ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الاعراف آیت نمبر 59
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۵۹﴾
ترجمہ:
ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا (٣٥) چنانچہ انہوں نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ یقین جانو مجھے سخت اندیشہ ہے کہ تم پر ایک زبردست دن کا عذاب نہ آکھڑا ہو۔
تفسیر:
35: اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کی پیدائش اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات کے درمیان ایک ہزار سال سے کچھ زیادہ کا فاصلہ ہے لیکن محقق علماء نے ان روایات کو مستند نہیں سمجھا۔ حقیقی فاصلے کا یقینی علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات قرآن کریم سے واضح ہوتی ہے کہ اس طویل عرصے کے دوران بت پرستی کا رواج بہت بڑھ گیا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی بہت سے بت بنا رکھتے تھے، جن کے نام سورة نوح میں مذکور ہیں۔ سورة عنکبوت (14:29) میں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک اس قوم کو حق کی تبلیغ فرمائی۔ اور سمجھانے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا۔ کچھ نیک بخت ساتھی جو زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے، ان پر ایمان لائے، لیکن قوم کی اکثریت نے کفر ہی کا راستہ اختیار کیے رکھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے، لیکن جب وہ نہ مانے، تو انہوں نے بد دعا دی۔ اور پھر انہیں ایک شدید طوفان میں غرق کردیا گیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعے اور ان کی قوم پر آنے والے طوفان کی سب سے زیادہ تفصیل سورة ہود (25:11 تا 49) اور سورة نوح (سورت نمبر 71) میں آئے گی۔ اس کے علاوہ سورة مومنون (23:23) سورة شعراء 105:26) اور سورة قمر (9:54) میں ان کا واقعہ اختصار سے بیان ہوا ہے دوسرے مقامات پر ان کا صرف حوالہ دیا گیا ہے۔