🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چھ الف⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح اس جگہ پہنچ گیا جہاں سے اس نے اپنے تاریخی سفر کا آغاز کرنا تھا ۔
ابلیس اس کا ہمسفر اور ابلیس ہی اس کا میر کارواں تھا۔
حسن بن صباح ایک انسان تھا،،،،،،تن تنہا،،،،اکیلا انسان،،،،، سلاطین سلجوقی سلطنت اسلامیہ کا ایک فرد جس کی حیثیت ایک عام اور گمنام آدمی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھی وہ کسی قبیلے کا سردار نہیں تھا اس کے پاس کوئی لشکر نہیں کوئی فوج نہیں تھی، دو چار آدمی بھی اس کے ساتھ نہیں تھے، جو تیغ زن اور تیر انداز ہوتے، وہ خود بھی تو شمشیر زن اور شہسوار نہیں تھا ،اس کے پاس صرف ایک طاقت تھی اور وہ تھی ابلیسیت۔
اس ایک آدمی نے اسلام کی عمارت کو بھونچال کے جھٹکوں کی طرح ہلا ڈالا ،اور ثابت کردیا تھا کہ ابلیسی طاقتیں خدائی طاقت کو چیلنج کر سکتی ہیں، یہ بعد کی بات ہے کہ خدائی طاقت کو چیلنج کرنے والے کیسے کیسے بھیانک انجام کو پہنچے۔
اسلام آج تک ابلیسی طاقتوں کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے اس دور کے دو سپر پاور روم اور فارس کو ریت کے گھروندے کے مانند روند کر ان ملکوں میں اللہ کی حکومت قائم کردی تھی، پھر مسلمان جدھر کا رخ کرتے ادھر بغیر لڑے قلعے ان کے حوالے کر دئیے جاتے تھے، مسلمانوں نے ملک نہیں لوگوں کے دل فتح کیے تھے، انہوں نے اپنی دہشت طاری نہیں کی دستگیری کی تھی، مظلوم اور مجبور رعایا کی دستگیری۔
آج مسلمان ابلیسی طاقتوں کے محاصرے میں آئے ہوئے ہیں، اور ان کا قتل عام ہو رہا ہے ،یہ اسلام کو ختم کرنے کے جتن ہیں لیکن ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قتل مسلمان ہو رہے ہیں اسلام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔
پروانے جل رہے ہیں چراغ روشن ہے اور روشن رہے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس چراغ کو غار حرا کی تاریکی نے نور عطا کیا تھا وہ اسلام کے جاں نثاروں کے لہو سے جل رہا ہے۔
دنیا میں مسلمان کا نام و نشان نہیں رہے گا صرف ایک مسلمان حاملہ عورت زندہ رہے یہ اس کے بطن سے جو بچہ پیدا ہو گا وہ اسلام کو زندہ رکھے گا۔
داستان گو حسن بن صباح کی داستان سنا رہا ہے لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ مختصر سا قصہ تکذیب کے علمبرداروں کا بھی سنا دیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رحلت کے ساتھ ہی نبوت کے دعوے کئے اور اپنے اپنے انجام کو پہنچے تھے۔
حسن بن صباح بھی اپنے ذہن اور دل میں نبوت کے عزائم کی پرورش کر رہا تھا، تکذیب اور ارتداد کا مقصد اسلام کی بیخ کنی تھا ،یہ سلسلہ بڑا ہی دراز ہے داستان گو اس کی جھلک پیش کرے گا تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ دین کے دشمن اسی روز سے اسلام کے درپے ہیں جس روز پہلے آدمی نے اسلام قبول کیا اور اس شہادت کا اقرار کیا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ وحدہٗ لاشریک ہے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
اسلام نے یہود و نصاریٰ اور تکذیب و ارتداد کے بڑے تیز و تند طوفان دیکھے ہیں، لیکن اللہ کا سچا دین تاقیامت زندہ و پائندہ رہنے کے لئے آیا تھا۔
حسن بن صباح کی جنت اسی اسلام دشمن سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آئیے ذرا ابلیس کا رقص دیکھ لیجیے پھر حسن بن صباح کو سمجھنا آسان ہو جائے گا ورنہ بے خبر لوگ جو اس کے صرف نام سے واقف ہیں ، اسے افسانوی کردار ہی سمجھتے رہیں گے۔
سجاح بنت حارث تمیمہ ہوازن کے قبیلہ بنو تمیم کی سرکردہ عورت تھی، عسائیت کی پیروکار تھی اور وہ دریائے دجلہ اور فرات کے اس درمیانی علاقے کی رہنے والی تھی جو الجزیرہ کہلاتا ہے، وہ عالم شباب میں تھی اور حسین بھی تھی۔
اس کے حسن کے متعلق مورخ لکھتے ہیں کہ بنو تمیم میں اس سے زیادہ حسین عورت بھی موجود تھی لیکن سجاح کی شکل و شباہت اور جسم کی ساخت میں کوئی ایسا تاثر تھا جو دیکھنے والوں کو مسحور کرلیتا تھا، اس کا زیر لب تبسم اپنا ایک اثر پیدا کرتا تھا، لیکن اس کا اصل حسن اس کے انداز دلربائی میں تھا، وہ جب بات کرتی تھی تو اس کے ہاتھوں کی حرکت آنکھوں کے بدلتے ہوئے زاویے اور گردن کے خم دوسروں کے دل موہ لیتے تھے۔
اس نے اپنے آپ میں یہ خوبی بھی پیدا کررکھی تھی کہ اس کے پاس کوئی عبادت گزار اور پارسا آ بیٹھتا تو وہ ایسے انداز سے بات کرتی کہ پارسا اسے اپنے سے زیادہ پارسا سمجھ لیتے اور اس کے عقیدت مند ہوجاتے تھے، کوئی عیاش دولت مند اس کے پاس آتا تو وہ اس عورت کو اپنی جیسی سمجھ کر اس پر دولت نچھاور کرنے لگتا ،مگر اسے اپنے جسم سے دورہی رکھتی تھی وہ شخص اس کا گرویدہ ہو جاتا اور اس کے اشاروں پر ناچتا تھا۔
کوئی امیر ہوتا یا غریب ،گنہگار ہوتا یا نیکوکار، وہ سجاح کو اپنا مونس وغمخوار سمجھتا تھا۔ مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ سجاح کاہنہ تھی، اس زمانے میں وہ آدمی جو مذہبی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ علم جوتش و نجوم کا بھی ماہر ہوتا اور آنے والے وقت کے متعلق پیشن گوئی کی اہلیت رکھتا وہ کاہن کہلاتا تھا، اور ایسی عورت کو کاہنہ کہتے تھے۔
وہ توہم پرستی اور پسماندگی کا دور تھا، لوگ جوتشوں اور نجومیوں کے آگے سجدے کرتے اور قسمت کا حال پوچھتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ کاہن بگڑی ہوئی قسمت کو سنوار سکتے ہیں۔
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری، ابن اثیر بلاذری، اور "دبستان مذاہب" کے حوالوں سے لکھتے ہیں سجاح بنت حارث فصیح اور بلیغ اور بلند حوصلہ عورت تھی، اسے تقریر و گویائی میں ید طولٰی حاصل تھا ، جدۃ فہم ،جودت طبع، اور اصابت رائے میں اپنی نظیر نہیں رکھتی تھی، ایک تو عالم شباب تھا دوسرے انداز دلربائی تھا اور تیسری یہ کہ اس نے شادی نہیں کی تھی، دولت والے، جاگیروں والے، وہ تاجر جن کا مال سینکڑوں اونٹوں پر آتا اور جاتا تھا اس کی رفاقت کے امیدوار تھے، وہ اپنا دامن بچائے رکھتی اور کسی کو مایوس بھی نہیں کرتی تھی۔
انسانی فطرت کے عالم لکھتے ہیں کہ عربی عراق کی یہ عورت کاہنہ تھی یا نہیں ،البتہ اپنے ناز و انداز سے وہ جس طرح پتھروں کو بھی موم کر لیتی تھیں اس سے یہ یقینی تاثر ابھرتا تھا کہ وہ ساحرہ ہے ،وہ اپنے مذہب عیسائیت کی پیشوا بنی ہوئی تھی، یہ اس کا ظاہری روپ تھا جو دراصل بہروپ تھا اس نے اندرونی طور پر اپنے کردار میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیے تھے، اور وہ اس مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں انسان مکمل ابلیس بن جاتا ہے ،اور اس میں مسحور کر لینے والے اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو نبوت کے متعدد دعوے دار پیدا ہو گئے، ان میں جس نے سب سے زیادہ شہرت پائی وہ مسلیمہ تھا ،اس کا نام مسلیمہ بن کبیر تھا ،رحمان یمامہ کے نام سے مشہور تھا۔
آخر وہ مسیلمہ کذاب اور کذاب یمامہ کے نام سے مشہور ہوا ،کیونکہ جھوٹ بولنے میں وہ یکتا تھا، جھوٹ بھی وہ ایسے انداز سے بولتا تھا کہ جو لوگ جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے وہ بھی اس کے جھوٹ کو سچ مان لیتے تھے۔
عجیب بات یہ ہے کہ مسلمہ کی عمر سو سال کے لگ بھگ تھی، جب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اس کی جسمانی صحت کا یہ عالم تھا کہ جسمانی طاقت کے مظاہروں میں جوان بھی اس کے مقابلے میں بعض اوقات پیچھے رہ جاتے تھے، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ خوراک اچھی ہونے کے علاوہ وہ فطری طور پر متحمل مزاج تھا، کوئی اس کے منہ پر اس کے خلاف بری بات کہہ دیتا تو اسے بھی وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتا تھا ،اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی، غصہ تو اسے آتا ہی نہیں تھا، اپنے دشمن سے بھی انتقام نہیں لیتا تھا ،بلکہ بردباری اور نرمی سے بات کرتا تھا کہ دشمن بھی اس کے قائل ہو جاتے تھے۔
ایسے کردار اور عادات کی بدولت ایک تو اسکی صحت ضعیف العمر میں بھی جوانوں جیسی رہی، اور دوسرے یہ اثرات دیکھنے میں آئے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگ اس کے گرویدہ ہوگئے۔
مسلیمہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی نبوت کا دعویٰ کردیا تھا ،لیکن اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں، بلکہ اس نے یہ دعوی کیا کہ وہ رسالت میں برابر کا شریک ہے اور اس پر بھی وحی نازل ہوتی ہے، اس نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں خط لکھا تھا کہ وہ نبوت میں آپ کا برابر کا شریک ہے، اور عرب کی سرزمین حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اور نصف اس کی ہے۔
تاریخوں میں آیا ہے کہ جب یہ خط رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے قاصد سے کہا اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔
یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ پہلا دن تھا جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے تھے ،اس کے بعد آپ کے یہ الفاظ ایک قانونی ضابطے کی صورت اختیار کرگئے، کسی کا قاصد یا ایلچی مسلمانوں کے یہاں آتا اور خلیفہ کے سامنے کیسی ہی بدتمیزی کیوں نہ کرتا اسے معاف کردیا جاتا تھا۔
مسلیمہ کے پیروکاروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچنے لگی، اس نے اپنی آیات لکھنے اور انہیں پھیلانا شروع کر دیا ،اس کا دعویٰ تھا کہ یہ آیات اس پر بذریعہ وحی آئی ہے، رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو مسلیمہ کھل کر سامنے آگیا ،اس نے معجزے دکھانے بھی شروع کر دیئے تھے۔
حیرت ہے کہ لوگ یہ دیکھتے تھے کہ مسلیمہ کوئی معجزہ دکھانے لگتا تو وہ بالکل الٹ ظاہر ہوتا پھر بھی لوگ بیعت کرتے چلے جا رہے تھے۔
داستان گو نے حسن بن صباح کی داستان شروع کی تھی لیکن بات سے بات نکلی تو بہت دور جا پہنچی، چونکہ مسلیمہ کے معجزات دلچسپی سے خالی نہیں اس لئے داستان گو چند ایک معجزات سناتا ہے۔
ایک روز مسلمہ کے پاس ایک عورت آئی اور بولی کے ان کے نخلستان میں ہریالی ختم ہو رہی ہے اور وہاں جو دو تین چشموں جیسے کنوئیں ہیں وہ خشک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یارسول!،،،،،، اس عورت نے کہا۔۔۔ ایک بار ہحزمان کا نخلستان خشک ہو گیا تھا، کیونکہ اس کے چشمے نے پانی چھوڑ دیا تھا، وہاں کے لوگ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کی کہ ان کا نخلستان خشک ہو گیا ہے، محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے چلو بھر پانی اپنے منہ میں ڈالا اور چشمے میں اگل دیا ،دیکھتے ہی دیکھتے چشمہ اس طرح پھوٹ پڑا کے وہاں جھیل بن گئی، اور خرما کے درختوں کی جو شاخیں خشک ہوکر لٹک آئی تھیں وہ ہری بھری ہوگئیں۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلیمہ کذاب نے یہ سنا تو اسی وقت اٹھا اور اونٹ پر سوار ہوکر اس عورت کے ساتھ روانہ ہو گیا، جب اس نخلستان میں پہنچا تو دیکھا کہ کنوؤں میں بہت ہی تھوڑا پانی ہے، تو اس نے حکم دیا کہ ایک کنوئیں سے تھوڑا سا پانی نکالا جائے، پانی نکالا گیا مسلیمہ نے کچھ پانی اپنے منہ میں ڈالا اور کنوؤں میں تھوڑا تھوڑا اگل دیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ کنوؤں میں جو تھوڑا تھوڑا پانی رہ گیا تھا وہ بھی خشک ہو گیا ،اور خرما کے درختوں کے جو چند ایک ٹہنیاں بھی سبز تھی وہ بھی خشک ہوکر لٹک گئی ،اس کے بعد یہ نخلستان مکمل طور پر ریگستان بن گیا۔
اس کے ساتھیوں میں نہار نام کا ایک خاص ساتھی تھا، اس نے ایک روز مسلیمہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جس کسی کے بچے کو دیکھتے ہیں اس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے ہیں ،یہ دیکھا گیا تھا کہ جس بچے کے سر پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا اس بچے میں ایسی ذہانت پیدا ہوگئی کہ لڑکپن میں پہنچنے تک وہ بچہ نامور مجاہد یا دانشور بنا۔
مسلیمہ نے یہ بات سنی تو اس نے باہر نکل کر اپنے قبیلے بنو حنیفہ کے چند ایک بچوں کو بلایا اور ان کے سروں پر اور ان کی ٹھوڑیوں پر ہاتھ پھیرا، لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا، انہوں نے دیکھا کہ ان بچوں کے سروں کے بال گرنے لگے اور سورج غروب ہونے تک یہ تمام بچے گنجے ہوگئے، ان کی ٹھوڑیوں پر ہاتھ پھیرنے کا یہ اثر ہوا کہ یہ تمام بچے زبان کی لکنت یعنی ہکلاہٹ میں مبتلا ہوگئے۔
مسلیمہ نے کسی سے سنا کہ کسی شخص کی آنکھیں خراب ہو جاتی اور وہ آشوب چشم کا مریض ہوجاتا تو رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگاتے تو آنکھوں کا جو بھی مرض ہوتا وہ رفع ہوجاتا تھا، مسلیمہ نے بھی ایک بار آنکھوں کے ایک مریض کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور وہ شخص بینائی سے ہی محروم ہو گیا۔
ایک عورت اس کے پاس یہ شکایت لے کر آئی کہ اس کی اچھی بھلی بکری نے دودھ دینا چھوڑ دیا ہے، مسلیمہ کے کہنے پر وہ عورت بکری کو لے آئے مسلیمہ نے بکری کی پیٹھ پر اور پھر تھنوں پر ہاتھ پھیرا ،نتیجہ یہ سامنے آیا کہ بکری جو چند قطرے دور دیتی تھی وہ بھی خشک ہوگئے ۔
تاریخوں میں ایک واقعے نے زیادہ شہرت پائی ہے، ایک بیوہ مسلیمہ کے پاس آئی اور کہا کہ وہ بیوہ ہے اور اس کا سہارا بیٹے تھے، لیکن زیادہ تر بیٹے مر گئے ہیں صرف دو زندہ ہیں، یا رسول !،،،دعا کریں کہ یہ دونوں بیٹے زندہ رہیں۔
مسلمان اپنے اوپر مراقبہ طاری کرکے اس بیوی کو مژدہ سنایا کہ تمہاری یہ دونوں بیٹے بڑی لمبی عمر پائیں گے، بیوہ خوشی خوشی وہاں سے گھر کو چلی، گھر پہنچتے ہی اسے اطلاع ملی کہ اس کا ایک بیٹا کنویں میں گر کر مر گیا ہے، اسی رات دوسرا اور آخری بیٹا تڑپنے لگا، کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اسے کیا ہوا ہے، صبح طلوع ہونے تک وہ بھی مر گیا۔
یہ چند ایک واقعات ہیں ایسے بہت سے واقعات تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ الٹے اثرات کو بھی لوگ معجزہ ہی کہتے تھے ،جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلیمہ ایسے انداز اور ایسے الفاظ میں ان کی تاویلیں پیش کرتا تھا کہ لوگ انھیں سچ مان لیتے تھے۔
پھر یہ کیا تھا ،یہ غیرت خداوندی تھی اللہ تبارک وتعالی نبوت کے ایک جھوٹے دعوے دار کو اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری میں کھڑا نہیں کرسکتا تھا۔
بعض اوقات ایک عام انسان بھی کوئی معجزہ کر گزرتا ہے، لیکن اس آدمی کے کردار اور اسکی فطرت کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس شخص کی روحانی قوت بیدار ہے، اس کے قابو میں ہیں اور قابو میں اس لیے ہے کہ وہ شخص دین دار اور ایماندار ہے، مسلیمہ تو تھا ہی کذاب ،یعنی جھوٹ بولنے والا، جھوٹ ایک ایسی لعنت ہے جو بنے بنائے کام بھی بگاڑ دیتا ہے، اور وہ انسان اللہ کے حضور جو دعا کرتا ہے اس کا اثر الٹا ہوتا ہے۔
مسلیمہ کی مقبولیت رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اتنی بڑھی کے اس نے ایک لشکر تیار کرلیا، خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلیمہ کی اس جنگی طاقت کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کے خلاف اعلان جہاد کیا، مسلیمہ کی لڑائیاں تین سالاروں سے ہوئی تھیں ایک تھے عکرمہ، دوسرے سے شرجیل بن حسنہ، اور تیسرے خالد بن ولید، آخر شکست تو مسلیمہ کو ہوئی تھی، لیکن اس کی جنگی طاقت کا یہ عالم تھا کہ اس نے تاریخ اسلام کے ان تین نامور سپہ سالاروں کو حیران و پریشان کر دیا تھا، کئی ایسے مواقع آئے جب یو پتہ چلتا تھا کہ فتح مسلیمہ کی ہوگی۔
یہ لڑائیاں ایک الگ اور بڑی ہی ولولہ انگیز داستان ہے، لیکن داستان گو اپنی داستان کی طرف لوٹتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بات سجاح بنت حارث کی ہورہی تھی، رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وصال کے بعد اس حسین ساحرہ کے دماغ میں آئی کے مسلیمہ اس علاقے میں نبوت کا دعوی کر کے ایک لشکر جرار بھی تیار کرسکتا ہے تو کیوں نہ وہ بھی نبوت کا دعوی کرے، اسے اپنے ان اوصاف کا پوری طرح احساس تھا جو لوگوں کے دل موہ لیا کرتے تھے، اس وقت تک اس عورت میں ابلیسی اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے جا چکے تھے۔
ایک روز اس نے اپنے قبیلے کو اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ گزشتہ رات خدا نے اسے نبوت عطا کی ہے ،اس کے ساتھ ہی اس نے ایک وحی سنادی، وہ عیسائی مذہب کی عورت تھی لیکن نبوت کے اس جھوٹے دعوے کے ساتھ ہی عیسائی مذہب ترک کر دیا ،کیونکہ وہ حسین عورت تھی اس لیے لوگ اس سے متاثر ہو گئے۔
اس میں جو اوصاف تھے اور جو کشش تھی وہ پہلے بیان ہو چکی ہے، اس کے قبیلے کے سردار اس کے امیدوار بھی تھے، سب سے پہلے ان سرداروں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی، سب سے پہلے بنو تغلب نے اس کی نبوت کو تسلیم کیا، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کا ایک سردار جو سب سے زیادہ اثر و رسوخ والا تھا سجاح کا گرویدہ ہو گیا تھا ،ایسا ہی ایک سردار ابن ہبیرہ بنو تمیم کا تھا وہ بھی سجاح کا مرید ہو گیا۔
اس وقت کا معاشرہ قبیلوں میں منقسم تھا قبیلوں پر سرداروں کا اثر و رسوخ تھا ،ایک سردار جس طرف جاتا پورا قبیلہ اس کے پیچھے جاتا تھا ،سجاح نے سب سے پہلے قبیلوں کے سرداروں کو زیر اثر لیا اور بہت تھوڑے سے عرصے میں کئی ایک قبیلوں نے اس کی نبوت کو تسلیم کر لیا یہاں تک کہ بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اسلام سے منحرف ہو کر سجاح کے پیروکار بن گئے، سجاح نے مسلیمہ کی طرح ایک لشکر تیار کرلیا اور اس نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔
اس کے اپنے ایک مشیر مالک بن نمیرہ نے اسے مدینہ پر حملہ کرنے سے روک دیا، اور ان قبیلوں سے نمٹنے کا مشورہ دیا جو اس کی نبوت کو تسلیم نہیں کر رہے تھے، اس طرح سجاح نے اچھی خاصی لڑائیاں لڑیں۔
خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سجاح کی سرکوبی کے لیے خالد بن ولید کو بھیجا، شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابی جہل بھی ساتھ تھے، خالد بن ولید کو اطلاع ملی کہ ان کا مقابلہ ایک نہیں بلکہ دو لشکروں کے ساتھ ہوگا ،چنانچہ انہوں نے پیشقدمی اس غرض سے روک لی کہ دشمن کی قوت کا اندازہ جاسوسوں سے کر لیا جائے۔
ادھر مسلیمہ نے محسوس کیا کہ وہ شکست کھا جائے گا، اس نے سجاح کو پیغام بھیجا کہ وہ اسے ملنا چاہتا ہے ،وہ دراصل سجاح کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا، اور اس کا ارادہ یہ بھی تھا کہ سجاع پر حاوی ہوکر اسے اپنے زیر اثر کرلے، وہ سجاح کی نبوت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔
سجاح نے مسلیمہ کو ملاقات کے لئے اپنے ہاں بلا لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مسلیمہ اپنے ساتھ چالیس ایسے پیروکار لے گیا جو دماغی لحاظ سے بہت ہوشیار اور دانشمند تھے، اور تیغ زنی میں بھی مہارت رکھتے تھے، مسلیمہ سن چکا تھا کہ سجاح میں کیا کیا خوبیاں ہیں اور اس کا حسن کس قدر سحر انگیز ہے۔
مسلیمہ اپنے ساتھ بڑا ہی خوشنما اور بڑے سائز کا خیمہ لے گیا تھا، شراب و کباب کا انتظام بھی اس کے ساتھ تھا ،رنگارنگ روشنی دینے والے فانوس بھی تھے، مختصر یہ کہ عیش و عشرت اور زیب و زینت کا پورا سامان مسلیمہ کے ساتھ تھا، وہ ایسے عطر اپنے ساتھ لے گیا تھا جن کی مہک مخمورکر دیتی تھی۔
مسلیمہ اور سجاح کی ملاقات ایک نخلستان میں ہوئی، مسلیمہ نے یہ تو سن رکھا تھا کہ سجاح میں ایسے اوصاف موجود ہیں جو پتھر دل مرد کو بھی موم کر دیتے ہیں، لیکن وہ سجاح کے سامنے گیا تو اس نے محسوس کیا کہ سجاح کی شخصیت اس سے زیادہ سحرانگیز ہے جتنی اس نے سنی تھی، تب اس نے محسوس کیا کہ اس حسین ساحرہ کا میدان جنگ میں مقابلہ کرنا آسان نہیں، یہ خطرہ وہ پہلے ہی سوچ چکا تھا اسی لئے وہ اپنے ساتھ یہ سارا سازوسامان لے گیا تھا، اس نے سجاح سے کہا کہ وہ اس کے خیمے میں چلے کیوں کہ یہ جگہ اس قابل نہیں کہ سجاح جیسی عورت کسی غیر سے بیٹھ کر بات کرے۔
مسلیمہ معمر اور تجربے کار آدمی تھا ،اس میں دانشمندی بھی تھی ،اس نے باتوں باتوں میں سجاح کو اتنا اونچا چڑھا دیا کہ وہ پھولی نہ سمائی اور مسلیمہ کی باتوں میں آ گئی، اسی وقت اٹھی اور مسلیمہ کے ساتھ اس کے خیمے میں چلی گئی ،اس نے جب خیمے کے اندر زیب و زینت اور آرام و آرائش کا سامان دیکھا تو اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی، اس نے محسوس کیا کہ اس کے دماغ پر کچھ اور ہی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
یہ اثرات جو اس کے دماغ پر مرتب ہو رہے تھے یہ اس عطر کی مہک کے اثرات تھے۔ یوروپی مؤرخوں میں سے دو نے لکھا ہے کہ یہ ایک خاص عطر تھا جس کی مہک ذہن میں رومانی خیالات پیدا کر دیتی تھی۔
مسلیمہ نے خیمے میں جو بستر لگوایا تھا اس پر ریشمی گدے اور پلنگ پوش تھے، اس نے سجاح کو اس بستر پر بٹھایا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا۔
میں تمہیں یہاں ایک خاص مقصد کے لیے لایا ہوں ۔۔۔مسلیمہ نے سجاح سے کہا ۔
اے نبی !،،،،،،سجاح نے کہا ۔۔۔اس خیمے میں آکر میں کچھ اور ہی محسوس کرنے لگی ہوں، یوں لگتا ہے جیسے میں یہاں سے نکلنا ہی نہیں چاہوں گی، کیا اب آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ کا مقصد کیا ہے؟
ایک خواہش ہے ۔۔۔مسلیمہ نے ایسے انداز سے کہا جیسے وہ سجاح کا گرویدہ ہو گیا ہو۔۔۔ میں تمہاری باتیں سننا چاہتا ہوں، میں نے سنا ہے کہ تمہاری زبان میں ایسی شیرنی ہے کہ دشمن بھی تمہارے قدموں میں سر رکھ دیتا ہے ۔
نہیں !،،،،سجاح نے کہا ۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ آپ کوئی بات کریں۔
تمہارے سامنے میں کیا بات کر سکتا ہوں۔۔۔ مسلیمہ نے کہا ۔
کوئی تازہ وحی نازل ہوئی ہو تو وہ سنا دیں۔۔۔ سجاح نے کہا۔
مسلیمہ نے اپنی دماغی قوتوں اور ابلیسی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے سجاح کے ساتھ کچھ باتیں کیں اور اس کے سامنے سے اٹھ کر بستر پر اس طرح بیٹھ گیا کہ اس کا جسم سجاح کے جسم کے ساتھ لگ گیا، اس نے ایک وحی سجاح کو سنائی۔
مشہور مؤرخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ یہ وحی عورتوں کے متعلق تھی، اور اس قدر فحش کے اس کا ترجمہ تحریر میں لایا ہی نہیں جاسکتا ،اس کے ساتھ ہی مسلیمہ نے سجاح کے جسم کے ساتھ آہستہ آہستہ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔
مسلیمہ نے سجاح کے چہرے پر ایک تبدیلی دیکھی اور اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ دیکھی جو پہلے اس کے ہونٹوں پر نہیں تھی، مسلیمہ کو معلوم تھا کہ اس عورت کا شباب جوبن کے انتہائی درجے پر پہنچا ہوا ہے، اور اس نے ابھی تک شادی نہیں کی، پھر اس نے یہ سوچا کہ اس عورت نے نبوت کا دعوی کردیا ہے اس لئے کوئی مرد اس کے جسم کے ساتھ تعلق رکھنے کی جرات نہیں کرتا ،اس کے تمام پیروکار اس کے جسم کو مقدس اور لائق عبادت سمجھتے ہیں ،لیکن یہ جوان عورت ہے انسان ہے اور اس میں انسانی جذبات بھی ہیں جن میں حیوانی جذبات بھی شامل ہیں، مسلیمہ کی صرف ایک فحش بات سے ہی سجاح کا چہرہ تمتما اٹھا تھا۔
مسلیمہ نے ایک اور وحی سنا دی، جو پہلی وحی سے زیادہ فحش تھی اور حیوانی جذبات کے لیے اشتعال انگیز بھی تھی، اس کے بعد مسلیمہ نے ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ اشتعال انگیز اور بڑی ہی بے حیائی کی باتیں شروع کردیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ سجاح کے حسن کی تعریفیں کرتا جاتا تھا اور یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ سجاح سچی نبی ہے۔
سجاح کو عطر کی مہک نے اور ریشمی بستر کے گداز نے اور مسلیمہ کی باتوں اور اس کے انداز نے نبوت کے درجے سے ہٹا کر ایک ایسی جوان عورت کے درجے پر گرا دیا تھا جو جذبات کی تشنگی سے مری جا رہی تھی۔ مسلیمہ اس کے خیالوں کی یہ تبدیلی اس کے چہرے اور اس کی سانسوں سے محسوس کر رہا تھا جو اکھڑی جا رہی تھی، مسلیمہ معمر آدمی تھا لیکن اس کا انداز جوانوں والا تھا، اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے اعضاء پر عمر کی طوالت نے ذرا سا بھی اثر نہیں کیا۔ سجاح نے بے قابو ہوکر مسلیمہ کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور اپنے سینے پر رکھ دیا۔
میرا ایک مشورہ مانوسجاح ۔۔۔مسلیمہ نے کہا۔۔۔ آؤ ہم شادی کر لیتے ہیں ۔
وہ کیوں ؟،،،،سجاح نے پوچھا ۔۔۔کیا آپ کو میرا جسم اتنا اچھا لگا ہے ۔
جسم کی بات نہ کرو۔۔۔ مسلیمہ نے کہا ۔۔۔نبی جسموں کے ساتھ تعلق نہیں رکھا کرتے، روح کی بات کرو، میں جانتا ہوں تمہارا جسم تشنہ ہے لیکن میرا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں نبی ہیں ،اگر ہماری فوج الگ الگ مسلمانوں کا مقابلہ کرتی رہیں تو دونوں شکست کھا جائیں گی ،اگر ہماری فوج مل کر ایک ہو جائیں تو ہم سارے عرب پر قبضہ کرلیں گے ،،صرف مسلمان ہیں جو ہماری نبوت کو قبول نہیں کرتے اور ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں، اس کا علاج یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر مسلمانوں کو ختم کردیں اور پورے عرب پر قابض ہو کر دوسرے ملکوں پر چڑھائی کریں، اور اپنی نبوت کو دور دور تک پھیلا دیں۔
اس وقت سجاح پر کچھ اور ہی کیفیت طاری تھی، اس پر ابلیسیت کا غلبہ تھا، اس نے اپنے آپ میں خاص طور پر ابلیسی اوصاف پیدا کیے تھے یہ اوصاف اس پر ایسے غالب آئے کہ اس نے مسلیمہ کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور کہا کہ وہ ابھی اس کی بیوی بننے کو تیار ہے۔
مسلیمہ کے ساتھ چالیس آدمی آئے تھے وہ خیمے سے کچھ دور چاک و چوبند کھڑے تھے کہ نہ جانے مسلیمہ کا کوئی حکم کس وقت آجائے تقریباً اتنی ہی آدمی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح سجاح کے ساتھ آئے تھے وہ الگ تیار کھڑے تھے۔
دونوں طرف کے یہ مسلح آدمی یقینا یہ سوچ رہے ہونگے کہ خیمے کے اندر دو نبیوں میں جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان کا نتیجہ نہ جانے کیا ہوگا ،توقع یہ تھی کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں گے، کیونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔
دونوں طرف یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ خیمے کے اندر کوئی اور ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے، بغیر کسی اعلان کے اور بغیر کوئی رسم ادا کیے مسلیمہ اور سجاح میاں بیوی بن چکے تھے، اور خیمہ حجلہء عروسی بنا ہوا تھا ،سجاح ہوش وحواس گم کر بیٹھی تھی اور اس نے اپنی نسائیت اور نبوت مسلیمہ کے حوالے کر دی تھی۔
مورخ لکھتے ہیں کہ مسلیمہ اور سجاح تین دن اور تین راتیں خیمے سے باہر نہ نکلے، خیمے میں صرف کھانا اور شراب جاتی تھی، باہر کے لوگ پریشان ہوتے رہے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ آخر چوتھے روز وہ باہر نکلے، سجاح کے چہرے پر شرم و ندامت کے تاثرات آ گئے، یہ اس وقت آئے جب اس نے اپنے مسلح آدمیوں کو دیکھا ،وہ سر جھکائے ہوئے اپنے لشکر میں پہنچی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سجاح کے مشیر اور خاص پیروکاروں نے اس سے پوچھا کہ بات چیت کس نتیجے پر پہنچی ہے۔
میں نے مسلیمہ کی نبوت کو تسلیم کر لیا ہے ۔۔۔سجاح نے کہا ۔۔۔اس کی نبوت برحق ہے میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا ہے، اب نبوت میری ہو یا اس کی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
نکاح تو ہوگیا ۔۔۔سجاح سے پوچھا گیا ۔۔۔مہر کیا مقرر ہوا ؟
اوہ !،،،،،،سجاح نے کہا۔۔۔ یہ تو مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ مہر بھی مقرر کرنا تھا۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ جواب دے کر سجاح کی آنکھیں جھک گئیں ،جیسے وہ نادم اور شرمسار ہو، اس کا نبوت والا انداز بالکل ہی بدل گیا تھا ۔
ان مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ جب کوئی عورت کسی مرد کی زوجیت میں جاتی ہے تو وہ نکاح میں اسے قبول کرنے سے پہلے اپنا مہر مقرر کرواتی ہے ،اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ مسلیمہ کے پاس جائے اور مہر مقرر کروا کر آئے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر مسلیمہ نے اسے اپنی بیوی بنانا تھا تو اسے اپنے ساتھ لے جاتا، لیکن اسے نے اسے عصمت سے محروم کرکے اس کے لشکر میں بھیج دیا ،یہ معلوم نہیں کہ اس نے سجاح کو کیا کہہ کر اسے اس کے لشکر میں بھیجا تھا۔
اسکے مشیر سجاح کی اس حرکت پر پریشان سے ہوئے اور اسے بار بار یہی کہا کہ وہ مسلیمہ کے پاس جاکر مہر مقرر کروا لے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مسلیمہ سجاح کو اس کے لشکر میں بھیج کر خود بڑی تیزی سے وہاں سے کوچ کرگیا اور اپنے قلعہ میں جا پہنچا۔
تم سب کو چوکنا اور محتاط رہنا ہوگا۔۔۔ مسلیمہ نے قلعہ میں جاکر اپنے محافظوں اور مصاحبین سے کہا۔۔۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ سجاح کے ساتھ میں نے کیا سلوک کیا ہے، ہوسکتا ہے اس کی پیروکار اور مصاحبین یہ سن کر بھڑک اٹھیں کہ اس نے میرے ساتھ شادی کرلی ہے، اگر ان کا ردعمل یہ ہوا تو وہ ہم پر حملہ کر سکتے ہیں ،یہ سوچ لو کہ ادھر مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے اگر سجاح کے لشکر نے بھی ہم پر حملہ کردیا تو ہم پیس جائیں گے، قلعہ کے دروازے دن کے وقت بھی بند رکھو۔
یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا مسلیمہ کا اپنا مکان تھا جو قلعے کی طرح تھا، اس نے اندر سے دروازے بند کر لئے تھے، سجاح کو اپنے یہاں رکھنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اگلے روز سجاح مسلیمہ کے قلعہ نما گھر کے دروازے پر پہنچی دروازہ بند پا کر اس نے کہا کہ مسلیمہ کو اطلاع دی جائے کہ اس کی بیوی سجاح آئی ہے، مسلیمہ کو اطلاع پہنچی تو دوڑا گیا ،کیونکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ وہ اگلے ہی روز اس کے پاس پہنچ جائے، مسلیمہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ سجاح کے ساتھ اس کا محافظ دستہ بھی ہے۔
تاریخوں میں آیا ہے کہ مسلیمہ نے یہ نہ کہا کہ اسے اندر لے آؤ اور نہ وہ خود دروازے پر آیا ،وہ مکان کی چھت پر چلا گیا اور وہاں سے سجاح کو پکارا ۔
دروازہ کھلواؤ ۔۔۔سجاح نے کہا ۔۔۔میں اندر آنا چاہتی ہوں۔
اس وقت تمہارا اندر آنا ٹھیک نہیں ۔۔۔مسلیمہ نے کہا۔۔۔ یہ بتاؤ تم کیوں آئی ہو؟
اپنا مہر مقرر کروانے کے لئے۔۔۔ سجاح نے جواب دیا ۔۔۔نکاح اتنی عجلت میں ہوا ہے کہ مجھے مہر مقرر کروانے کا خیال ہی نہیں رہا۔
تو سن لو ۔۔۔۔مسلیمہ نے کہا۔۔۔ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خدا سے پانچ نمازیں فرض کروا کے لائے تھے ،اب میں خدا کا رسول ہوں میں تمہیں تمہارے پیروکاروں اور تمھارے لشکر کو وہ نماز صبح اور عشاء کی تمہارے مہر میں معاف کرتا ہوں، واپس جاکر منادی کرا دو کہ تم نے مہر میں دو نمازیں معاف کروائیں ہیں۔
سجاح واپس چل پڑی اس کے ساتھ محافظ دستے کے علاوہ اس کا مؤذن شیث بن ربیع بھی تھا ،تقریبا تمام مسلمان مؤرخوں نے لکھا ہے کہ سجاح کے یہ مصاحب کچھ شرمسار سے تھے، وہ سمجھ گئے کہ مسلیمہ نے ان کے نبی کے ساتھ بڑی ہی شرمناک سلوک کیا ہے ،وہ خود بھی شرمسار ہو رہے تھے ،سجاح کا ایک خاص مصاحب عطاء بن حاجب بھی تھا۔ ہماری نبی ایک عورت ہے، جسے ہم ساتھ لیے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔عطاء بن حاجب نے کہا ۔۔۔لیکن لوگوں کے نبی مرد ہوتے ہیں اور انہیں شرمسار نہیں ہونا پڑتا۔
تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسلیمہ نے علاقہ یمامہ کے محصولات سجاح کو ایک سال کے لئے دے دیے تھے، لیکن مسلمانوں نے انہیں محصولات وصول کرنے کی مہلت نہ دی، خالد بن ولید اپنے لشکر کے ساتھ پہنچ گئے، مسلیمہ کے ساتھ نکاح کرنے سے سجاح کی قدرومنزلت اپنے پیروکاروں میں بڑی تیزی سے ختم ہو گئی تھی، بڑے اچھے اور قابل پیروکار اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔
سجاح نے جب دیکھا کہ اس کے پاس لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہی تو وہ بھاگ اٹھی اور بنو تغلب میں جاپہنچی، ابن اثیر اور ابن خلدون نے لکھا ہے کہ سجاح بالکل ہی بجھ کے رہ گئی اور اس نے ایک خاموش اور گمنام زندگی کا آغاز کیا، نہ اس میں انداز دلربائی رہا، نہ وہ جاہ و جلال رہا، یہاں تک کہ امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا زمانہ آ گیا۔
اسی سال ایسا خوفناک قحط پڑا کہ لوگ بھوکوں مرنے لگے ،سجاح کا قبیلہ بنو تغلب فاقہ کشی سے گھبراکر بصرہ جا آباد ہوا، سجاح بھی ان کے ساتھ تھی، مسلمانوں کے سلوک اور اناج کی مساوی تقسیم سے متاثر ہوکر بنو تغلب کے تمام قبیلے نے اسلام قبول کرلیا، سجاح بھی مسلمان ہو گئی اور اس نے سچے دل سے اللہ کی عبادت شروع کردی، اس کے کردار میں جو ابلیسی اوصاف پیدا ہو گئے تھے وہ عبادت الہی سے دُھلنے لگے، حتیٰ کہ وہ بالکل ہی متقی اور عبادت گزار بن گئی ،تھوڑے ہی عرصے بعد وہ بیمار پڑی اور مرگی ،ان دنوں ایک صحابی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بصرہ کے حاکم تھے انہوں نے سجاح کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
سجاح پر تو اللہ نے اپنا خاص کرم کیا کہ وہ دینداری کی حالت میں مری اور اس کی عاقبت محفوظ ہوگئی، لیکن مسلیمہ کا انجام کچھ اور ہوا ،اس نے مسلمانوں کے خلاف بڑی خونریز لڑائیاں لڑی تھی، معمر ہونے کے باوجود وہ جوانوں کی طرح لڑا تھا ۔
آخری لڑائی میں جب اس نے دیکھا کہ خالد بن ولید کا لشکر اس کے گھر تک آ پہنچا ہے تو وہ خود ذرہ اور آہنی خود پہن کر گھوڑے پر سوار ہوا اور باہر نکلا۔
پہلے وہ باغ میں گیا جہاں لڑائی ہو رہی تھی پھر وہ باغ سے نکلا جونہی وہ آگے گیا ایک پرچھی اس کے سینے میں دل کے مقام پر اتر گئی۔
برچھی مارنے والا عرب کا مشہور برچھی باز وحشی تھا، اس کا نام ہی وحشی تھا اس کی برچھی بازی کا ایک کمال تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے۔
ایک رقاصہ کے سر پر ایک کڑا جو عورت اپنے بازو میں ڈالتی ہیں سیدھا کھڑا کر کے بالوں کے ساتھ باندھ دیا گیا اور رقاصہ ناچنے لگی اس کا جسم تھرک رہا تھا اور وہ بار بار گھومتی اور ادھر ادھر ہوتی تھی، وحشی ہاتھ میں برچھی لیے رقاصہ کے بارہ چودہ قدم دور اس کی حرکت کے ساتھ حرکت کرتا کڑے کا نشانہ لینے کی کوشش کر رہا تھا، کچھ دیر بعد اس نے برچھی کو ہاتھ میں تولا اور تاک کر رقاصہ کے سر پر برچھی پھینکی تھی، رقاصہ اس سے بے نیاز رقص کی اداؤں میں محو تھی، وحشی کی پھینکی ہوئی برچھی رقاصہ کے سر پر بندھے ہوئے کھڑے میں سے اس طرح گزر گئی کے رقاصہ کو احساس تک نہ ہوا۔
جنگ احد میں وحشی اہل قریش کے ساتھ تھا، رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اسی وحشی نے پیٹ میں برچھی مارکر شہید کیا تھا، اس کے بعد جب خالد بن ولید نے اسلام قبول کیا تو وحشی نے بھی اسلام قبول کرلیا اور اگلے معرکوں میں تاریخ میں نام پیدا کیا، یہ سعادت اسی کے نصیب میں لکھی تھی کہ مسلیمہ کذاب جیسے بڑے ہی طاقتور جھوٹے نبی کو جہنم واصل کیا۔
تاریخ میں یوں آیا ہے کہ مسلیمہ کو ہلاک کرنے والے دو مجاہد تھے، ایک تو وحشی تھا جس نے اسے برچھی ماری تو وہ گھوڑے سے گرا ،اس کے ساتھ ہی مدینہ کے ایک انصاری نے اس پر تلوار کا بھرپور وار کیا ،وحشی نے مسلیمہ کا سرتن سے کاٹا اور برچھی کی انی پر اڑس کر برچھی بلند کی۔
میں نے اُحد کا گناہ معاف کرا لیا ہے۔۔۔ وحشی مسلیمہ کا سر برچھی پر اٹھائے میدان جنگ میں دوڑتا اور اعلان کرتا پھر رہا تھا۔
بعد میں اس نے کئی بار کہا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کا افسوس اسے ہمیشہ پریشان کرتا رہا ،مسلیمہ کو قتل کرکے اسے احد کے افسوس اور پچھتاوے سے نجات ملی ہے۔
یہ تھا انجام دو جھوٹے نبیوں کا ،یہ ابلیس کا رقص تھا ،انسان جب اپنے کردار میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسے نتائج سے بے خبر کردیتا ہے، انہیں پکڑنے کے لئے اللہ آسمان سے فرشتے نہیں اتارا کرتا، یہ لوگ اپنے قدموں چل کر انجام کو پہنچ جایا کرتے ہیں ۔
کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہمیں مصر کے عبیدیوں سے مدد لینی پڑے گی ۔۔۔۔قلعہ شاہ در میں احمد بن عطاش حسن بن صباح سے کہہ رہا تھا۔۔۔ لیکن کسی طرح یہ یقین کرلینا بہت ہی ضروری ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے بھی یا نہیں۔
کیوں نہیں کریں گے ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا ۔۔۔اور کہا۔۔۔ وہ ہمارے ہی فرقے کے لوگ ہیں۔
کچھ شک والی بات ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ پہلے تو یہ جائزہ لینا ہے کہ وہ اسماعیلی ہیں یا نہیں، پتہ چلا ہے کہ ظاہری طور پر وہ اسماعیلی ہیں لیکن درپردہ کوئی اپنا ہی نظریہ رکھتے ہیں۔
اگر یہ جائزہ لینا ہے تو مجھے مصر جانا پڑے گا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور میں مصر چلا ہی جاؤں گا۔
ہاں حسن!،،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔میں تمہیں مصر بھیجوں گا، ہمارا پہلا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے، سلجوقیوں کا خاتمہ لازم ہے۔
محترم استاد!،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا،،،،،،میں عبیدیوں کو نہیں جانتا، ان کی جڑیں کہاں ہیں؟
احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو اپنے رنگ اور اپنے انداز سے تفصیلات سنائیں کہ عبیدیوں کی جڑیں کہاں ہیں اور اس فرقے نے کہاں سے جنم لیا تھا ، مستند مؤرخوں اور اس دور کے علماء دین کی تحریروں سے عبیدیوں کا پس منظر اور پیش منظر واضح طور پر سامنے آجاتا ہے، یہ بھی اسلام پر فرقہ پرستوں کی ایک یلغار تھی۔
داستان گو نے پہلے کہا ہے کہ اسلام نے خصوصا اہلسنت والجماعت نے جو تیز و تند طوفان برداشت کیے ہیں وہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں، ایک تو صہیونی اور صلیبی یلغار تھی جس نے اسلام کے تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا تھا ،آج کے دور میں یہی یلغار ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے۔
یہ تو بیرونی یلغار ہے، اہل اسلام کے اندر سے جو حملہ آور اٹھے ان کا ہدف اہلسنت ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے تھے لیکن ان کے عزائم اور سرگرمیاں نہ صرف غیر اسلامی یا اسلام کے منافی تھیں بلکہ اسلام کی بقا سلامتی اور فروغ کے لئے بے حد خطرناک تھیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*