فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 36═(اسمعیل کی بے نیازی)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسمعیل کے آ جانے سے مغیث الرومی اور تمام مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی اور خود اسمعیل بھی نہایت مسرور تھے ۔
مغیث الرومی انہیں اپنے ساتھ اسی محل میں لے گئے جس میں وہ خود ٹھہرے تھے ۔
وہاں پہنچ کر انہوں نے اسمعیل کی گرفتاری اور رہائی کے مفصل واقعات بیان کرنے کی استدعا کی اور انہوں نے اپنی گرفتاری اور رہائی پہاڑ کی چٹان کی چڑھائی قیمتی پتھر اور چاندی کی کانوں کے تمام حالات تفصیل سے بیان کر دئیے ۔
مغیث الرومی اور دوسرے مسلمان بیٹھے نہایت تعجب اور بڑے شوق سے سنتے رہے جب وہ سب کچھ بیان کر چکے تو مغیث الرومی نے کہا ۔
نہایت حیرت انگیز واقعات سنائے ہیں آپ نے کیا آپ آب بھی اس چٹان پر پہنچ سکتے ہیں جہاں چاندی اور پتھر کی کانیں دیکھیں تھی؟ "
اسمعیل: جی ہاں میرے خیال میں میں آب بھی وہاں پہچ سکتا ہوں!!!
مغیث الرومی مگر تم اسے بھول جاو اور کبھی وہاں جانے کا ارادہ نہ کرنا ۔
اسمعیل میں خود کبھی بھی وہاں نہیں جاوں گا ۔
مغیث الرومی دیکھو دولت انسان کو اس دنیا کی دلفریبیوں میں پھنسا کر اللہ سے دور اور عقبی سے غافل کر دیتی ہے ۔
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وجہ سے دولت لینے سے انکار کردیا تھا حالانکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو اللہ تعالی سونے چاندی کے پہاڑ بنا دیتا ہم مسلمان ہیں ہمیں انہیں کی پیروی کرنی چاہیے ۔
اسمعیل اچھا اب آپ لڑائیوں کے واقعات سنائیے!
مغیث الرومی نے شاہ رازرق کے ٹڈی دل لشکر کی لڑائی اور قرطبہ کی فتح کے تمام حالات نہایت تفصیل سے بتائے ۔
اسمعیل نے افسوس کرتے ہوئے کہا میرے لیے کس قدر افسوس کی بات ہے کہ میں پہاڑ پر چڑھا ٹکریں مارتا رہا اور آپ دشمنوں سے جہاد کرتے رہے کاش میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا اور اپنے دل کے حوصلے نکالتا- "
مغیث الرومی افسوس نہیں کرتے ہم اپنے وطن اور گھر سے جہاد کرنے کے لئے آئے تھے تم جہاں کہیں بھی رہے مجبوری کی وجہ سے رہے اور اس لئے ان شاءاللہ تمہیں ثواب ملے گا انہیں مجاہدین کے برابر ملے گا ۔
اس کے علاوہ ابھی بہت ملک باقی پڑا ہے خوب حوصلے نکالنا ۔
اسمعیل اور تدمیر کا کیا ہوا؟
مغیث الرومی وہ بچ کر نکل بھاگا ۔
اسمعیل ان شاءاللہ اسے میں ٹھکانے لگاوں گا!
مغیث الرومی ان شاءاللہ اب آپ اپنے لئے ایک کمرے کا انتخاب کر لیں اور ارام کریں ۔
اسمعیل جی بہتر ۔
اسمعیل اٹھ کر چلے گئے انہوں نے دیکھا کہ محل انتہائی شاندار تھا اور نہایت خوبصورت اور لمبے چوڑے کمرے تھے ایک کمرہ انہوں نے بھی منتخب کر لیا اور اس میں ٹھہر گئے ۔
انہیں کئی دن ہو گئے تھے اس کمرے میں ٹھہرے ہوئے لیکن انہوں نے کبھی بھی بلقیس کے کمرے کی طرف جانے کی خواہش نہ کی ۔
دراصل انہیں یہ خیال تھا کہ بلقیس جب تک پہاڑ پر تھی اسے حفاظت کے لیے اس کی ضرورت تھی مگر اب وہ اپنے گھر آ گئی تھی تو اسے اس کی حاجت نہیں رہی تھی ۔
انہوں نے یہ بھی خیال کیا کہ ممکن ہے وہ آس سے اس کے مکان پر ملنا پسند نہ کرے اس وجہ سے وہ وہاں گئے ہی نہیں ۔
حالانکہ بلقیس کی یاد ہر وقت ان کے دل میں چٹکیاں لیتی رہتی وہ اپنے دل سے اس کا خیال نکالنے کی کوشش کرتے تھے عجیب بات یہ تھی کہ جتنا وہ اس کے خیال سے بچنے کی کوشش کرتے اسی قدر اس کی یاد ستاتی رہتی ۔
چونکہ قرطبہ پر مسلمانوں کا عمل دخل ہو گیا تھا اس لئے آب وہاں ان کے رہنے کی ضرورت باقی نہ رہی تھی ۔
چنانچہ مغیث الرومی نے انہیں طلیطلہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور مسلمان تیاریاں کرنے لگ گئے ۔
اب تک تو اسمعیل کو یہ خیال تھا کہ وہ اسی شہر میں ٹھہرے ہوئے ہیں جس میں وہ فتنہ روزگار ہے جس کی یاد ان کے دل میں ہے مگر اب اس شہر سے وہ جانے والے تھے ۔
انہیں نا معلوم غم و اندیشہ نے گھیر لیا آب وہ چاہتے تھے کہ اس سے الوداعی ملاقات کر لیں لیکن ہمت نہ پڑی اور وہ بھی سفر کی تیاریاں کرنے لگے ۔
ایک روز وہ اپنے کمرے میں انہیں خیالات میں کھوئے ہوئے تھے کہ انہوں نے ہلکے قدموں کی چاپ سنی ۔
وہ سنبھی کر بیٹھ گئے اور انہوں نے دیکھا تو بلقیس نہایت شان بڑے انداز اور کمال دلربائی سے اس کی طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی ۔
انہیں ایسا معلوم ہوا جیسے چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ تاریکی کے پردے چاک کر کے اس کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے وہ اسے دیکھ کر مسحور سے ہو گئے ۔
اس نے قریب آ کر بڑے دلفریب انداز میں کہا بے مروت سنگ دل سلام! "
اسمعیل نے سلام کا جواب دے کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
وہ اس کے سامنے بیٹھ گئی اسمعیل نے کہا میں بے مروت سنگ دل ہوں؟ "
معلوم ہوتا تھا کہ حور و وش حسینہ اس سے ناراض تھی ۔
جی نہیں آپ کو کیوں ہونے لگے ۔
اسمعیل :مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں تم نے یہ الزام مجھ پر لگایا ہو ۔
بلقیس نے اس کی طرف ایسی نظروں سے جن میں محبت آمیز غصہ تھا ۔
بلقیس :جب تک میرے ساتھ تھے۔ تب تک تو ایسی باتیں نہ بناتے تھے ۔
اسمعیل :گویا میں باتیں بنا رہا ہوں؟
بلقیس :نہیں میں بنا رہی ہوں ۔
اسمعیل :آخر تم خفا کیوں ہو؟
بلقیس :اپنے دل سے پوچھو ۔
اسمعیل :اگر دل بولتا ہوتا تو ______؟-
بلقیس :تو کیا؟
اسمعیل :تو میں اس سے پوچھتا ۔
بلقیس :آپ کا دل پتھر کا تو نہیں؟
اسمعیل :اور تمہارا؟ "
بلقیس :میرا ____خیر چھوڑو بتاو تم بھی چلے جاو گے یا نہیں؟ "
اسمعیل :بھلا میں یہاں کیسے رہ سکتا ہوں؟ "
بلقیس :یہ تو میں پہلے ہی جانتی تھی ۔
اسمعیل :کیا جانتی تھی؟
بلقیس :یہی کہ آپ یہاں نہیں رہیں گے چلے جائیں گے ملے بغیر ۔
اسمعیل :میں نے کئی مرتبہ تمہارے مکان پر جا کر تم سے ملنا چاہا مگر ______
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بلقیس :مگر کیا فرصت نہیں ملی؟ -
اسمعیل :نہیں بلکہ ____
بلقیس :مکان کا پتہ نہ چلا؟ "
اسمعیل :اب تم کہنے تو دیتی نہیں ہو ۔
بلقیس :اچھا کہیے؟
اسمعیل :ہمت نہیں پڑی ۔
بلقیس :کیوں؟
اسمعیل :اس لئے کہ مجھے لگا شاید تم خوش اخلاقی سے پیش نہ آو یا تمہارے والد میرا آنا پسند نہ کریں ۔
بلقیس :آہ،اسمٰعیل ایسا کیسے ہو سکتا تھا ۔
آج پہلا دن تھا کہ بلقیس نے اس کا نام لیا تھا ۔اس نے اس سیم تن کو دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے ۔
بلقیس نے پھر کہنا شروع کیا آپ اس خیال میں رہے اور میں نے سمجھا بے مروتی میں نہیں آئے ۔
اسمعیل :اچھا اب تم خفا تو نہیں ہو؟ "
بلقیس :نہیں لیکن ______
اسمعیل :لیکن کیا؟
بلقیس :آپ یہاں سے نہ جائیں ۔
اسمعیل :یہ کیسے ممکن ہے؟
بلقیس :کیوں؟
اسمعیل :مغیث الرومی مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں ۔
بلقیس :اچھا تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو ۔
اسمعیل :مگر تمہارے والد کیسے اجازت دیں گے؟
بلقیس :میں انہیں راضی کر لوں گی ۔
اسمعیل :اچھا تو میں آج ہی ان سے اجازت لے لوں گا ۔
بلقیس :آج نہیں ابھی ۔
اسمعیل :اچھا تم بیٹھو میں اجازت لے کر آتا ہوں ۔
بلقیس :جائیے ۔
اسمعیل :چلے گئے اور بلقیس تنہا رہ گئی وہ بیٹھی کچھ سوچتی رہی تھوڑی دیر کے بعد اسمعیل آ گئے انہوں نے کہا مغیث الرومی نے اپنی طرف سے اجازت دے دی ہے مگر انہوں نے کہا ہے کہ آپ کے والد کا رضا مند ہونا ضروری ہے ۔
بلقیس :میں انہیں رضا مند کر لیا ہے ۔
اسمعیل :کیا وہ ہمارے ساتھ طلیطلہ جانے کے لئےرضا مند ہو گئے ہیں؟
بلقیس :وہ آپ کے بے حد مشکور ہیں اس لئے میری ذرا سی تحریک پر رضا مند ہو گئے تھے ۔
اسمعیل :جب تومیں فضول ہی تمہارے گھر آنے سے ہچکچاتا رہا ۔
بلقیس :انہوں نے خود کہا کہ اسمعیل بے مروت ہے اک مرتبہ بھی تمہیں پوچھنے نہیں آیا ۔
اسمعیل :واہ واہ میں بھی کس قدر سادہ لوح ہوں ۔
بلقیس :اچھا اب اجازت دیجئے مجھے بھی تیاری کرنی ہے ۔
اسمعیل :بہتر
بلقیس :چلی گئی اور وہ اپنی سادہ لوحی پر دیر تک پچھتاتا رہا ۔تیسرے دن مغیث الرومی دو سو مسلمانوں کو قرطبہ چھوڑ کر باقی لشکر کے ساتھ طلیطلہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔
امامن اور اس کی پری زاد بلقیس بھی ان کے ہمراہ تھی ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی