کوئی کہنے لگا کہ "مؤرخ لکھے گا کہ مسجد میں سب دیوبندی، وہابی، بریلوی وغیرہ میں بٹے ہوتے تھے جبکہ سینماء ہال میں سب ایک ہوتے تھے "۔۔
میں نے کہا،
جی ہاں بالکل،
مؤرخ جب راوی کی یہ بات نقل کرے گا تو ساتھ ہی یہ لکھے گا کہ مؤرخ نے راوی سے اسی کی مناسبت سے مزید بات سننے کی کوشش بھی کی،
کہ شائد راوی اب مزید کہ دے:
کہ بالکل اسی طرح باہر جو لوگ مارکسٹ، سوشلسٹ اور کیپیٹلسٹ وغیرہ گروہوں میں بٹے ہوتے تھے وہ بھی سینماء میں ایک ہوتے تھے،
شائد کہ راوی کہ دے کہ اسی طرح جو لوگ باہر انصافین، نون لیگی، پیپلز پارٹی، الطاف کے فداکاروں وغیرہ میں بٹے ہوتے تھے وہ بھی سینماء میں ایک ہوتے ۔۔۔
شائد کہ راوی یہ مزید اضافہ بھی کردے کہ جو لوگ باہر پنجابی، پٹھان، بلوچ وغیرہ کی عصبیتوں میں بٹ کر نفرتوں کو ہوا دے رہے ہوتے تھے وہ بھی سینماء میں ایک ہوتے تھے ۔۔۔
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
لیکن مؤرخ کا بڑھاپا قریب آگیا ہوگا، اس کی قلم ٹوٹنے پہ آگئی ہوگی، پر راوی کی زبان میں ایسے آبلے پڑ گئے تھے اور بغض اسلام کی ایسی مہر دل پہ لگ گئی تھی کہ وہ تو فقط اپنے نفس کا کھوٹ نکالنے کے لئے اس قسم کے نکتہ بیان کرتا تھا،
تاکہ اہل مذہب سے دوری کا بہانہ مل سکے اور وہ آزادانہ اپنی نفس کی پرستش کا جواز فراہم کرسکے، اگر تو یہ دیگر نکات بھی بیان کرتا پھر تو بات اس کے اپنے گلہ میں ہی پڑ جانی تھی ۔۔۔
مزید اگر مؤرخ میں ذرا بھی حق گوئی کا مادہ ہوگا تو شائد وہ اسی راوی کی اس روایت پہ حاشیہ لکھ دیتا کہ راوی نے اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسی بات کردی تھی،
وگرنہ سینماء ہال میں موجود لوگ بھی مختلف قسم کے تفرقوں کے فلٹرز سے ہوتے ہوئے اس ایک سینماء ہال میں اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں جیسا کہ ہندوستانی، انگلش، پاکستانی وغیرہ فلمیں پسند کرنے والوں کا فلٹر،
اس کے بعد اس میں بھی ہیرو اور ایکٹرس کے پسند و ناپسند کرنے والوں کا فلٹر وغیرہ ۔۔۔
تو میرے بھائی، مؤرخ کو بیچ میں لانے سے پہلے سوچ لو،
اگر تو مؤرخ نے جرح کرنے والوں کی جرح بھی اس قسم کی بےتکی باتوں پہ چھاپ دی تو تاریخ کی کتب میں اس قسم کے راوی فقط ایک مذاق بن کر رہ جائنگے۔