش کے کمانڈر، خالد بن ولید کی نظر جبلِ رماۃ کے خالی مورچے پر پڑی اور پھر وہ برق رفتاری سے پلٹا۔ رماۃ پر موجود چند مجاہدین کو شہید کرتا ہوا میدانِ جنگ میں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ اُس کا حملہ اتنا اچانک، حیران کُن اور شدید تھا کہ مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور یوں ذرا سی غفلت سے شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا۔


تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر

حضرت خالد بن ولیدؓ تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر ہیں کہ جن کے محیّرالعقول اور ولولہ انگیز جنگی کارنامے دیکھ کر ماہرینِ حرب و ضرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ جن کے برق رفتار طوفانی حملوں اور لگاتار فتوحات نے دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ، ملّتِ اسلامیہ کا وہ عظیم جرنیل کہ جنھوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو پامال کر ڈالا۔ روم، ایران کے شاہی محلّات اپنے گھوڑوں کی ٹاپ سے روند ڈالے۔ جن کی تلوار کی زَد سے بڑے بڑے نام وَر سورما گھبرائیں اور کوئی مقابلے پر نہ آئے۔ جن کا نام کفّار کے دِلوں کو دہشت زَدہ کر دے۔ خالد بن ولیدؓ، اللہ کی وہ تلوار کہ جو کفّار، مشرکین، مرتدین، یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں پر اللہ کا قہر بن کر نازل ہوئی۔ جن کے نام سے کفر کے ایوانوں میں لرزا طاری ہو جائے، جو سبز آندھی بن کر چھائے اور جنگ کے میدانوں میں لاشوں کے ڈھیر اور سَروں کے مچان بنا دے۔ جن کے ہاتھوں کی طاقت سے برہنہ شمشیریں بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں۔ جنھوں نے ملّتِ اسلامیہ کی سرحدوں کو آدھی دنیا تک پھیلا دیا۔ خالد بن ولیدؓ،عزم و ہمّت، عمل و بے داری، شجاعت و بہادری، طاقت و جواں مَردی کا عظیم پیکر، جن کا وجود فتح کی علامت، نصرت کا نشان۔ مسلمانوں کی آن، مجاہدین کی شان، اللہ کے نبی ؐ کا پیارا، صدیقِ اکبرؓ کی آنکھوں کا تارا، حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم، رزمِ حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت۔ فتح و نصرت، جس کی قدم بوسی کے لیے دیدہ و دِل فرش راہ کر دے، کام یابیاں جس کی منتظر ہوں، عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرماں برداری کا یہ عالم کہ امیرالمومنین، فاروقِ اعظمؓ جب معزول کر دیں، تو لمحہ بھر میں سپہ سالار سے سپاہی بن کر رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن گئے۔ خالد بن ولیدؓ، مسلمانوں کے وہ ہیرو کہ آج بھی جن کا نام، لہو کو گرم اور دِلوں کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔

تعارف

مضبوط، چاق چوبند جسم، دراز قد، سُرخ و سفید روشن چہرہ، چوڑا اور کشادہ سینہ، چمکتی عقابی آنکھیں۔ شہ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی اور شمشیر زنی کا جادوگر، جنگی حکمتِ عملی اور سیاسی چالوں کا ماہر۔ بے خوف، نڈر، بہادر، جَری، پاک دامن، شریف النّفس، عبادت گزار، قسمت کا دھنی، برق رفتار، آتش جواں، شعلہ بیاں، جرنیل، حضرت خالد بن ولیدؓ قبیلہ بنو مخزوم کے سردار اور قریش کے بااثر رئیس، ولید بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد، ولید بن مغیرہ اور طائف کے ،عروہ بن مسعود ثقفی کا شمار ایسے معزّزین میں ہوتا تھا کہ جن کے بارے میں قریش کہا کرتے تھے’’ اگر اللہ کو قرآن نازل کرنا ہی تھا، تو اِن پر کیوں نہ کیا۔‘‘ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی سورہ’’ الزخرف‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔

سلسلہ نسب

آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ خالد بن ولیدؓ بن المغیرہ بن عبداللہ بن عُمر بن مخزوم القریش المخزومی۔ آپؓ کی والدہ کا نام، لبابہ صغریٰ ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی زوجہ، اُمّ المومنین، حضرت میمونہؓ کی ہم شیرہ تھیں۔ بارگاہِ رسالتؐ سے آپؓ کو’’ سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔

قبولِ اسلام

حارث بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو کہتے سُنا کہ’’ اسلام قبول کرنے سے پہلے مَیں تقریباً ہر معرکے میں آنحضرتؐ کے سامنے نئے عزم و ولولے کے ساتھ آتا، لیکن ہر مرتبہ کچھ اس طرح میرے دِل پر آپؐ کا رُعب و دبدبہ طاری ہوتا کہ میرے حوصلے پست ہو جاتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی غیبی طاقت اُنؐ کی حفاظت فرما رہی ہے۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ پوری دنیا پر غالب آ جائیں گے‘‘ (طبقات ابنِ سعد)۔ حضرت خالد بن ولیدؓ قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ غزوۂ خندق کے بعد ایک دن مجھے اپنے بھائی کا خط ملا، جس میں اُنہوں نے لکھا کہ’’ اے میرے پیارے بھائی جان! رسول اللہﷺ نے مجھ سے دریافت کیا کہ خالد کہاں ہے؟ مَیں نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ، انشاء اللہ وہ بہت جلد آپؐ کے قدموں میں ہوگا۔‘‘ اس خط کے بعد، ایک دن مَیں نے خواب دیکھا کہ مَیں تنگ و تاریک، بھیانک جگہ سے ایک سرسبز و شاداب اور کُھلے میدان کی طرف جا رہا ہوں۔ میری آنکھ کُھلی، تو میری دنیا بدل چُکی تھی۔ مَیں نے عثمان بن طلحہؓ سے مدینہ جانے کا کہا، تو وہ خوشی خوشی میرے ساتھ جانے پر رضا مند ہوگئے اور ہم اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی ہم کچھ ہی دُور گئے تھے کہ ہمیں عمرو بن عاصؓ بھی مل گئے، وہ بھی اسی مقصد کے لیے مدینہ جا رہے تھے۔ چناں چہ ہم نے اپنے آپ کو بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کر دیا۔ سرکارِ دو عالمﷺ نے فرطِ محبّت سے صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’مکّہ نے اپنے جگر گوشے تمہاری جانب پھینک دیے ہیں۔‘‘ میرے اسلام قبول کرنے پر آنحضرتؐ نے فرمایا’’خالدؓ! تمہاری عقل و دانش اور فہم و فراست کی بناء پر مجھے قوی اُمید تھی کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مسلمان ہو جائو گے۔‘‘

کاتبِ وحی

دُنیا حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک نام وَر جرنیل و فاتح کے طور پر جانتی ہے اور کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ آنحضرتؐ نے اُنھیں کاتبِ وحی کے منصب پر بھی فائز فرمایا تھا۔ مختلف کُتب میں آپؓ کے کاتبِ وحی ہونے کا ذکر صراحت سے موجود ہے۔

معرکۂ موتہ

رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں سب سے خون ریز معرکہ، 8؍ہجری میں شام کے سرحدی علاقے، (موجودہ اُردن) بلقاء کے قریب’’موتہ‘‘ نامی بستی میں پیش آیا، جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ مسلمان ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ نبی کریمؐ نے ایک صحابی، حارث بن عمیرؓ کو ایک خط دے کر حاکمِ بصریٰ کے پاس روانہ کیا، لیکن اُنہیں قیصرِ روم کے گورنر، شرجیل بن عمرو غسانی نے گرفتار کر کے شہید کر دیا۔ آنحضرتؐ نے اسلام کے سفیر کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں 3ہزار جنگ جوؤں کا لشکر روانہ کیا اور تاکید فرمائی کہ’’ زیدؓ شہید ہو جائیں، تو جعفر بن ابی طالبؓ کو سپہ سالار بنالیں، اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو عبداللہ بن رواحہؓ کو امیر بنالیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کر لیں۔‘‘ اسلامی لشکر موتہ پہنچا، تو شاہِ روم، ہرقل ایک لاکھ جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا منتظر تھا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور مسلمانوں کے تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے۔ مجاہدین کے لیے یہ مایوس کُن صُورتِ حال تھی۔ میدانِ جنگ پر رومیوں کا قبضہ تھا، ایسے میں مسلمانوں نے فوج کے ایک سپاہی، خالد بن ولیدؓ کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور جھنڈا اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے میدانِ جنگ میں ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی اور اچانک رومیوں پر بھرپور حملہ کر دیا۔ رومی اس اچانک اور بھرپور حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ چناں چہ وہ بدحواس ہو گئے اور شکست اُن کا مقدر بن گئی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خالدؓ نے فرمایا کہ’’ جنگِ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی تلوار) باقی بچی۔‘‘ اُدھر مدینہ میں جنگِ موتہ ہی کے روز رسول اللہﷺ نے وحی کی بناء پر فرمایا کہ’’ جھنڈا زید ؓنے لیا اور وہ شہید کر دیے گئے۔ پھر جعفرؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے پھر ابنِ رواحہؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے( اس دَوران آپؐ کی آنکھیں اشک بار تھیں) یہاں تک کہ جھنڈا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا(اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا فرمائی‘‘(صحیح بخاری، باب غزوۂ موتہ)۔

فتحِ مکّہ اور غزوۂ حنین

20رمضان المبارک 8ہجری کو فتحِ مکّہ کے موقعے پر رسول اللہﷺ نے وادی ذی طویٰ میں لشکر کی تربیت و تقسیم فرمائی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو داہنے پہلو پر رکھا۔ اس میں اسلم، سلیم، غفّار، مزینہ، جہینہ اور کچھ دوسرے عرب قبائل تھے۔ آپؐ نے خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ’’ وہ مکّے میں زیریں حصّے سے داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے، تو اُسے کاٹ کر رکھ دیں اور کوہِ صفا پر ہم سے ملیں۔‘‘ حضرت خالدؓ اور اُن کے رفقاء کی راہ میں جو مشرک آیا، اُسے جہنّم رسید کرتے کوہِ صفا پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملے۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ سے جھڑپ میں 12مشرک مارے گئے، جب کہ دو صحابیؓ شہید ہوئے، وہ بھی راستا بھول کر لشکر سے جدا ہو جانے کی وجہ سے‘‘ (الرحیق المختوم)۔ فتحِ مکّہ کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت خالدؓ کو 30مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ’’عزیٰ‘‘ نامی بُت گرانے کے لیے روانہ کیا۔ 8ہجری کے ماہِ شوال میں نبی کریمؐ نے قبیلہ ہواذن کی سرکوبی کے لیے مکّہ مکرّمہ سے وادیٔ حنین کی جانب کوچ فرمایا۔ آپؐ کے ساتھ بارہ ہزار جنگجو تھے۔ 10ہزار وہ جو فتح ِمکّہ کے وقت آپؐ کے ہم راہ تھے اور دو ہزار مکّے کے نو مسلم۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی ایک لشکر کے سالار کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ غزوۂ حنین کے بہت سے شکست خوردہ مشرک طائف میں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ چناں چہ آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ہراول دستے کے طور پر طائف روانہ کیا۔ پھر آپؐ نے بقیہ فوج کے ساتھ خود بھی طائف کا رُخ فرمایا۔

غزوۂ تبوک

غزوۂ تبوک کے موقعے پر کوئی بھی رومی قبیلہ مسلمانوں سے مقابلے کے لیے تیار نہ تھا۔ سب نے آنحضرتؐ کے پاس آکر جزیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ اس موقعے پر آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو چار سو بیس سواروں کا لشکر دے کر دومتہ الجندل کے حاکم، اکیدر کو گرفتار کرنے بھیجا۔ آپ ؐنے فرمایا کہ’’ تم اُسے نیل گائے کا شکار کرتے پائو گے۔‘‘ حضرت خالدؓ جب اُس کے قلعے کے قریب پہنچے، تو دیکھا کہ ایک نیل گائے قلعے کے دروازے پر موجود ہے اور چاندنی رات میں اکیدر اُسے شکار کرنے کے لیے قلعے سے باہر آیا ہے۔ حضرت خالدؓ نے اُسی وقت اُسے گرفتار کر کے حضورﷺکی خدمت میں پیش کر دیا۔ آنحضرتؐ نے جزیہ دینے کے اقرار پر اُسے چھوڑ دیا۔

جنگِ یمامہ

ذی الحجہ 11ہجری کو خلیفۂ اوّل، سیّدنا صدیقِ اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو تیرہ ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر نبوّت کے جھوٹے دعوے دار، مسیلمہ کذّاب کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ مسیلمہ اپنے قبیلے، ربیعہ کے چالیس ہزار جنگ جوئوں کے لشکر کے ساتھ’’ یمامہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کے مدّ ِمقابل آیا۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے بہترین جنگی حکمتِ عملی، سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز تقاریر کے ذریعے مجاہدین میں شوقِ شہادت کو بڑھاوا دیا اور پھر بپھرے شیر کی طرح مسیلمہ کی فوج کے پرخچے اُڑا دیئے۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل، وحشی نے اپنا نیزہ مسیلمہ کے سینے میں اُتار کر اُسے جہنّم رسید کر دیا۔

حضرت خالدؓ عراق اور ایران میں

ابھی خالد بن ولیدؓ جنگِ یمامہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت صدیقِ اکبرؓ نے آپؓ کو عراق اور ایران کی جانب پیش قدمی کا حکم صادر فرما دیا۔ چناں چہ محرّم 11ہجری میں حضرت خالدؓ عراق کے علاقے’’ابلہ‘‘ کو فتح کرتے ہوئے ایرانی صوبے’’حضیر‘‘ جا پہنچے۔ اس صوبے کا حاکم، ہرمز نہایت دلیر جنگ جُو سردار تھا، جس کی دھاک عرب، عراق، ایران اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی، کیوں کہ اُس کے جنگی بیڑے ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوئے تھے۔ ہرمز کی مدد کے لیے شاہِ ایران نے مزید ایک لاکھ فوجی بھیج دیے، جب کہ اسلامی لشکر صرف تیرہ ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا۔ یہاں حضرت خالدؓ نے ایک اور جنگی حکمتِ عملی اپنائی اور سب سے پہلے خود میدانِ جنگ میں گئے۔ اپنے گھوڑے کو ہرمز کے خیمے کے پاس کھڑا کر کے اُسے مقابلے کی دعوت دی۔ وہ باہر نکلا، دونوں میں دو بدو لڑائی ہوئی اور پھر حضرت خالدؓ نے اُسے زمین پر گرا دیا اور اُس کے سینے پر سوار ہو کر سرتن سے جدا کر دیا۔ یہ سب اتنا اچانک اور تیزی سے ہوا کہ ایرانی فوج بدحواس ہو کر بھاگ نکلی۔ اس جنگ میں بہت زیادہ مالِ غنیمت اور ہیرے جواہرات مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ حضرت خالدؓ نے عراق میں دو سال قیام کیا۔ فوج اور سامانِ حرب کی قلّت کے باوجود، ان دو برسوں میں 15جنگیں لڑیں اور سرزمینِ عراق کو دشمنوں سے پاک کر دیا۔

جنگِ یرموک

حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ میں رومی جرنیل،ہامان 2لاکھ، 40ہزار کا لشکر لے کر میدان میں اُترا، جب کہ مجاہدین کی تعداد 40ہزار تھی۔ مسلمان نہایت جَم کر لڑے اور فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ، تیس ہزار رومی مارے گئے۔

وفات

وہ 21ہجری کی ایک غم ناک رات تھی، جب حمص شہر میں بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے دنیا کے سب سے عظیم سپہ سالار اور فاتح، حسرت و یاس کی تصویر بنے کہہ رہے تھے ’’اللہ گواہ ہے کہ مَیں نے ایک سو سے زیادہ جنگوں میں شرکت کی۔ میرے جسم کا کوئی حصّہ ایسا نہیں، جہاں تیر کے نشان اور نیزے کے گھائو نہ ہوں، مگر ہائے افسوس کہ آج مَیں میدانِ جنگ کی بجائے بستر پر مر رہا ہوں۔‘‘ حضرت خالد بن ولیدؓ کا انتقال ہوا، تو اُن کے وَرثے میں ایک گھوڑے اور سامانِ حرب کے سوا کچھ نہ تھا۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی