🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چھ ب⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چھ ب⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبیدیت ایسا ہی ایک فتنہ تھا جو تیسری صدی ہجری میں اٹھا، یہ اسماعیلیوں کی ایک شاخ تھی لیکن اصل میں یہ فرقہ باطنی تھا، اور اس کے بانی پیشواؤں میں بھی ابلیسی اوصاف پائے جاتے تھے، اللہ تبارک و تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے۔
*ہَل اُنَبِّئُکُم عَلٰی مَن تَنَزَّلُ الشَّیٰطِینُ ﴿۲۲۱﴾ؕ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ  اَفَّاکٍ  اَثِیمٍ ﴿۲۲۲﴾ۙ یُّلقُونَ السَّمعَ وَ اَکثَرُہُم کٰذِبُونَ ﴿۲۲۳﴾ؕ*
"کیا میں تمہیں بتادوں کہ کس پر اترتے ہیں شیطان،اترتے ہیں بڑے بہتان والے گناہگار پر (مثل مسلیمہ وغیرہ کاہنوں کے)شیطان اپنی سنی ہوئی (جو انہوں نے ملائکہ سے سنی ہوتی ہے ) ان پر ڈالتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں (کیونکہ وہ فرشتوں سے سنی ہوئی باتوں میں اپنی طرف سے بہت جھوٹ ملا دیتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بات سنتے ہیں تو سو جھوٹ اس کے ساتھ ملاتے ہیں اور یہ بھی اس وقت تک تھا جب تک کہ وہ آسمان پر پہنچنے سے روکے نہ گئے تھے ۔)"
عبیدی فرقہ کا بانی عبیداللہ تھا جس کے متعلق پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا، بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ کوفہ کا رہنے والا تھا اور کچھ نے لکھا ہے کہ وہ حمص کے علاقے کے ایک گاؤں مسلمیہ کا رہنے والا تھا ،اس کے باپ کا نام محمد حبیب تھا اور وہ اپنے قبیلے کا سرکردہ فرد تھا۔
محمد حبیب کو ایک خواہش پریشان رکھتی تھی، وہ عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکا تھا ،اس کا بیٹا عبید اللہ جوان ہو گیا تھا اور وہ دیکھ رہا تھا کہ عبیداللہ میں ایسے ابلیسی اوصاف پائے جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے ہر ڈھنگ کھیل سکتا ہے، اس کی خواہش یہ تھی کہ تھوڑے سے علاقے میں اس کی اپنی سلطنت قائم ہو جائے۔
محمد حبیب نے اعلان کردیا کہ اس کا بیٹا مہدی آخر الزماں ہے، یہ بڑی لمبی داستان ہے کہ عبید اللہ اور اسکے باپ نے کیسے کیسے ڈھنگ کھیل کر اور کیسی کیسی فریب کاریوں سے اپنے پیروکار بنا لیے اور ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
عبیداللہ نے 270 میں مہدویت کا اعلان کیا تھا، اور اس نے اپنے فرقے کو فرقہ مہدویہ کا نام دیا تھا، اس نے 278 ہجری میں حج کیا اور وہاں اپنے مہدی موعود ہونے کا پروپیگنڈہ ایسے انداز سے کیا کہ بنو کنانہ کے پورے قبیلے نے اسے امام مہدی تسلیم کر لیا۔
محمد حبیب نے اپنے بیٹے کو مہدی تسلیم کرانے کے لئے قبیلوں کے سرداروں کو بڑی خوبصورت لڑکیوں اور سونے چاندی کے انعامات کے ذریعے بھی پھانسا تھا، جب اس فرقے کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو مہدیوں نے خفیہ اور پراسرار قتل کا سلسلہ شروع کردیا، قتل اہلسنت کے علماء کو کیا جاتا تھا اور پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ قاتل کون ہے؟ چونکہ اس فرقے کی مخالفت اہلسنت کی طرف سے ہوتی تھی اس لئے وہی قتل ہوتے تھے ،جہاں کہیں سے بھی مخالفانہ آواز اٹھتی تھی وہاں کے چیدہ چیدہ آدمی ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہو جاتے تھے۔
تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ ایک روز ایک سرکردہ فرد ابن طباءالباعلوی  عبیداللہ سے ملنے گیا، عبیداللہ دربار لگائے بیٹھا تھا وہاں کچھ امراء بھی تھے اور عام حاضرین کی تعداد خاصی تھی۔
 اے عبیداللہ !۔۔۔۔علوی نے کہا ۔۔۔میں تجھے مہدی آخر الزماں تسلیم کرلونگا پہلے تو یہ بتا کہ تیرا حسب ونسب کیا ہے، اور کونسا قبیلہ تیری پہچان ہے؟ 
عبیداللہ نے اپنی نصف تلوار نیام سے کھینچی اور بولا ۔۔۔یہ ہے میرا نصب۔۔۔۔ پھر وہ ایک تھیلی میں ہاتھ ڈال کر سونے کی بہت سی اشرفیاں نکال کر دربار کے حاضرین کی طرف پھینک کر بولا۔۔۔ اور یہ ہے میرا حسب۔
درباری اشرفیوں پر ٹوٹ پڑے ابن طباءالباعلوی وہاں سے چپ چاپ باہر نکل گیا۔
یہ تھی عبید اللہ کی کامیابی کی اصل وجہ، اس کے علاوہ اس نے اس قسم کے عقیدے رائج کر دیے کہ ایک آدمی بیک وقت اٹھارہ عورتوں کے ساتھ شادی کرسکتا ہے، جبکہ اسلام نے صرف چار بیویوں کی اجازت دی تھی اور وہ بھی مخصوص حالت میں، اس کا دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ حکومت کا جو سربراہ ہو ،اور مذہب کا جو امام ہو وہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے، اور اس سے اس کے اعمال پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی، ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ امام کسی عورت سے یہ کہہ دے کہ تم فلاں کی بیوی ہو تو اس عورت پر یہ فرض ہوجاتا تھا کہ وہ اس کی بیوی بن جائے۔
 اس قسم کے عقائد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبید اللہ نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لئے ان کے دل پسند عقائد تخلیق کیے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ عبیداللہ کے عروج و زوال کی داستان بہت لمبی ہے، اسے اختصار سے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ جو اصل داستان ہے اس کی طرف پوری توجہ دی جاسکے۔
 عبیداللہ کے باپ محمد حبیب نے سوچا کہ اپنی سلطنت قائم کرنے کے لیے کوئی ایسا آدمی چاہیے جو ذہنی طور پر بہت ہی ہوشیار ہو اور فریب کاریوں میں خصوصی مہارت رکھتا ہو۔
 اسے عبیداللہ کے پیروکار میں سے ایک شخص بہت ہی ذہین ہوشیار اور چالاک نظر آیا اس کا نام ابو عبداللہ تھا، محمد حبیب نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا اور اسے اپنے ڈھنگ کی ٹریننگ دینے لگا، پھر اسے بتایا کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے۔
ابوعبداللہ اپنے ایک بھائی ابو عباس کو بھی ساتھ لے آیا اور انہوں نے ایک منصوبہ تیار کر لیا۔
عبیداللہ نے باقاعدہ فوج تیار کردی، ابوعبداللہ حج پر گیا اور وہاں ایسی اداکاری کی کہ لوگوں نے اسے بہت بڑا عالم سمجھ لیا، وہاں سے اسے بہت زیادہ حمایت ملی۔
سلطنت قائم کرنے کے لئے ان لوگوں نے سوچا کہ شمالی افریقہ بڑی اچھی جگہ ہے، وہ بربروں کا علاقہ تھا بربر ضعیف الاعتقاد تھے اور جنگجو بھی تھے، مختصر یہ کہ ابو عبداللہ اور ابو عباس شمالی افریقہ گیا اور وہاں لوگوں کو سبز باغ دکھا دکھا کر ایک فوج بنالی، یہ سب لوگ مال غنیمت کے لالچ میں ان بھائیوں کے ساتھ ہو گئے، بہرحال انہوں نے وہاں ایک اپنی سلطنت قائم کر لی۔
عبیداللہ بھی وہاں چلا گیا یہ شخص مکمل طور پر ابلیس بن چکا تھا ، اس نے ابو عبداللہ اور ابو عباس کی کوششوں سے بنی ہوئی سلطنت پر قبضہ کرلیا اور وہاں باقاعدہ حاکم بن گیا۔ دونوں بھائی اس کے خلاف ہو گئے، ابوعباس نے تو صاف کہنا شروع کردیا کہ عبید اللہ مہدی نہیں ہے، وہاں کے ایک شخص نے جو شیخ المشائخ تھا عبیداللہ سے کہا کہ وہ اگر مہدی ہے تو کوئی معجزہ دکھائے، عبیداللہ نے تلوار نکالی اور اس عالم دین کی گردن کاٹ دی۔
ابو عبداللہ اور ابو عباس نے یہ اسکیم بنائی کے عبید اللہ کو قتل کر دیا جائے، اس محفل میں جس میں یہ اسکیم بنی تھی عبیداللہ کے جاسوس بھی موجود تھے، یہ فیصلہ ایک بڑے ہی طاقتور ابوزاکی کہ گھر میں ہوا تھا۔
عبیداللہ نے ابو زاکی کو طرابلس کا گورنر بنا کر بھیج دیا ،اور اس کے ساتھ ہی وہاں اپنے آدمی درپردہ بھیجے، انہیں یہ کام سونپا کہ طرابلس میں ابوزاکی کو اس کے کمرے میں جب وہ سویا ہوا ہو قتل کر دیا جائے۔
عبید اللہ کے حکم کی تعمیل ہوئی ابوزاکی گورنر تھا وہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ جس عبیداللہ نے اسے یہ رتبہ دیا ہے وہ اسے قتل بھی کرا دے گا، وہ سکون اور اطمینان سے سو گیا پھر کبھی بھی نہ جاگا ،اس کے محافظ دستے میں سے ایک آدمی اس کے کمرے میں گیا اور اس کا سر اس کے جسم الگ کر دیا اور پھر اس کا سر عبید اللہ کے پاس بھیج دیا، اس کے بعد عبیداللہ نے اسی طرح ابو عبداللہ اور ابو عباس کو بھی قتل کروا دیا۔
 انہیں بھائیوں نے یہ سلطنت قائم کی تھی۔
عبیداللہ نے اپنی بیعت کے لئے ہر طرف مبلغ پھیلا دئیے لیکن بہت کم لوگوں نے اس کی طرف دھیان دیا، بلکہ مخالفت شروع ہوگئی۔ عبیداللہ نے قتل و غارت کا طریقہ اختیار کرلیا، اہل سنت کے علماء کو سب سے پہلے قتل کیا گیا، پھر جہاں کہیں اشارہ ملتا کہ یہ گھر اہلسنت کا ہے اس گھر کے تمام افراد کو قتل کر دیا جاتا ان کا مال و اسباب عبیداللہ کے پیروکاروں میں تقسیم کردیا جاتا ،وہ دراصل اسماعیلیت کی تبلیغ کر رہا تھا جو شخص اس کے زیادہ سے زیادہ مرید بناتا تھا اسے وہ جاگیر عطا کرتا ،اور بعض کو اس نے زرو جواہرات سے مالامال کردیا۔
عبیداللہ نے طاقت جمع کرکے مصر پر حملہ کیا ایک ہی معرکے میں سات ہزار عبیدی مارے گئے، لیکن عبیداللہ نے ہمت نہ ہاری ایک بار اس کے لشکر میں کوئی ایسی وبا پھوٹ پڑی کے انسان اور گھوڑے مرنے لگے، عبیداللہ نے کچھ عرصے کے لئے مصر کی فتح کا ارادہ ترک کردیا ،آخر 356 ہجری میں اس نے مصر فتح کر لیا ،مصر کے سب سے بڑے شہر قاہرہ کی بنیاد اسی نے رکھی تھی، عبیداللہ تو مر گیا اس کا خاندان  567 ہجری تک مصر پر حکومت کرتا رہا ،حسن بن صباح کے دور میں عبیدی ہی مصر پر حکومت کر رہے تھے، تاریخوں میں لکھا ہے کہ تاتاریوں نے بغداد میں مسلمانوں کا اتنا قتل عام نہیں کیا تھا جتنا عبیداللہ نے اہلسنت کا کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ پرستی کے ایک اور فتنے کا ذکر کردیا جائے، اس فرقے کا نام قرامطی تھا ،اور اس کا بانی ابو طاہر سلیمان قرامطی تھا، اس کا باپ ابوسعید جنابی 301 ہجری میں اپنے ایک خادم کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا ،ابو طاہر قرامطی بھائیوں میں چھوٹا تھا ،اس میں حسن بن صباح والے اوصاف موجود تھے، اس نے اپنے بڑے بھائی سعید پر ایسے ظلم و ستم کئے کہ اسے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مفلوج کردیا اور خود باپ کا جانشین بن گیا۔
اس خاندان کی اپنی ایک سلطنت تھی جس میں طائف، بحرین، اور ہجر جیسے اہم مقامات شامل تھے، ابو طاہر نے نبوت کا اعلان کردیا، اس شخص کے متعلق بھی مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ اسلام اور اہلسنت کے لئے تاتاریوں اور عبیداللہ سے بھی زیادہ خطرناک قاتل ثابت ہوا۔ دس سال تک ابوطاہر اپنی نبوت کی تبلیغ کرتا رہا اور فوج بھی تیار کرتا رہا، اس کا ارادہ بصرہ کو فتح کرنے کا تھا، آخر ایک رات اس نے ایک ہزار سات سو آدمی اپنے ساتھ لئے اور بصرہ پر حملہ کر دیا، وہ اپنے ساتھ بڑی لمبی لمبی سیڑھیاں لے گیا تھا۔
یہ سیڑھیاں شہر پناہ کے ساتھ لگا کر حملہ آور اوپر گئے اور شہر میں داخل ہو گئے، حملہ غیر متوقع اور اچانک تھا ابو طاہر کے آدمیوں نے شہر کی سوئی ہوئی مختصر سی فوج کو قتل کرنا شروع کردیا، لوگ باہر کو بھاگنے لگے ابو طاہر کے حکم سے شہر کے دروازے کھول دیے گئے اور لوگ کھلے دروازوں کی طرف بھاگے، ہر دروازے کے ساتھ قرامطی کھڑے تھے انہوں نے لوگوں کا قتل عام شروع کردیا، عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر الگ ساتھ لے گئے، تمام گھروں اور سرکاری خزانے میں لوٹ مار کی اور اس طرح بصرہ شہر کو تباہ وبرباد کر کے اور اس کی گلیوں میں خون کے دریا بہا کر قرامطی اپنے مرکزی شہر ہجر کو چلے گئے۔
اسی سال ابو طاہر نے حاجیوں کے قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کردیا ، قرامطی صرف لوٹ مار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ قتل عام بھی کرتے تھے، انہوں نے حج سے واپس آنے والے حاجیوں کو لوٹ کر قتل کیا ،اس طرح ہزارہا حاجی شہید ہو گئے۔
خلیفہ وقت نے قرامطیوں کی سرکوبی کے لیے لشکر بھیجے، قرامطی اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ انہوں نے ہر جگہ خلیفہ کے لشکر کو شکست دی اور شہروں میں داخل ہو کر شہریوں کا قتل عام کیا ،خلیفہ اپنے لشکر کو کمک بھیجتا رہا لیکن ابو طاہر کا لشکر اتنا تیز اور ہوشیار تھا کہ وہ خلیفہ کے لشکر کے ہاتھ نہیں آتا تھا، قرامطیوں میں سرفروشی اور جاں نثاری اس وجہ سے تھی کہ ابو طاہر تمام مال غنیمت ان کے حوالے کر دیتا تھا اور شہروں سے جتنی جوان عورتیں پکڑی جاتی تھیں وہ بھی انہی کو دے دیتا تھا، لشکر کو شراب پینے کی کھلی اجازت تھی، حادثہ یہ کہ قرامطی اپنے آپ کو اہل اسلام کہتے تھے اور ابو طاہر نبی بنا ہوا تھا۔
مسلمانوں یعنی اہلسنت کی کمزوری یہ تھی کہ خلافت خلفائے راشدین جیسی مخلص اور دیندار نہیں تھی، خلافت اقتدار کی کرسی یا شہنشاہیت کا تخت بن گئی تھی، خلافت کے لشکر میں خلفاء راشدین کے دور والا جذبہ اور اللہ کی راہ میں شوق شہادت نہیں رہا تھا ،ایک وہ وقت تھا کہ مجاہدین کے چالیس ہزار کے لشکر نے آتش پرستوں کے ایک لاکھ 20ہزار کے طاقتور لشکر کو ہر میدان میں شکست دے کر سلطنت فارس کو ختم کر دیا تھا، مگر اب خلیفہ کے دس ہزار فوجی ایک ہزار قرامطیوں پر غالب آنے سے معذور تھے۔
ابلیسی طاقتیں اسلام کا قلعہ قمع کرنے کے لئے تیز و تند طوفان کی طرح اٹھ آئی تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہاں بھی ابلیس کا رقص دیکھئے۔
ابو طاہر نے شہر ہجر کو اپنا دارالحکومت بنایا اور وہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر کروائی، اس کا نام دارالہجرت رکھا گیا ،جب مسجد مکمل ہوگئی تو ابو طاہر قرامطی اسے دیکھنے کے لئے اندر آیا۔
میرے قرامطیوں!،،،،، اس نے ممبر پر کھڑے ہو کر اعلان کیا۔۔۔ اصل اسلام کے علمبردار تم ہو ،وہ مسلمان نہیں جو قرامطی نہیں، اور جو مجھے نبی نہیں مانتا۔
 خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اب حج مکہ میں نہیں یہاں ہجر میں ہوا کرے گا، اس کے لیے ضروری ہے کہ حجر اسود کو مکہ سے اٹھا کر یہاں اس مسجد میں رکھا جائے۔
ہم تیرے شیدائی ہیں۔۔۔ ایک آدمی نے اٹھ کر کہا۔۔۔ ہمیں یہ بتا کہ وہ پتھر جسے ہم حجراسود کہتے ہیں یہاں کس طرح لایا جائے گا؟،،، اہلسنت ہمیں یہ پتھر اٹھانے کی ہمت نہیں کرنے دیں گے، پھر ہم کیا کریں گے؟ 
کیا تمہاری تلواریں کُند ہو گئی ہیں؟۔۔۔ ابو طاہر نے کہا۔۔۔ ہم نے کہاں کہاں اہلسنت کا خون نہیں بہایا، کیا تم خانہ کعبہ میں ان منکروں کا خون بہانے سے گریز کرو گے، ہم اس سال حج کے موقع پر مکہ جائیں گے اور خانہ کعبہ کی وہ حاجت پوری کر دیں گے کہ اہلسنت آئندہ مکہ کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 319 ہجری میں ابو طاہر قرامطی نے مکہ معظمہ کا رخ کیا، حاجی وہاں پہنچ چکے تھے بلکہ وہ بیت اللہ کے طواف میں مصروف تھے، بعض نماز پڑھ رہے تھے، ابو طاھر سب سے پہلے گھوڑے پر سوار تلوار ہاتھ میں لئے مسجد حرام میں داخل ہوا، اس نے شراب منگوائی اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے شراب پی ۔
مورخ لکھتے ہیں کہ جب ابو طاہر گھوڑے پر بیٹھا شراب پی رہا تھا اس کے گھوڑے نے مسجد میں پیشاب کردیا۔
دیکھا تم سب نے۔۔۔ ابو طاہر نےقہقہہ لگا کر کر بڑی بلند آواز سے کہا ۔۔۔ میرا گھوڑا بھی مجھے اور میرے عقیدے کو سمجھتا ہے۔
مسجد حرام میں کچھ مسلمان موجود تھے انہوں نے شور شرابہ کیا ،ادھر سے حجاج دوڑے آئے وہ سب نہتے تھے اور سب نے احرام باندھ رکھے تھے، ابو طاہر کے اشارے پر قرامطیوں نے ان کا قتل عام شروع کردیا، وہاں سے ابو طاہر خانہ کعبہ میں گیا اور وہاں بھی حجاج کا قتل عام شروع کر دیا، ابو طاہر کے حکم سے خانہ کعبہ کا دروازہ اکھاڑ دیا گیا۔
 میں خدا ہوں۔۔۔ ابو طاہر نے جو گھوڑے پر سوار تھا متکبرانہ اعلان کیا۔۔۔ اور خدا میری ذات میں ہے، تمام خلقت پر میری بندگی فرض ہے ،،،،،،پھر اس نے کہا ۔۔۔۔ائے گدھوں!،،،، تمہارا قرآن کہتا ہے کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے اسے امن مل جاتا ہے، کہاں ہے وہ امن؟،،، میں نے جسے چاہا زندہ رہنے دیا اور جسے چاہا اسے خون میں نہلا دیا ۔
ایک حاجی آگے بڑھا اور اس نے ابو طاہر کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔
 اے منکر دین !،،،،اس شخص نے ابوطاہر سے کہا ۔۔۔تو نے قرآن کی یہ آیت غلط پڑھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے اسے امن دو اور اس پر ہاتھ نہ اٹھاؤ۔
اس شخص کے عقب سے ایک تلوار حرکت میں آئی اور اس کا سر کٹ کر دور جا پڑا۔
ابو محلب امیر مکہ تھا اسکے پاس اتنی فوج نہیں تھی کہ وہ قرامطیوں کا مقابلہ کرتا، وہ اپنی چند ایک آدمیوں کو لے کر ابو طاہر کے پاس گیا، یہ سب لوگ تلواروں سے مسلح تھے، ابو محلب نے ابو طاہر سے کہا کہ وہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور مسلمان بھی، لیکن وہ خدا کے اس گھر کی اس طرح بے حرمتی کر رہا ہے۔
حجاج کے قتل سے ہاتھ کھینچ لے ابوطاہر! ۔۔۔۔ابو مہلب نے کہا ۔۔۔اللہ کے عذاب سے ڈر کہیں ایسا نہ ہو کہ تجھے اسی دنیا میں اسکی سزا مل جائے۔
اس شخص کو عذاب الہی دکھا دو ۔۔۔ابو طاہر نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ بہت سے قرامطی ابو محلب اور اس کے آدمیوں پر ٹوٹ پڑے، ابو محلب اور اس کے آدمیوں نے جو سب کے سب تلواروں سے مسلح تھے جم کر مقابلہ کیا لیکن وہ اتنے تھوڑے تھے کہ اتنی زیادہ آدمیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
کعبہ معلّٰی کے اوپر میزاب نصب تھا جو سونے سے مرصع تھا، ابو طاہر نے حکم دیا کے اوپر چڑھ کر میزاب اتار کر اس کے گھوڑے کے قدموں میں رکھا جائے۔
ایک قرامطی کعبة اللہ پر چڑھا، تاریخ میں ایک شخص محمد بن ربیع بن سلیمان کا نام آیا ہے وہ دور کھڑا دیکھ رہا تھا ،اس نے بعد میں مسلمانوں کو بتایا کہ جب قرامطی کعبہ معلیٰ پر چڑھا تو محمد بن ربیع نے ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ۔۔۔یا اللہ تیری بردباری کی کوئی حد نہیں، کیا تیری ذات باری اس شخص کو بھی بخش دے گی؟
 محمد بن ربیع نے لوگوں کو بتایا کہ وہ قرامطی جو کعبہ معلٰی پر چڑھ گیا تھا نہ جانے کیسے اوپر سے سر کے بل گرا اور گرتے ہی مر گیا ،محمد بن ربیع کا ہی بیان ہے کہ ابو طاہر نے بڑے غصے میں ایک اور قرامطی کو کعبہ پر چڑھنے کا حکم دیا، یہ آدمی اوپر پہنچنے والا ہی تھا کہ اس کا ہاتھ چھوٹ گیا اور وہ بھی سر کے بل گر پڑا اور مر گیا۔
ابو طاہر اور زیادہ غصے میں آگیا اس نے ایک اور قرامطی کو حکم دیا کہ وہ اوپر جائے۔ تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ تیسرا شخص ایسا خوف زدہ ہوا کہ اوپر چڑھنے کی بجائے ایک ہی جگہ کھڑا تھر تھر کانپنے لگا اور اچانک باہر کی طرف بھاگ گیا۔
ابو طاہر پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس پر خاموشی طاری ہو گئی ،کچھ دیر کعبہ معلٰی کو دیکھتا رہا ،صاف پتا چلتا تھا کہ اس کے خیالوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے، لیکن ابلیس کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ وہ اچانک آگ بگولہ ہو گیا، اس نے حکم دیا کہ غلاف کعبہ کو کھینچ کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے جائیں،
قرامطی غلاف کعبہ پر ٹوٹ پڑے اور تلواروں سے غلاف کعبہ کو کاٹ کاٹ کر اس کے ٹکڑے سارے لشکر میں تقسیم کردیئے۔
 ابو طاہر نے بیت اللہ کا سارا خزانہ اپنے قبضے میں لے لیا ۔
جو حجاج قتل عام سے بچ گئے تھے انہوں نے بغیر امام کے حج کا فریضہ ادا کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابوطاہر حجر اسود کو اپنے دارالحکومت ہجر لے جانا چاہتا تھا ۔
 رات کا وقت تھا بچے کھچے حجاج ابھی وہیں تھے، کسی ذریعے سے انہیں پتہ چل گیا کہ ابوطاہر حجر اسود اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔
حجاج کے جذبہ کو دیکھئے انہوں نے رات ہی رات اتنے وزنی پتھر کو وہاں سے اٹھایا اور مکہ کی گھاٹیوں میں لےجاکر چھپا دیا، یہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا ایک تو پتھر بہت وزنی تھا اور دوسرا جان کا خطرہ بھی تھا، وہاں ہر طرف قرامطی موجود تھے، وہ دیکھ لیتے تو ان تمام حجاج کے جسموں کے ٹکڑے اڑا دیتے، ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پتھر اٹھا لے جانا اور غائب کر دینا ایک معجزہ تھا۔
صبح طلوع ہوئی ابو طاہر پھر خانہ کعبہ میں آن دھمکا اور حکم دیا کہ حجر اسود اٹھا لو۔
 پتھر وہاں نہیں ہے ۔۔۔کسی قرامطی نے پتھر کی جگہ خالی دیکھ کر ابو طاہر سے کہا۔
وہ بہت وزنی پتھر تھا ۔۔۔ابو طاہر نے کہا۔۔ مجھے مت بتاؤ کہ کوئی انسان اسے اٹھا کر لے گیا۔
اس کے کانوں سے پھر یہی آواز ٹکرائی کے پتھر وہاں نہیں ہے ،تب اس نے خود جا کر دیکھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پتھر وہاں نہیں ہے، اس نے قہر و غضب سے حکم دیا کے پتھر کو تلاش کیا جائے، حجاج وہاں سے جانے کی تیاریاں کر رہے تھے اور کچھ جا بھی چکے تھے، قرامطیوں نے چند ایک حجاج سے پوچھا کہ پتھر کہاں ہے جس کسی نے لاعلمی کا اظہار کیا اسے قتل کر دیا گیا۔
 تلاش کرتے کرتے پتھر مل گیا ،ابو طاہر نے اسی وقت پتھر ایک اونٹ پر لدوایا اور ہجر کی طرف روانگی کا حکم دیدیا ۔
یہ واقعہ بروز دو شنبہ ذوالحجہ 317 ہجری کا ہے ۔
ابو طاہر نے چشمہ زمزم کی جگہ کو بھی مسمار کروا دیا، بعض مورخ لکھتے ہیں کہ وہ چھ دن مکہ معظمہ میں رہا اور بعض نے گیارہ دن لکھے ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب مصر میں عبیداللہ کا طوطی بول رہا تھا اور وہ مہدی موعود بنا ہوا تھا ،وہ اس کے عروج کا زمانہ تھا، عجیب بات ہے کہ ابو طاہر قرامطی بھی اس کے اس دعوے کو تسلیم کرتا تھا کہ وہ مہدی آخرالزّماں ہے۔ ہوسکتا ہے وہ عبید اللہ کی طاقت سے ڈرتا ہو اور اسے خوش رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہو سکتا تھا کہ وہ اسے مہدی آخرالزّماں مان لے۔
ابو طاہر نے حجر اسود کو مکہ سے لاکر اپنی بنائی ہوئی مسجد دار الہجرۃ کے غربی جانب رکھا ،اور عبید اللہ کے نام ایک پیغام لکھوا کر بھیجا ،اس میں اس نے عبید اللہ کو لکھوایا کہ میں نے حکم دیا ہے کہ خطبے میں آپ کا نام لیا جائے، میں نے اپنی سلطنت میں آپ کے نام کا خطبہ جاری کردیا ہے۔
اس نے اس پیغام میں عبیداللہ کی عقیدت کا اظہار بڑے جذباتی انداز میں کیا اور پھر لکھا کہ اس نے مکہ میں کس طرح تباہی مچائی ہے، اور خانہ کعبہ کے اندر اور مکہ کی گلیوں میں اہل سنت کے خون کی ندیاں بہا دی ہیں، اس نے اس پیغام میں اہلسنت کو اہل فساد اور اہل ذلت لکھا۔
اسے توقع تھی کہ عبیداللہ اس کے اس پیغام سے بہت خوش ہوگا ،لیکن اس کا قاصد پیغام کا جواب لے کر آیا تو ابو طاہر حیران رہ گیا۔ عبیداللہ نے لکھا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہاری ان بد اعمالیوں پر تمہیں خراج تحسین پیش کروں، تو نے خانے کعبہ کی توہین کی اور اتنی مقدس جگہ میں مسلمانوں کا خون بہایا، نہ جانے کہاں کہاں سے جو حجاج آئے تھے انہیں قتل کیا، اور پھر حجر اسود کو اکھاڑ کر لے گیا، تو نے یہ بھی نہ سوچا کہ حجراسود اللہ کی کتنی بڑی امانت ہے جسے ایک جگہ سنبھال کر رکھا گیا تھا، جماعت عبیدیہ تجھ پر کفر اور الحاد کا فتویٰ عائد کرتی ہے، ہم تمھیں کوئی انعام نہیں دے سکتے۔
 ابو طاہر نے یہ پیغام پڑھا تو آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اعلان کر دیا کہ کوئی قرامطی عبیداللہ کو مہدی آخرالزماں نہ مانے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پورے دس سال---- 317 ہجری سے 327 ہجری تک---- فریضہ حج ادا نہ کیا جا سکا۔ کوئی بھی حج کعبہ کو نہ گیا ،اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حج کو جانے والے قرامطیوں سے ڈرتے تھے اور دوسری یہ کہ وہاں اب حجراسود نہیں تھا ،ایک شخص ابو علی عمر بن یحییٰ علوی ابو طاہر کا گہرا دوست تھا ایک روز وہ ابو طاہر کے پاس گیا۔
غور کرو ابوطاہر!،،،، ابو علی عمر نے کہا ۔۔۔دس سالوں سے حج بند ہے، اس کی وجہ تم خوب جانتے ہو، صرف تمہارے ظلم و تشدد کی وجہ سے مسلمان فریضہ حج ادا نہیں کرسکتے، اس کے نتیجے میں لوگ تمہاری عقیدت سے منحرف ہوتے چلے جا رہے ہیں، میں نے سوچا ہے کہ حج کرنے والوں کو امن کا یقین دلاؤ اور ان پر محصول مقرر کر دو، پانچ دینار فی اونٹ محصول وصول کرو۔
ابو طاہر کو یہ تجویز اچھی لگی اس سے ایک تو اس کی ساکھ بحال ہوتی تھی، اور دوسرے اسے بےشمار رقم محصول کے ذریعے حاصل ہو رہی تھی ،اس نے ہر طرف قاصد دوڑا دیے کہ وہ اعلان کرتے جائیں کہ آئندہ حج پر کوئی مداخلت نہیں ہوگی، اور حجاج کو امن کی ضمانت دی جاتی ہے، اس نے محصول کا اعلان بھی کروایا۔
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ خلیفہ کے حاجب محمد بن یعقوب نے بھی ابو طاہر کو لکھا تھا کہ حجاج پر ظلم و تشدد چھوڑ دو، اور حجراسود واپس کردو ،اس نے یہ فیصلہ کیا کہ جو علاقہ اس وقت تمہارے قبضے میں ہے وہ تمہارا ہی رہے گا اور اس سلسلے میں تمہیں خلافت اپنا دشمن نہیں سمجھے گی۔
ابو طاہر نے اس کے جواب میں یہ یقین دہانی کرا دی کہ آئندہ قرامطی فریضہ حج کی ادائیگی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے، لیکن ابو طاہر نے حجر اسود واپس دینے سے انکار کر دیا ،ابو طاہر نے جو محصول نافذ کیا تھا یہ دراصل آج کے دور کا جگہ ٹیکس تھا، خلافت اتنی کمزور تھی کہ وہ ابو طاہر کا ہاتھ روکنے سے قاصر تھی۔
ابو طاہر کو توقع تھی کہ لوگ حجر اسود کی خاطر ہجر آئیں گے اور پھر آہستہ آہستہ حج ہجر میں ہی ہوا کرے گا ،لیکن کوئی بھی اہل سنت ان دس سالوں میں وہاں نہ گیا ، خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر کو پچاس ہزار درہم پیش کئے کہ اس رقم کے عوض حجر اسود واپس کر دے، لیکن ابو طاہر نے صاف انکار کر دیا۔
اس کے بعد خلیفہ مطیع باللہ کچھ عرصے بعد مسند خلافت پر آیا تو اس نے تیس ہزار دینار ابو طاہر کو پیش کئے کہ وہ حجر اسود واپس کر دے، ابو طاہر نے یہ سودا قبول کرلیا ،صرف ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ ابو طاہر نے حجر اسود اللہ کے نام پر واپس کیا تھا اور لیا کچھ بھی نہیں تھا، یہ تحریر اس وجہ سے مشکوک لگتی ہے کہ یہ بیان ایسے شخص کا ہے جو اسماعیلی تھا۔
10محرم 339 ہجری ابو طاہر کا ایک آدمی جس کا نام شبیر بن حسین قرامطی تھا حجراسود لے کر مکہ مکرمہ پہنچا دن شنبہ تھا، اسی روز حجراسود کو اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا جہاں سے اسے اکھاڑا گیا تھا ،خلیفہ نے اس کے اردگرد چاندی کا حلقہ چڑھوادیا اس چاندی کا وزن 14 سیر تھا ،حجر اسود چار روز کم 22 سال ابو طاہر قرامطی کے قبضے میں رہا۔
اللہ کی قدرت ملاحظہ فرمائیں۔
 جب حجر اسود مکہ سے ہجر لے جایا گیا تھا تو اس کے وزن کے نیچے چالیس اونٹ اس سفر کے دوران مر گئے تھے، وہ اس طرح کہ پہلے یہ پتھر ایک اونٹ پر لادا گیا وزن خاصا زیادہ تھا جو یہ اونٹ کچھ فاصلے تک ہی برداشت کر سکا آخر یہ اونٹ بیٹھ گیا اور پھر ایک پہلو پر لیٹ گیا اور مر گیا ،پھر یہ دوسرے اونٹ پر لادا گیا یہ اونٹ بھی کچھ فاصلے طے کرکے گرا اور مر گیا ،اسی طرح چالیس اونٹ اس پتھر تلے مرے اور پتھر ہجر تک پہنچا، لیکن یہی پتھر جب ہجر سے مکہ کو واپس لایا گیا تو صرف ایک اونٹ وہاں سے مکہ تک لے آیا، پتھر کا وزن اتنا ہی تھا اور اسے لانے والا اونٹ کوئی غیرمعمولی طور پر طاقتور نہ تھا، یہ خدا کا ہی معجزہ تھا اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر میں اس پتھر کی اہمیت اور تقدس کتنی زیادہ ہے۔
 اللہ نے ابو طاہر کو بڑی لمبی رسی دی تھی، حجر اسود کی واپسی کے بعد یہ رسی ختم ہو گئی، حجر اسود مکہ معظمہ پہنچا اور ادھر ابو طاہر چیچک کے مرض میں مبتلا ہو گیا ،مورخ لکھتے ہیں کہ وہ اس مرض میں بہت دن زندہ رہا لیکن اس کی حالت جو کوئی بھی دیکھتا تھا وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا اور وہاں سے بھاگتا، بعض عقل والے قرامطی اس کی یہ حالت دیکھ کر تائب ہوگئے اور اہلسنت کے عقیدے میں واپس آگئے۔
 ابوطاہر چیختا اور چلاتا تھا ،اور ایک روز اس کی چیخیں اور اس کا تڑپنا بند ہو گیا ،اور وہ اپنے پیچھے اپنے گھر میں اپنے گلے سڑے جسم کی بدبو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
آج بھی کہیں کہیں قرامطی پائے جاتے ہیں۔ کسی وقت انہوں نے ملتان کو اپنا مرکز بنالیا تھا ،سلطان محمود غزنوی نے جب اپنے ایک حملے کے دوران ملتان پر چڑھائی کی تھی تو اسے پتہ چلا تھا کہ یہاں اکثریت قرامطیوں کی ہے، محمود غزنوی خود ایک سپاہی کی طرح لڑا تھا ،محمود غزنوی کے عتاب کا یہ عالم تھا کہ سارا دن تلوار چلاتا رہا اور اس کی تلوار کے دستے پر اتنا خون جم گیا تھا کہ اس کا دایاں ہاتھ بڑی مشکل سے تلوار کے دستے سے اکھاڑا گیا تھا ،ملتان کی گلیوں میں بارش کے پانی کی طرح خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔ محمود غزنوی نے قرامطیوں کا خاتمہ کردیا تھا، اور قرامطیوں نے اہلسنت کا جو خون بہایا تھا اس کا انتقام لے لیا تھا، اس کے بعد کم از کم ملتان میں قرامطی پھر کبھی نہ اٹھ سکے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح قلعہ شاہ در میں احمد بن عطاش کے پاس بیٹھا تھا ،احمد بن عطاش جس طرح اس قلعے کا والی بنا تھا وہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، وہ حسن بن صباح کو بتا چکا تھا کہ اس نے اس قلعے پر کس طرح قبضہ کیا ہے۔
لیکن حسن!،،،،، ابن عطاش نے کہا۔۔۔ لوگ کہتے ہونگے کہ احمد بہت بڑا فریب کار تھا جو قلعے کا والی بن گیا ہے، میں کہتا ہوں کہ جو طاقت تم میں ہے وہ مجھ میں نہیں ہے، تم ان چند ایک لوگوں میں سے  ہو جنہیں خدا ایک خاص طاقت دے کر دنیا میں بھیجتا ہے، میں نے تمہیں عبید اللہ کی بات سنائی ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا صرف اس کا باپ تھا جس نے اس کی پشت پناہی کی تھی، دیکھ لو وہ مصر کا حکمران بنا اور آج بھی مصر عبیدیوں کے قبضے میں ہے، ابو طاہر قرامطی بیوقوف آدمی تھا وہ اپنی عقل کی حدود سے آگے نکل گیا تھا۔
استاد محترم !،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔یہ تو میں جانتا ہوں کہ مجھ میں کوئی مافوق الفطرت طاقت ہے، لیکن مجھے ایسی رہنمائی کی ضرورت ہے جس سے میں جان سکوں کہ یہ طاقت کیا ہے ،اور اسے کس طرح استعمال کروں ؟
وہ طاقت تم اپنے ساتھ لے آئے ہو ۔۔۔احمد ابن عطاش نے کہا۔
وہ تو میں جانتا ہوں ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ وہ میرے اندر موجود ہے۔
نہیں حسن !،،،،احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔میں تمہارے اندر کی طاقت کی بات نہیں کر رہا، میں اس لڑکی کی بات کر رہا ہوں جو تمہارے ساتھ آئی ہے، کیا نام ہے اس کا؟،،،،، فرح،،،، کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ تم اس لڑکی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے؟ 
ہاں استاد محترم !،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں اس لڑکی کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
کہتے ہیں عورت مرد کی بہت بڑی کمزوری ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔وہ غلط نہیں کہتے، حسین عورت بہت بڑی طاقت ہے، دلکش عورت ایک نشہ ہے، عورت کی دلربائی نے پتھر دل بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں، تم اس طاقت کو استعمال کرو گے۔
میں نے تمہیں سجاح بن حارث اور مسلیمہ کی کہانی سنائی ہے، سجاح نے اتنا بڑا لشکر کس طرح اکٹھا کر لیا تھا، اس نے کئ قبیلوں کے سرداروں کو کس طرح اپنا پیروکار بنا لیا تھا، صرف اس لیے کہ وہ حسین عورت تھی وہ نشہ بن کر آدمی پر طاری ہو جاتی تھی۔
لیکن استاد محترم !،،،،حسن بن صباح نے مسکرا کر کہا ۔۔۔وہ تو ایک مرد سے مار کھا گئی تھی۔
نہیں حسن !،،،احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔مسلیمہ نے اسے تین روز اپنے خیمے میں رکھ کر اسے بیوی بنائے رکھا تھا، یہ اس کی بہت بڑی کمزوری تھی، اور اگر غور کرو تو اس کے بعد ہی مسلیمہ کا زوال شروع ہوا تھا۔ میں تمہیں طریقہ بتاؤں گا کہ جو طاقت تم اپنے ساتھ لائے ہو اس سے تمہیں خود کس طرح بچنا ہے، اور اسے کس طرح استعمال کرنا ہے ۔
کیا آپ مجھے علم سحر بھی سکھائیں گے؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
ہاں !،،،،احمد بن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ وہ تو میں نے تمہیں سکھانا ہی ہے، لیکن یہ خیال رکھو حسن !،،،سحر کے علاوہ کچھ پراسرار علوم اور بھی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی ایک علم کے بھی ماہر ہو جاؤ تو معجزے کر کے دکھا سکتے ہو، لیکن بھروسہ اسی طاقت پر کرنا ہے جو تمہاری اپنی ہے، اپنی روحانی قوتوں کو بیدار کرو، تو پھر تم دیکھوگے کہ معجزے کس طرح ہوتے ہیں، لیکن ہمیں کسی اور قوت کی ضرورت ہے۔
احمد بن عطاش نے اس کے ساتھ تقریباً وہی باتیں کیں جو اس سے پہلے ابن عطاش اور پھر ایک اور درویش اس کے ساتھ کر چکے تھے۔ احمد ابن عطاش نے اسے ایک بات یہ بتائی کہ اس علاقے میں جو چھوٹے بڑے قلعے ہیں ان پر قبضہ کرنا ہے۔
میں نے تمہیں کچھ تربیت دینی ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ اور تمہیں تیار کرنا ہے کہ کسی طرح سلجوقیوں کی حکومت میں داخل ہو جاؤ ،وہاں تمہیں کوئی عہدہ مل جائے پھر وہاں تم نے حاکموں کے حلقے میں اپنے ہم خیال پیدا کرنے ہیں، اور پھر سلجوقیوں کی جڑیں کاٹنی ہے۔
اسی رات سے احمد بن عطاش نے حسن بن صباح اور فرح کو تربیت دینی شروع کر دی اور انہیں اس طرح کے سبق دینے لگا کہ اپنے ہم خیال کس طرح پیدا کرنے ہیں، اس نے دیکھا کہ فرح کچھ جھینپی ہوئی سی تھی۔
دیکھ لڑکی !،،،،احمد بن عطاش نے فرح سے کہا ۔۔۔ہم نے تجھے ہر کسی مرد کا کھلونا نہیں بنانا، ذرا سوچ پودے کے ساتھ ایک پھول ہے اسے نہ جانے کتنے لوگ سونگھتے ہیں، لیکن پھول کی خوشبو اور تازگی ختم نہیں ہوتی، ہم نے تجھے ایسا ہی پھول بنانا ہے لیکن ہم تجھے ایسا پھول نہیں بننے دیں گے جسے شاخ سے توڑ لیا جاتا ہے، شاخ سے ٹوٹا ہوا پھول مرجھا جاتا ہے یا پتی پتی ہو کر مسلا جاتا ہے، میں تجھے یہ طریقہ بتاؤں گا کہ تو کس طرح شاخ کے ساتھ رہے گی اور تیری خوشبو اور تازگی ہمیشہ زندہ رہے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی