🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چودہ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ☷☲☰
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز بعد ایک قافلہ خلجان کی طرف جا رہا تھا، صالح نمیری نے حسن بن صباح کو خلجان کی دعوت دی تھی جو اس نے بخوشی قبول کرلی تھی، اس نے دونوں لڑکیوں کو واپس شاہ در بھیج دیا تھا صرف فرح کو ساتھ رکھا تھا، باورچیوں کو بھی واپس بھیج دیا تھا تمام خیمے اور دیگر سامان بھی واپس چلا گیا اور حسن بن صباح کے ساتھ فرح کے علاوہ چند آدمی رہ گئے تھے۔
صالح نمیری خلجان کا والی اور امیر تھا ،اس کی رہائشگاہ محل جیسی تھی، رہن سہن امیرانہ تھا، اس نے وہاں پہنچتے ہی حسن بن صباح اور فرح کے کمرے الگ کر دیئے، اور دوسرے آدمیوں کی رہائش کا بھی بڑا اچھا انتظام کیا۔
اس نے فرح کو وہ کمرہ دیا جو اس کی اپنی خوابگاہ کے بہت قریب تھا ،اس کی دو بیویاں تھیں جو اپنے اپنے کمروں میں رہتی تھیں، یہ وہ زمانہ تھا جب امیر کبیر آدمی چار چار بیویاں رکھتے تھے، اور ان بیویوں کی حیثیت بیوی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتی تھی، ہر بیوی کا یہ فرض تھا کہ خاوند کو تفریح اور جسمانی آسودگی مہیا کرے، اس زمانے میں سوکن کا تصور ناپید تھا، ہر بیوی کو اس کے حقوق ملتے تھے۔
صالح نمیری کے لیے ایک اور بیوی لے آنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
خلجان میں پہلی رات فرح نے وہی حرکت کی جو وہ پہلے کرچکی تھی ،وہ آدھی رات کے وقت صالح کے کمرے میں چلی گئی، صالح کو توقع تھی کہ فرح آئے گی اس لیے اس نے دونوں بیویوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے کمرے میں نہیں رکھا تھا۔
ایک راز تو مل گیا ہے۔۔۔ فرح نے کہا۔۔۔ بڑی مشکل سے حسن نے بتایا ہے کہ آپ کی قسمت میں ایک خزانہ لکھا ہے ،بلکہ ایک خزانہ آپ کی راہ دیکھ رہا ہے۔
اس نے یہ راز مجھ سے چھپایا کیوں ہے؟
میں اس سوال کا جواب بھی لے آئی ہوں ۔۔۔۔فرح نے کہا۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ خزانہ ایسی جگہ ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے جان کی بازی لگانی پڑے گی، پھر جس جگہ یہ خزانہ ہے وہاں بھی بڑا ہی خوفناک خطرہ ہے، ہوسکتا ہے وہاں ایک یا ایک سے زیادہ بڑے زہریلے اور بڑے لمبے سانپ ہوں، اگر سانپ نہ ہوئے تو صحرائی بچھو ہونگے جو سانپوں جیسے ہی زہریلے ہوتے ہیں، یہ بھی نہ ہوئے تو وہاں درندے ہونگے،،،،،ان تمام خطروں سے نمٹنے کا انتظام ہو تو کامیابی ہو سکتی ہے۔
خزانہ کتنا کچھ ہے؟،،،،،، صالح نے پوچھا۔۔۔۔ خزانے میں کیا ہے؟،،،،، کیا اس نے یہ نہیں بتایا؟
اس نے تفصیل نہیں بتائی۔۔۔ فرح نے کہا۔۔۔اس نے یہ کہا ہے کہ خزانہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے خلجان جیسے دس بارہ شہر خریدے جا سکتے ہیں، اور یہ خزانہ اتنے شہر خرید کر بھی سات پشتوں تک ختم نہ ہو۔
یہ بھی تو ہوسکتا ہے فرح!۔۔۔۔صالح نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح خود اس خزانے تک پہنچ جائے ، اس کے ہاتھ میں سحر اور نجوم کی طاقت ہے۔
نہیں میرے آقا!،،،،، فرح نے کہا ۔۔۔۔اسے دنیا کی مال و دولت اور ان خزانوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں، اس وقت آپ اسے جا کر دیکھیں تو وہ آپ کو عبادت میں مصروف نظر آئے گا، اس کا دھیان خدا کی خوشنودی پر مرکوز رہتا ہے، دنیاوی لطف اور لذت سے وہ دور رہتا ہے۔
پھر اس نے تمہیں اپنے ساتھ کیوں رکھا ہوا ہے؟،،،،،، صالح نمیری نے پوچھا ۔
میرے ساتھ اس کا وہ تعلق نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں ۔۔۔فرح نے کہا ۔۔۔میں اپنے ماموں کی اجازت سے سیروتفریح کے لئے اس کے ساتھ آئی ہوں، لیکن اس سے مجھے انکار نہیں کہ یہ شخص میرے ساتھ بہت پیار کرتا ہے، یہ پیار کسی اور نوعیت کا ہے، مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیتا ہے اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہتا ہے ،کہتا ہے کہ تمہارے یہ نرم وملائم ریشمی بال مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں، یہ تو اس نے کئی بار کہا ہے کہ میں تمہیں ایک پھول سمجھتا ہوں، پھول کو سونگھا جاتا ہے اسے ناپاک نہیں کیا جاتا اور اسے مسلا نہیں جاتا، میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ اس کے دل میں میرے لئے ایسا پیار ہے جو آب کوثر جیسا مقدس ہے ،آپ کوئی وہم دل میں نہ رکھیں۔
میں دل میں وہم نہیں رکھوں گا فرح!،،،،، صالح نمیری نے کہا ۔۔۔تم اسے کہو کہ مجھے وہ جگہ اور اس جگہ کا راستہ بتا دے جہاں وہ خزانہ ہے ،میں ایسا انتظام کرکے جاؤں گا کہ کوئی بھی خطرہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا، میرے ساتھ اتنے برچھی بردار اور تیغ زن ہونگے جو سینکڑوں سانپوں کو ختم کردیں گے، ذرا سوچو فرح !،،،،اگر ہمیں یہ خزانہ مل جائے تو ہماری زندگی کس قدر خوبصورت اور شاہانہ ہوگی۔
اس خزانے کے ساتھ میری دلچسپی بھی اتنی ہی ہے جتنی آپ کی ہے ۔۔۔فرح نے کہا ۔۔۔میں تو پوچھ کر ہی دم لوں گی۔
جب فرح صالح کے کمرے میں سے آنے لگی تو صالح نے اسے روک لیا۔
فرح!،،،،،، صالح نے کہا ۔۔۔وہ پھول جو تم اس رات خیمے میں میرے لیے لائی تھی وہ یہاں سے نہیں مل سکتا۔
مل سکتا ہے۔۔۔ فرح نے جواب دیا ۔۔۔آپ کو وہ خوشبو پسند ہے تو میں اس پھول کی بجائے وہ خوشبو تھوڑی سی روئی میں لگا کر آپ کو دے سکتی ہوں، لیکن یہ مجھے چوری کرنی پڑے گی، یہ عطر حسن بن صباح کے پاس ہے جسے وہ چھپا کر رکھتا ہے ، یہ اس پھول کا عطر ہے وہ تو اتفاق سے وہاں مجھے دو تین پھول نظر آ گئے تھے جو میں نے آپ کو دے دیے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی شام صالح نمیری اور حسن بن صباح کھانے کے لئے بیٹھے تو صالح نمیری نے اپنی مونچھوں پر یہی عطر لگا رکھا تھا ،کچھ ہی دیر پہلے فرح موقع دیکھ کر تھوڑی سی روئی پر ایک قطرہ عطر لگا کر صالح نمیری کو دے آئی تھی ،صالح نمیری نے کھانے سے پہلے یہ عطر اپنی مونچھوں پر لگا لیا تھا ۔
صالح نے اپنے مزاج میں ایسی نمایاں تبدیلی محسوس کی، اس کا جی چاہتا تھا کہ ہنسے اور مسکرائے اور اس زندگی سے پورا لطف اٹھائیے ۔
فرح کو بھی نہ بلا لیں۔۔۔۔کھانے کے بعد صالح نے حسن سے کہا۔۔۔ وہ بھی آخر ایک امیر شہر کی بھانجی ہے۔
بلا لینا چاہیے۔۔۔ حسن نے کہا۔
تھوڑی ہی دیر بعد فرح آ گئی۔
میری ایک بات مان لیں۔۔۔ فرح نے حسن بن صباح سے کہا۔۔۔ امیر خلجان بہت پریشان ہیں، آپ نے ان کا ہاتھ دیکھا اور نجوم کا بھی حساب کتاب دیکھا لیکن انہیں آپ نے کچھ بتایا نہیں۔
ہاں حسن!،،،،،، صالح نمیری نے کہا ۔۔۔اس سے بہتر تھا کہ آپ میرا ہاتھ نہ دیکھتے، اگر کوئی خطرناک معاملہ ہے تو وہ بھی مجھے بتا دیں، آپ کی خاموشی نے مجھے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
بتا دیں۔۔۔فرح نے بچوں کے سے انداز سے کہا۔۔۔ اب بتا دیں۔
حسن بن صباح خاموش رہا اس نے سر جھکا لیا وہ کچھ دیر اسی حالت میں رہا ،صالح اور فرح سراپا سوال بنے اسے دیکھتے رہے۔
تھوڑی دیر بعد حسن بن صباح نے سر اٹھایا اور صالح نمیری کی طرف دیکھا ۔
آپ کے ہاتھ کی لکیروں میں ایک خزانہ ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔۔ لیکن یہ خزانہ ایسا نہیں کہ آپ وہاں جائیں گے اور وہ خزانہ وہاں سے اٹھا لائیں گے اس میں جان جانے کا خطرہ ہے، ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ وہ پورے کا پورا خزانہ اٹھا لائیں، اس خزانے کا ایک حصہ الگ کرنا پڑے گا۔
آپ جتنا حصہ مانگیں گے میں دونگا۔۔۔ صالح نمیری نے کہا۔
یہ بات نہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔۔مجھے حصہ نہیں چاہیے ،یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں نے آپ کو اس خزانے کی خبر دے ہی نہیں رہا تھا یہ میرے علم کی کچھ شرطیں ہیں جو آپ کو پوری کرنی پڑیں گی، اگر نہیں کریں گے تو پھر آپ کا انجام ایسا ہوگا جو میں آپ کو بتاؤں تو اس کے تصور سے ہی آپ کانپ اٹھیں گے۔
اگر حصہ لینا ہی ہے تو یہ فرح لے سکتی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔۔۔ میں نہیں لے سکتا، آپ کا اور کوئی قریبی عزیز لے سکتا ہے،،،،،،،، بات یہ ہے امیر خلجان یہ خزانہ اس علم کے ذریعے مجھے نظر آیا ہے، میں اسی علم کے ذریعے یہ کر سکتا ہوں کہ آپ کو خزانہ مل جائے اور آپ کی جان بھی محفوظ رہے، مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک اس قلعے کا کوئی قائم مقام والی مقرر نہ ہو جائے آپ اس خزانے تک نہیں پہنچ سکتے۔
میری بات سنو حسن!،،،،،، صالح نمیری نے کہا۔۔۔ آپ مجھے کچھ نہ بتائیں، آپکا یہ علم اور عمل جو کچھ بھی کہتا ہے اس کی پابندی کریں، مجھے صرف خزانہ چاہیے۔
پھر آپ میری ہر بات کی پابندی کریں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ خزانہ لینے آپ جائیں گے یہ سارا انتظام آپ کا ہوگا ،خزانہ مل جائے گا تو اس کا ایک چوتھائی حصہ اسے ملے گا جو آپ کی جگہ یہاں قائم مقام والی قلعہ ہوگا۔
والی قلعہ تو کوئی میرا ہی عزیز ہوگا ؟،،،،،صالح نمیری نے کہا۔
نہیں !،،،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں یہ بھی اپنے علم کی روشنی میں دیکھ چکا ہوں، پہلے میں آپ کو یہی بتا دیتا ہوں اور اس شہر کے ہر فرد کو شہر کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی ہے، لیکن میں یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، میرے لیے حکم ہے کہ قلعے کا قائم مقام مقرر کروں، میں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ قائم مقام کون ہوگا ،میں یہ قلعہ کسی کو بغیر سوچے تو نہیں دے سکتا ،میں نے فیصلہ کیا ہے کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش آپ کی جگہ عارضی طور پر خلجان کا والی ہو گا ،اور جب آپ واپس آئینگے تو آپ خزانے کا چوتھا حصہ اسے دے دیں گے، اور وہ شہر آپ کے حوالے کرکے شاہ در چلا جائے گا ۔
مجھے منظور ہے۔۔۔ صالح نمیری نے بلا سوچے کہا۔
اس کی آپ کو تحریر دینی پڑے گی ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ آپ کو خزانے کا راستہ اور خزانے کی جگہ اس وقت بتائی جائے گی جب آپ یہ تحریر دیں گے، یہ ایک معاہدہ ہوگا جس پر آپ کے دستخط اور آپ کی مہر ہوگی ،احمد بن عطاش کی جگہ میں دستخط کروں گا اور گواہوں کے طور پر یہاں کے دو مسجدوں کے امام اور اسی شہر کے قاضی کے دستخط ہوں گے، اگر آپ زندہ واپس نہ آ سکے تو خلجان کا امیر شہر احمد بن عطاش ہی ہوگا، وہ جسے چاہے گا یہ شہر دے گا ، نہیں دینا چاہے گا تو اس سے کوئی بھی یہ شہر نہیں لے سکے گا ۔
کیا موت کا خطرہ یقینی ہے؟،،،،،صالح نمیری نے پوچھا ۔
خطرہ یقینی ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے جواب دیا ۔۔۔لیکن موت یقینی نہیں، واپس آنے کا امکان موجود ہے، آپ کے انتظامات جتنے مضبوط ہونگے موت کا خطرہ اتنا ہی کم ہو گا۔
صالح نمیری کی ایک طرف ذہنی پختگی کا یہ عالم تھا کہ وہ حسن بن صباح کی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ وہ ایک روشنی کے ذریعے آسمان سے اترا ہے، لیکن دوسری طرف اس کی شخصی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ حسن بن صباح اسے جو کچھ بھی کہے جا رہا تھا وہ اسے تسلیم کر رہا تھا، وہ اتنا بھی نہیں سوچ رہا تھا کہ خزانے کاحصول یقینی نہیں، لیکن لالچ کا یہ حال کہ وہ اتنا بڑا شہر ایک غیر آدمی کو لکھ کر دینے پر آمادہ ہو گیا تھا۔
اس زمانے میں بلکہ اس سے بہت پہلے سے یوں ہوتا تھا کہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے بہت بڑے بڑے گروہ جو بہت ہی بڑے بڑے قافلوں کو لوٹتے تھے، لوٹ مار کا قیمتی سامان مثلاً ہیرے اور جواہرات کسی ایسی جگہ رکھ دیتے تھے جو دشوار گزار ہوتی تھی اور وہاں تک کوئی اور انسان نہیں پہنچ سکتا تھا، بادشاہوں میں بھی یہ رواج تھا کہ وہ اپنا خزانہ کسی خفیہ مقام پر دفن کردیتے تھے، کچھ بادشاہ ایسے گزرے تھے جو ساری دنیا کو فتح کرنے کے لئے نکلے تھے، وہ شہروں اور بستیوں کو لوٹتے اور بادشاہوں کے خزانے صاف کرتے چلے جاتے تھے، جب ان کے پاس اتنا زیادہ خزانا اکٹھا ہوجاتا جو سنبھالا نہیں جاتا تھا تو اسے وہ کسی بڑے ہی دشوار گزار علاقے میں اس توقع پر دفن کر جاتے تھے کہ واپس آکر نکال لے جائیں گے۔
ان زمانوں سے اب تک یہ عقیدے یا روایتیں چلی آ رہی ہیں کہ کوئی عامل یا جوتشی یا پراسرار علوم کا کوئی ماہر اس قسم کے خزانے کی نشاندہی کر سکتا ہے ،یہ بھی مشہور ہے کہ جو کوئی اس قسم کا خزانہ نکالنے کے لئے جاتا ہے وہ زندہ واپس نہیں آ سکتا، یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کے اس قسم کے مدفون خزانوں کی حفاظت بڑے زہریلے سانپ کرتے ہیں، کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قسم کے خزانوں کی حفاظت جنات کیا کرتے ہیں، ان تمام خطرات کے باوجود اس قسم کی کہانیاں مشہور تھیں کہ فلاں شخص کو مدفون خزانہ ملا اور وہ بادشاہ بن گیا۔ ایسے لوگ بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے ایسے خزانوں کی تلاش میں ہی زندگی گزار دی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دولت اور عورت دو ایسی چیزیں ہیں جن کی خاطر انسان نے اپنے مذہب کو خیرباد کہا ہے، خزانے کا لالچ ایک نشے کی حیثیت رکھتا ہے، اس نشے میں اگر عورت کا نشہ شامل ہو جائے تو انسان کی عقل پر سیاہ پردہ پڑ جاتا ہے۔
صالح نمیری اسی کیفیت کا شکار ہو گیا تھا، چالیس سال کی عمر میں ایک نوجوان لڑکی اس کی محبت کا دم بھرنے لگی تھی، اور وہ اس کی محبت میں اس قدر بے چین اور بے تاب تھی کہ راتوں کو چھپ کر اس کے پاس پہنچ جاتی تھی، اس لڑکی نے اسے پھر سے جوان کردیا تھا، پھر اس لڑکی نے اسے ایسے خزانے کی خبر دیدی جس سے وہ خلجان جیسے دس شہر خرید سکتا تھا اور باقی خزانہ اس کی سات پشتوں کے لئے کافی ہو سکتا تھا۔
وہ صالح نمیری جو اپنے آپ کو اہل سنت اور بڑا پکا مسلمان کہتا تھا ،روزمرہ کی نمازیں ہی بھول گیا تھا، فرح اور خزانہ اس کے ذہن میں عقیدے کی صورت اختیار کر گئے تھے۔
یہ تو انسانی فطرت کی کمزوریاں تھیں جنہوں نے صالح نمیری کی عقل پر پردے ڈال دیے تھے، اور وہ ذہنی طور پر اس طرح مفلوج ہوگیا تھا کہ اپنے آپ کو وہ بہت بڑا دانہ سمجھنے لگا تھا، ان مورخوں نے جنہوں نے اس قسم کے واقعات ذرا تفصیل سے لکھے ہیں ایک اور راز سے پردہ اٹھایا، انھوں نے لکھا ہے کہ فرح نے صالح نمیری کو رات کی ایک ملاقات میں تین پھول دیے تھے، جنہیں سونگھ کر صالح نے پوچھا تھا کہ یہ پھول کہاں سے آئے ہیں، اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس علاقے کا پھول ایسا نہیں جو اس نے سونگھا ہو ،لیکن اس پھول کی خوشبو سے وہ ناآشنا تھا۔
یہ پھول سونگھنے کے بعد اس نے اپنے مزاج میں اور ذہنی کیفیت میں بڑی ہی خوشگوار تبدیلی محسوس کی تھی، جس کے زیر اثر اس پر خودسپردگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی، خلجان میں آکر جب فرح اس کے کمرے میں گئی تو اس نے فرح سے پوچھا تھا کہ وہ پھول یہاں کہیں ملتا ہے یا نہیں، فرح نے اسے بتایا تھا کہ پھول تو نہیں ملے گا اس کا عطر مل جائے گا ،اگلی شام فرح نے اس عطر کا ایک قطرہ تھوڑی سی روئی پر لگا کر صالح نمیری کو دیا تھا ،صالح نے یہ عطر مونچھوں پر مل لیا تھا اس کے بعد وہ حسن بن صباح سے کھانے پر ملا تھا۔
حسن بن صباح نے جب خزانے کی بات شروع کی تو وہ جو کچھ بھی کہتا رہا صالح بلا سوچے سمجھے قبول کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے اپنا شہر بھی احمد بن عطاش کے نام لکھ دینے پر آمادگی کا اظہار کردیا، یہ خزانے کی محبت کا خمار نہیں تھا بلکہ یہ اس عطر کے اثرات تھے جو اس نے مونچھوں کو لگایا تھا۔ تاریخوں میں آیا ہے کہ فرح اس کے پاس جو تین پھول لے گئی تھی اس پر بھی یہی عطر ملا ہوا تھا ، اس عطر کے اثرات دماغ پر اس طرح کے ہوتے تھے کہ انسان حقیقت سے لاتعلق ہو جاتا اور جو کچھ بھی اس کے ذہن میں ڈالا جاتا اسے وہ حقیقت سمجھتا تھا ،یوں کہہ لیں کہ اس کا دماغ اس شخص کے قبضے میں آ جاتا تھا جو اس کے سامنے بیٹھا باتیں کر رہا ہوتا تھا۔
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ حسن بن صباح کی ابلیسی قوتیں اپنے کرشمے دکھاتی تھیں، لیکن اس نے سحر کاری کے علاوہ ایسی جڑی بوٹیاں اور پھول وغیرہ دریافت کرلئے تھے جن کی دھونی یا خوشبو انسانی ذہن کو حقیقت سے ہٹا کر بڑے حسین تصورات میں لے جاتی تھیں، یہی اس شخص کی قوت تھی جس نے اپنے دور کے لاکھوں انسانوں کو دنیا میں جنت دکھا دی تھی۔
صالح نمیری بے تاب تھا کہ اسے خزانے کا راستہ بتایا جائے، وہ تو دیوانہ ہوا جا رہا تھا۔ حسن بن صباح نے قلم دوات منگوا کر نقشہ بنانا شروع کردیا، وہ صالح نمیری کو بتاتا جا رہا تھا کہ اس راستے پر کیا کیا دشواریاں پیش آئیں گی، اور فلاں جگہ کیا خطرہ ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
آپ یہ علاقے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔آپ سمجھیں گے کہ یہ کوئی اور ہی دنیا ہے، اور یہ وہ زمین نہیں جس پر انسان آباد ہیں، مثلا ایک جگہ ایسا جنگل آئے گا جو آپ کو ٹھنڈک پہنچائے گا ،آپ وہیں رک جانا چاہیں گے ،زمین کا تھوڑا سا ٹکڑا ایسا آئے گا جہاں آپ کو ہلکا ہلکا کیچڑ نظر آئے گا ،آپ گھوڑوں پر سوار اس کیچڑ میں سے گزریں گے تو آپ کے گھوڑے دھنس جائیں گے، دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اس دلدل سے نہیں نکال سکے گی، آپ گھوڑوں سمیت اس دلدل میں ڈوب کر ہمیشہ کے لیے گم ہو جائیں گے۔
میں ایسی جگہوں پر نظر رکھوں گا ۔۔۔صالح نمیری نے کہا۔۔۔ ایسی جگہ دیکھ کر پہلے وہاں پتھر پھینکونگا اس سے پتہ چل جائے گا کہ یہ دلدل ہے۔
پھر آپ کو ایسی ریت ملے گی جو آپ کو دلدل کی طرح اپنے اندر غائب کردے گی۔۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ راستے میں ایسا صحرا آئے گا جہاں سے کبھی کوئی انسان نہیں گزرا وہاں صحرائی جانور اور کیڑے مکوڑے بھی زندہ نہیں رہ سکتے، آپ کو اپنے ساتھ پانی کا بے شمار ذخیرہ لے جانا پڑے گا، جس علاقے میں یہ خزانہ ہے وہاں ایسی چٹانیں کھڑی ہونگی جیسے دیواریں کھڑی ہوں، ان پر سے گھوڑوں کے پاؤں پھسلیں گے، بہتر یہ ہوگا کہ گھوڑے پیچھے چھوڑ کر پیدل جائیں ،بعض چٹانوں پر آپ یوں چلیں گے جیسے دیوار پر چل رہے ہوں، وہاں پاؤں پھسلنے کا امکان زیادہ ہو گا۔
میں اپنے ساتھ جانباز اور عقل والا آدمی لے جاؤں گا ۔۔۔صالح نمیری نے کہا ۔۔۔آپ مجھے جگہ اچھی طرح سمجھا دیں۔
حسن بن صباح نے اسے وہ جگہ بڑی اچھی طرح سمجھا دی۔
آپ کے ساتھ ایک اونٹنی ہونی چاہیے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور اونٹنی دودھ دینے والی ہونی چاہیے، جب آپ خزانے والی جگہ پہنچ جائیں تو اونٹنی کا دودھ دھو کر ایک پیالے میں ڈال دیں اور پیالہ خزانے کی اصل جگہ سے کچھ دور رکھ دیں، اس سے یہ ہو گا کہ وہاں جتنے بھی سانپ ہونگے وہ دودھ پر ٹوٹ پڑیں گے اور آپس میں لڑیں گے، سانپ دودھ کا عاشق ہوتا ہے، اتنی دیر میں آپ خزانہ نکال لیں،،،،،،، میں نہیں بتا سکتا کہ اس غار کے اندر کیا چیز ہو گی جو اس خزانے کی حفاظت کے لیے بیٹھی ہو گی، میں یہ بتا سکتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعلیں ہونی چاہیے، وہ چیز آپ سے ڈر کر بھاگ جائے گی اگر وہاں بچھو ہوئے تو انہیں جلتی ہوئی مشعلوں سے جلایا جا سکتا ہے ،اس کے علاوہ کچھ اور ہوا تو وہ آپ اپنی عقل اور ہمت سے سنبھال سکتے ہیں ۔
میں خدا کی مدد مانگوں گا ۔۔۔صالح نے کہا۔۔۔ میں صبح سے ہی جانے کی تیاری شروع کردوں گا۔
ایک ضروری بات رہ گئی ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ آپ کو اس جگہ سے آدھی رات کے وقت اس طرح روانہ ہونا چاہیے کہ کوئی آپکو دیکھ نہ سکے ۔
شہر کے چوکیدار تو دیکھ لیں گے۔۔۔صالح نمیری نے کہا۔۔۔ انہیں کیا کہا جائے؟
اگر کوئی دیکھ لے تو اسے اصل بات نہ بتائیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ آپ امیر شہر ہیں آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ کوئی پوچھے تو خاموش رہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صالح نمیری نے اسی رات ان آدمیوں کا انتخاب کر لیا جنہوں نے اس کے ساتھ جانا تھا، اس کے ساتھ ہی اس نے اس سامان کی فہرست تیار کرلی جو اس کے لئے ضروری تھا جو اس نے ساتھ لے جانا تھا۔
صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد اس نے ان تمام آدمیوں کو جن کی تعداد دس گیارہ تھی اپنے ہاں بلایا اور انہیں صرف یہ بتایا کہ ایک سفر پر جانا ہے جو اگر بخیر و خوبی طے ہو گیا تو سب کو سونے اور جواہرات کی شکل میں انعام ملے گا، انہیں یہ بھی بتایا کہ کسی کے ساتھ یہ ذکر نہ ہو کہ وہ کہیں جا رہے ہیں، اگر کسی کی زبان سے ایسی بات نکل گئی تو اسے قتل کردیا جائے گا۔
اس نے ان آدمیوں کو بہت سی ہدایات دی اور کہا کہ وہ آدھی رات کے وقت کوچ کرینگے۔ صالح نمیری کا حکم چلتا تھا اس کے حکم سے تمام ضروری سامان اونٹ اور دودھ والی ایک اونٹنی شام سے پہلے پہلے تیار ہوگئی، صالح نمیری نے ان تمام سامان کا معائنہ کیا اور مطمئن ہو گیا۔
رات جب لوگ سو گئے تو فرح چوری چھپے اس کے کمرے میں آئی، اس نے تو آنا ہی تھا، کیوں کہ وہ حسن بن صباح کی اس سازش میں شامل تھی کہ صالح نمیری قلعے کی تحریر لکھ دے اور یہاں سے چلا جائے، انہیں یقین تھا کہ صالح خوفناک سفر سے زندہ واپس نہیں آسکے گا، انہوں نے صالح نمیری سے شہر احمد بن عطاش کے نام لکھوا لیا تھا۔
فرح نے حسب معمول صالح کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں اور حرکتیں شروع کر دیں ،اس نے رونے کی بھی اداکاری کی اور اس قسم کے الفاظ کہے کہ وہ اس کی جدائی کو برداشت نہیں کرسکے گی، صالح نمیری کی فرح کی محبت میں جذباتی کیفیت ایسی ہو چکی تھی جو اس کی برداشت سے باہر تھی، اس نے فرح سے کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے۔
میں چلی تو چلوں لیکن ایسا نہ ہو کہ ساتھ جانے سے آپ کی مہم کو کوئی نقصان پہنچے۔
کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔۔۔ صالح نمیری نے کہا۔۔۔ تم ساتھ ہو گی تو میری ہمت قائم رہے گی۔
پھر آپ مجھے اجازت لےدیں۔۔۔ فرح نے کہا۔۔۔ لیکن میں آپ کو یہ بتادوں کہ مجھے اجازت نہیں ملے گی۔
صالح نمیری اجازت لینا ہی نہیں چاہتا تھا ،وہ جان گیا تھا کہ حسن بن صباح سحر اور علم نجوم کا عامل ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی کوئی حیثیت نہیں، وہ حسن بن صباح کے اس علم اور عمل کا قائل ہو گیا تھا، اس نے سچ مان لیا تھا کہ خزانہ موجود ہے اور اس کا وہی راستہ ہے جو حسن بن صباح نے اسے بتایا ہے، اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس قسم کے جادوگر اپنے ساتھ ایک دو خوبصورت لڑکیاں رکھتے ہیں، فرح کو بھی اس نے ایسی ہی لڑکی سمجھا تھا، اور اس نے یہ بھی مان لیا تھا کہ فرح امیر شاہ در احمد بن عطاش کی بھانجی ہے، اور اس نے یہ بھی تسلیم کرلیا تھا کہ فرح اس کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے۔
یہ سب کچھ جانتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا کہ فرح کو ساتھ لے جانے سے اس کی مہم پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا، فرح اس کا جذباتی معاملہ بھی بن گئی تھی، لیکن یہ لڑکی اس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی۔
صالح نمیری آخر اتنے بڑے شہر کا حکمران تھا وہ برداشت نہ کرسکا کہ ایک لڑکی اس کی بات نہیں مان رہی، اس نے اسی وقت دو آدمیوں کو بلایا اور انہیں حکم دیا کے اس لڑکی کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے لکڑی کے تابوت جیسے بکس میں ڈال دیا جائے اور اس بکس میں ہر طرف سے سوراخ کر دیے جائیں تاکہ ہوا کا گزر ہوتا رہے۔
صبح طلوع ہوئی،،،، حسن بن صباح جاگا تو وہ اچھل کر بستر سے نکلا، اس نے اپنے دو آدمیوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ صالح نمیری کا قافلہ چلا گیا ہے یا نہیں ؟
آپ کا تیر کبھی خطا نہیں گیا ۔۔۔ایک آدمی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ ہم اس کی روانگی کو دیکھنے کے لئے جاگتے رہے ہیں۔
تم دونوں شاہ در چلے جاؤ ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔احمد بن عطاش سے کہو کہ میں نے خلجان لے لیا ہے تم یہاں آجاؤ، اسے ساری بات بتا دینا کہ صالح نمیری کو ہم نے کس طرح غائب کیا ہے، اسے یہ بھی بتانا کہ اس میں فرح کا بھی کمال شامل ہے،،،،،،، تم ابھی روانہ ہو جاؤ فرح ابھی سوئی ہوئی ہو گی اسے سویا رہنے دو۔
حسن بن صباح نے بہت دیر فرح کا انتظار کیا اسے ہر طرف تلاش کیا وہ کہیں بھی نہ ملی۔
اس وقت فرح سوراخ والے تابوت میں بند نہ جانے کتنے میل خلجان سے دور پہنچ چکی تھی۔
صالح نمیری کا قافلہ اس جنگل میں داخل ہو چکا تھا جس میں حسن بن صباح کے کہنے کے مطابق بڑی خطرناک دلدل تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>