🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر گیارہ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کو جب ہزارہا لوگ شاہ بلوط سے دور ستارے کی چمک کے انتظار میں گھروں سے دور بیٹھے تھے ،اس وقت دو جواں سال آدمی یہودیوں کے مذہبی پیشوا کے گھر اس کی اور پادری کی باتیں سن رہے تھے، ان دونوں نے بھی شاہ بلوط ستارے کو چمکتے دیکھا تھا اور وہ بھی قائل ہوگئے تھے کہ یہ آسمان کا ستارہ ہے جو شاہ بلوط کے اس پرانے درخت کی گھنی شاخوں میں اتر آیا ہے۔
آسمان کے ستارے زمین پر نہیں اترا کرتے۔۔۔ ربی نے ان دونوں سے کہا ۔۔۔اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا اپنا جلوہ دکھا رہا ہے تو یہ سوچو کہ وہ کسے دکھا رہا ہے ،کیا حضرت موسی علیہ السلام دنیا میں آگئے ہیں ،یا حضرت عیسی علیہ السلام پھر زمین پر اتر آئے ہیں؟،،،،،، نہیں ،،،بارہا اپنا جلوہ دکھانے کی خدا کو کیا ضرورت پیش آگئی ہے، کیا یہاں کے انسانوں نے خدا کو رد کر کے کسی اور کی عبادت شروع کردی ہے، کوئی مسلمان ہے، یا عیسائی، یا کو یہودی ہے، یہ سب اپنے اپنے طور طریقے سے خدا کو یاد کر رہے ہیں، میری بات غور سے سنو میرے بچو!،،، جس پہاڑی پر یہ درخت اور اس کے پیچھے کی روشنی کاانتظام نہیں تو یہ کوئی شعبدہ بازی ہے، تم نے چھپ چھپ کر وہاں پہنچنا ہے اور دیکھنا ہے، اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نظر آئے اور پتہ چل جائے کہ یہ کیا راز ہے تو تم نے وہاں کوئی کاروائی نہیں کرنی ،خاموشی سے واپس آ جانا ہے۔
یہ ہمارا ذاتی کام نہیں ۔۔۔پادری نے کہا ۔۔۔یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے، یہ کوئی نیا فرقہ اٹھ رہا ہے جس سے لوگ بڑی تیزی سے متاثر ہوئے جا رہے ہیں ،اگر لوگوں کی عقیدت مندی کا یہی حال رہا تو یہ عیسائیت اور یہودیت کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو گا ،اگر یہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ ہے تو ہم اسے مزید ہوا دیں گے، یہ اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ ہمیں صحیح خبر لا دو۔
ہم کل سورج غروب سے کچھ پہلے روانہ ہو جائیں گے۔۔۔ یہودی جوان نے کہا۔
جگہ دور ہے۔۔۔ عیسائی جوان بولا ۔۔۔ہم سیدھے تو جا نہیں سکتے ،سیدھے جائیں تو ہمارے لیے یہ فاصلہ کچھ بھی نہیں، ہمیں پیدل جانا پڑے گا، گھوڑوں پر جائیں گے تو گھوڑوں کو چھپائیں گے کیسے، اور گھوڑا کہیں بھی ہنہنا کر اپنی نشاندہی کر دے گا ۔
میں ایک بار صاف کر دوں۔۔۔یہودی جوان نے کہا ۔۔۔میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ یہ کام ایک ہی رات میں ہوجائے گا ،ہوسکتا ہے دو یا تین راتیں ہم واپس ہی نہ آ سکیں۔
ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔۔۔ ربی نے کہا۔۔۔ تم نے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے، اور پوری کوشش کرنی ہے کہ زندہ واپس آ جاؤ تاکہ ہمیں صحیح صورت حال معلوم ہو جائے ،اور ہم اس کا کوئی سدباب کر سکیں ۔
آپ کو یہ وہم نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کو دھوکا دیں گے ۔۔۔یہودی جوان نے کہا ۔۔۔ہم آپ کا مقصد سمجھ گئے ہیں۔
اب تم دونوں چلے جاؤ ۔۔۔ربی نے کہا ۔۔۔پانی کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ،کھانے کے لیے کھجوریں ساتھ لے جاؤ۔
باہر آکر ان دو نوجوانوں نے آپس میں طے کر لیا کہ وہ کہاں ملیں گے ،یہودی جوان اپنے گھر سیدھا جانے کی بجائے ایک اور طرف سے گیا، ایک گھر کے سامنے بچے کھیل رہے تھے ایک بچے سے اس نے پوچھا کی اس کی بہن میرا کہاں ہے؟،،،، بچے نے اسے بتایا کہ تھوڑی دیر ہوئی وہ بکریوں کو لے کر نکلی ہے۔
یہودی اپنے گھر جانے کی بجائے اس طرف چلا گیا جس طرف میرا گئی تھی، گاؤں سے کچھ دور بڑی اچھی چراہگاہ تھی، جہاں چھوٹی گھاس بھی تھی اور اونچی بھی، یہ دونوں اسی جگہ ملا کرتے تھے، وہاں سے چھوٹی سی ایک ندی گذرتی تھی، ندّی کے کنارے گھنی جھاڑیاں تھیں اور خودرو بیلیں درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں، یہودی ادھر جا رہا تھا کہ میرا نے اسے دیکھ لیا ،اور وہ اس کی طرف دوڑ پڑی، یہودی جوان نے بھی اپنے قدم تیز کرلئے اور دونوں اس طرح ملے جیسے بے خیالی میں ان کی ٹکر ہو گئی ہو، دونوں نے ایک دوسرے کو بازؤں میں سمیٹ لیا، انہیں ایسی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی انہیں دیکھ رہا ہوگا ،سب جانتے تھے کہ یہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور ان کی شادی ہوجائے گی، وہ اس لئے بھی بے حجاب ہیں کہ یہودی تھے، کسی کو بے حیا کہنے کی بجائے یہودی کہہ دینا ہی کافی ہوتا تھا ،یہودی کی تمام تر تاریخ فتنہ و فساد، فریب کاری اور عیاری کی تاریخ ہے، اور یہودی نے ہمیشہ اسلام کو اپنا ہدف اور مسلمانوں کو دشمن نمبر ایک بنائے رکھا ہے، آج بھی یہ قوم اسلام کی بیخ کنی میں مصروف ہے۔
اپنے ان ابلیسی عزائم کی کامیابی کے لئے یہودی اپنی لڑکیوں کو بڑے فخر سے استعمال کیا کرتے تھے، اور اپنی بیٹیوں کا شعور بیدار ہوتے ہی انہیں بے حیائی کے سبق دینے لگتے تھے، سرعام فحش حرکتیں کرنا اور مردوں کے ساتھ قابل اعتراض اور شرمناک حالت میں دیکھے جانا ان کے یہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا ،اپنی بیٹی بہن یا بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر اعتراض کرنا قابل اعتراض فعل سمجھا جاتا تھا، البتہ ایسی نوجوان لڑکی یا عورت کے پیش نظر ذاتی عیاشی نہیں بلکہ قومی مقصد ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔
اس جواں سال یہودی اور ایک نوجوان لڑکی کا یوں ملنا کہ ان کے جسموں کے درمیان سے ہوا بھی نہ گزر سکے قابل اعتراض فعل نہیں تھا ،وہ دونوں ایک دوسرے کی کمر میں بازو ڈالے ندی تک گئے اور وہاں بیٹھ گئے۔
میں تمہیں الوداع کہنے آیا ہوں میرا !،،،،،یہودی جوان نے کہا ۔
کیا کہہ رہے ہو اسحاق؟،،،،، میرا نے بدک کر اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔کہاں جا رہے ہو ؟
ایک مہم پر ۔۔۔اسحاق میں کہا۔
کیسی مہم ؟کون سی مہم ؟،،،،میرا نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ کوئی خطرناک کام ہے۔
خطرناک ہوسکتا ہے۔۔۔ اسحاق نے کہا ۔۔۔اور آسان اتنا کہ ہوسکتا ہے میں کل ہی واپس آ جاؤں ،تم نے وہ ستارہ دیکھا ہے نا، جو دور پہاڑی پر چمکتا ہے، ہم دونوں نے اکٹھے دو تین بار دیکھا ہے، میں دیکھنے جا رہا ہوں یہ کیا ہے؟ میرے ساتھ بنو تغلب کا ایک عیسائی آسر بن جوہل بھی جا رہا ہے۔
اسحاق نے میرا کو اپنے ربی اور پادری کی ساری باتیں سنائیں، اور بتایا کہ یہ راز معلوم کرنا کیوں ضروری ہے ۔
اگر یہ جنات ہوئے۔۔۔ میرا نے کہا ۔۔۔یا کوئی اور غیر انسانی مخلوق ہوئی تو پھر کیا کرو گے؟
ہم دور سے دیکھ کر واپس آ جائیں گے۔۔۔ اسحاق نے کہا ۔۔۔ہم نے ان پر حملہ تو نہیں کرنا ،صرف دیکھنا ہے کہ وہاں ہم جیسے انسان ہیں یا یہ کوئی خدائی اشارہ ہے ۔
میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی ۔۔۔میرا نے کہا ۔۔۔میں تمہیں اکیلا نہیں جانے دوگی۔
جذباتی نہ ہو میرا !،،،،اسحاق نے کہا۔۔۔ وہاں تمہارا کوئی کام نہیں، میں دو تین دنوں میں واپس آ جاؤں گا۔
مجھے ساتھ نہیں لے جانا تو تم بھی نہ جاؤ۔۔۔ میرا نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔میں جذبات کی بات نہیں کر رہی، میرا دل خوف کی گرفت میں آ گیا ہے، اس نے اسحاق کے گلے میں باہیں ڈال کر روندھی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔نہ جاؤ اسحاق !،،،جانا ہے تو مجھے بھی ساتھ لے چلو۔
اسحاق کو اس نے اتنا مجبور کردیا کہ اسحاق نے اسے کہا کہ وہ ربی کے پاس جائے اگر ربی اجازت دے دے تو وہ اسے ساتھ لے جائے گا، یہ لڑکی اسحاق کو اس قدر چاہتی تھی کہ اسی وقت ربی کے گھر کی طرف دوڑی اور اسے بھی جاکر کہا کہ وہ اسحاق کے ساتھ جانا چاہتی ہے ۔
اسحاق اپنے فرض کے لئے جا رہا ہے۔۔۔ ربی نے کہا ۔۔۔اور تم محبت کے لئے جا رہی ہو فرض آدمی کو آگے ہی آگے دھکیلتا ہے، لیکن محبت پاؤں کی زنجیر بن جایا کرتی ہے ،نہیں میرا!،،،، تم ان لڑکوں کے ساتھ نہ جاؤ ،یہ دو تین دنوں تک واپس آ جائیں گے۔
مجھے معلوم ہے وہ کیوں جا رہے ہیں۔۔۔ میرا نے کہا۔۔۔ وہاں انہیں میری ضرورت ہو گی، اسحاق نے مجھے بتا دیا ہے کہ وہ مہم کیا ہے جس پر وہ جا رہے ہیں ۔
نادان لڑکی !،،،،ربی نے کہا۔۔۔ یہ کام آدمی کرسکتے ہیں، یہ کسی عورت کے کرنے کا کام نہیں ۔
لڑکی ہنس پڑی۔۔۔ ربی اور زیادہ سنجیدہ ہو گیا۔
جو کام میں کرسکتی ہوں وہ اسحاق اور آسر نہیں کرسکتے۔۔۔ میرا نے کہا ۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کوئی ہم جیسے انسان ہیں یا یہ کوئی مافوق الفطرت مظاہرہ ہے ،ہمارے دو آدمی آگے گئے تو وہ مارے بھی جا سکتے ہیں، اگر میں آگے چلی گئی تو وہاں اگر انسان ہوئے تو ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی کو دیکھ کر اس طرح دوڑے آئیں گے جس طرح پرندہ دانے کو دیکھ کر جال میں آتا ہے۔
وہ تمہیں پکڑ لیں گے۔۔۔ ربی نے کہا ۔۔۔کیا تم نہیں جانتی کہ وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟
جانتی ہوں ربی!،،،،، میرا نے کہا ۔۔۔کچھ قربانی تو دینی پڑے گی، لیکن میں انھیں دھوکہ دے کر وہاں سے نکل آؤں گی ،میں اس مقصد کو سمجھتی ہوں جس مقصد کے لئے آپ ان دونوں آدمیوں کو بھیج رہے ہیں، یہ ہمارا قومی مقصد ہے اور محترم ربی!،،، جہاں تک جذبات کا تعلق ہے میں اسحاق کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی، اگر اس نے مرنا ہے تو میں بھی اس کے ساتھ مروں گی، اگر آپ مجھے نہیں جانے دیں گے تو میں اسحاق کو بھی نہیں جانے دوں گی۔
ربی کے بوڑھے چہرے کی لکیریں سکڑنے لگی، وہ گہری سوچ میں کھو گیا، میرا اسے چپ چاپ دیکھتی رہی کچھ دیر بعد ربی نے میرا کی طرف دیکھا ۔
ہاں لڑکی!،،،،، ربی نے کہا ۔۔۔اگر تم محبت کی وجہ سے فرض کو ترجیح دیتی ہوں تو اسحاق کے ساتھ چلی جاؤ ،تم ان کی کامیابی کا باعث بن سکتی ہو ،اور تم انہیں ناکام بھی کر سکتی ہوں، اگر تم نے عقل سے کام لیا اور ذاتی جذبات کو دبائے رکھا تو تم اس قومی مقصد میں کامیاب لوٹو گی۔
میرا وہاں سے اٹھ دوڑی اور سیدھی اسحاق تک پہنچی ۔
میرا کے باپ کو پتہ چلا تو وہ ربی کے ہاں دوڑا گیا ،ربی نے اسے مطمئن کردیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہو گیا تھا جب اسحاق، آسر اور میرا ،گاؤں سے نکلے، وہ اکٹھے نہیں نکلے تھے انھیں چوری چھپے نکلنا تھا کیوں کہ گاؤں میں مسلمان بھی رہتے تھے جنھیں اس مہم سے بے خبر رکھنا تھا وہ اکیلے اکیلے نکلے تھے اور بہت دور جا کر اکٹھے ہوئے تھے۔ تینوں کے پاس خنجر تھے اسحاق اور آسر کے پاس تلواریں بھی تھی ،وہ بہت دور کا چکر کاٹ کر جا رہے تھے۔
وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ اس جگہ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے تھے جہاں سے شاہ بلوط کا درخت نظر آتا تھا، جس کم اونچی پہاڑی پر وہ درخت تھا اس کو سیدھے تھوڑے سے وقت میں پہنچ سکتے تھے، لیکن انھیں اس پہاڑی کے پیچھے جانا تھا ،وہ اس ہجوم سے دور ہی دور ہٹتے گئے جو اس انتظار میں وہاں جمع ہو گیا تھا کہ آج رات بھی ستارہ چمکے گا یا وہ سفید پوش آدمی روشنی میں نظر آئے گا جو ایک بار نظر آچکا ہے۔
اسحاق ،آسر اور میرا اس ندی تک پہنچ گئے جو ان کے گاؤں کے قریب سے گزرتی تھی، وہاں یہ ندی گہری ہوئی تھی اور اس کا بہاؤ تیز بھی تھا کیونکہ یہ پہاڑی ندی تھی، وہاں کوئی پل نہیں تھا تینوں ندی میں اتر گئے اور بازو ایک دوسرے میں الجھا لیے، پانی یخ تھا اور بہت ہی تیز، ان کے پاؤں اٹھنے لگے تینوں نے اپنا ایک ایک بازو ایک دوسرے سے آزاد کرکے تیرنا شروع کردیا ،پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ اگلے کنارے کی بجائے پانی انہیں اپنے ساتھ لے جا رہا تھا، اور پانی یہ اتنا یخ کہ انکے جسم اکڑنے لگے، ندی بہت چوڑی تو نہیں تھی لیکن یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ میلوں چوڑی ہو گئی ہو۔
وہ آگے جانے کی بجائے خاصا پیچھے کنارے پر لگے، تینوں نے کپڑے اتار دئے اور انھیں نچوڑا، رات کی یخ ہوا نے ان کے جسموں کو لکڑیوں کی طرح اکڑا دیا ،میرا کو ایسا کوئی خیال نہ آیا کہ وہ دو جواں سال آدمیوں کے سامنے برہنہ ہو گئی ہے، تینوں نے نچوڑے ہوئے کپڑے پہنے اور اسحاق کے کہنے پر تینوں نے ناچنا کودنا شروع کردیا تاکہ جسم گرم ہو جائیں، میرا آخر عورت تھی قدرتی طور پر اس کا جسم مردوں جیسا سخت جان نہیں تھا، اس لیے اس نے محسوس کیا کہ وہ چل نہیں سکے گی، اسحاق اور آسر نے اسے اپنے درمیان کھڑا کرکے ٹخنوں سے کندھوں تک اس کے جسم کودبانہ اور ملنا شروع کر دیا، اور اس طرح کچھ دیر بعد وہ چلنے کے قابل ہوگئی۔
وہ تینوں ندی کے ساتھ ساتھ چلتے گئے، وہ پہاڑیاں قریب آگئی تھیں جس پر شاہ بلوط کا درخت تھا ،لیکن یہ اس پہاڑی کا ایک سرا تھا، شاہ بلوط کا درخت اس کے دوسرے سرے پر تھا ،جو سرا ان تینوں کے قریب تھا وہاں یہ پہاڑی ختم ہو جاتی تھی، پھر وہاں سے ذرا پیچھے ہٹ کر ایک اور پہاڑی شروع ہوتی تھی، ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سے یہ تینوں شاہ بلوط والی پہاڑی کے پیچھے جا سکتے تھے۔
وہ چلتے گئے چونکہ ان کی رفتار تیز تھی اس لئے انکے جسم گرم ہو گئے اور اکڑن ختم ہو گئ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ پہاڑی کے پیچھے جانا ہے لیکن اس علاقے میں وہ پہلے کبھی نہیں آئے تھے، ان کا خیال تھا کہ جس طرح دور سے یہ خطہ سرسبز اور خوبصورت نظر آتا ہے ،اسی طرح سفر کے معاملے میں بھی یہ سہل اور خوبصورت ہو گا ،لیکن آگے گئے تو انہیں پتہ چلا کہ اس خطے نے اپنے حسن میں کیسے کیسے خطرے چھپا رکھے ہیں، وہ جب دونوں پہاڑیوں کے درمیان پہنچے تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ وہ کسی اور ہی دنیا میں جا نکلے ہوں، ان کے سامنے تین طرف پہاڑیاں دیواروں کی طرح کھڑی تھیں، یہ دیواریں کسی پرانے قلعے کی پتھروں کی دیواروں جیسی تھیں، اندھیرے کے باوجود نظر آ رہا تھا کہ ان کے درمیان گدلا پانی جمع ہے، ایک طرف اس پانی اور دیوار کے درمیان اتنی جگہ خالی تھی کہ دو تین آدمی پہلو بہ پہلو آرام سے گزر سکتے تھے، لیکن کچھ دور آگے پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ راستہ آگے جاتا ہے یا پانی میں ہی کہیں ختم ہوجاتا ہے، یہ خوفناک سی جگہ تھی صرف یہی ایک راستہ تھا جو پہاڑی کے پیچھے جاتا تھا ،پہاڑی کے اوپر سے تو وہ جا ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اوپر جاکر وہ نظر آسکتے تھے۔
وہ اس راستے پر اس طرح چلے کے میرا ان کے پیچھے تھی، ذرا ہی آگے گئے ہونگے کہ انہیں اپنے پیچھے پانی میں ہلچل سی محسوس ہوئی، انہوں نے اس طرف دھیان نہ دیا اچانک میرا کی چیخ بلند ہوئی ،اسحاق اور آسر نے پیچھے دیکھا میرا گر پڑی تھی اور چیخ چلا رہی تھی، انہوں نے یہ دیکھ کہ ایک مگر مچھ کا سر اور اگلی ٹانگیں پانی سے باہر ہیں، اور میرا کا پاؤں ٹخنے تک مگرمچھ کے منہ میں ہے، مگر مچھ میرا کو پانی میں گھسیٹ رہا تھا۔
قدرت نے مگرمچھ کے دانت نوکیلے اور ایسے تیکھے نہیں بنائے کہ وہ انسان یا جانور کے گوشت میں اتر جائیں ،اس کے دانتوں کے نیچے والے سرے گول ہوتے ہیں جو شکار کو صرف پکڑتے ہیں اور اوپر نیچے کے دانت بڑا مضبوط شکن بن جاتے ہیں۔
اسحاق اور آسر نے صرف ایک بار مگرمچھ دیکھا تھا ،وہ دونوں اس وقت کم سن لڑکے ہوا کرتے تھے، وہ آدمی ان کے گاؤں کے قریب سے گزرتے وہاں رک گئے تھے، انہوں نے ایک مرا ہوا مگر مچھ گھوڑے پر ڈال رکھا تھا۔ اسحاق اور آسر نے دیکھا تھا، اور ان دونوں آدمیوں نے بتایا بھی تھا کہ مگرمچھ کے سر اور پیٹھ پر نہ برچھی اثر کرتی ہے نہ تلوار، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ان کا پیٹ اتنا نازک ہوتا ہے کہ ایک خنجر بھی پیٹ میں اتر جاتا ہے، اسکا دوسرا نازک حصہ اس کا منہ ھے اگر اس کے کھلے ہوئے منہ کے اندر برچھی ماری جائے تو مگرمچھ مرتا تو نہیں زخمی ہو کر بھاگ جاتا ہے، یا اس کی آنکھوں میں برچھی یا تلوار ماری جائے تو بھی یہ بھاگ جاتا ہے۔
مگرمچھ میرا کو پانی میں گھسیٹ رہا تھا، اسحاق نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اندھیرا تو تھا لیکن پانی کی چمک میں مگر مچھ کا ہیولا نظر آرہا تھا ،اسحاق نے مگرمچھ کی آنکھ کا اندازہ کر کے تلوار کا زوردار وار کیا، آسر نے یہ دلیری کر دیکھائی کہ پانی میں اتر گیا جو اس کے گھٹنوں تک گہرا تھا ،آسر نے مگرمچھ کے قریب جا کر نیچے سے تلوار برچھی کی طرح مگرمچھ کے پیٹ میں اتار دی۔
یہ دونوں وار ایسے ٹھکانے پر پڑے کہ مگرمچھ کے منہ سے بڑی خوفناک آواز نکلی اور وہ میرا کا پاؤں چھوڑ کر تڑپتا پھڑپھڑاتا ہوا پانی میں ڈبکی لگا گیا، میرا بڑی تیزی سے اٹھی اسحاق اور آسر نے اسے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور دوڑ پڑے، آگے انھیں راستہ ملتا گیا پانی میں بڑی زور سے ہلچل ہو رہی تھی یہ یقیناً زخمی مگرمچھ تھا جو تڑپ رہا تھا ،اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مگرمچھ بھی ڈر کر ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔
یہ راستہ کچھ دور تک چلا گیا ،پانی پیچھے رہ گیا تھا، پانی سے کچھ دور جا کر وہ رکے اور میرا کے پاؤں کا جائزہ لینے لگے ،جس جگہ مگرمچھ نے اس کا ٹخنہ پکڑا تھا وہاں ہاتھ پھیرا تو صاف پتہ چلتا تھا کہ خون بہ رہا ہے، اگر مگرمچھ کے دانت درندوں کی طرح نوکیلے ہوتے تو میرا کی ہڈی بھی کٹ جاتی اور اس کا پاؤں مگرمچھ کے ساتھ ہی چلا جاتا، چونکہ اس لڑکی کا پاؤں مگرمچھ کے جبڑوں کے شکنجے میں آیا تھا اور لڑکی زور لگا کر اپنا پاؤں کھینچتی رہی تھی اور مگرمچھ اسے پانی میں کھینچ رہا تھا اس لیے لڑکی کے ٹخنے سے تھوڑی سی کھال اتر گئی تھی اور ہڈی پر اچھی خاصی ضرب لگی تھی۔
اسحاق نے اپنے سر پر ڈالا ہوا کپڑا اتارا اور کس کر میرا کے ٹخنے پر باندھ دیا ،میرا کے لئے درد نا قابل برداشت ہو رہا تھا، وہ چلنے میں دشواری محسوس کررہی تھی ۔
میری ایک بات غور سے سنو ۔۔۔میرا نے کہا۔۔ یہ اچھا شگون نہیں ،میرا دل کہتا ہے کہ یہیں سے واپس چلے چلو۔
ربی اور فادر ہمیں بزدل کہیں گے۔۔۔ آسر نے کہا ۔۔۔وہ کہیں گے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں، بہتر تو یہ ہے کہ تم یہیں کہیں چھپ کر بیٹھ جاؤ اور ہم اپنا کام کر کے واپس آ جائیں اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔
نہیں!،،،، میرا نے خوف زدہ آواز میں کہا ۔۔۔میں یہاں اکیلی نہیں رہوں گی ،میں کہہ رہی ہوں واپس چلو ،میں اتنا زیادہ کبھی بھی نہیں ڈری تھی۔
تمہیں مگر مچھ نے ڈرا دیا ہے۔۔۔ اسحاق نے کہا۔۔۔ یہ خوف دل سے اتار دو۔
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں۔۔۔ میرا نے کہا۔۔۔ میرے دل پر کوئی خوف نہیں، اگر ہم ویسے گھومنے پھرنے آئے ہوتے اور مگرمچھ مجھے یوں پکڑ لیتا تو میں اتنا نہ ڈرتی ،میں یہ کہہ رہی ہوں کے یہ شگون اچھا نہیں، مگر مچھ نے کسی غیبی طاقت کے اشارے پر مجھے پکڑ لیا تھا ،یہ تمہارے لئے اشارہ ہے کہ یہیں سے واپس چلے چلو ورنہ آگے موت ہے۔
اسحاق بھائی!،،،،، آسر نے کہا ۔۔۔وقت ضائع نہ کرو، اگر تم اس لڑکی کی باتوں میں آ گئے تو ہم اپنا کام کس طرح کریں گے، ربی اور فادر کو کیا جواب دیں گے، تم جانتے ہو کہ انہیں ہم دونوں پر کتنا بھروسہ ہے۔
میری بات سنو میرا !،،،،،اسحاق نے کہا۔۔۔ تم نے ربی کے ساتھ جو باتیں کی تھیں وہ نہ بھولو ،تم نے کہا تھا کہ تم ہماری مدد کروں گی ،تم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر یہاں کوئی آدمی ہوئے تو تم انہیں اپنے حسن و جوانی کے جال میں لے آؤ گی، تمہاری ان باتوں سے متاثر ہوکر ربی نے تمہیں ہمارے ساتھ آنے کی اجازت دی تھی ،ربی نے تمہیں کہا تھا کہ تم ہمارے پاؤں کی زنجیر بن جاؤ گی ،تم وہی کام کررہی ہو جس کا ربی نے خدشہ پہلے ہی دیکھ لیا تھا، ہم تو اب اپنا فرض ادا کر کے ہی جائیں گے۔
مجھے صاف نظر آرہا ہے اسحاق!،،،،، میرا نے کہا۔۔۔ تم یہاں سے زندہ واپس نہیں جاؤ گے۔
اسحاق اور آسر جھنجلا اٹھے، اسحاق نے میرا کا بازو پکڑا اور اسے اٹھا کر کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میرا اس کے ساتھ چل پڑی، وہ چلنے میں دشواری اور درد محسوس کر رہی تھی، اس کی وجہ سے اسحاق اور آسر کی رفتار بھی سست ہو گئی تھی۔
وہ اب اس پہاڑی کے دامن میں جارہے تھے جس پر شاہ بلوط کا درخت تھا، دامن میں وہ اوپر سے کسی کو نظر نہیں آ سکتے تھے، اس پہاڑی کے اوپر جو کچھ بھی تھا اسے دیکھنے کے لئے پچھلی پہاڑی پر جانا ضروری تھا، ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان کم و بیش ساٹھ قدم فاصلہ تھا ،نیچے میدان تھا جس میں اونچی گھاس تھی اور درخت بھی تھے، پیچھے والی پہاڑی ایسی نہیں تھی کہ اس کی صرف ڈھلوان ہوتی، یہ پہاڑی اونچی نیچی چٹانوں کا جھرمٹ تھی جن پر چڑھنا ذرا دشوار تھا۔
تھوڑا اور آگے گئے تو انہیں دونوں پہاڑیوں کے درمیان روشنی سی نظر آئی جو سامنے والی پہاڑی پر کہیں اوپر تھی ،صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی نے آگ جلا رکھی ہے، وہ جوں جوں آگے بڑھتے گئے روشنی زیادہ ہوتی گئی، اور اس کے ساتھ ہی انھیں کسی کی باتوں کی آواز سنائی دینے لگی، کچھ آدمی بہت دور باتیں کر رہے تھے۔
اسحاق اور آسر نے آپس میں مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ وہیں سے پچھلی پہاڑی پر چڑھ جائیں کیونکہ پیچھے بلندی پر جا کر ہی پتہ چل سکتا تھا کہ یہ آگ کہاں جل رہی ہے اور باتیں کرنے والے کہاں ہیں، وہ کچھ اور آگے جا کر پچھلی پہاڑی پر چڑھنے لگے، وہ پہاڑی کچھ عجیب سی تھی کہیں ننگی اور سیدھی کھڑی چٹان آ جاتی تھی، اور کہیں دوسری پہاڑیوں کی طرح سبزہ زار اور درخت آ جاتے تھے، ایسی ایک چٹان پر چڑھتے چڑھتے اسحاق کا پاؤں پھسل گیا اور وہ چٹان سے گر کر نیچے والی چٹان پر جا پڑا، اور وہاں سے لڑھکتا ہوا نیچے جا رکا۔
میرا اس کے پیچھے اترنے لگی، لیکن آسر نے اس کا بازو پکڑ لیا ۔
یہیں رہو ۔۔۔آسر نے کہا۔۔۔ تم بھی پھسل کر گرو گی، وہ تو مرد ہے برداشت کر لے گا، تم پہلے ہی زخمی ہو۔
اسحاق اٹھا اسے چوٹ تو آئی تھی لیکن وہ چوٹ سے بے نیاز پہاڑی پر چڑھنے لگا اور اپنے ساتھیوں سے جا ملا، میرا نے ایک بار پھر اپنے اسی وہم کا اظہار کیا کہ یہ دوسرا برا شگون ہے ،اور یہ کسی آسمانی مخلوق کے اشارے ہیں کہ واپس چلے جاؤ، اور ان کے مظاہر میں دخل نہ دو۔
اسحاق نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو وہ اس طرح پہاڑی کے اوپر اوپر چل پڑا جیسے اس نے آسمانی مخلوق کا چیلنج قبول کر لیا ہے، اس کے چلنے کے انداز میں قہر اور عتاب تھا۔
ادھر پہاڑی سے کچھ دور لوگوں کا ہجوم اس امید پر پہاڑی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ آج پھر شاہ بلوط میں ستارہ چمکے گا ،یا وہ سفید پوش نظر آئے گا جو ایک بار نظر آچکا ہے، تین چار دن نہ ستارہ چمکا تھا،نہ سفید پوش نے جلوہ دکھایا تھا ،یہ خبر اس کے علاقے میں دور دور تک پھیل گئی تھی اس لیے تماشائیوں کا ہجوم بہت ہی زیادہ ہو گیا تھا۔
اس رات لوگوں کی مراد بر آئی، پہلے نقارہ بجا اس کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتے ہوتے رات کی تاریکی میں تحلیل ہو گئی ،پھر ایک سے زیادہ شہنائیوں کی ایسی لہریں ابھری جس میں سحرانگیز سوز تھا ، ہجوم کا شور و غل ایسے سکوت میں دم توڑ گیا جیسے وہاں کوئی ذی روح، کوئی جاندار زندہ ہی نہ ہو، زمین و آسمان پر پیڑ پودوں اور پہاڑیوں پر جیسے وجد طاری ہو گیا ہو۔
لوگوں کو اندھیرے میں شاہ بلوط کیا نظر آتا وہ پہاڑ بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس پر وہ درخت کھڑا تھا ،لوگ نغمے میں محو تھے کہ کئ آوازیں اٹھیں وہ چمکا اور اس کے ساتھ ہی لوگوں نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا، ایک گونج تھی جس میں وجد آفریں تاثر، محویت، اور تقدس تھا ،اس کے ساتھ رات کی تاریکی میں ھوا کی لہروں پر شہنائیوں کی تیرتی ہوئی لہریں ایسا سما باندھ رہی تھی جس کا تعلق اس دنیا سے معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ستارہ بجھ گیا اور پھر پہلے کی طرح ایک روشنی چھتری نما شاہ بلوط پر چلنے لگی، پھر یہ ایک مقام پر رک گئی اور نیچے آنے لگی جیسا پہلے ایک رات ہوا تھا، روشنی نیچے آئی تو سفید پوش کا سر کندھے اور سینہ نظر آیا اس کے بازو کچھ باہر کو اور کچھ آگے کو پھیلے ہوئے تھے، جیسے دعا مانگ رہا ہو۔ روشنی آہستہ آہستہ نیچے گئی اور سفید پوش کے پاؤں تک چلی گئی۔
ہجوم میں جو چند ایک سبز پوش تھے انہوں نے کہنا شروع کردیا ۔۔۔سجدے میں چلے جاؤ۔۔۔ ہمارا نجات دہندہ زمین پر اتر آیا ہے۔
کچھ لوگ تو پہلے ہی سجدے میں چلے گئے تھے، باقی بھی سجدہ ریز ہو گئے۔
لوگ سجدے سے اٹھے اور انہوں نے سامنے دیکھا وہاں نہ ستارہ تھانہ سفید پوش۔
خدا کے ایلچی کا ظہور ہو گیا ہے ۔۔۔پہاڑ کی طرف سے ایک بڑی ہی بلند آواز ہجوم تک پہنچی۔۔۔ وہ دو چار دنوں میں تمہارے سامنے آئے گا۔
خدا کا پیغام لائے گا ۔
خدا کا شکر ادا کرو لوگو۔
اس وقت جب ستارہ ابھی نہیں چمکا تھا، اسحاق، آسر اور میرا پچھلی پہاڑی پر اتنا آگے چلے گئے تھے کہ انہیں شاہ بلوط والی پہاڑی کی پچھلی ڈھلان پر ایک خاصا کشادہ غار دکھائی دیا، اس کے اندر لکڑیوں کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو آگ لگی ہوئی تھی، اس کے شعلے غار کی چھت تک پہنچ رہے تھے ،اس آگ ہی کی روشنی چونکہ پیچھے والی ڈھلان میں تھی اس لئے اس کی روشنی پہاڑی کی اس جانب نہیں جا سکتی تھی جس جانب لوگوں کا ہجوم ستارہ دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو گیا تھا۔
اسحاق اور اس کے ساتھیوں نے وہاں پانچ آدمی گھومتے پھرتے دیکھے، ایک آدمی تھوڑے تھوڑے وقفے سے آگ میں لکڑی پھینک رہا تھا، غار سے کچھ دور تقریبا ایک گز لمبی اور اسی قدر چوڑی کسی دھات کی ایک چادر سی رکھی ہوئی تھی، کبھی تو شک ہوتا تھا کہ یہ آئینہ ہے اور کبھی یوں لگتا تھا جیسے یہ کسی ایسی دھات کا چادر نما ٹکڑا ہے جو آئینے کی طرح چمکتا ہے، یا اس پر چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہے یا اس جیسی کوئی چیز چپکائ گئی ہے۔
اسحاق وغیرہ دو درختوں کے تنوں کے پیچھے کھڑے دیکھ رہے تھے، فاصلہ زیادہ نہیں تھا انھیں ہر آدمی اور ہر چیز اچھی طرح نظر آ رہی تھی۔
سامنے والی پہاڑی کی پچھلی ڈھلان پر شاہ بلوط کے درخت کے قریب وہ چمکتی چادر پڑی تھی، دو آدمیوں نے آکر یہ چادر اٹھائی اور ادھر ادھر سے پکڑ کر ایسے زاویے پر کر لیا کہ اس کی چمک سیدھی پچھلی پہاڑی پر ان دو درختوں پر پڑی جہاں اسحاق وغیرہ چھپے دیکھ رہے تھے ،چمک فیلڈ لائٹ جیسی تھی، اتنی تیز کے ان تینوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، وہ فوراً تنوں کے پیچھے ہو گئے ۔
یہ چادر رکھ دی گئی ایک آدمی نہ جانے کہاں سے سامنے آیا وہ سر سے پاؤں تک سفید لبادے میں ملبوس تھا ۔
چلو بھائی آ جاؤ ۔۔۔سفید پوش نے کہا۔۔۔ اوپر کون جائے گا؟
ایک آدمی آگے آیا اس نے ایک جگہ سے ایک چیز اٹھائی یہ یقینا آئینہ تھا جس کی لمبائی تقریباً ایک فٹ اور چوڑائی اس سے کچھ کم تھی، اس نے پہلے تو یہ اپنے سامنے کر کے یوں دیکھا جس طرح آئینہ دیکھا جاتا ہے پھر اس نے اسے آگے کی طرف کر کے ادھر ادھر ہلایا اس کی چمک پہاڑی کی ڈھلان پر اسی طرح دکھائی دی جس طرح آئینہ سورج کے آگے رکھو تو سامنے کی اشیاء پر اس کی چمک دکھائی دیتی ہے۔
یہ آدمی آئینہ اٹھائے ہوئے پہاڑی پر شاہ بلوط کی طرف چڑھ گیا ،اب وہ اندھیرے میں تھا۔ غار کی آگ کی روشنی اس تک نہیں پہنچتی تھی، اسحاق اور اس کے ساتھیوں کا صرف اندازہ تھا کہ یہ آدمی درخت پر چڑھ گیا ہے۔ کچھ دیر بعد انہیں درخت کے اندر چمک دکھائی دی جو فوراً ختم ہو گئی۔
جانتے ہو درختوں میں کیا ہو رہا ہے؟،،،،،اسحاق نے آسر سے پوچھا۔
تمہارے ربی کا شک غلط نہیں نکلا۔۔۔آسر نے کہا ۔۔۔میں بتا سکتا ہوں اوپر کیا ہو رہا ہے، اس آگ کی چمک اس آئینے پر پڑ رہی ہے جو وہ آدمی اوپر لے گیا ہے، اور آئینے کی چمک ان لوگوں کو دکھائی دے رہی ہے جو پہاڑی کے اس طرف ہجوم کی صورت میں موجود ہیں۔
دیکھو آگ کتنی زیادہ ہے۔۔۔ اسحاق نے کہا۔۔۔ اگر اتنی آگ پہاڑی کی چوٹی پر جلائی جائے تو یہ سارا علاقہ روشن ہوجائے، اب تصور میں لاؤ کے شاہ بلوط کی شاخوں میں تم نے ستارہ چمکتا دیکھا ہے،،،،،سمجھنا کوئی مشکل نہیں،،،،،، یہ سب انسان ہیں۔
لیکن یہ ہیں کون ؟،،،،،،میرا نے پوچھا۔۔۔ یہ کیسے معلوم کرو گے؟
ہم تین ہیں ۔۔۔۔اسحاق نے کہا ۔۔۔بلکہ ہم دو ہیں میرا کو شامل نہ کرو ،وہ پانچ ہیں ہم ان پر حملہ نہیں کر سکتے ،اگر ہمارے ساتھ دو تین آدمی اور ہوتے تو کسی اور طرف سے اس پہاڑی پر جاکر ان میں سے ایک دو کو زندہ پکڑ لیتے۔
ٹھہرو اسحاق!،،،،،، آسر نے کہا۔۔۔ وہ آدمی درخت سے اتر آیا ہے، وہ دیکھو سفید پوش اوپر جا رہا ہے۔
میں بتاتا ہوں اب کیا ہوگا ۔۔۔۔اسحاق نے کہا۔۔۔۔ یہ سفید لبادے والا آدمی درخت کے نیچے کھڑا ہو گا، اور اس پر چمکتی ہوئی دھات کی چادر کی روشنی ڈالی جائے گی، لوگ سمجھیں گے کہ کسی پیغمبر کا ظہور ہوا ہے۔
ایسا ہی ہوا وہ آدمی درخت کے نیچے چلا گیا ،ادھر وہ چادر آگ کے سامنے ایسے زاویے پر رکھی گئی کہ اس کی چمک اس آدمی پر پڑنے لگی، پہلے اس روشنی کو درخت پر گھمایا گیا پھر اسے اس آدمی پر مرکوز کر دیا گیا ،ادھر ہجوم نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا ،تو اس کی گونج ان پہاڑیوں تک سنائی دینے لگی۔
کچھ دیر بعد یہ پلیٹ یا چادر رکھ دی گئی، اور ایک آدمی انتہائی بلند آواز سے اعلان کرنے لگا۔
"خدا کے ایلچی کا ظہور ہو گیا ہے۔"
"وہ دو چار دنوں میں تمہارے سامنے آجائے گا-"
"خدا کا پیغام لائے گا -"
"خدا کا شکر ادا کرو لوگو-"
پھر وہ سفید پوش واپس آ گیا۔
ہم نے یہ تو دیکھ لیا ہے کہ یہ ہماری طرح انسان ہیں۔۔۔ اسحاق نے کہا ۔۔۔اب ہم ربی اور فادر کو بتائیں گے، معلوم نہیں وہ کیا کریں گے، میں انہیں مشورہ دوں گا کہ جس طرح ہم تینوں یہاں تک پہنچ گئے ہیں اسی طرح کل شام بیس پچیس آدمی سامنے والی پہاڑی کے ایک طرف چھپ کر بیٹھ جائیں، اور ان سب کو موقع پر پکڑ لیں، پھر لوگوں کو رات کو ہی اس پہاڑی پر لے آئیں اور انھیں دکھائیں کہ یہ شیطان لوگ کس طرح انہیں گمراہ کر رہے تھے،،،، مجھے یقین ہے یہ مسلمان ہیں۔
اسحاق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ میرا کی دلدوز اور بڑی ہی بلند چیخ سنائی دی ،اسحاق اور آسر نے گھبرا کر ادھر دیکھا، غار میں جلتی ہوئی آگ کی روشنی ان تک پہنچ رہی تھی، اس روشنی میں انھوں نے دیکھا کہ جس درخت کی اوٹ میں میرا چھپی ہوئی تھی اس کے تنے پر ایک خاصا لمبا سانپ نیچے کو آ رہا تھا ،میرا کا شاید ہاتھ سانپ کو لگ گیا سانپ نے اسے بازو پر کاٹا تھا۔
اسحاق نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور سانپ کے دو ٹکڑے کر دیے، میرا اپنے بازو پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی ،اس کے منہ سے عجیب سی چیخیں نکل رہی تھی، اسحاق اور آسر اس کے پاس بیٹھ گئے اور دیکھنے لگے کہ سانپ نے کہاں کاٹا ہے، سانپ کی دہشت نے اور میرا کی بگڑتی ہوئی حالت نے ان کے ہوش و حواس اس حد تک کم کر دیے کہ انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ سامنے والی پہاڑی پر سفید پوش اور اس کے ساتھی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں، اور انہوں نے ان تینوں کو دیکھ لیا ہے ،میرا کی چیخ اتنی بلند تھی کہ سامنے والی پہاڑی کے لوگوں نے سن لی تھی اور انھوں نے چونک کر اس طرف دیکھا تھا۔
سانپ کا زہر میرا کے جسم میں سرایت کر رہا تھا، وہ تڑپنے لگی تکلیف کی شدت سے اٹھی اور چکرا کر گری اور ایسی گری کے اوپر سے لُڑھکتی ہوئی نیچے جا پڑی ،اسحاق اور آسر یہ فراموش کر گئے کہ کہاں ہیں؟
اس کے پیچھے بڑی تیزی سے پہاڑی سے اترے، میرا تڑپ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ گہرا نیلا بلکہ سیاہ ہوتا جا رہا تھا اور وہ بری طرح تڑپ رہی تھی، اسحاق اور آسر اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسے اٹھاؤ اسحاق!،،،، آسر نے کہا ۔۔۔کچھ تم اٹھاؤ کچھ میں اٹھاتا ہوں اور یہاں سے نکلتے ہیں۔
یہ تو راستے میں مر جائے گی۔۔۔۔ اسحاق نے کہا۔۔۔۔مر گئی تو اسے مگرمچھوں والے پانی میں پھینک جائیں گے۔
وہ دونوں میرا کو اٹھانے ہی لگے تھے کہ انہیں قدموں کی آہٹ سنائی دی انہوں نے بدک کر پیچھے دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہوگئے، وہ سات آٹھ آدمیوں کے نرغے میں آگئے تھے، ان میں سفید پوش بھی تھا ان میں سے کسی کے پاس تلوار تھی اور کسی کے پاس برچھی، سفید پوش نے آگے بڑھ کر ان دونوں کی نیاموں میں سے تلوار نکال لی، ان میں سے ایک اور آدمی آگے بڑھا اور اس نے ان کے کمر بندوں میں سے اڑسے ہوئے خنجر بھی لے لئے ،میرا کا تڑپنا خاصا کم ہو گیا تھا اسے مرنا تھا وہ ہوش میں نہیں تھی ،غار کی آگ کی روشنی نیچے تک آرہی تھی۔
انہیں اوپر لے چلو ۔۔۔سفید پوش نے کہا،اور اسحاق اور آسر سے کہنے لگا۔۔۔۔ اس لڑکی کو یہی پڑے رہنے دو یہ چند لمحوں کی مہمان ہے ،میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسے سانپ نے ڈسا ہے ،اس جگہ کے سانپ جسے ڈس لیں اسے زندہ نہیں رہنے دیا کرتے، یہ جوان تھی اس لئے ابھی تک اس کا جسم ذرا ذرا حرکت کررہا ہے ۔
کیا تم لوگ ہمیں رہا نہیں کرسکتے؟۔۔۔ اسحاق نے التجا کے لہجے میں کہا۔
اگر ہم اتنے احمق ہوتے تو اتنی زیادہ مخلوق خدا سے یہ نہ منوا سکتے کہ شاہ بلوط کے نیچے ایک نبی کا ظہور ہو رہا ہے۔۔۔ سفید پوش نے کہا۔۔۔ جن کے پاس ہمارا اتنا نازک راز ہے انہیں ہم رہا نہیں کر سکتے۔
ہم دونوں آپ کے ساتھ ہو جائیں گے۔۔۔ آسر نے کہا ۔۔۔اور آپ جو بھی کام بتائیں گے کریں گے۔
تم کون ہو ؟۔۔۔۔سفید پوش نے اسحاق سے پوچھا۔۔۔ تمہارا مذہب کیا ہے؟،،، سچ سچ بتادو تو شاید ہم تم پر رحم کر دیں
میرا نام اسحاق ہے ۔۔۔اس نے جواب دیا ۔۔۔اور میں یہودی ہوں۔
میرا نام آسر ہے۔۔۔ آسر نے کہا۔۔۔ اور میں عیسائی ہوں۔
یہاں کیوں آئے تھے؟،،،،، سفید پوش نے پوچھا، اور کہا۔۔۔۔مجھے یہ نہ بتانا کہ تم دونوں اس لڑکی کو ساتھ لے کر یہاں سیر اور تفریح کے لیے آئے تھے ،یہاں تک کوئی آدمی نہیں پہنچ سکتا ،ایک طرف مگر مچھوں نے راستہ بند کر رکھا ہے ،اور دوسری طرف ایسی دلدل ہے جس میں سے کوئی گزر نہیں سکتا۔
اسحاق نے اسے بالکل سچ بتا دیا کہ وہ دونوں یہاں کیوں آئے تھے اور یہ لڑکی کس طرح سات چل پڑی تھی۔
تمہارے ربی اور پادری کو ہم ایک سبق دیں گے ۔۔۔سفیدپوش نے کہا۔۔۔ اب یہودیوں کا جادو نہیں چل سکتا ۔اب حسن بن صباح کا جادو چلے گا۔
اسحاق اور آسر کو اوپر لے گئے وہ اب بھی منت سماجت کر رہے تھے کہ انھیں چھوڑ دیا جائے ،انہیں باتوں باتوں میں آگ کے قریب لے گئے جو اتنی زیادہ تھی کہ وہاں کھڑا نہیں رہا جاسکتا تھا، مشکیزوں والے آدمی آگ پر پانی پھیکنے لگے تھے کیوں کہ اب آگ کی ضرورت نہیں تھی، سفید پوش نے اشارہ کرکے انہیں پیچھے ہٹا دیا ،پھر اس نے دوسرے آدمیوں کو اشارہ دیا کہ دو تین نے اسحاق کو اور دو تین نے آسر کو پکڑ لیا اور انہیں دھکیلتے گھسیٹتے ہوئے آگ کے قریب لے گئے، دونوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا۔
وہ سمجھ گئے تھے کہ انہیں آگ میں دھکیلا جارہا ہے، سفید پوش کے آدمیوں نے دونوں کو اتنی زور سے دھکے دیے کہ وہ آگ میں جا پڑے، آگ اس قدر زیادہ تھی کہ وہ اس میں گرے اور پھر انکی آواز بھی نہ نکلی جب وہ جل کر کوئلہ ہو گئے تو سفید پوش نے مشکیزوں والوں سے کہا کہ اب آگ پر پانی پھینک دو، اس رات کا ناٹک ختم ہوچکا تھا، اس لیے اب اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز شاہ دیر میں احمد بن عطاش اپنے خاص کمرے میں بڑی بے تابی سے حسن بن صباح کا انتظار کر رہا تھا، اس نے دو بار اپنا آدمی اسے بلانے کےلئے بھیجا تھا اور دونوں بار وہ یہ جواب لے کر آیا تھا کہ حسن رات بہت دیر سے آیا تھا اس لئے بڑی گہری نیند سویا ہوا ہے۔
وہ سفید پوش جو شاہ بلوط کے نیچے لوگوں کو نظر آتا تھا وہ حسن بن صباح ہی تھا، رات اسحاق اور آسر کی وجہ سے حسن کو وہاں زیادہ وقت رہنا پڑا تھا اس لئے صبح دیر سے اٹھا، وہ جگہ شاہ در سے خاصی دور تھی، شاہ در سے وہاں تک یہ لوگ اونٹوں پر جاتے اور صبح طلوع ہونے سے پہلے واپس آ جاتے تھے۔ اونٹوں پر آنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے قدموں کی آہٹ نہیں ہوتی ،رات کے سناٹے میں گھوڑے کے ٹاپ دور دور تک سنائی دیتے ہیں اس لئے پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں جگہ سے ایک یا ایک سے زیادہ گھوڑ سوار گزرے تھے۔
سورج سر پر آ گیا تھا جب حسن بن صباح کی آنکھ کھلی اور وہ بڑی تیزی سے غسل وغیرہ کر کے احمد بن عطاش کے یہاں جا پہنچا ۔
آؤ حسن!،،،،،، احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔مجھے تمہارے ساتھی بتا چکے ہیں کہ رات ایک یہودی اور ایک عیسائی نے نبی کے ظہور کا راز اپنی آنکھوں دیکھ لیا تھا ،،،،،،تم نے اچھا کیا کہ دونوں کو آگ میں پھینک دیا۔
ان کی ساتھی لڑکی کو تو سانپ نے پہلے ہی ختم کر دیا تھا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔ان دونوں آدمیوں میں جو عیسائی تھا اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس لڑکی کو پہلے ایک مگرمچھ نے پاؤں سے پکڑ لیا تھا اور ان دونوں نے تلواروں سے مگرمچھ کو زخمی کر کے لڑکی کو مگرمچھ کے منہ سے نکال لیا تھا۔
یہ اس سحر کا اثر تھا جو میں نے تمہارے ہاتھوں کروایا تھا۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ میں نے اس سحر میں یہ اثر پیدا کیا تھا کہ تمہارے راز تک پہنچنے والے خیریت سے نہ پہنچ سکیں، اور اگر پہنچ جائیں تو تمہیں ان کی موجودگی کا اشارہ مل جائے، ہمارا جادو کامیاب رہا۔
محترم استاد !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں نے اس ربی اور پادری کا ٹھکانہ معلوم کرلیا ہے، جنہوں نے ان دونوں آدمیوں کو بھیجا تھا، انہیں ہمیشہ کے لیے غائب کر دیا جائے تو بہتر ہے ورنہ ان کا خطرہ موجود رہے گا کہ یہ کسی اور طرح ہمارے راز پا لیں گے، ہمیں یہ اطمینان ہوا ہے کہ یہ جاسوس سلجوقیوں کے نہیں تھے۔
ہاں حسن !،،،،،احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔ہمارا منصوبہ ایسا ہے کہ کسی سے ذرا سے بھی خطرے کا صرف شک ہی ہو اسے بالکل ہی غائب کردینا ضروری ہے ،تمہارے پاس آدمی ہیں انہیں استعمال کرو، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں کو کس طرح غائب کرتے ہو۔
یہ میں کر کے بتاؤں گا کہ میں نے یہ کام کس طرح کیا ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ آپ کی شاگردی میں مجھے اتنی سوجھ بوجھ مل گئی ہے کہ میں اس گاؤں کے بچوں سے بڑوں تک کو ایسا لاپتہ کر سکتا ہوں جیسے کبھی وہ دنیا میں آئے ہی نہیں تھے۔
اب میری ایک دو باتیں غور سے سنو ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ ہمارا یہ طریقہ سو فیصد سے کچھ زیادہ کامیاب رہا ہے، اب تم نے لوگوں کے سامنے آنا ہے، یہ ہزاروں لوگ تمہارے مرید ہو چکے ہیں، اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگلے وہ قلعے بھی ہمارے ہیں، یہ تمہیں میں بتاؤں گا کہ تم لوگوں کے سامنے کس طرح آؤ گے، دوسری بات یہ ذہن میں رکھ لو کہ سحر اور جادو پر بھروسہ نہیں رکھنا، بھروسہ اپنی عقل اور فہم و فراست پر کرنا ہے، یہ صحیح ہے کہ طلسم سامری کو توڑنے والا اب کوئی موسی نہیں رہا ،اور نہ ہی کوئی موسی آئے گا، لیکن یہ یاد رکھ لو کے سحر اور جادو ہر قسم کے حالات میں تمھاری مدد نہیں کر سکے گا، اپنی عقل کا جادو چلاؤ، یہ ایسی باتیں ہیں جو میں تمہیں بعد میں بھی سمجھاؤں گا،،،،،،،،
تم نے دیکھ لیا ہے کہ میری اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ لوگوں کو تم بدی سے ہٹنے کے سبق دو گے تو وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم سے پہلے قوموں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیا تھا ،لوگوں کو اپنا مرید بنانے کا طریقہ یہی ہے کہ بدی کو کچھ پراسرار طریقے استعمال کرو جو مافوق العقل نظر آئے اور جن میں ایسا تاثر ہو جو لوگ بلا سوچے سمجھے تمہاری اسرارریت سے متاثر ہو کر سجدہ ریز ہوجائیں، تم نے دیکھ لیا ہے ہزاروں لوگوں نے تمہارے آگے سجدہ کیا ہے، میں پیغمبر نہیں حسن !،،،لیکن میں آنے والے وقت کے متعلق پیشن گوئی کرسکتا ہوں کہ لوگ جادوگروں اور ساحروں کے پاس جایا کریں گے اور ان سے اپنی مشکلات حل کروائیں گے، اور سحر کے ذریعے ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے، اور کچھ لوگ لوگوں کو سحر کا دھوکہ دے کر لوٹیں گے، آج کے لوگوں کی یہ کمزوری ان کی نسلوں اور نسلوں تک جائے گی، یہ باتیں بعد میں ہوں گی تم اس یہودی ربی اور عیسائی پادری کا بندوبست کرو۔
دو ہی دن گزرے سورج غروب ہونے کے بعد دو اجنبی اس یہودی ربی کے یہاں گئے جس نے اسحاق کو بھیجا تھا ،انہوں نے نہایت پر اثر انداز میں ربی کو بتایا کہ اسحاق اور آسر نام کے دو آدمی اور میرا نام کی ایک لڑکی وہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کیلئے انہیں بھیجا گیا تھا ،لیکن ایک جگہ پھنس گئے ہیں جہاں وہ پھنسے ہیں وہاں کے سرکردہ آدمی اپنے ہی ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب تک ربی اور پادری خود نہیں آئیں گے وہ ان تینوں کو نہیں چھوڑیں گے، وہ لوگ ہماری پوری مدد کریں گے لیکن ربی اور پادری کا وہاں تک جانا ضروری ہے۔
ان دو آدمیوں نے زبان کے ایسے جادو چلائے کے ربی اور پادری ان کے ساتھ چل پڑے، ان دو آدمیوں نے انہیں اپنے گھوڑوں پر سوار کر لیا تھا اور خود پیدل چل رہے تھے۔
وہ ایک اور راستے سے دو پہاڑیوں کے درمیان سے اس جگہ پہنچے جہاں پانی جمع تھا اور ایک مگرمچھ نے میرا کا پاؤں پکڑ کر اسے پانی میں گھسیٹا تھا ،اس رات بھی ہزارہا لوگوں کا ہجوم پہاڑی سے کچھ دور اس امید پر بیٹھا تھا کہ ستارہ چمکے گا اور پیغمبر کا ظہور ہوگا لیکن اس رات حسن بن صباح نے یہ ناٹک نہیں دکھانا تھا۔
پانی کے قریب جاکر ان دونوں آدمیوں نے ربی اور پادری کو یہ کہہ کر گھوڑوں سے اتارا کے گھوڑے پانی پی لیں، جونہی یہ دونوں مذہبی پیشوا گھوڑوں سے اترے ان دونوں آدمیوں میں سے ایک نے پادری کو اور دوسرے نے ربی کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ پانی میں جا پڑے، دونوں بوڑھے تھے جوان آدمیوں سے دھکّے کھا کر وہ پانی میں خاصا دور چلے گئے تھے۔
پانی میں ایک ہڑبونگ سی مچی مگرمچھ بڑی تیزی سے آئے اور ربی اور پادری کو جبڑوں میں جکڑ کر اس قدرتی تالاب کی تہہ میں لے گئے ،تھوڑی ہی دیر میں ان دونوں کے جسموں کے ٹکڑے مگرمچھوں کے پیٹ میں جا چکے تھے، اور وہ دونوں اجنبی گھوڑوں پر سوار شاہ در کے راستے پر جا رہے تھے۔
اس خطے کے لوگ ابلیسیت کے جال میں آ گئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*