🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبدالعزیز طوو والی بت طناز کو دیکھ کر محو دید ہو گئے تھے-
حقیقت یہ ہے کہ وہ نازنین تھی ہی بے حد حسین ۔
اس پر اعلی قسم کی پوشاک بہترین زیورات اور ان پر طرہ خوش نما اور چمک دار طوق پہنے تھی اور بھی خوبصورت معلوم ہو رہی تھی ۔
یہ نائلہ تھی رازرق کی بیگم اور اندلس کی ملکہ عربی اور عیسائی ہر دو مورخین نے اس کی بہت تعریف کی ہے ۔
خصوصا عیسائی تو اسے ارض اندلس کی حور لکھتے ہیں ۔
مسلمان بھی اندلس کی نازنین کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
عبدالعزیز اس کو اور وہ عبدالعزیز کو دیکھ رہی تھی کچھ وقفہ بعد نائلہ ناز و انداز سے بل کھاتی ہوئی بڑھی اور ان کے پاس آ کر بولی آپ کون ہیں؟ "
وہ عربی جانتی تھی اور نہایت فصاحت سے بول رہی تھی ۔
عبدالعزیز نے کہا ۔
میں ایک گمنام شخص ہوں
نائلہ ہنس پڑی اور بولی گمنام؟ یا اپنا نام ہی نہیں رکھا؟ "
عبدالعزیز :درست سمجھا آپ نے!
نائلہ :آپ عرب کے رہنے والے ہیں؟
عبدالعزیز :جی ہاں ۔
نائلہ :مسلمانوں کے والی یا امیر آپ کے کچھ رشتے دار ہوتے ہیں؟ "
عبدالعزیز :ہاں وہ میرے والد ہیں ۔
نائلہ :یہ پچھلا لشکر شاید آپ ہی لے کر آئے ہیں؟ "آپ یہاں کیا کرنے آئے تھے؟ "
عبدالعزیز :اگر آپ سنیں تو عرض کروں!!!
نائلہ :میں سن رہی ہوں آپ کہیں!
عبدالعزیز :عرصہ ہوا تھا ایک خواب دیکھا تھا ۔
نائلہ :چونک کر خواب؟ "
عبدالعزیز :ہاں!
نائلہ :کیا دیکھا تھا؟ "
عبدالعزیز :جو کچھ اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔
نائلہ :کیا یہ سر زمین آپ نے پہلے بھی دیکھی تھی؟ "
عبدالعزیز :بالکل بھی نہیں ۔
نائلہ :پھر خواب میں کیسے دیکھ لیا؟ '
عبدالعزیز :میں نہیں کہہ سکتا کیسے لیکن دیکھا ۔یہی کھنڈرات یہی بت اور اسی طرح بت کے پیچھے آپ کو کھڑے دیکھا!
نائلہ یہ سن کر حیرت زدہ ہو گئی اور بولی آپ نے کہا- "کہ آپ نے مجھے کھڑے دیکھا؟ "
عبدالعزیز :ہاں ۔
نائلہ :عجیب بات ہے یہ تو!
عبدالعزیز :ہاں نہایت عجیب جب میں نے اپنا خواب بیان کیا تو وہاں سیوطا کے گورنر کونٹ جولین اور اشبلایا کے راہب بھی موجود تھے ۔
نائلہ کو اور بھی زیادہ حیرت ہوئی اس نے کہا وہ دونوں وہاں کیوں گئے تھے؟ "
عبدالعزیز :شاہ رازرق نے کونٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا کی آبرو ریزی کی تھی وہ فریادی بن کر گئے تھے ۔
نائلہ نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا ٹھیک ہے! "یہ کہہ کر افسردہ سی ہو گئی اس افسردگی میں بھی کمال حسین معلوم ہو رہی تھی ۔
عبدالعزیز نے کہا ۔"
مجھے کونٹ نے بتایا تھا کہ وہ خوش نما طوق والی دوشیزہ حور وش نائلہ ہے جو اندلس کی ملکہ ہے ۔"
نائلہ کے چہرے سے غم و حسرت کے آثار ظاہر ہو گئے تھے ۔
وہ سر جھکائے خاموش کھڑی تھی غالبا اسے اپنا وہ زمانہ یاد آ گیا تھا جب کہ وہ اندلس کی ملکہ تھی اور اس کا ہر باشندہ اس کی عزت کرتا تھا مگر اس کے ہوس کار شوہر کی بدکاری نے اس کی جان لے لی اور ملکہ اندلس کو دارالسلطنت سے بھاگ کر مریڈا میں پناہ لینا پڑی ۔
عبدالعزیز نے دریافت کیا کیا آپ ہی کا نام نائلہ ہے؟ "
نائلہ :جی ہاں مجھ بد نصیب کا نام ہی نائلہ ہے ۔
عبدالعزیز :آپ بد نصیب نہیں خوش قسمت ہیں ایسی خوش نصیب کہ جس پر دنیا رشک کرتی ہے ۔
نائلہ :آہ میں جانتی ہوں ۔وہ اس قدر غم زدہ ہو گئی کہ فقرہ پورا نہ کر سکی ۔
عبدالعزیز نے اسے تسلی دتیے ہوئے کہا آپ افسردہ نہ ہوں آپ جو حکم دیں گی میں اس کی تعمیل کروں گا۔
نائلہ :آہ میں حکم دوں ایک قیدی کیا حکم دے سکتا ہے ۔
عبدالعزیز :مگر آپ تو قیدی نہیں ہیں!
نائلہ :میری قوم آپ کی غلام ہے ۔
عبدالعزیز :نہیں نہیں آپ کنیز نہیں ہیں بلکہ آزاد ہیں ایسا خیال کر کے اپنے دل کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔
نائلہ :مقدر کا لکھا پیش آتا ہے مجھے اس کا رنج ضرور ہے لیکن اس رنج سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
عبدالعزیز :آپ ذرا بھی غم نہ کریں بتائیں مجھے آپ کیا چاہتی ہیں ۔
نائلہ :آپ کا بے حد شکریہ میں نے سنا ہے کہ والی طلیطلہ جانے والے ہیں ۔
عبدالعزیز :جی ہاں ۔
نائلہ :آپ بھی چلے جائیں گے ۔
عبدالعزیز :بے شک مجھے ان کے ساتھ جانا پڑے گا ۔
نائلہ :کیا میں آپ لوگوں کے ساتھ جا سکتی ہوں؟ "
عبدالعزیز :بڑی خوشی سے ۔
نائلہ :بس تو یہ ہی عنایت کیجئے ۔
عبدالعزیز عنایت ؟؟؟؟یہ تو میری عین تمنا ہے!
نائلہ :اور میری بھی ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کے بعد اس نے جلدی سے اپنی زبان آب دار موتیوں جیسے دانتوں میں دبا گویا اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہے جسے وہ کہنا نہیں چاہتی تھی ۔
عبدالعزیز خوش ہو گئے انہوں نے کہا میں اپنی قسمت پر جتنا فخر کروں کم ہے ۔
نائلہ جس قدر حسیں تھی اسی قدرت نے اسے سیرت بھی اچھی عطا کی تھی
نائلہ: آپ اسے فخر و مباہات کیوں سمجھتے ہیں- "
عبدالعزیز :میں بالکل نا امید ہو گیا تھا ۔
نائلہ :کیوں؟
عبدالعزیز :اس لئے کہ جب اندلس پر لشکر بھیجا جانے لگا تو میں نے اپنے والد سے درخواست کی کہ وہ مجھے بھیج دیں مگر انہوں نے انکار کردیا اور بجائے اور میری بجائے میرے طارق کو بھیج دیا ۔دوبارہ وہ خود چلے آئے لیکن قدرت کو یہ منظور تھا کہ میں آپ کا دیدار کر سکوں چنانچہ ایسے انتظامات پیدا ہو گئے کہ مجھے آنا پڑا ۔
نائلہ :مگر کاش نہ آتے ۔
عبدالعزیز :کیوں؟
نائلہ :اس لئے کہ نہ آپ کو دیکھتی اور نہ ۔۔۔۔۔
عبدالعزیز :اور کیا؟
نائلہ :میرے دل میں یہ تمنا پیدا نہ ہوتی کہ میں آپ کے ساتھ چلوں ۔
عبدالعزیز :یہی بات میرے لیے فخر کی ہے ۔
نائلہ :مگر ۔۔۔۔
عبدالعزیز :مگر کیا؟
نائلہ :آپ کب تک میرے ساتھ رہیں گے؟ "
عبدالعزیز :میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں ۔
نائلہ :ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔؟
عبدالعزیز :جی ہاں ۔
نائلہ :سوچ سمجھ کر اقرار کرنا ۔
عبدالعزیز :میں نے سوچ کر ہی اقرار کیا ہے ۔
نائلہ :کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔خدا کرے کہ آپ اپنے وعدے پر قائم رہیں ۔
عبدالعزیز :میں مسلمان ہوں مسلمان اپنے وعدے سے نہیں پھرتا ۔
نائلہ :میں نے بھی یہی سنا ہے ۔
عبدالعزیز :مگر آپ بھی ہمیشہ میرے ساتھ رہنے کو تیار رہیں ۔
نائلہ :بڑے ناز کے ساتھ اگر میں تیار نہ ہوں تو ۔
عبدالعزیز :لیکن _____؟
نائلہ :لیکن کیا؟ "
عبدالعزیز :یہ خیال کر لیجئے کہ آپ ملکہ ہیں اور میں ایک وائسرائے کا بیٹا ہوں ۔
نائلہ :مگر آب میں ملکہ نہیں ہوں ۔
عبدالعزیز :آپ ملکہ ہیں اور تمام عیسائی اب بھی تمہارے سامنے سر خم کرتے ہیں ۔
نائلہ :خیر میں کچھ بھی ہوں آپ اپنا وعدہ یاد رکھیں ۔
عبدالعزیز :ضرور یاد رکھوں گا
عبدالعزیز :کیا آپ نے مجھے پہلے دیکھا تھا؟ "
نائلہ :ہاں مگر یہ نہیں بتاوں گی کہ کب اور کہاں؟ ؟
عبدالعزیز :اور آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں؟ "
نائلہ :بے شک ۔
عبدالعزیز :مگر میں واقف بھی نہیں تھا کہ یہاں بت ہے اتفاقیہ ہی اس طرف نکل آیا تھا ۔
عبدالعزیز :اچھا آب چلئے ۔
دونوں آگے پیچھے چل پڑے اور خادمائیں ان کے پیچھے چلیں ۔
دونوں استراحت افزا وادی کی سیر کرتے مریڈا کے قلعہ کے پاس پہنچ گئے ۔
نائلہ :سلام کر کے قلعہ کے اندر چلی گئی اور عبدالعزیز اسلامی لشکر کی طرف روانہ ہو گئے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔