🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اٹھارہ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نظام الملک اپنی فطرت کے مطابق مطمئن رہا، لیکن حسن بن صباح اپنی فطرت کے مطابق نظام الملک کو ذلیل و خوار کرنے کے موقع کی تلاش میں رہا ،،حسن بن صباح کے سامنے صرف یہ مقصد تھا کہ وہ وزیراعظم بن جائے اس کے بعد ان باطنیوں نے خفیہ قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر کے سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنا تھا۔
حسن بن صباح کو ایک موقع مل ہی گیا جو اس نے خود پیدا کیا تھا، وہ اس طرح کے ایک روز سلطنت کے کچھ حاکم بیٹھے آپس میں تبادلہ خیالات کر رہے تھے ،کسی نے کہہ دیا کہ سلطان ملک شاہ عرصہ بیس سال سے سلطان ہے ،اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس عرصے میں رعایا سے محصولات وغیرہ کے ذریعے کتنی رقم وصول کی گئی اور یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی ہے۔
کون کہتا ہے کہ ساری رقم خرچ ہوئی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں کہتا ہوں کہ اس میں سے بہت سی رقم خورد بُرد اور غبن ہوئی ہے ،اگر سلطان مجھے اجازت اور سہولت مہیا کرے تو میں بیس سال کا حساب کتاب تیار کرکے سلطان کے آگے رکھ دوں گا۔
احتشام مدنی بھی وہاں موجود تھا اس نے سلطان کو بتایا کہ حسن بن صباح نے بڑی عقلمندی کی بات کی ہے، احتشام نے سلطان کو پوری بات سنائی جو حاکموں کی اس محفل میں ہوئی تھی، احتشام نے خصوصی مشیر کی حیثیت سے سلطان کو مشورہ دیا کہ بیس برسوں کا حساب ہونا چاہیے۔
اس سے ہمیں کیا حاصل ہوگا ؟،،،،،سلطان نے پوچھا۔
اگر کچھ رقم خردبُرد ہوئی ہے تو وہ واپس نہیں ملے گی۔۔۔ احتشام نے کہا۔۔۔ حاصل یہ ہوگا کہ یہ پتہ چل جائے گا کہ ہمارے حکام میں بددیانت کون کون ہے۔
سلطان اور احتشام میں اس مسئلہ پر کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوا، احتشام نے سلطان کو قائل کر لیا کہ گزشتہ بیس برسوں کا حساب ہونا چاہیے، سلطان اپنے وزیراعظم نظام الملک کے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتا تھا ،اس نے نظام الملک کو بلایا اور یہ نیا مسئلہ اس کے آگے رکھا۔
بیس سالوں کا حساب کتنے دنوں میں تیار ہو سکتا ہے ؟۔۔۔ سلطان نے نظام الملک سے پوچھا۔
دنوں میں!،،،،، نظام الملک نے حیرت زدگی کے عالم میں جواب دیا ۔۔۔برسوں کی بات کریں، پہلے اپنی سلطنت کی وسعت دیکھیں، پھر بیس برسوں کے عرصے پر غور کریں، پھر دیکھیں کہ وہ جگہ کتنی ہے جہاں محصولات وصول کر کے سرکاری خزانے میں جمع کرائے جاتے ہیں، اگر حساب تیار کرنا ہی ہے تو اس کے لیے مجھے دو سال چاہیے۔
اس وقت احتشام مدنی اور حسن بن صباح بھی وہاں موجود تھے۔
سلطان معظم !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔میں حیران ہوں کہ محترم وزیر اعظم نے دو سال کا عرصہ مانگا ہے، میں صرف چالیس دنوں میں یہ حساب بنا کر دے سکتا ہوں ،شرط یہ ہے کہ میں جتنا عملہ مانگوں وہ مجھے دیا جائے، اور ہر سہولت مہیا کی جائے۔
سلطان ملک شاہ نے احکام جاری کر دیے اور حسن بن صباح نے کام شروع کردیا ،تاریخ داں ابوالقاسم رفیق دلاوری نے مختلف مورخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ خواجہ حسن طوسی نظام الملک عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگیا، کبھی وہ پریشان ہو جاتا کہ حسن بن صباح نے یہ کام چالیس دنوں میں مکمل کرلیا تو وہ سلطان کی نظروں میں گر جائے گا ،اور کوئی بعید نہیں کہ سلطان اسے وزارت عظمیٰ سے معزول ہی کر دے، اور کبھی نظام الملک یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کی حسن بن صباح یہ کام چالیس دنوں میں تو دور کی بات چالیس مہینوں میں بھی نہیں کرسکے گا اور خود ہی سلطان کی نظروں میں ذلیل ہوگا۔
البتہ ایک دکھ تھا جو نظام الملک کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ،یہ دکھ حسن بن صباح کی احسان فراموشی کا تھا، اب تو تصدیق ہو گئی تھی کہ حسن بن صباح اسے معزول کرکے خود وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پھر حسن بن صباح نے معجزہ کر کے دکھا دیا، اس نے کاغذات کا ایک انبار سلطان ملک شاہ کے آگے رکھ دیا۔
سلطان عالی مقام!،،،،، حسن نے سلطان سے کہا۔۔۔ میں نے چالیس دن مانگے تھے آج اکتالیسواں دن ہے، یہ رہا بیس برسوں کا حساب ،کیا وہ شخص وزیراعظم بننے کا حق رکھتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ حساب مکمل کرنے کے لیے دو برس درکار ہیں،،،،،،، اگر سلطان معظم کے دل پہ گراں نہ گزرے تو میں وثوق سے کہتا ہوں کہ وزیراعظم حسن طوسی جسے آپ نے نظام الملک کا خطاب دے رکھا ہے محصولات کی رقمیں غبن کرتا رہا ہے، اپنی لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ حساب تو ہو ہی نہیں سکتا، اگر ہوگا تو دو سال لگیں گے۔
سلطان نے نظام الملک اور احتشام مدنی کو بلایا۔
خواجہ طوسی!،،،،، سلطان نے نظام الملک سے کہا۔۔۔ یہ ہے وہ حساب جو آپ دو سالوں سے کم عرصے میں نہیں کر سکتے تھے، یہ دیکھیں حسن چالیس دنوں میں کر لایا ہے ۔
نظام الملک پر خاموشی طاری ہوگئی، اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا ،وہ وہاں بیٹھ گیا اور معزولی کے حکم کا انتظار کرنے لگا۔
سلطان نے کاغذات کی ورق گردانی شروع کردی، اور ایک ورک پر رک گیا۔
حسن !،،،،سلطان نے کہا۔۔۔ اس ورق پر آمدنی اور اخراجات مشکوک سے نظر آتے ہیں، یہ مجھے سمجھا دو ۔
حسن بن صباح بغلیں جھانکنے لگا۔
سلطان نے ایک اور ورق پر روک کر پوچھا، حسن نے اس کا بھی جواب نہ دیا، سلطان نے کئی اور وضاحت پوچھی، حسن کسی ایک بھی سوال کا جواب نہ دے سکا۔
تم نے یہ اتنا لمبا چوڑا حساب تیار کیا ہے۔۔۔ سلطان نے کہا ۔۔۔لیکن تمہیں بھی معلوم نہیں کہ یہ کیا ہے۔
سلطان معظم!،،،، نظام الملک بولا ۔۔۔میں نے ویسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کے بیس برسوں کے اخراجات اور آمدنی کے گوشوارے تیار کرنے کے لیے کم از کم دو برس درکار ہیں۔
آپ میرے پاس رہیں حسن طوسی!،،،،، سلطان نے نظام الملک سے کہا۔۔۔ تم دونوں جاؤ،،، میں یہ تمام اعداد و شمار دیکھ کر تمہیں بلاؤں گا۔
ان کے جانے کے بعد سلطان نے پوچھا۔۔۔ یہ سب کیا ہے حسن طوسی!،،،، مجھے شک ہے کہ مجھے دھوکہ دیا گیا ہے۔
سلطان معظم!،،،، نظام الملک نے کہا۔۔۔ یہ میرا ایمان ہے کہ کسی کو میرے ہاتھ سے نقصان نہ پہنچے، لیکن جہاں میری اپنی حیثیت اور میرا اعتماد خطرے میں پڑ گیا ہے میں حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں،،،،، یہ حساب کتاب تیار کرنے میں آپ کے مشیر خاص احتشام مدنی کا ہاتھ زیادہ ہے، حسن بن صباح کے ساتھ اس کی ایک جوان سال بہن رہتی ہے جو اسی عمر میں بیوہ ہو گئی ہے، مجھے اطلاع ملی ہیں کہ احتشام اور اس لڑکی کو شام کے بعد باغ میں دیکھا گیا ہے ،اور یہ بھی کہ احتشام حسن بن صباح کے گھر زیادہ جاتا اور خاصا وقت وہاں گزارتا ہے،،،،،، جہاں تک مجھے یاد آتا ہے حسن بن صباح کی کوئی بہن نہیں ،میں اس کے خاندان کو مدرسے کے زمانے سے جانتا ہوں۔
طوسی !،،،،،سلطان نے کہا۔۔۔ میں یہ ساری سازش سمجھ گیا ہوں ،کچھ عرصے سے احتشام میرے پاس بیٹھ کر حسن بن صباح کی تعریفیں کر رہا ہے، اور یہ شخص ذرا دبی زبان میں آپ کے خلاف بھی ایک آدھ بات کہہ جاتا ہے ۔۔۔۔سلطان بولتے بولتے گہری سوچ میں چلا گیا ،ذرا دیر بعد سر اٹھایا اور بولا ،،،،آپ حسن پر ایسا تاثر پیدا کریں کہ میں نے اس کا تیار کیا ہوا حساب سمجھ لیا ہے،اور یہ بالکل صحیح ہے،،،،،، باقی کام مجھ پر چھوڑ دیں، میرے سامنے کوئی اور ہی عکس آ رہا ہے۔
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ سلجوقی جو ترک تھے اور جو اسلام کے دشمن ہوا کرتے تھے، مسلمان ہوئے تو اسلام کے شیدائی اور سرفروش بن گئے، وہ جنگجو تھے اور فہم و فراست کے لحاظ سے اتنے باریک بین کے ان کی نظریں جیسے پردوں کے پیچھے بھی دیکھ سکتی ہوں، انکے سلطان اپنی سلطنت میں کسی کی حق تلفی اور سلطنت کے امور میں کوتاہی اور بددیانتی برداشت نہیں کرتے تھے۔ نظام الملک باہر نکلا حسن بن صباح اور احتشام مدنی باہر سر جوڑے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے ،نظام الملک کو دیکھ کر دونوں چونکے۔
حسن مبارک ہو۔۔۔ نظام الملک نے کہا۔۔۔ تمہارا تیار کیا ہوا حساب بالکل ٹھیک ہے، تم جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تھے وہ میں نے دے دیے ہیں، میں نے سلطان سے کہا ہے کہ حسن ابھی نیا ہے، اس لیے اسے پچھلے امور وغیرہ کا علم نہیں،،،،، سلطان تم پر بہت خوش ہیں، کہتے ہیں میں حسن کو انعام دوں گا۔
میں تمہارا یہ احسان ساری عمر نہیں بھولوں گا خواجہ!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ نظام الملک سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔تم نے میرا وقار محفوظ کر دیا ہے۔
تم دونوں چلے جاؤ۔۔۔ نظام الملک نے کہا۔۔۔ سلطان تمہیں کل بلائیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس رات احتشام اورفاطمہ کی ملاقات ایسے تھی جیسے وہ جشن منانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہوں، گزرے ہوئے دنوں میں زیادہ تر باغ میں ملتے رہے تھے، تین مرتبہ وہ الگ الگ جنگل میں چلے گئے اور بہت وقت اکٹھے گزار کر آئے، فاطمہ یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ حسن سے چھپ کر گھر سے نکلتی ہے، احتشام کو معلوم نہیں تھا کہ حسن خود اسے بھیجتا ہے۔
فاطمہ ابھی تک احتشام کے لیے سراب بنی ہوئی تھی، اس نے ابھی تک احتشام کے ساتھ شادی کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور انکار بھی نہیں کیا تھا ،اس نے ایسا والہانہ انداز اختیار کرلیا تھا جس سے احتشام پر دیوانگی طاری ہوگئی تھی، وہ تو اب حسن بن صباح اور فاطمہ کے اشاروں پر ناچنے لگا تھا ،حسن بن صباح سے اس نے کہا تھا کہ وہ اسے وزیراعظم بنا کر دم لے گا۔
جس روز نظام الملک نے حسن بن صباح کو یہ خوشخبری سنائی اس روز احتشام مدنی نے اپنے گھر کے قریب ہی چھوٹا سا ایک مکان جو خالی پڑا تھا صاف کروا لیا اور ایک کمرے میں پلنگ اور نرم و گداز بستر بچھوادیا، اپنی خاص ملازمہ کے ذریعے اس نے فاطمہ کو پیغام بھیج دیا کہ رات وہ فلاں طرف سے اس مکان میں آجائے ۔
فاطمہ وہاں پہنچ گئی، احتشام پہلے ہی وہاں موجود تھا۔
میرا ایک کمال دیکھ لیا فاطمہ!،،،، احتشام نے فاطمہ کو اپنے بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے کہا۔۔۔ جعلی حساب کتاب لکھ کر سلطان سے منوالیا ہے کہ یہ حساب بالکل صحیح ہے۔
آپ کو مبارک ہو۔۔۔ فاطمہ نے اپنا گال احتشام کے سینے سے رگڑتے ہوئے کہا۔۔۔ اب میرے بھائی کو وزیراعظم بنوا دیں ۔
اب یہ کام آسان ہو گیا ہے۔۔۔ احتشام نے کہا۔۔۔ کل سلطان ہمیں بلائے گا ،میں نظام الملک کے خلاف اس کے ایسے کان بھروں گا کہ وہ اسی وقت اسے معزول کر دے گا ۔
احتشام نے فاطمہ کو پلنگ پر بٹھا لیا۔
سلطان کل حسن کو انعام دے رہا ہے۔۔۔ احتشام نے کہا ۔۔۔میں نے آج تم سے انعام لینا ہے۔
فاطمہ نے جھینپنے اور شرمانے کی ایسی اداکاری کی کہ احتشام نشے کی سی کیفیت میں بدمست ہو گیا، اس نے فاطمہ کو لٹا دیا۔ روحانی طور پر تو ہم میاں بیوی بن چکے ہیں۔۔۔ احتشام نے کہا۔۔۔ نکاح تو ایک رسم ہے یہ بعد میں بھی ادا ہو سکتی ہے۔
کمرے کا دروازہ بند تھا، زنجیر چڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی کیونکہ باہر کا دروازہ بند تھا، مکان کا صحن کشادہ تھا۔
احتشام مدنی جب فاطمہ کے طلسماتی حسن ناز و انداز اور دکھاوے کے شرم و حجاب میں مدہوش ہو چکا تھا، فاطمہ چونکی۔
ذرا ٹھہریں!،،،، فاطمہ نے کہا ۔۔۔میں نے قدموں کی آہٹ سنی ہے۔
بلّی ہوگی !،،،،احتشام نے نشے سے لڑکھڑاتی آواز میں کہا ۔۔۔کسی انسان میں اتنی جرات نہیں ہو سکتی کہ اس گھر میں قدم رکھے ۔
چار آدمی اس گھر میں قدم رکھ چکے تھے، وہ چھت کی طرف سے آئے تھے اور سیڑھیاں اتر کر صحن میں آگئے تھے، فاطمہ نے ایک بار پھر احتشام کو پرے ہٹنے کو کہا ،اسے ہلکا سا دھکا بھی دیا ،لیکن احتشام پر بدمستی طاری تھی۔
کمرے کا دروازہ کھلا ،احتشام نے ادھر دیکھا دو آدمی اندر آئے، احتشام ان دونوں کو جانتا تھا، یہ دونوں کوتوال کے ماتحت تھے، ان کے پیچھے دو آدمی تھے وہ بھی کوتوال کے کارندے تھے۔
نکل جاؤ یہاں سے!،،،،، احتشام مدنی نے سلطان کے مشیر خاص کی حیثیت سے حکم کے لہجے میں کہا ۔۔۔تمہیں میرے گھر میں آنے کی جرات کیسے ہوئی۔
ہم سلطان کے حکم سے آئے ہیں عالی جاہ!،،،،، ایک نے کہا ۔۔۔آپ کو اور اس لڑکی کو سلطان کے پاس لے جانا ہے۔
چلو تم نکلو یہاں سے۔۔۔ احتشام نے کہا۔۔۔ میں تیار ہو کر آتا ہوں ۔
آپ خود نہیں جائیں گے عالی جاہ !،،،،کوتوال کے آدمی نے کہا۔۔۔ ہم آپ کو لے جائیں گے، اس لڑکی کو بھی۔
تیار ہونے کی ضرورت نہیں عالی جاہ!،،،، دوسرا آدمی بولا۔۔۔ ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ اور یہ لڑکی جس حالت میں ہوں اسی حالت میں ساتھ لے آنا ہے ۔
وہ دونوں نیم برہنہ حالت میں تھے، احتشام پر دو نشے طاری تھے، ایک اپنی سرکاری حیثیت کا وہ سلطان کا مشیر خصوصی تھا، اور دوسرا نشہ فاطمہ کے حسن و شباب اور نفسانی جذبات کے وبال کا تھا، یہ سب نشے ایک ہی بار ہوا ہو گئے۔
منہ مانگا انعام دوں گا ۔۔۔احتشام نے کہا۔۔۔ چاروں کو، جاکر سلطان سے کہہ دو کہ تم نے مجھے اور اس لڑکی کو کہیں بھی نہیں دیکھا۔
فاطمہ کپڑے پہننے لگی تھی۔
اس لڑکی کو پکڑ کر باہر لے چلو۔۔۔ اس آدمی نے احتشام کی پیشکش کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آدمیوں کو حکم دیا ۔۔۔اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر لے جاؤ۔
میرے عہدے اور رتبے سے تم واقف ہو۔۔۔ احتشام مدنی نے کہا ۔۔۔میں تمہیں اتنی ترقی دلواؤں گا کہ حاکم بن جاؤ گے۔
مجھے چاہتے ہو تو حاضر ہوں۔۔۔۔ فاطمہ بولی۔
ہاں بھائیو! ،،،،،احتشام نےبڑے خوشگوار لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔دیکھو کتنی خوبصورت ہے۔
سلطان کے حکم کی تعمیل کرو ۔۔۔کوتوال کے آدمی نے کہا۔۔۔ انہیں پکڑو اور لے چلو۔۔۔۔۔
وہ احتشام سے مخاطب ہوا ۔۔۔عالی جاہ!،،، ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ اگر مزاحمت کریں تو آپ کے سر پر ضرب لگا کر بیہوش کر دیا جائے ،اور اٹھا کر زندان میں پھینک دیا جائے۔
احتشام مدنی سر جھکائے ہوئے چل پڑا ،دو آدمی پہلے ہی فاطمہ کو گھسیٹتے دھکیلتے باہر لے گئے تھے، اس کے لیے نیم برہنگی یا مکمل برہنگی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی، وہ آبرو باختہ اور تربیت یافتہ لڑکی تھی۔
ان دونوں کو کوتوالی میں لے گئے اور انہیں الگ الگ کمرے میں بند کر دیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان کا اپنا جاسوسی اور مخبری کا نظام تھا ،اسے احتشام مدنی اورفاطمہ کی خفیہ ملاقاتوں کی اطلاعیں ملی تھیں لیکن یہ کوئی اہم یہ نازک خبر نہیں تھی ،یہ احتشام کا ذاتی معاملہ تھا، سلطان کو اس صورت میں ان دونوں کی ملاقاتوں میں خطرہ محسوس ہوتا کہ لڑکی مشکوک اور مشتبہ ہوتی، شک یہ ہوتا کہ یہ لڑکی عیسائی یا یہودی ہے اور جاسوس ہے، یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہ معتمد خاص حسن بن صباح کی بہن ہے۔
درمیان میں معاملہ بیس برسوں کے حساب کتاب کا آ گیا تو پتہ چلا کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی نے سلطان کو دھوکا دیا ہے۔ نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کی آپس میں باتیں ہوئیں تو نئے شکوک پیدا ہوگئے، سلطان ملک شاہ عقل و دانش والا آدمی تھا، نظام الملک نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ حسن بن صباح کی کوئی بہن ہے ہی نہیں۔
سلطان نے نظام الملک سے کہا کہ وہ حسن بن صباح کو خوشخبری سنا دے کہ اس نے بیس برسوں کا آمدنی اور اخراجات کا جو حساب تیار کیا ہے وہ سلطان نے منظور کر کے اسے بالکل صحیح تسلیم کرلیا ہے، اس سے سلطان کا مقصد یہ تھا کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی بے فکر اور مطمئن ہو جائیں۔
سلطان نے اسی وقت کوتوال کو بلایا اور اسے یہ ساری صورت حال بتا کر کہا کہ احتشام اور اس لڑکی کو اکٹھے پکڑنا ہے۔
ابھی جاکر مخبر مقرر کر دو۔۔۔ سلطان نے کہا ۔۔۔وہ شام کے بعد ملتے ہیں ،ایک آدمی احتشام کی نگرانی کرے اور ایک آدمی اس لڑکی کو دیکھتا رہے، یہ کہیں باہر اکٹھیں ہوں تو احتشام کے رتبے کا خیال کئے بغیر دونوں کو کوتوالی میں بند کردو، انہیں اسی حالت میں لانا ہے، جس حالت میں پائے جائیں، ضروری نہیں کہ یہ آج ہی مل جائیں گے ۔
کل ملیں، پرسوں ملیں، دس دنوں بعد ملیں، انہیں چھوڑنا نہیں ۔
کوتوال یہ ساری کاروائی اور اس کا پس منظر سمجھ گیا، اس نے اسی وقت چار آدمی اس کام پر لگا دیئے انہیں ضروری ہدایات اور احکام دے کر رخصت کر دیا ۔
ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اسی رات پکڑے جائیں گے، لیکن احتشام مدنی نے اس رات فاطمہ سے انعام وصول کرنا تھا، اس نے فاطمہ کے بھائی حسن کی مدد کی تھی اور سلطان کو بڑی کامیابی سے دھوکہ دیا تھا۔
سورج غروب ہوتے ہی کوتوال کے دو آدمی بھیس بدل کر چلے گئے، ایک احتشام کے گھر کو دور سے دیکھتا رہا ،اور دوسرا حسن بن صباح کے گھر کی نگرانی کرتا رہا ،ان دونوں کے ساتھ ایک ایک اور آدمی تھا ،یہ دونوں دور دور کھڑے تھے، پہلے احتشام گھر سے نکلا اور اس مکان میں چلا گیا جو اس نے اس رات کے جشن کے لیے تیار کیا تھا، اس کی نگرانی والا آدمی چھپ کر کھڑا رہا۔
پھر فاطمہ گھر سے نکلی ،اس کی نگرانی والا آدمی اس کے پیچھے چل پڑا، فاطمہ بھی اسی مکان میں چلی گئی اور دروازہ اندر سے بند ہوگیا ،کوتوال کے دونوں مخبر آپس میں مل گئے انہوں نے اپنے دوسرے دونوں ساتھیوں کو بھی بلا لیا ان میں سے ایک عہدے دار تھا ،انہوں نے کچھ وقت انتظار کیا پھر ساتھ والے گھر کے بڑے آدمی کو باہر بلا کر بتایا کہ وہ کوتوال کے آدمی ہیں اور اس ساتھ والے گھر میں اترنا ہے۔
آ جائیں۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ میری چھت سے اس چھت پر چلے جائیں، میں آپ کو بتاؤں گا اس مکان کی سیڑھیاں کہاں ہے۔
چار آدمی اس شخص کی رہنمائی میں اس مکان میں اتر گئے، جس کے ایک کمرے میں احتشام مدنی اور فاطمہ جشن منا رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کوئی زیادہ نہیں گزری تھی، کوتوال کو اطلاع دی گئی کہ دونوں جس حالت میں تھے اسی حالت میں پکڑ لائے ہیں ،کوتوال کو سلطان نے کہا تھا کہ تحقیقات کرکے اسے بتائے کہ اس لڑکی کی حقیقت کیا ہے، کوتوال اسی وقت کوتوالی پہنچا اور اس کمرے میں چلا گیا جس میں لڑکی بند تھی۔
نام کیا ہے لڑکی؟،،،،، کوتوال نے پوچھا ۔
فاطمہ !،،،،لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔میں سلطان کی معتمد خاص حسن بن صباح کی بہن ہوں۔
ہمیں معلوم ہے۔۔۔ حسن بن صباح کہاں کا رہنے والا ہے؟،،، کوتوال نے کہا ۔۔۔ہم وہاں سے معلوم کریں گے کہ اس کی کوئی بہن ہے بھی یا نہیں،،،،،، میری ایک بات سن لو بہت ہی اذیت ناک موت مرو گی اپنے متعلق ہر بات سچ بتا دو۔
کیا آپ اس جسم کو اذیت دیں گے؟،،،، لڑکی نے جذبات کی حرارت سے کِھلی ہوئی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ ھاتھ لگا کر دیکھیں گلاب کی پتیوں جیسی ملائمت ہے اس جسم میں ،وہ نیم برہنہ تھی اس نے اپنے آپ کو اور زیادہ برہنہ کر دیا ،اس کی مسکراہٹ اور زیادہ ہوگئی، اس کی آنکھوں میں سفلی جذبات کا خمار تھا، کہنے لگی مرد اتنا زیادہ تو نہیں سوچا کرتے، میرے قریب آجائیں۔
اس کے سر پر اوڑھنی نہیں تھی، اس کے بال کھلے ہوئے تھے۔
ان بالوں کو ہاتھ لگا کر دیکھیں۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ ان پر ہاتھ پھیر کر دیکھیں ،ریشم اور مخمل جیسے ملائم ہیں۔
کوتوال آخر مرد تھا فرشتہ نہیں تھا، اس لڑکی کے جسم اور بالوں کو دیکھ کر اسکے جسم نے جھرجھری لی اور اس پر خاموشی طاری ہوگئی، وہ آہستہ آہستہ لڑکی کی طرف بڑھا اس کا دایاں ہاتھ اوپر اٹھا رہا تھا ،قریب جا کر اس کا ہاتھ لڑکی کے سر پر چلا گیا اور اس کی انگلیاں لڑکی کے بالوں میں رینگنے لگی، اس کا دوسرا ہاتھ لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا ،کوتوال فرائض کی دنیا سے ایک ہی اُڑان میں رومانوں کی کہکشاں میں جا پہنچا۔
خدام !،،،،،اسے کسی کی آواز سنائی دی، کسی نے اسے پکارا تھا۔
اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا،،، دروازہ بند تھا۔
ایک خیال رکھنا خدام!،،،، اسے کمرے میں وہی آواز پھر سنائی دی ۔۔۔سنا ہے لڑکی بہت ہی حسین ہے ،اگر تحقیقات تک نوبت آگئی تو یہ یاد رکھنا کے تم کوتوال ہو، یہ بھی یاد رکھنا کہ دھوکا مجھے دیا گیا ہے، میں اس سلطنت کا سلطان ہوں، میں فرائض میں بددیانتی اور بدمعاشی برداشت نہیں کیا کرتا۔
یہ الفاظ سلطان ملک شاہ کے تھے جو اس نے احتشام مدنی اور لڑکی کو اکٹھے پکڑنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہے تھے۔
کوتوال خدام کی انگلیاں لڑکی کے ریشم جیسے ملائم بالوں میں رینگ رہی تھیں، اور لڑکی اس کے دوسرے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں مسل رہی تھی، کوتوال کے ذہن میں سلطان ملک شاہ کے الفاظ ایسے گونجے جیسے سلطان اس بند کمرے میں کھڑا بول رہا ہو۔
کوتوال کی آنکھوں کے آگے بجلی سی چمکی، پھر تاریکی آگئی ،کوتوال کا وہی ہاتھ جو لڑکی کے نرم و ملائم بالوں میں رینگ رہا تھا مٹھی بن گیا ،اس مٹھی میں لڑکی کے بال تھے ،کوتوال نے بالوں کو اتنی زور سے کھینچا کہ لڑکی کی چیخ نکل گئی، درد کی شدت سے اس کا منہ کھل گیا۔
سچ بتا تو کون ہے؟،،،، کوتوال نے بالوں کو مٹھی سے مروڑتے اور کھینچتے ہوئے کہا۔۔۔ تیرے بال چھت کے ساتھ باندھ کر تجھے لٹکا دوں گا۔
درد سے لڑکی کے دانت بجنے لگے، کوتوال نے لڑکی کو بالوں سے پکڑے ہوئے اوپر اٹھایا اور فرش پر پٹخ دیا۔
مر جا یہاں!،،،،، کوتوال نے کہا۔۔۔ تیری کوئی نہیں سنے گا، سچ بتا تو کون ہے؟
کوتوال کو اس پر بھی غصہ تھا کہ لڑکی نے اسے بھٹکا دیا تھا، وہ بول نہیں رہی تھی کوتوال نے اس کے ایک ہاتھ کی انگلیاں ایک شکنجے میں جکڑ دیا ،اور شکنجے کو تنگ کرنا شروع کردیا، لڑکی کی چیخوں سے چھت لرزتی محسوس ہوتی تھی، وہ آخر لڑکی تھی کہاں تک برداشت کرتی، اسے مردوں کی انگلیوں پر نچانے کی ٹریننگ دی گئی تھی، یہ تو اسے ایک کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ کبھی وہ پکڑی بھی جائے گی۔
اس پر غشی سی طاری ہو رہی تھی، جب کوتوال نے اس کی انگلیاں شکنجے سے نکال دیں، اسے پانی پلایا لیکن وہ ابھی تک انکار کر رہی تھی، کوتوال نے اس کا دوسرا ہاتھ شکنجے میں دینے کے لیے پکڑا تو وہ بلبلا اٹھی، اور سچ بولنے پر آگئی۔
اس نے بتا دیا کہ وہ حسن بن صباح کی بہن نہیں ،اور اسے وہ شاہ در سے لایا تھا۔
اس نے یہ بھی بتا دیا کہ حسن بن صباح اسے اس مقصد کے لیے ساتھ لایا تھا کہ ایسے حاکموں کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے جن کا سلطان پر اثر اور رسوخ چلتا ہے، انہیں نظام الملک کے خلاف استعمال کرنا ہے، لڑکی نے بتایا کہ حسن بن صباح وزیراعظم بننا چاہتا ہے، اس نے یہ بھی بتایا کہ احتشام مدنی کو اس نے کس طرح اپنے جال میں پھانسا تھا ،اور اسے شادی کا لالچ دے رکھا تھا۔
احتشام مدنی حسن بن صباح کی کس طرح مدد کر رہا تھا؟،،،، کوتوال نے پوچھا۔
کہتا تھا کہ میں نظام الملک کے خلاف سلطان کے دل میں کدورت پیدا کر رہا ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔یہ حساب کتاب کا جو مسئلہ کھڑا ہوا تھا اس کے پیچھے احتشام ہی تھا ،اور اسی نے حسن بن صباح سے یہ حساب تیار کرایا تھا، احتشام کہتا تھا کہ اب ایسا موقع پیدا ہو گیا ہے کہ میں آسانی سے نظام الملک کو معزول کرادوں گا۔
مختصر یہ کہ لڑکی نے اپنی اصلیت اور حسن بن صباح کی نیت بے نقاب کردی، لیکن اس نے یہ نہ بتایا کہ حسن بن صباح اور کیا کر رہا ہے، اور شاہ در اور خلجان کے علاقے میں اس نے کیا ناٹک کھیلا اور آئندہ کے لیے اس کے کیا منصوبے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح کو تو معلوم تھا کہ فاطمہ احتشام مدنی سے ملنے گئی ہے، لیکن اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی زیادہ دیر سے واپس آئے گی ،آدھی رات ہوگئی تو اس نے اپنے ملازم کو جگاکر کہا کہ وہ احتشام مدنی کے ملازموں سے پوچھ آئے کہ وہ گھر ہے یا کہیں باہر گیا ہوا ہے ۔
ملازم گیا اور یہ خبر لایا کہ دربان احتشام کے انتظار میں جاگ رہا ہے، وہ ابھی نہیں آیا۔
حسن بن صباح مطمئن ہو گیا کہ احتشام واپس نہیں آیا تو فاطمہ اس کے ساتھ ہی ہوگی، وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ دونوں اس وقت تک کوتوالی میں بند ہوں گے، اس روز حسن بن صباح بہت خوش تھا ،اس نے نظام الملک کے مقابلے میں میدان مار لیا تھا، فجر کی اذان کے کچھ دیر بعد حسن بن صباح کے دروازے پر دستک ہوئی، وہ سمجھا فاطمہ آئی ہے لیکن ملازم نے اسے بتایا کہ کوتوالی سے دو آدمی آئے ہیں، حسن نے انھیں اندر بلایا اور پوچھا وہ کیوں آئے ہیں۔
حکم ملا ہے کہ آپ گھر سے باہر نہ نکلیں۔۔۔ ایک آدمی نے کہا ۔
کیوں ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا ۔۔۔یہ حکم کس نے دیا ہے۔
وجہ ہمیں معلوم نہیں ۔۔۔اس آدمی نے کہا۔۔۔ ہمیں یہ حکم کوتوال نے دیا ہے۔
آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ اپنے گھر میں قید ہیں۔۔۔ دوسرے آدمی نے کہا۔
کوتوال سلطان ملک شاہ کے گھر چلا گیا، سلطان فجر کی نماز کے لیے جلدی جاگا کرتا تھا ،کوتوال نے اسے رات کی روداد سنائی یہ بھی بتایا کہ اس نے احتشام مدنی سے بیان نہیں لیا ،اور حسن بن صباح کو اس نے اس کے گھر میں نظر بند کر دیا ہے ۔
سلطان نے حکم دیا کے احتشام اور لڑکی کو فوراً اس کے سامنے لایا جائے۔
سلطان نے نظام الملک اور حسن بن صباح کو بھی بلوا لیا۔
یہ سب آگئے تو سلطان نے لڑکی سے کہا کہ گزشتہ رات اس نے کوتوال کو جو بیان دیا ہے وہ سب کے سامنے ایک بار پھر دے، لڑکی نے روتے ہوئے بیان دے دیا ۔
کیا یہ سچ ہے احتشام ؟،،،،،سلطان نے احتشام سے پوچھا ۔۔۔اگر یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو بتاؤ سچ کیا ہے، میں اس لڑکی کو جلاّد کے حوالے کردوں گا، اور اگر تم نے جھوٹ بولا تو،،،،،،،
نہیں سلطان معظم!،،،،،،، احتشام نے کہا۔۔۔ لڑکی کا بیان بالکل سچ ہے ،میں سزا کا حقدار ہوں، میں نے آپ سے نمک حرامی کی ہے، اگر آپ مجھے معاف کر دیں گے تو بھی میں آپ کے زیر سایہ نہیں رہوں گا ،میرا یہاں رہنا آپ کے سائے کی بھی توہین ہے۔
احتشام !،،،،سلطان نے کہا ۔۔۔مجھے دکھ اس بات پر ہو رہا ہے کہ آپ جیسا دانش مند انسان ایک لڑکی کے فریب میں آ گیا۔
سلطان معظم!،،،،، احتشام مدنی نے بڑی پختہ آواز میں کہا ۔۔۔میں بھی اپنے آپکو دانش مند سمجھا کرتا تھا، مجھے اپنی عقل و دانش پر اس لئے ناز تھا کہ میں نے آپ کو جو بھی مشورہ دیا وہ آپ نے قبول کرلیا ،اور عملاً وہ مشورہ کامیاب اور کارآمد ثابت ہوا ،لیکن میں اب محسوس کرتا ہوں کہ میرا علم اور میرا تجربہ خام تھا، میں نے سنا تھا کہ عورت مرد کی سب سے بڑی اور بڑی خطرناک کمزوری ہوتی ہے، لیکن مجھے اس کا عملی تجربہ نہیں ہوا تھا ،نسوانی حسن میں ایک جادو ہے، لیکن میں اس جادو سے واقف نہ تھا، اب میرا علم اور تجربہ مکمل ہوگیا ہے ،اس تلخ اور شرمناک تجربے سے میں نے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ فریب کار عورت زیادہ دلفریب ہوتی ہے، اور اس کے حسن و شباب سے بچنا ممکن نہیں ہوتا، اگر اس قسم کی ایک لڑکی مجھ جیسے جہاندیدہ اور دانش مند آدمی کو دام فریب میں لے سکتی ہے تو ان جواں سال آدمیوں کا کیا حشر ہوتا ہوگا جو عورت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت نے بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں ،میں یہی سبق لے کر آپ کے دربار میں سے ہی نہیں بلکہ آپ کی سلطنت سے ہی نکل جاؤں گا ،اگر آپ سزا دینا چاہتے ہیں تو میرا سر حاضر ہے۔
اس کا فیصلہ میں بعد میں کروں گا۔۔۔ سلطان نے کہا ۔۔۔۔آپ بیٹھیں۔
سلطان حسن بن صباح سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔کیوں حسن تم کیا کہتے ہو ،اگر اس لڑکی کو جھٹلا سکتے ہو تو بولو، لیکن بہتر یہ ہے کہ خاموش رہو، جھوٹ بولو گے تو بہت بری سزا دوں گا۔
یہ لڑکی میری بہن نہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں اسے ایک یتیم اور بیوہ لڑکی سمجھ کر اپنے ساتھ لے آیا تھا ،اگر آپ کا کوئی حاکم اس لڑکی کو غلط راستے پر چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ،اس لڑکی کی حالت دیکھیں اس کا چہرہ دیکھیں صاف پتہ چلتا ہے کہ اس پر تشدد کیا گیا ہے، اور اس پر دہشت طاری کرکے یہ بیان دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔
حسن بن صباح کوئی ایسا کچا آدمی نہیں تھا کہ احتشام کی طرح فوراً اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیتا ،وہ بولتا رہتا اور سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھتا تو سلطان پر غالب آجاتا ،اور سلطان اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ،لیکن اس کے خلاف شہادت ایسی تھی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا تھا، احتشام مدنی کا اعتراف جرم لڑکی کے بیان کی تائید کرتا تھا۔
خاموش!،،،،،،، سلطان گرج کر بولا ۔۔۔میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ سچے ہو تو زبان کھولنا، لیکن تم نے میرے اس حکم کی پروا نہ کی، سلطان نے کوتوال سے کہا اسے اور اس لڑکی کو قید خانے میں پھینک دو، یہ دونوں قید خانے سے اس وقت نکالے جائیں گے جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ ان کے دماغ صحیح راستے پر آ گئے ہیں،،،،،،،، احتشام مدنی میں تمہیں قید خانے کی ذلت سے بچا رہا ہوں، تم آزاد ہو، لیکن میں سوچ کر کوئی فیصلہ کروں گا۔
سلطان معظم !،،،،خواجہ حسن نظامی الملک اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ۔۔۔عفو اور درگزر کا جذبہ اللہ کو عزیز ہے، اسلام کی یہ شان ہے کہ دشمن کو بھی بخشا جاسکتا ہے، انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کا ایک منصوبہ بنایا تھا، اور مجھے اس عزت اور اس بلند مقام سے گرانے کی کوشش کی تھی جو مجھے اللہ نے عطا کیا ہے، میں انہیں اللہ کے نام پر معاف کرتا ہوں۔
میں انہیں معاف نہیں کر سکتا۔۔۔ سلطان نے غصے کے عالم میں کہا ۔
سلطان عالی مقام !،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔ میں نے آج پہلی بار آپ سے ایک ذاتی درخواست کی ہے، اور یہ میری آخری درخواست ہوگی ،حسن بن صباح اور میں امام مؤافق جیسے عالم دین کے شاگرد ہیں، حسن کسمپرسی کی حالت میں میرے پاس آیا اور میں نے اسے روزگار اور وقار مہیا کیا تھا، میں اسے گناہ سمجھتا ہوں کہ یہ گنہگار ہی سہی لیکن میری وجہ سے اسے قید میں پھینک دیا جائے ۔
سلطان کچھ دیر نظام الملک کے منہ کو دیکھتا رہا ،وہ شاید سوچ رہا تھا کہ کوئی انسان اتنا بلند کردار والا بھی ہو سکتا ہے۔
میں تمہاری قدر کرتا ہوں خواجہ حسن طوسی!،،،،،، سلطان نے کہا ۔۔۔لیکن میں انہیں یہاں دیکھ نہیں سکتا ،میں حسن بن صباح اور اس لڑکی کو زندان میں بند نہیں کروں گا، حسن بن صباح اور یہ لڑکی ابھی اس شہر سے نکل جائیں ۔
سلطان نے کوتوال سے کہا۔۔۔ اپنے آدمی بھیجو جو انہیں شہر سے نکال کر آئیں۔
حسن بن صباح اور اس لڑکی کو اسی روز شہر بدر کر دیا گیا ،نظام الملک کو روحانی اطمینان محسوس ہوا کہ اس نے اتنے بڑے فریب کار کو معاف کرکے خداوندی تعالی کو راضی کر لیا ہے، لیکن نظام الملک کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے ایک بڑے ہی زہریلے ناگ کو بخش دیا ہے، اور وہ وقت بھی تیزی سے چلا آرہا ہے جب نظام الملک ایک لشکر کے ساتھ حسن بن صباح کے لشکر کے مقابل آئے گا، اور ایک ہی امام کے دو شاگرد تلوار لہراتے ہوئے ایک دوسرے کو میدان جنگ میں للکاریں گے۔
تاریخوں میں اس حساب کتاب کے متعلق جو حسن بن صباح نے تیار کیا تھا مختلف روایات ملتی ہیں، بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ نظام الملک نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا دستور الوزراء ، اس کتاب میں نظام الملک نے لکھا تھا کہ حسن بن صباح نے بڑا ہی کمال کیا تھا کہ صرف چالیس دنوں میں اتنے زیادہ علاقوں کے محصولات وغیرہ کی آمدنی اور اخراجات کا حساب تیار کر لیا تھا، نظام الملک نے یہ بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے دل میں حسد اور بغض تھا اس لئے خداوند تعالی نے اسے ذلیل و خوار کیا، اگر وہ یہی کام نیک نیتی سے کرتا تو سلطان سے اسے انعام و اکرام ملتا۔
کیوں کہ یہ حساب کتاب ایک تاریخی واقعہ ہے اس لئے بہت سے مورخوں نے اسے قلم بند کیا ہے، "دبستان مذاہب "میں یہ روایت ملتی ہے کہ حسن بن صباح یہ کتاب تیار کر چکا تو یہ تمام کاغذات نظام الملک نے دیکھنے کے لئے منگوائے، اور ان کے کئی ورق بے ترتیب کر دیے، یہ کاغذات جب سلطان کے پاس گئے تو اس نے حسن بن صباح سے کچھ پوچھا تو وہ صحیح جواب نہ دے سکا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ نظام الملک نے اپنے رکابدار کو اس طرح استعمال کیا تھا کہ رکابدار نے حسن بن صباح کے ملازم کو کچھ لالچ دے کر پھانس لیا، اور اس سے ان کاغذات میں سے چند ایک کاغذات ضائع کروا دیے تھے، لیکن یہ روایات صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ نظام الملک بڑا پکا ایماندار تھا ،اسے یہ کاغذات دکھائے ہی نہیں گئے تھے۔
حسن بن صباح اس لڑکی کے ساتھ رے پہنچا جہاں کا وہ رہنے والا تھا، اس نے اپنے باپ کو سنایا کہ سلطان کے یہاں کیا واقعہ ہوگیا ہے۔
تمہاری عقل ابھی خام ہے۔۔۔ باپ نے حسن بن صباح سے کہا ۔۔۔تم تمام کام بیک وقت اور بہت جلدی ختم کرنا چاہتے ہو، جلد بازی سے بچو، تم نے اپنی ملازمت ہی نہیں کھودی بلکہ سلجوقی سلطنت کھودی ہے، اب میں تمہیں مصر بھیجوں گا،وہاں کے کچھ لوگ یہاں آ رہے ہیں۔
رے کا امیر ابو مسلم رازی تھا، جو کٹر اہل سنت والجماعت تھا، اسے خفیہ رپورٹیں مل رہی تھیں کہ حسن بن صباح کے باپ کے یہاں مصر کے عبیدی آتے رہتے ہیں، سلجوقی عبیدیوں کو اپنا اور اسلام کا بہت بڑا دشمن سمجھتے تھے، کیونکہ عبیدیوں کا اپنا ہی ایک فرقہ تھا جو ایک جنگی طاقت بنتا جا رہا تھا، ان دنوں مصر پر عبیدیوں کی حکومت تھی۔
سلطان ملک شاہ کی طرف سے ابومسلم رازی کو ایک تحریری حکم نامہ ملا کہ اس کے شہر رے کے باشندے حسن بن صباح کو سرکاری عہدے سے سبکدوش کرکے نکال دیا گیا ہے، اس شخص پر نظر رکھی جائے، کیونکہ یہ شخص بڑا پکا فریب کار اور اپنے سابقہ عہدے کو فریب کاری میں استعمال کر سکتا ہے۔
ابومسلم رازی کو مخبروں سے کچھ ایسی رپورٹیں بھی ملی تھیں کہ حسن بن صباح رے سے دور دراز علاقوں میں اپنا ہی ایک فرقہ تیار کر رہا ہے، اور اس فرقے کے عزائم خطرناک معلوم ہوتے ہیں، ابومسلم رازی نے حکم دے دیا کہ حسن بن صباح کو گرفتار کر لیا جائے۔
حسن بن صباح اور اس کے باپ نے مخبری اور جاسوسی کا اپنا ایک نظام قائم کر رکھا تھا، اس کا کوئی آدمی ابومسلم رازی کے عملے میں ملازم تھا ،اس آدمی نے حسن بن صباح کو اطلاع دے دی کہ اس کی گرفتاری کا حکم جاری ہو گیا ہے، حسن بن صباح نے اسی وقت شتربانوں کا لباس پہنا اور ایک اونٹ کی مہار پکڑ کر شہر سے نکل گیا، اس کی گرفتاری کے لیے کوتوال کے آدمی اس کے گھر گئے تو اس کے باپ نے کہا کہ وہ کچھ بتائے بغیر کہیں چلا گیا ہے۔
اس وقت حسن بن صباح اونٹ پر سوار شہر سے بہت دور چلا گیا تھا ،اس کے قریب سے گزرنے والے اسے غریب سا شتربان سمجھتے تھے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شتربان کے لباس میں چھپا ہوا یہ شخص ایسے کارنامے کر دکھائے گا جو الف لیلیٰ کی داستانوں سے زیادہ سنسنی خیز ناقابل یقین ہوں گے، اور یہ شخص انسانیت اور تاریخ کے رونگٹے کھڑے کردے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*