ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الاعراف آیت نمبر 142
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَ اَصۡلِحۡ وَ لَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۱۴۲﴾
ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا (کہ ان راتوں میں کوہ طور پر آکر اعتکاف کریں) پھر دس راتیں مزید بڑھا کر ان کی تکمیل کی (٦٤) اور اس طرح ان کے رب کی ٹھہرائی ہوئی میعاد کل چالیس راتیں ہوگئی۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ : میرے پیچھے تم میری قوم میں میرے قائم مقام بن جانا، تمام معامات درست رکھنا اور مفسد لوگوں کے پیچھے نہ چلنا۔
تفسیر: 64: فرعون سے نجات پانے اور سمندر عبور کرلینے کے بعد کچھ واقعات اس جگہ بیان نہیں ہوئے، ان کی کچھ تفصیل سور مائدہ (20:50 تا 26) میں گذر چکی ہے۔ ان آیات کے حواشی میں ہم نے یہ تفصیل بقدر ضرورت بیان کردی ہے۔ اب یہاں سے دو واقعات بیان فرمائے جا رہے ہیں جو وادی تیہ (صحرائے سینا) میں پیش آئے جہاں بنی اسرائیل کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے چالیس سال تک مقید کردیا گیا (جس کا واقعہ سورة مائدہ میں گزارا ہے) اس دوران انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں کوئی آسمانی کتاب لا کردیں جس میں ہمارے لیے زندگی گزارنے کے قوانین درج ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ کوہ طور پر آکر تیس دن رات اعتکاف کریں۔ بعد میں کسی مصلحت سے یہ مدت بڑھا کر چالیس دن کردی گئی۔ اسی اعتکاف کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف عطا فرمایا، اور تورات عطا فرمائی جو تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔