سائبر جنگ: تخیلات سے حقائق تک!
اس مضمون میں ہم پہلے سائبر حملوں کی مختلف تعریفیں بیان کریں گے، دوسرے حصے میں ہم مختصراً اس جنگ کی تاریخ کا جائزہ لیں گے اور آخر میں اسرائیل کے لبنان کے خلاف کیے گیے سائبر حملوں کے مقاصد کو بیان کیا جائے گا۔
درحقیقت ورچوئل وار یا سائبر وار جنگ کی وہ قسم ہے جس میں جنگ کے دونوں فریق کمپیوٹر نیٹ ورک کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور جنگ کو ورچوئل اسپیس میں جاری رکھتے ہیں۔
ڈیجیٹل یا ورچوئل جنگ سب سے نئی تکنیک ہے جس کے ذریعے مختلف ممالک اپنی طاقت و قوت دکھانے اور دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اس سے کام لے رہے ہیں، اس شعبے میں الیکٹرانک سیکورٹی، الیکٹرانک سپورٹ اور الیکٹرانک حملے اہم اقدامات ہیں۔
لغوی معنی کے لحاظ سے مختلف زبانوں میں ’’سائبر‘‘ کو مجازی اور غیر محسوس کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، سائبر ماحول کی تعریف بھی اس طرح کی گئی ہے:
وہ مجازی اور غیر محسوس فضا، جو بین الاقوامی نیٹ ورکس میں موجود ہے۔
اس فضا میں افراد، ثقافتوں، قوموں، ملکوں اور زمین کے بارے میں تمام معلومات موجود ہیں اور ہر چیز جو جسمانی طور پر زمین پر موجود ہے اس کے بارے میں تمام معلومات ڈیجیٹل طور پر صارفین کے لیے قابل رسائی ہیں اور یہ سائبر سپیس کمپیوٹر اور بین الاقوامی نیٹ ورکس کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔
ٹیکنالوجی میں ترقی کی رفتار اتنی بڑھ گئی ہے کہ کبھی کبھی اس کی انتہا تک پہنچنا ناممکن معلوم ہوتا ہے، دوسری طرف سافٹ ویئرز ہماری زندگیوں میں اتنے دخیل ہوچکے ہیں کہ یہ ہماری روزمرہ کی سرگرمیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔
سائبر سیکورٹی کی اہمیت کو سیکورٹی کی حالیہ خلاف ورزیوں میں دیکھا جا سکتا ہے جو ’یاہو‘ سے لے کرامریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ٹریژری تک پیش آچکی ہیں، ان میں سے ہر حملہ غفلت اور حفاظتی طریقہ کار پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب ہوا، ان اداروں کو مالی اور معنوی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں سائبر حملوں کی سطح میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی، تمام ادارے چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے آئے روز حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ جس کا مقصد حساس معلومات کو چرانا یا ان کے کاموں میں خلل ڈالنا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے بہت سے مفید مواقع پیدا کیے ہیں، لیکن اس رفتار کے نتیجے میں کچھ مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں ، جسے سنبھالنے کے لیے درست حکمت عملی کی ضرورت ہے، آج سائبر ٹولز کے بارے میں عوامی بیداری میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ٹولز تخریبی پہلو بھی ساتھ لیے ہوئے ہیں، جس سے اس کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔
یقین کرنا مشکل ہے کہ ورچوئل وار اور ورچوئل ہتھیار صرف اور صرف ایک نظریہ تھا، جس کا تعلق سکیورٹی ماہرین سے تھا اور ۲۰۰۹ء تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ صرف جرائم پیشہ افراد ہی تخریبی مقاصد کے لیے پروگرام بناتے ہیں جن کا مقصد مالی فوائد کا حصول ہے نہ کہ دوسرے ممالک کے راز چرانا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ دیگر مقاصد تک پہنچ چکا ہے۔
لبنان کے خلاف اس جنگ میں اسرائیل کا مقصد:
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ سائبر وار عسکری جنگ سے زیادہ خطرناک ہے اور کسی بھی فوجی حملے میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز پر حملے کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ لہذا خبروں اور معلومات کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ لبنان میں مقیم گروہ اسرائیل کے خلاف سائبر حملے کرنا چاہتے تھے۔
لبنان کی حزب اللہ تنظیم نے اپنے کارکنوں کو موبائل فون سے دور رہنے کا حکم دے رکھا تھا کیونکہ سائبر حملوں کا پہلا ہدف عام موبائل فون ہیں، یہ کام کرنے کے بعد انہوں نے اگلے مرحلے یعنی آپس میں رابطوں کے لیے متبادل تلاش کرنا تھا، کیوں کہ کمانڈ اینڈ کنٹرول میں کمیونیکیشن بہت ضروری ہے۔
یوں ہی ہوا کہ اس گروپ نے چند ماہ قبل نئے پیجرز خریدے تھے، جو تمام جنگجوؤں میں تقسیم کیے گئے تھے، اسرائیل نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور پیجرز پرایسی زبردست فریکوئنسی بھیجی کہ ان کی بیٹری لیول اس قدر بڑھ گئی کہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں موجود پیجرز پھٹ گئے۔
ایسے حملوں کے برے نتائج:
درحقیقت مختلف ممالک میں اس طرح کے حملوں کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ تکنیکی آلات کی کوئی سیکیورٹی نہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہوا کہ یہ اوزار جنگ کے لیے اہم ذرائع ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا اس ٹیکنالوجی کے خلاف کھڑی ہو، اسے عوام کو قتل کرنے کے بجائے ان کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے، ضروری ہے کہ یہ جنگ مزید نہ پھیلے۔
لبنان میں ہونے والی ہلاکتیں صرف لبنان تک محدود نہیں تھیں بلکہ شام تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اگر دنیا اس معاملے پر خاموش رہی تو یہ جنگ قانونی شکل اختیار کر لے گی اور پوری دنیا اسے استعمال کرے گی، آخر کار اس سے کوئی جگہ محفوظ نہیں رہے گی، کیونکہ ٹیکنالوجی خاص کر نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہر جگہ ضرورت ہے لیکن اگر ٹیکنالوجی جنگ کا ہتھیار بن گئی تو پھر دنیا میں امن و سلامتی کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔