🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر نو⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس رات کے بعد یحییٰ اور زریں بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے وجود میں تحلیل ہوتے چلے گئے ۔
تیراندازی، تیغ زنی، وغیرہ کے مقابلوں کا جو میلہ لگا تھا وہ ختم ہو چکا تھا ،جیتنے والے انعام و اکرام لے کر چلے گئے تھے، خیموں کی بستی اجڑ گئی تھی۔
یحییٰ ان چاروں لڑکیوں کو تیر اندازی کی مشق کروا رہا تھا ،لڑکیوں کے تیر ٹھکانے پر لگتے تھے۔
یحییٰ اور زریں کے دلوں میں جو تیر اتر گئے تھے ان سے ابھی دوسرے ناواقف تھے، زریں کوئی پردہ دار لڑکی تو نہ تھی کہ اس کے باہر نکلنے پر پابندی ہوتی، وہ ہر رات یحییٰ کے کمرے میں پہنچ جاتی اور دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو کر بیٹھے رہتے اور دلوں کی باتیں کرتے رہتے تھے۔
یحییٰ کی جذباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ وہ جب لڑکیوں کو تیر اندازی کے لئے باہر لے جاتا تو صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ زریں میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہا ہے۔
وہ جو کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپے نہیں رہ سکتے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ،زریں کی ساتھی لڑکیاں بھانپ گئیں کہ یہ معاملہ کچھ اور ہی ہے، انہوں نے احمد بن عطاش کو بتایا ،احمد بن عطاش کچھ پریشان سا ہو گیا، احمد کو معلوم نہیں تھا کہ یحییٰ نے یہ راز چھپا کر نہیں رکھا، جس وقت لڑکیاں احمد بن عطاش کو یہ بتا رہی تھی بالکل اسی وقت یہ یہ حسن بن صباح کے پاس بیٹھا اسے اپنے دل کی یہی بات بتا رہا تھا۔
یحییٰ حسن بن صباح سے متاثر ہی نہیں تھا بلکہ مرعوب تھا ،اس مرعوبیت میں ڈر اور خوف نہیں تھا بلکہ احترام اور تقدس کا تاثر تھا جو اس پر طاری ہو جایا کرتا تھا، یہ مرعوبیت ایسی تھی جیسے حسن بن صباح نے اس کو ہپناٹائز کر رکھا ہو ،،حسن اس کے ساتھ دینی امور پر باتیں کرتا تھا ،ان باتوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ حسن راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اس کا درجہ نبیوں سے ذرا سا ہی کم ہے۔
پیر و مرشد !،،،،،یحییٰ نے ایک روز اس کے سامنے بیٹھے ہوئے کہا ۔۔۔وادی شاہ در کے خاندان کی ایک لڑکی زریں اسے دل و جان سے چاہتی ہے، اور اس کے اپنے دل میں بھی اس لڑکی کی محبت پیدا ہو گئی ہے، اور ہم دونوں تنہائی میں بیٹھ کر پیار و محبت کی باتیں کیا کرتے ہیں، کیا میں بددیانتی اور دھوکہ دہی کا ارتقاب تو نہیں کر رہا؟
نہیں !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اگر اس محبت کا تعلق جسموں کے بجائے روحوں کے ساتھ ہے تو یہ گناہ نہیں۔
یہ ہماری روحوں کا معاملہ ہے پیر و مرشد!،،،،، یحییٰ نے کہا ۔
پھر یہ ٹھیک ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔
ادھر احمد بن عطاش نے زریں کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ یحییٰ کے ساتھ اس کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں، اور ان کی ملاقاتیں کس قسم کی ہیں۔
یہ شخص مجھے اچھا لگتا ہے۔۔۔ زریں نے کہا۔۔۔ اور میرا اس کے ساتھ جو تعلق ہے وہ مرد و عورت والا تعلق نہیں۔
میری بات غور سے سنو ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔میں سمجھ گیا ہوں ،میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس محبت کو گناہ کہا کرتے ہیں جو فرائض سے ہٹادے۔
میں فرائض سے نہیں ہٹی۔۔۔ زریں نے کہا۔۔۔ جہاں آپ مجھ میں یہ خامی دیکھیں کہ میں اپنا کوئی ایک بھی فرض بھول گئی ہوں تو مجھے جو سزا چاہیں دے دیں۔
تم نے شاید سزا کا نام رسمی طور پر لیا ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے قدرے با رعب آواز میں کہا۔۔۔ لیکن تمہیں بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ سزا کیا ہوگی ۔
میں جانتی ہوں ۔۔۔۔زریں نے کہا ۔۔۔مجھے قتل کر دیا جائے گا۔
قتل نہیں کیا جائے گا۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔تمہیں قید خانے میں ان قیدیوں میں پھینک دیا جائے گا جو کئی کئی سالوں سے وہاں بند ہیں، اور وہ سب وحشی آدمی ہیں ،پھر تمہیں اس کال کوٹھری میں بند رکھا جائے گا جہاں زہریلے کیڑے مکوڑے رہتے ہیں، یہ مت بھولنا کے تم نے دوسروں کو پھانسنا ہے خود پھنس کے بیکار نہیں ہو جانا۔
اسی رات احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا، انہیں نقصان یہ نظر آ رہا تھا کہ محبت کے نشے میں ایک قیمتی اور تجربے کار لڑکی ضائع ہوجائے گی، حسن بن صباح نے اس لڑکی کو اپنے کمرے میں بلایا، زریں جب اس کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر کچھ اور ہی تاثر تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دن گزرتے چلے گئے یحییٰ اور زریں ایک دوسرے میں گم ہو گئے، یحییٰ نے ان لڑکیوں کو تیر اندازی میں تاک کر دیا تھا، اور اب اسے کہا گیا تھا کہ انہیں شہسوار بنا دے ،شہر کے لوگ دیکھتے تھے کہ پانچ گھوڑے ہر صبح جنگل کو نکل جاتے ہیں ،ایک پر یحییٰ اور باقی چار پر لڑکیاں سوار ہوتی تھیں، صبح کے گئے ہوئے یہ گھوڑے آدھا دن گزار کر واپس آتے تھے، یحییٰ کبھی کبھی زریں کو اپنے ساتھ رکھ کر باقی لڑکیوں سے کہتا کہ وہ دور کا چکر لگا کر آئیں، لڑکیاں یہ رپورٹ احمد بن عطاش کو دے دیا کرتی تھیں۔
ادھر مرو میں سلطان ملک شاہ اور اس کا کوتوال ہر روز انتظار کرتے تھے کہ یحییٰ کی طرف سے کوئی پیغام آئے گا، لیکن ہر روز انہیں مایوسی ہوتی تھی، یحییٰ کے ذہن سے نکل ہی گیا تھا کہ وہ شاہ در کیوں آیا تھا اور اسے ایک روز واپس بھی جانا ہے ،وہ اپنے ساتھی سنان سے ہر روز ملتا اور اسے کہتا تھا کہ ان لوگوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ یہ کیا ہیں، دو چار دنوں بعد کچھ پتہ چل جائے گا۔
زریں کے اظہار محبت میں اچانک دیوانگی پیدا ہوگئی، اس نے یحییٰ کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس میں اب انتظار کی تاب نہیں رہی اور یحییٰ اسے اپنے ساتھ لے چلے، یحییٰ نے اسے ابھی تک نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جا رہا تھا ۔
زریں نے اس سے کئی بار پوچھا اور یحییٰ نے ہر بار اسے جذبات میں الجھا کر ٹال دیا تھا ۔
ایک رات زریں اس کے کمرے میں آئی تو اس نے اپنی چادر میں چھپائی ہوئی چھوٹی سی صراحی نکالی۔
میں آج تمہارے لیے ایک خاص شربت لائی ہوں۔۔۔۔زریں نے صراحی یحییٰ کے ہاتھ میں دے کر کہا۔۔۔ یہ احمد بن عطاش خود پیا کرتا ہے، اور صرف یہ بزرگ عالم ہے جسے کبھی کبھی پلاتا ہے ،میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ اس میں شہد ملا ہوا ہے، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس میں ایسے پھولوں کا رس ڈالا گیا ہے جو کسی دوسرے ملک میں ہوتے ہیں ،احمد کی بیویاں کہتی ہیں کہ اس نے اس شربت کا مشکیزہ بہت سے سونے کے عوض منگوایا ہے، سنا ہے یہ شربت پینے والا دو سو سال زندہ رہے تو بھی بوڑھا نہیں ہوتا ،میں چُرا کے لائی ہوں ،پی کے دیکھو۔
یحییٰ نے صراحی ہی منہ سے لگا لی اور پھر آہستہ آہستہ اس نے سارا شربت پی لیا ،اس دوران زریں اس کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں ایسے والہانہ انداز سے کرتی رہی جیسے وہ نشے میں ہو، زریں طلسم کی مانند یحییٰ پر طاری رہتی ہی تھی، لیکن اس رات یحییٰ کی جزباتی حالت کچھ اور ہی ہو گئی وہ یوں محسوس کرنے لگا جیسے اسے دنیا بھر کی حاکمیت مل گئی ہو۔
آخر ہمارا انجام کیا ہوگا یہی؟،،،، زریں نے کہا۔۔۔ کیا تم میرے ساتھ یوں ہی محبت کا کھیل کھیلتے رہو گے، تم تو اتنا بھی نہیں بتاتے کہ تم ہو کہاں کے،،،، میں کہتی ہوں کہ جہاں کہیں کے بھی ہو یہاں سے نکلو اور مجھے اپنے ساتھ لے چلو ،آج کی رات یہاں کی آخری رات ہونی چاہیے ،میں تیار ہوں مردانہ لباس پہن لونگی۔
یحییٰ نے قہقہہ لگاکر زریں کو اپنے بازوؤں میں لے لیا، اس نے اس طرح کا قہقہہ پہلے کبھی نہیں لگایا تھا، زریں نے مچل مچل کر اسے کہنا شروع کر دیا کہ وہ اسے اپنے متعلق کچھ بتائے۔
سن زریں!،،،، یحییٰ نے شگفتہ سی سنجیدگی سے کہا ۔۔۔یہ بھی سن لے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں، اب مجھے تم پر اعتبار آ گیا ہے،،،،،، میں یہاں ایک فرض ادا کرنے آیا تھا وہ ابھی ادا نہیں ہوا ،مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔
پھر مجھے بتاتے کیوں نہیں۔۔۔ زریں نے بڑی پیاری سی جھنجلاہٹ سے کہا ۔۔۔میں کئی بار کہہ چکی ہوں کہ تمہاری محبت پر میں اپنی جان بھی قربان کر دوں گی۔
میں مرو سے آیا ہوں۔۔۔ یحییٰ نے اپنے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔میں سلجوقی سلطان ملک شاہ کا جاسوس ہوں، وہاں یہ شک پایا جاتا ہے کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہے، اور یہاں شاہ در میں اہل سنت کے خلاف اسماعیلی مرکز بن گیا ہے، میں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کے اس شک میں حقیقت کتنی ہے ،یا کچھ حقیقت ہے بھی یا نہیں۔
کچھ پتہ چلا؟۔۔۔ زریں نے پوچھا۔
میں ابھی شک میں ہوں ۔۔۔یحییٰ نے جواب دیا۔۔۔ یوں کہہ لو کہ میرا شک ابھی موجود ہے، میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہے، لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص اہل سنت ہے ،اس کے ساتھ جو عالم ہے اس نے دینی مسائل کے مجھے بہت سبق دیے ہیں، اس میں مجھے اسماعیلیوں والی کوئی بات نظر نہیں آئی ،لیکن میں نے ان دونوں کو کبھی نماز پڑھتے بھی نہیں دیکھا، میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس شہر میں اسماعیلیوں کی اکثریت ہے۔
تمہارا یہ ساتھی سنان بھی جاسوس ہی ہوگا؟،،،،، زریں نے پوچھا۔
ہاں !،،،،،یحییٰ نے کہا۔۔۔ اسے میں نے دو تین دنوں بعد یہ بتا کر واپس بھیجنا ہے کہ میں نے اب تک یہاں کیا دیکھا ہے۔
یحییٰ !،،،،،زریں نے یحییٰ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کےپیالےمیں لےکر جذباتی لہجے میں کہا۔۔۔ میری ایک بات مان لو،،،،،، مرو واپس نہ جاؤ، یہاں بھی نہ رہو، چلو آگے ایران چلے چلتے ہیں ،تم جہاں جاؤ گے تمہیں وہاں کے حاکم ہاتھوں ہاتھ لیں گے ،تم جیسا تیر انداز اور شہسوار کہاں ملتا ہے ،مذہب اور فرقوں کے چکر سے نکلو ۔
میں تمہیں ایک بات صاف بتا دیتا ہوں زریں!،،،، یحییٰ نے کہا۔۔۔ میرے دل میں تمہاری جو محبت ہے اس میں کوئی دھوکا یا بناوٹ نہیں، تم میری پہلی اور آخری محبت ہو ،لیکن میں اپنے فرض کو محبت پر قربان نہیں کروں گا۔
اگر میں تمہارے سامنے کسی اور آدمی کے ساتھ چل پڑوں تو۔۔۔ زریں نے کہا۔
تو میں نظریں پھیر لونگا ۔۔۔یحییٰ نے کہا۔۔۔ اپنے فرض سے نظر نہیں ہٹاؤں گا ،سلجوقیوں نے ہزارہا جانے قربان کرکے اور خون کے چڑھاوے چڑھا کر یہ سلطنت بنائی ہے، اسے وہ سلجوقی سلطنت نہیں اسلامی سلطنت کہتے ہیں، اسلام میں کوئی فرقہ نہیں، جو مسلمان یہ کہتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی امت سے ہے وہ اگر سنت سے منحرف ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا امتی نہیں وہ کچھ اور ہے ،سلجوقی سلاطین اہلسنت والجماعت ہیں اس لئے وہ اللہ کے سچے دین کے پاسبان ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا غلام اور سلجوقی سلطان کا نمک حلال ملازم ہوں، یہ میرا ایمان ہے، اگر تم اس دعوے میں سچی ہو کہ میری محبت تمہارے روح میں اتری ہوئی ہے تو میرے فرض کی ادائیگی میں میری مدد کرو ،مجھے ان لوگوں کی اصلیت بتاؤ۔
کل ۔۔۔زریں کھڑی ہوئی اور یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔۔۔ کل اسی وقت تمہیں راز معلوم ہوجائے گا ،اور تم اپنے فرض سے فارغ ہو جاؤ گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یحییٰ پر فاتحانہ کیفیت طاری تھی وہ بہت خوش تھا کہ کل اس کا کام ختم ہو جائے گا، وہ یہاں سے ایک قیمتی راز اور ایک حسین لڑکی کو ساتھ لے کر رخصت ہوگا۔
زریں اپنے کمرے میں گئی تو پلنگ پر اوندھے منہ گر کر ایسے روئی کے اس کی ہچکی بندھ گئی۔
یہ لڑکی ایک حسینہ اور دھوکہ تھی، لیکن یحییٰ کے ساتھ اس کی محبت دھوکا نہیں تھی، اس کی محبت کا سرچشمہ اس کی روح تھی، وہ روحانی محبت کے نشے سے سرشار ہو گئی تھی ،مگر محبت ایسے بھنور میں آ گئی تھی جس سے اس کا سلامت نکل آنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔
لڑکیوں نے احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کو بتا دیا کہ زریں یحییٰ کے ساتھ عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی ہے، احمد اور حسن نے اس اطلاع سے یہ رائے قائم کی کہ زریں کے اندر انسانی جذبات ابھی زندہ ہیں ،اور اس کی ذات میں ابھی وہ عورت زندہ ہے جو مرد کی محبت کی پیاسی ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ زریں ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی جو ابھی مشکوک تھا ،حسن بن صباح عالم دین کے بہروپ میں یحییٰ کو ہر روز اپنے پاس بٹھاتا اور اسے دینی امور سمجھاتا تھا ،لیکن اس سے بات کروا کے یہ جاننے کی کوشش کرتا تھا کہ یہ شخص ہے کون؟
سلجوقیوں کا ہی آدمی تو نہیں۔۔۔ حسن کچھ جان تو نہ سکا تھا لیکن اس نے وثوق سے کہہ دیا تھا کہ یہ شخص مشکوک ہے۔
اب حسن بن صباح کو پتہ چلا کہ زریں یحییٰ کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے تو اس نے زریں کو اپنے پاس بلایا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ذہن پر قابض ہوگیا، لڑکی کی جو تربیت آٹھ دس سال عمر سے شروع ہوئی اور جوانی میں بھی جاری تھی وہ ابھر آئی اور زریں کی عقل پر غالب آ گئی۔
تم اس سے اگلوالو گی وہ کون ہے، یہاں کیوں آیا ہے؟،،،،، حسن بن صباح نے کہا۔
ہاں میں اس سے اگلواؤں گی وہ کون ہے، یہاں کیوں آیا ہے۔۔۔ زریں نے یوں کہا جیسے اس پر غنودگی طاری ہو ۔
وہ شربت تمہارے ساتھ ہوگا۔
وہ شربت میرے ساتھ ہوگا۔
اس شربت میں جو زریں صراحی میں لے کر یحییٰ کے پاس گئی تھی اس میں شہد تو ضرور ملا ہوا تھا لیکن اس میں کسی پھول کا رس نہیں تھا، اس میں حشیش ڈالی گئی تھی، اور اس میں ایک خوشبو ملائی گئی تھی، یہ شربت پینے کے بعد یحییٰ نے جو قہقہہ لگایا تھا وہ حشیش کے زیر اثر تھا، جسے وہ زریں کے حسن و شباب اور محبت کے والہانہ اظہار محبت کا خمار سمجھتا رہا، اس نشے نے اس کے سینے سے راز نکال کر زریں کے آگے رکھ دیا ۔
یحییٰ کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ اسے یہ یاد رہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی امت سے ہے، اور اہل سنت ہے، اور اسے یہ بھی یاد رہا کہ اس کا فرض کیا ہے، اور یہ جذبہ ایثار بھی زندہ رہا کہ وہ محبت کو فرض پر قربان کر دے گا، لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکا کے اس نے زریں کو اس کا فرض یاد دلادیا ہے۔ وہ یہ عزم لے کر یحییٰ کے کمرے سے نکلی تھی کہ یہ شخص فرض کا اتنا پکا ہے تو میں اپنے فرضوں کو کیوں قربان کرو؟
زریں رات بہت دیر تک روتی رہی اس کے اندر خونریز معرکہ بپا تھا، یہ اس کی ذات کے وہ حصے تھے جو ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے تھے۔۔۔۔ محبت اور فرض۔۔۔ اور اس کی تربیت!
صبح طلوع ہوتے ہی زریں نے پہلا کام یہ کیا کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کو بتایا کہ یحییٰ ابن الہادی جاسوسی کے لئے یہاں آیا ہے، اور سنان اس کا ساتھی ہے، زریں نے یحییٰ کے ساری باتیں سنائیں ،یہ بات سناتے ہوئے زریں کی زبان بار بار ہکلاتی تھی اور اس کے آنسو بھی نکل آئے، یہ یحییٰ کی محبت کا اثر تھا ،ورنہ یہ وہ لڑکی تھی جس نے ذاکر کو اپنے ہاتھوں زہر پلایا تھا۔
زریں کو اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا ،کچھ دیر بعد ایک ملازم روزمرہ کی طرح یحییٰ کے کمرے میں ناشتہ لے کر گیا، ساتھ شہد ملا دودھ تھا، سنان کو بھی ایسا ہی دودھ بھیجا گیا ،دونوں نے دودھ پیا اور کچھ ہی دیر بعد دونوں کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، پھر ان کی آنکھوں نے دنیا کا اجالا کبھی نہ دیکھا ۔
ادھر آؤ،،،،،،زریں کو آ کے دیکھو ،،،،،ایک ملازمہ زریں کے کمرے سے چیختی چلاتی نکلی۔۔۔۔ جلدی آؤ ۔۔۔زریں کو دیکھو۔
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح بھی زریں کے کمرے میں گئے، ایک تلوار زریں کے پیٹ میں داخل ہوئی اور پیٹھ سے باہر نکلی ہوئی تھی، وہ ابھی زندہ تھی ۔
تمہیں کس نے مارا ہے زریں؟،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا
میں نے خود۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔۔۔میں نے دو آدمی قتل کروائے ہیں،،، یحییٰ اور سنان ،،،اور میں نے اپنی محبت کو بھی قتل کیا ہے، میں نے اپنے آپ کو موت کی سزا دی ہے، میں خود ہی جلاد بن گئی تھی۔
زریں بھی مر گئی۔
یحییٰ اور سنان کی لاشیں بوریوں میں بند کر کے دریا میں بہا دی گئی۔
ہمیں کوئی اور ڈھنگ کھیلنا پڑے گا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔سلطان کو شک ہو گیا ہے، مجھے عبیدیوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے مصر جانا چاہیے۔
نہیں حسن !،،،،،احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔پہلے ہم دو تین اور قلعوں پر قبضہ کرلیں پھر ہماری کوشش یہ ہوگی کہ تمہیں سلطان کی حکومت میں کوئی بڑا عہدہ اور رتبہ مل جائے، پھر ہم اس سلطنت کی بنیادیں کمزور کر سکتے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*