ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الاعراف آیت نمبر 164
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ اِذۡ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہُمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾
ترجمہ: اور (وہ وقت انہیں یاد دلاؤ) جب انہی کے ایک گروہ نے (دوسرے گروہ سے) کہا تھا کہ : تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کر رہے ہو جنہیں اللہ یا تو ہلاک کرنے والا ہے، یا کوئی سخت قسم کا عذاب دینے والا ہے ؟ (٨٢) دوسرے گروہ کے لوگوں نے کہا کہ : یہ ہم اس لیے کرتے ہیں تاکہ تمہارے رب کے حضور بری الذمہ ہوسکیں اور شاید اس (نصیحت سے) یہ لوگ پرہیزگاری اختیار کرلیں۔ (٨٣)
تفسیر: 82: دراصل ان لوگوں کے تین گروہ ہوگئے تھے، ایک گروہ مسلسل نافرمانی پر کمر باندھے ہوئے تھا دوسرا گروہ شروع میں انہیں سمجھاتا رہا اور جب نہ مانے تو مایوس ہو کر بیٹھ گیا تیسرا گروہ مایوس ہونے کے بجائے بدستور انہیں نصیحت کرتا رہا، اب دوسرے گروہ نے تیسرے گروہ سے کہا جب یہ لوگ مسلسل نافرمانی پر کمر باندھے ہوئے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آنے والا ہے اس لئے ان کو سمجھانا وقت ضائع کرنا ہے۔ 83: يیہ تیسرے گروہ کا جواب ہے اور بڑا عارفانہ جواب ہے، انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھنے کی دو وجہیں بیان کیں، ایک یہ کہ ہمارے نصیحت کرتے رہنے کا پہلا مقصد تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری پیشی ہو تو ہم یہ کہہ سکیں کہ یا اللہ ہم اپنا فریضہ ادا کرتے رہے تھے اس لئے ہم ان کے جرائم سے بری الذمہ ہیں اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہم اب بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ ہماری بات سن لے اور گناہ سے باز آجائے، اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ جواب خاص طور پر نقل فرما کر ہر مسلمان کو متنبہ فرمایا ہے کہ جب معاشرے میں نافرمانی کا دور دورہ ہوجائے تو ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچالے، بلکہ دوسروں کو راہ راست کی دعوت دینا بھی اس کی ذمہ داری ہے جس کے بغیر وہ مکمل طور پر بری الذمہ نہیں ہوسکتا، اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حق کے ایک داعی کو کبھی مایوں ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے ؛ بلکہ اس امید کے ساتھ اپنا پیغام پہنچاتے رہنا چاہیے کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ بات سمجھ جائے۔